کراچی میں کوئی ایس ایچ او نشئیوں کو پکڑنے کیلیے تیار نہیں کراچی پولیس چیف
پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بھی لوگ جرائم کرتے ہیں، صنعتوں کے بند ہونے سے کرائم بڑھے گا، خادم حسین رند
کراچی پولیس چیف خادم حسین رن نے انکشاف کیا ہے کہ شہر قائد میں کوئی ایس ایچ او نشئیوں کو پکڑنے کیلیے تیار نہیں۔
ایڈیشنل آئی جی خادم حسین رند نے سائٹ ایسوسی ایشن میں تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی مقیم افغان کے خلاف آپریشن کے مثبت نتائج حاصل ہوئے، پہلے ہم ہر ہفتے پولیس اہلکاروں کے جنازے پڑھتے تھے، اب تک میں نے کسی ایک پولیس اہلکار کی میت کو بطور پولیس چیف کاندھا نہیں دیا ، جرائم پیشہ عناصر موبائل بھی چھینتے تھے گولی بھی مارتے تھے، ہم نے ڈاکوؤں کو ان کی ہی زبان میں جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی نفری 44ہزار ہے جن میں سے صرف 9212کی نفری تھانوں میں تعینات ہے، 25فیصد کی نفری کے ساتھ یہ شہر چلا رہے ہیں، 2800 نئے اہلکاروں کو بھی تھانوں میں تعینات کیے جائیں گے، ہم نے ایک اہلکار بھی شہر میں کہیں کسی سیکیورٹی ڈیوٹی پر کسی وی آئی پی کو نہیں دیا، پولیس کو وسائل کے سنجیدہ مسائل درپیش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2023 کا کرائم 2022 سے 4.19 فیصد کم ہے، آخری چار مہینوں نے پورے سال کی عزت رکھ لی ہے جب نئی ٹیم نے کام کیا، 2016 کے بعد مسلسل کرائم بڑھ رہا تھا، کورونا کے دنوں میں بھی کرائم بڑھا تھا، انڈسٹری کے بند ہونے سے سب سے بڑا اثر کرائم پر آئے گا، جو فیکٹری سے نکلے گا وہ مزدور وارداتیں ہی کرے گا ، انڈسٹریز کے بند ہونے کا رد عمل بہت خطرناک آنا ہے ، دعا گو ہیں کہ جلد ملک کے حالات بہتر ہوجائیں۔
کراچی پولیس چیف نے بتایا کہ ایس پیز کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ گداگروں کے حوالے سے پالیسی بنائیں، بھکاریوں کو کس قانون کے تحت پکڑا جائے؟ قانون ہی موجود نہیں، کوئی ایس ایچ او منشیات کے عادی کو پکڑنے کے لیے تیار نہیں، منشیات کے عادی افراد کو جیل بھی لینے کے لیے تیر نہیں، منشیات کے عادی افراد درد سر ہوتے ہیں، پہلے کہا جاتا تھا کہ 30سے 40فیصد منشیات کے عادی اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہیں، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بھی لوگ جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں، شکار پور میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ ڈنڈے لے کر روڈ پر آتے اور گاڑیاں لوٹنے کی کوشش کرتے تھے، جرائم میں اضافے میں بے روزگاری کا بہت بڑا کردار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ایس ایل پر حملے کے حوالے سے سیریس تھریٹ تھا، پی ایس ایل کے دوران سڑک بند کرنے پر لوگ ہمیں گالیاں اور بدعائیں دیتے ہیں، یہ ہم جانتے ہیں کہ سیکیورٹی اقدامات سے ہم خودکش حملے اور بم پھٹنے کی روک تھام کرتے ہیں، ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم گالیاں کھالیں گے لیکن لوگوں کو مرنے سے بچالیں گے۔
ایڈیشنل آئی جی خادم حسین رند نے سائٹ ایسوسی ایشن میں تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی مقیم افغان کے خلاف آپریشن کے مثبت نتائج حاصل ہوئے، پہلے ہم ہر ہفتے پولیس اہلکاروں کے جنازے پڑھتے تھے، اب تک میں نے کسی ایک پولیس اہلکار کی میت کو بطور پولیس چیف کاندھا نہیں دیا ، جرائم پیشہ عناصر موبائل بھی چھینتے تھے گولی بھی مارتے تھے، ہم نے ڈاکوؤں کو ان کی ہی زبان میں جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی نفری 44ہزار ہے جن میں سے صرف 9212کی نفری تھانوں میں تعینات ہے، 25فیصد کی نفری کے ساتھ یہ شہر چلا رہے ہیں، 2800 نئے اہلکاروں کو بھی تھانوں میں تعینات کیے جائیں گے، ہم نے ایک اہلکار بھی شہر میں کہیں کسی سیکیورٹی ڈیوٹی پر کسی وی آئی پی کو نہیں دیا، پولیس کو وسائل کے سنجیدہ مسائل درپیش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2023 کا کرائم 2022 سے 4.19 فیصد کم ہے، آخری چار مہینوں نے پورے سال کی عزت رکھ لی ہے جب نئی ٹیم نے کام کیا، 2016 کے بعد مسلسل کرائم بڑھ رہا تھا، کورونا کے دنوں میں بھی کرائم بڑھا تھا، انڈسٹری کے بند ہونے سے سب سے بڑا اثر کرائم پر آئے گا، جو فیکٹری سے نکلے گا وہ مزدور وارداتیں ہی کرے گا ، انڈسٹریز کے بند ہونے کا رد عمل بہت خطرناک آنا ہے ، دعا گو ہیں کہ جلد ملک کے حالات بہتر ہوجائیں۔
کراچی پولیس چیف نے بتایا کہ ایس پیز کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ گداگروں کے حوالے سے پالیسی بنائیں، بھکاریوں کو کس قانون کے تحت پکڑا جائے؟ قانون ہی موجود نہیں، کوئی ایس ایچ او منشیات کے عادی کو پکڑنے کے لیے تیار نہیں، منشیات کے عادی افراد کو جیل بھی لینے کے لیے تیر نہیں، منشیات کے عادی افراد درد سر ہوتے ہیں، پہلے کہا جاتا تھا کہ 30سے 40فیصد منشیات کے عادی اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہیں، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بھی لوگ جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں، شکار پور میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ ڈنڈے لے کر روڈ پر آتے اور گاڑیاں لوٹنے کی کوشش کرتے تھے، جرائم میں اضافے میں بے روزگاری کا بہت بڑا کردار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ایس ایل پر حملے کے حوالے سے سیریس تھریٹ تھا، پی ایس ایل کے دوران سڑک بند کرنے پر لوگ ہمیں گالیاں اور بدعائیں دیتے ہیں، یہ ہم جانتے ہیں کہ سیکیورٹی اقدامات سے ہم خودکش حملے اور بم پھٹنے کی روک تھام کرتے ہیں، ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم گالیاں کھالیں گے لیکن لوگوں کو مرنے سے بچالیں گے۔