اتا ترک جیسی اصلاحات کی ضرورت
مذہبی انتہا پسندی نے نا صرف پوری دنیا میں پاکستان کا چہرہ متاثر کیا ہے بلکہ معاشرے میں خلیج پیدا کردی ہے
بے گناہ عورت ہی کو معافی مانگنی پڑی۔ لاہور کے اچھرہ تھانے کی اے ایس پی شہر بانو بہادری کا ثبوت نہ دیتی تو صرف ایک عورت کی جان ہی خطرہ میں نہیں پڑتی بلکہ اس کا پورا خاندان تباہی کی غار میں گر جاتا۔ اچھرہ بازار جانے والی عورت نے جو قمیض پہنی ہوئی تھی تو اس پر عربی میں ایک لفظ '' حلوہ'' چھپا ہوا تھا۔ عربی میں اس لفظ کا مطلب ''محبت '' ہے۔
عربی نہ جاننے والے مذہبی انتہا پسندوں نے اس عورت کا گھیراؤ کیا، عورت پر توہین کا الزام لگایا۔ اچھرہ مارکیٹ میں بعض دکانداروں نے ان مشتعل افراد کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس عورت کی قمیض پر کوئی توہین آمیز لفظ نہیں ہے مگر ہجوم تشدد کا ہتھیار استعمال کرنے والا تھا کہ کسی نے پولیس کو اطلاع دیدی۔
متعلقہ تھانے کی پولیس وہاں پہنچ گئی ، تھوڑی دیر کے بعد اے ایس پی شہر بانو موقع پر پہنچی اور متاثرہ عورت کو ہجوم کے درمیان سے نکالا اور پولیس حفاظت میں تھانے لے آئی۔ تھانے میں ایک وڈیو ریکارڈ کی گئی جس میں اس عورت نے اپنے ناکردہ گناہ کی معافی طلب کی۔ یہ کپڑا مشرقِ وسطیٰ کے بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے ۔ مولانا طاہر اشرفی اور کچھ دیگر علماء نے تو ضرور اس واقعے کی مذمت کی مگر بڑی مذہبی جماعتوں کے رہنما پراسرار طور پر خاموش رہے۔
چند سال قبل سری لنکا کا ایک شہری پریانتھا کمارا جو سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان بنانے والی فیکٹری میں منیجر تھا۔وہ ایک فرض شناس اور پڑھا لکھا شخص تھا، خود وقت پر دفتر آتا تھا اور فیکٹری ورکرز کو قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرنے پر پابند کرتا تھا۔
چند فیکٹری ورکرز نظم و ضبط کی پابندی کرانے پر اس سے ناخوش تھے۔ ان لوگوں نے پریانتھا کمارا سے انتقام لینے کے لیے اس پر توہینِ کا الزام لگاکر اسے تشدد کرکے قتل کردیاتھا ۔ سری لنکن شہری کے قتل پر پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی۔ کھیلوں کی صنعت کی برآمدات کو خطرہ محسوس ہوا یوں سابقہ حکومت نے ملزمان کو گرفتار کر کے انھیں سزائیں دلوائیں، یوں پاکستان کی کھیلوں کی صنعت ایک بحران سے بچ گئی۔
مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں ساتھی طلبہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کا کیس تاحال لوگوں کو یاد ہے ۔ اس قتل کی پورے ملک میں مذمت ہوئی تھی۔ پولیس نے کئی درجن افراد کو جن میں مردان یونیورسٹی کے طالب علموں اور غیر تدریسی عملہ کے بعض اراکین شامل تھے 'جنھیں گرفتار کر کے دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا۔
مشال خان کے والد ایک بہادر انسان ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی مگر پولیس نے تفتیش کا روایتی انداز اپناتے ہوئے مقدمے کے چالان میں ایسی غلطیاں کیں جن کا فائدہ ملزمان کو پہنچا، کچھ ملزموں کو سزائیں ہوئیں، لیکن جرم کی نوعیت کے اعتبار سے کم تھیں، کئی ملزم رہا کردیے گئے ۔
رجعت پسند جماعتوں نے ان افراد کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ ملتان میں انسانی حقوق کی تنظیم HRCP کے کوآرڈینیٹر اور جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک کے سرکردہ کارکن راشد رحمن ایڈووکیٹ کو 2014میں محض اس لیے نامعلوم افراد نے کلاشنکوف سے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے ایک استاد کا کیس لڑ رہے تھے۔
چند ماہ قبل پنجاب کے ایک شہر جڑانوالہ میں ایک مشتعل ہجوم نے عیسائیوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کو حملہ کر کے تباہ کردیا تھا۔ کسی فرد نے اس ہجوم کو قرآنی اوراق کی مبینہ توہین کی افواہ پھیلا کر مشتعل کیا تھا، یہ افواہ بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ اب کراچی میں بھی دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کومنظم طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس طرح کے واقعات رونما ہونے لگے تھے۔ 1990 سے دستیاب اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں پیش آتے ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذہبی انتہا پسندی کو پھیلایا گیا اور نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا گیا۔ مذہبی انتہا پسندوں کو طاقت دینے میں مقتدر طبقے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے جمہوری نظام کو کمزور کیا گیا۔ اقلیتی فرقوں کے افراد، پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کے اراکین اس انتہا پسندی کا نشانہ بنے۔
مسلم لیگ ن بھی اس کا نشانہ بنی۔ 2018میں بعض عناصر نے انتخابی قوانین کی غلط تشریح کر کے مسلم لیگ حکومت کے خلاف مہم چلائی اور میاں نواز شریف پر مدرسہ جامعہ نعیمیہ میں ایک شخص نے جوتا پھینکا۔ مسلم لیگی رہنما احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا، ان کی جان بچ گئی۔
مذہبی انتہا پسندی نے نا صرف پوری دنیا میں پاکستان کا چہرہ متاثر کیا ہے بلکہ معاشرے میں خلیج پیدا کردی ہے اور گزشتہ دنوں پاکستان کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے ایک فیصلے پر ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ حقیقت میں اس مہم کا مقصد عدالتوں کو دباؤ میں لا کر انصاف کی فراہمی سے روکنا ہے۔
اب جب نئی حکومتیں اقتدار سنبھال رہی ہیں تو ضروری ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی پالیسی نا صرف بنائی جائے بلکہ اس پالیسی پر مکمل طور پر عملدرآمد بھی کیا جائے۔
اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ایک طرف مذہبی انتہا پسندی پھیلانے والے افراد کے خلاف سخت قانونی اقدامات ہونے چاہئیں اور دوسری طرف نوجوانوں کے ذہنوں کی تبدیلی کے لیے مدارس میں اصلاحات، جدید تعلیمی اداروں کے نصاب کی تنظیمِ نو، اسکولوں کی سطح سے یونیورسٹی کی سطح تک کے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے۔
ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا کو مذہبی انتہا پسندانہ مواد کی ترویج سے روکنے کے لیے قوانین کا نافذ وقت کی ضرورت ہے۔ تاریخ کے طالب علم کہتے ہیں کہ جدید ترقی کے معمار کمال اتا ترک نے جس طرح کی اصلاحات کی ہیں، ویسی اصلاحات کی پاکستان کو ضرورت ہے۔
عربی نہ جاننے والے مذہبی انتہا پسندوں نے اس عورت کا گھیراؤ کیا، عورت پر توہین کا الزام لگایا۔ اچھرہ مارکیٹ میں بعض دکانداروں نے ان مشتعل افراد کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس عورت کی قمیض پر کوئی توہین آمیز لفظ نہیں ہے مگر ہجوم تشدد کا ہتھیار استعمال کرنے والا تھا کہ کسی نے پولیس کو اطلاع دیدی۔
متعلقہ تھانے کی پولیس وہاں پہنچ گئی ، تھوڑی دیر کے بعد اے ایس پی شہر بانو موقع پر پہنچی اور متاثرہ عورت کو ہجوم کے درمیان سے نکالا اور پولیس حفاظت میں تھانے لے آئی۔ تھانے میں ایک وڈیو ریکارڈ کی گئی جس میں اس عورت نے اپنے ناکردہ گناہ کی معافی طلب کی۔ یہ کپڑا مشرقِ وسطیٰ کے بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے ۔ مولانا طاہر اشرفی اور کچھ دیگر علماء نے تو ضرور اس واقعے کی مذمت کی مگر بڑی مذہبی جماعتوں کے رہنما پراسرار طور پر خاموش رہے۔
چند سال قبل سری لنکا کا ایک شہری پریانتھا کمارا جو سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان بنانے والی فیکٹری میں منیجر تھا۔وہ ایک فرض شناس اور پڑھا لکھا شخص تھا، خود وقت پر دفتر آتا تھا اور فیکٹری ورکرز کو قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرنے پر پابند کرتا تھا۔
چند فیکٹری ورکرز نظم و ضبط کی پابندی کرانے پر اس سے ناخوش تھے۔ ان لوگوں نے پریانتھا کمارا سے انتقام لینے کے لیے اس پر توہینِ کا الزام لگاکر اسے تشدد کرکے قتل کردیاتھا ۔ سری لنکن شہری کے قتل پر پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی۔ کھیلوں کی صنعت کی برآمدات کو خطرہ محسوس ہوا یوں سابقہ حکومت نے ملزمان کو گرفتار کر کے انھیں سزائیں دلوائیں، یوں پاکستان کی کھیلوں کی صنعت ایک بحران سے بچ گئی۔
مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں ساتھی طلبہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کا کیس تاحال لوگوں کو یاد ہے ۔ اس قتل کی پورے ملک میں مذمت ہوئی تھی۔ پولیس نے کئی درجن افراد کو جن میں مردان یونیورسٹی کے طالب علموں اور غیر تدریسی عملہ کے بعض اراکین شامل تھے 'جنھیں گرفتار کر کے دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا۔
مشال خان کے والد ایک بہادر انسان ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی مگر پولیس نے تفتیش کا روایتی انداز اپناتے ہوئے مقدمے کے چالان میں ایسی غلطیاں کیں جن کا فائدہ ملزمان کو پہنچا، کچھ ملزموں کو سزائیں ہوئیں، لیکن جرم کی نوعیت کے اعتبار سے کم تھیں، کئی ملزم رہا کردیے گئے ۔
رجعت پسند جماعتوں نے ان افراد کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ ملتان میں انسانی حقوق کی تنظیم HRCP کے کوآرڈینیٹر اور جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک کے سرکردہ کارکن راشد رحمن ایڈووکیٹ کو 2014میں محض اس لیے نامعلوم افراد نے کلاشنکوف سے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے ایک استاد کا کیس لڑ رہے تھے۔
چند ماہ قبل پنجاب کے ایک شہر جڑانوالہ میں ایک مشتعل ہجوم نے عیسائیوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کو حملہ کر کے تباہ کردیا تھا۔ کسی فرد نے اس ہجوم کو قرآنی اوراق کی مبینہ توہین کی افواہ پھیلا کر مشتعل کیا تھا، یہ افواہ بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ اب کراچی میں بھی دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کومنظم طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس طرح کے واقعات رونما ہونے لگے تھے۔ 1990 سے دستیاب اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں پیش آتے ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذہبی انتہا پسندی کو پھیلایا گیا اور نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا گیا۔ مذہبی انتہا پسندوں کو طاقت دینے میں مقتدر طبقے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے جمہوری نظام کو کمزور کیا گیا۔ اقلیتی فرقوں کے افراد، پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کے اراکین اس انتہا پسندی کا نشانہ بنے۔
مسلم لیگ ن بھی اس کا نشانہ بنی۔ 2018میں بعض عناصر نے انتخابی قوانین کی غلط تشریح کر کے مسلم لیگ حکومت کے خلاف مہم چلائی اور میاں نواز شریف پر مدرسہ جامعہ نعیمیہ میں ایک شخص نے جوتا پھینکا۔ مسلم لیگی رہنما احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا، ان کی جان بچ گئی۔
مذہبی انتہا پسندی نے نا صرف پوری دنیا میں پاکستان کا چہرہ متاثر کیا ہے بلکہ معاشرے میں خلیج پیدا کردی ہے اور گزشتہ دنوں پاکستان کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے ایک فیصلے پر ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ حقیقت میں اس مہم کا مقصد عدالتوں کو دباؤ میں لا کر انصاف کی فراہمی سے روکنا ہے۔
اب جب نئی حکومتیں اقتدار سنبھال رہی ہیں تو ضروری ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی پالیسی نا صرف بنائی جائے بلکہ اس پالیسی پر مکمل طور پر عملدرآمد بھی کیا جائے۔
اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ایک طرف مذہبی انتہا پسندی پھیلانے والے افراد کے خلاف سخت قانونی اقدامات ہونے چاہئیں اور دوسری طرف نوجوانوں کے ذہنوں کی تبدیلی کے لیے مدارس میں اصلاحات، جدید تعلیمی اداروں کے نصاب کی تنظیمِ نو، اسکولوں کی سطح سے یونیورسٹی کی سطح تک کے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے۔
ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا کو مذہبی انتہا پسندانہ مواد کی ترویج سے روکنے کے لیے قوانین کا نافذ وقت کی ضرورت ہے۔ تاریخ کے طالب علم کہتے ہیں کہ جدید ترقی کے معمار کمال اتا ترک نے جس طرح کی اصلاحات کی ہیں، ویسی اصلاحات کی پاکستان کو ضرورت ہے۔