’’ تیر‘‘ کے سہارے پر کھڑا ’’ شیر ‘‘
سوشل میڈیا کی یلغار اور عمران خان نیازی کے بیانیے نے اس بار نظام کو مزید ننگا کرکے رکھ دیا ہے
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے صاحبان اقتدار اور صاحبان اختیار دونوں مل کر کبھی بنیادی جمہوریت، کبھی اسلامی جمہوریت؟ کبھی عوامی جمہوریت، کبھی شورائی جمہوریت، کبھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی، کبھی ہائبرڈ ڈیموکریسی اور کھبی حقیقی جمہوریت کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔
آٹھ فروری کو ہونے والے تاریخ کے بدترین دھاندلی زدہ اور غیر منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی جمہوریت کو کیا نام دیا جائے گا مجھے پتہ نہیں مگر اس کو جمہوریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ یہ کچھ بھی ہو جمہوریت بالکل نہیں۔ یہ سیدھا سیدھا سلیکشن ہے اور اس کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت سلیکٹڈ ہے۔ افسوس جن کو تبدیلی سرکار کی سلیکٹڈ حکومت بری لگ رہی تھی آج وہ اسی سیڑھی پر چڑھ کر سلیکٹ ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔
یہ 2018 کا ایکشن ری پلے ہے مگر سوشل میڈیا کی یلغار اور عمران خان نیازی کے بیانیے نے اس بار نظام کو مزید ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن، عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں پرایوان ہی نہیں میدان میں بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ہر جماعت اور ہر دوسرا امیدوار دھاندلی کے ناقابل تردید شواہد و ثبوت فارم 45کی شکل میں لیے پھر رہا ہے مگر فارم 47 کی موجودگی میں ان کے پاس موجود فارم 45 پر پکوڑے ہی کھائے جاسکتے ہیں کیونکہ جب ان کے فیصلے ہوں گے تو الیکشن کا اگلا ڈرامہ سر پر کھڑا ہوچکا ہوگا۔
کوئی کچھ بھی کہے، عوامی اور خواصی بد نما مینڈیٹ کے مطابق تحریک انصاف اکثریتی پارٹی تھی اور زرداری مین گیم پلانر دونوں کو مل کر حکومت بنانے دیتے اور تماشہ دیکھتے مگر جن کو خود تماشہ بننے کی عادت پڑجائے، وہ تماشبین کیسے بن سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے جو مشورہ نواز شریف کو دیا تھا کہ آئیں ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھ جائیں، مولانا کی بات مان کر عزت اور مسلم لیگ دونوں بچ جاتے مگر چاہتے ہوئے نواز شریف یہ نہیں کر سکے۔
مسلم لیگ کی توقعات ''پاکستان کو نواز دو'' کے برعکس ''پاکستان کو شہباز دیا گیا''۔ وہ نواز شریف جسے تین بار اور دو تہائی اکثریت کے ہوتے ہوئے برداشت نہیں کیا گیا، انھیںاب کیسے برداشت کیا جاسکتا تھا، اس لیے شہباز پر گزارہ کرنا پڑیگا۔ سات جماعتوں کو ہانک ہونک کر حکومتی بینچوں پر بٹھایا گیا اور انھی جماعتوں کے ووٹ دلوا کر اور ملک کو وزیر اعظم بصورت شہباز دیا گیا۔ میں حیران ہوں کہ جو شیر، شہباز کی 16 مہینوں کی''کارکردگی'' کے نیچے دب گیا تھا، اب ''تیر'' کے سہارے کھڑے شیر کا اس حکومت کی مدت کے خاتمے تک کیا حشر ہوگا۔
حکومت نے زیادہ دیر چلنا نہیں، تیر کے سہارے چلنا آسان نہیں ہوگا۔ پی ڈی ایم دور میں پاکستان کی حکمرانی کا جو پھندا زرداری صاحب نے شہباز شریف کے گلے میں ڈالا تھا اس نے شیر کو حالت نزع میں پہنچا دیا، مگراب یہ پھندا پہلے سے زیادہ تنگ، اذیت ناک اور ناقابل برداشت ہوگاجو شیر کی جان نکال دے گا۔ مگر جس طرح زرداری پہلے سب پر بھاری تھے اس بار وہ مزید بھاری ثابت ہوں گے۔ ہم گزشتہ دو سال سے یہی بات دہرا رہے ہیں کہ یہ پوری بساط ہی پیپلز پارٹی کے لیے بچھائی گئی ہے، مسلم لیگ کے حصے میں صرف رسوائی ہی آئے گی مگر اس بار رسوائی اور اس کی سیاسی قیمت پہلے سے بہت زیادہ ہوگی۔
آصف زرداری نے یہ کہہ کر پتہ پھینکا کہ '' پیپلزپارٹی والے ووٹ دیں گے مگر حکومت کا حصہ نہیں بنے گے''" اس کے بدلے صرف پانچ سال کے لیے صدارت، سینیٹ چیئرمین، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، بلوچستان کی وزارت اعلیٰ، پنجاب اورخیبر پختونخوا کے گورنرز اور اپنے من پسند افراد کو چند منافع بخش اداروں کے سربراہی پر گزارا کریں گے، حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔
ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے مسلم لیگ کی قیادت کے عقل پر کہ وزارت عظمٰی کے پھندے کے بدلے اپنے سیاسی حریف کو اس طرح نوازا گیا۔ ارے بھائی آپ لوگوں نے تو پاکستان کو نوازنا تھا، آپ نے تو پیپلزپارٹی کو نواز دیا۔ اوپر سے زرداری صاحب کے مدمقابل صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، حالانکہ اس وقت بلوچستان میں وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہے، اس بات کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ چھاپہ ان کو مقابلے سے دستبرداری کے لیے مارا گیا یا پھر یہ ایوان میں کی گئی ان کی تقریرکے آفٹر شاکس ہوں۔ یا بقول بلاول کہ بلاوجہ صدارتی الیکشن کو متنازعہ بنایا جارہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مولانا کو اندازہ تھا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، وہ بالکل پھنس چکے تھے مگر اب کی بار وہ پرانا حساب بھی پورا کریں گے۔ انھوں نے وزیراعظم کے چناؤ میں حصہ نہ لے کر اپنی سمت کا تعین کردیا ہے۔ مختصر وقفے کے بعد مولانا ایک بار پھر پوری سیاست کا محور بن چکے ہیں۔ کبھی پی ٹی آئی، کبھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے وفود آرہے ہیں۔ کبھی شہباز شریف تو کبھی نواز شریف ان کے در کے چکر لگا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے پاس اپوزیشن والے اگر ووٹ مانگنے آرہے ہیں تو ان کے نمبر اتنے کم ہیں کہ مولانا کے ساتھ دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ حکومت والے آرہے ہیں تو ان کے نمبر پورے بھی ہیں، مولانا ساتھ دیتے یا نہ دیتے، حکومت سازی کے عمل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر آخر کیوں اپوزیشن اور حکومتی ذمے داران سب مولانا کے در پر سجدہ ریز ہیں؟
یہ بات مولانا کے دشمن بھی مانتے ہیں کہ مولانا جب ساتھ دیتے ہیں تو ڈٹ کر دیتے ہیں، اس لیے اپوزیشن کی خواہش ہے کہ اگر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنی ہیں تو عوام صرف مولانا کی آواز ہی پر نکلیں گے اور اسی خوف کی وجہ سے حکومتی اراکین بھی پریشان ہیں کہ اسمبلی کے اندر تحریک انصاف اور سڑکوں پر مولانا کا سامنا ہو تو ایسے حالات میں خاک حکومت کریں گے۔
اس لیے ہر ایک کی خواہش ہے کہ مولانا ان کے ساتھ ہوں تو خود کو مضبوط اور محفوظ سمجھیں گے۔ مولانا کا اعلان جنگ ان قوتوں کے خلاف ہے جو عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارنے کو اپنا حق سمجھ کر بیٹھے ہیں۔ مولانا کا یہ سیاسی روپ بہت سی قوتوں اور بہت سے چہروں کے لیے حیران کن ہوسکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی کئی بار انھیں انتخابی عمل کے حوالے سے شکوے شکایات رہی ہیں لیکن اس کے باوجود نظام کے اندر رہ کر بہتری کے لیے کوشاں رہنے کے قائل رہے مگر ہر بار انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ذمے دار اور وقت کے لاڈلے کو آلہ کار قرار دیا۔
2018کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے نتیجے میں وقت کے لاڈلے کے لیے ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور دیگر چھوٹی موٹی جماعتوں کو ہانک کر حکومتی بینچوں پر بٹھایا گیا اور ان کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک پر کشمکش کا شکار تھیں صرف مولانا فضل الرحمان میدان عمل میں آئے اور دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف بھرپور تحریک چلائی، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو مجبوراً مولانا کا ہمنوا بننا پڑا۔
مولانا کا بیانیہ اتنا مقبول ہوا کہ صرف دینی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی مولانا کی مقبولیت کا گراف بڑھنے لگا، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے سخت گیر کارکن بھی مولانا کی سیاست کے گرویدہ نظر آنے لگے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جے یو آئی سے بڑی بڑی جماعتیں موجود تھیں مگر کسی کے پاس وہ اسٹریٹ پاور نہیں تھی جو مولانا کے پاس تھی۔ مولانا کی ایک کال پر عوام کا سمندرامڈ آتا ہے۔ جب عوامی سطح پر اتنی مقبولیت ہو اور انتخابی نتائج اس سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو پھر دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی سمجھی جائے گی۔
مولانا کے تحفظات درست ہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ان کا عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ اسی لیے انھوں نے ایوان کے بجائے میدان کا راستہ چنا ہے۔ مولانا کا لب و لہجہ بتا رہا ہے کہ اس بار مولانا جو کرینگے وہ صرف حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی مشکل میں ڈالے گا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول مولانا کے پاس جو دلیل کی طاقت ہے اس کا کوئی توڑ نہیں، مولانا صاحب اکیلے بھی ہوں تو وہ باقی سب پر حاوی ہوتے ہیں انھوں نے ثابت کر دیا کہ آج کم سیاسی پارلیمانی طاقت کے ساتھ بھی لوگ ان کے محتاج ہیں۔ بہرحال لگتا ہے کہ اب مولانا جو کرنے جارہے ہیں وہ پہلے سے مختلف نہیں بہت مختلف اور پریشان کن ہوگا۔
آٹھ فروری کو ہونے والے تاریخ کے بدترین دھاندلی زدہ اور غیر منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی جمہوریت کو کیا نام دیا جائے گا مجھے پتہ نہیں مگر اس کو جمہوریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ یہ کچھ بھی ہو جمہوریت بالکل نہیں۔ یہ سیدھا سیدھا سلیکشن ہے اور اس کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت سلیکٹڈ ہے۔ افسوس جن کو تبدیلی سرکار کی سلیکٹڈ حکومت بری لگ رہی تھی آج وہ اسی سیڑھی پر چڑھ کر سلیکٹ ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔
یہ 2018 کا ایکشن ری پلے ہے مگر سوشل میڈیا کی یلغار اور عمران خان نیازی کے بیانیے نے اس بار نظام کو مزید ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن، عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں پرایوان ہی نہیں میدان میں بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ہر جماعت اور ہر دوسرا امیدوار دھاندلی کے ناقابل تردید شواہد و ثبوت فارم 45کی شکل میں لیے پھر رہا ہے مگر فارم 47 کی موجودگی میں ان کے پاس موجود فارم 45 پر پکوڑے ہی کھائے جاسکتے ہیں کیونکہ جب ان کے فیصلے ہوں گے تو الیکشن کا اگلا ڈرامہ سر پر کھڑا ہوچکا ہوگا۔
کوئی کچھ بھی کہے، عوامی اور خواصی بد نما مینڈیٹ کے مطابق تحریک انصاف اکثریتی پارٹی تھی اور زرداری مین گیم پلانر دونوں کو مل کر حکومت بنانے دیتے اور تماشہ دیکھتے مگر جن کو خود تماشہ بننے کی عادت پڑجائے، وہ تماشبین کیسے بن سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے جو مشورہ نواز شریف کو دیا تھا کہ آئیں ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھ جائیں، مولانا کی بات مان کر عزت اور مسلم لیگ دونوں بچ جاتے مگر چاہتے ہوئے نواز شریف یہ نہیں کر سکے۔
مسلم لیگ کی توقعات ''پاکستان کو نواز دو'' کے برعکس ''پاکستان کو شہباز دیا گیا''۔ وہ نواز شریف جسے تین بار اور دو تہائی اکثریت کے ہوتے ہوئے برداشت نہیں کیا گیا، انھیںاب کیسے برداشت کیا جاسکتا تھا، اس لیے شہباز پر گزارہ کرنا پڑیگا۔ سات جماعتوں کو ہانک ہونک کر حکومتی بینچوں پر بٹھایا گیا اور انھی جماعتوں کے ووٹ دلوا کر اور ملک کو وزیر اعظم بصورت شہباز دیا گیا۔ میں حیران ہوں کہ جو شیر، شہباز کی 16 مہینوں کی''کارکردگی'' کے نیچے دب گیا تھا، اب ''تیر'' کے سہارے کھڑے شیر کا اس حکومت کی مدت کے خاتمے تک کیا حشر ہوگا۔
حکومت نے زیادہ دیر چلنا نہیں، تیر کے سہارے چلنا آسان نہیں ہوگا۔ پی ڈی ایم دور میں پاکستان کی حکمرانی کا جو پھندا زرداری صاحب نے شہباز شریف کے گلے میں ڈالا تھا اس نے شیر کو حالت نزع میں پہنچا دیا، مگراب یہ پھندا پہلے سے زیادہ تنگ، اذیت ناک اور ناقابل برداشت ہوگاجو شیر کی جان نکال دے گا۔ مگر جس طرح زرداری پہلے سب پر بھاری تھے اس بار وہ مزید بھاری ثابت ہوں گے۔ ہم گزشتہ دو سال سے یہی بات دہرا رہے ہیں کہ یہ پوری بساط ہی پیپلز پارٹی کے لیے بچھائی گئی ہے، مسلم لیگ کے حصے میں صرف رسوائی ہی آئے گی مگر اس بار رسوائی اور اس کی سیاسی قیمت پہلے سے بہت زیادہ ہوگی۔
آصف زرداری نے یہ کہہ کر پتہ پھینکا کہ '' پیپلزپارٹی والے ووٹ دیں گے مگر حکومت کا حصہ نہیں بنے گے''" اس کے بدلے صرف پانچ سال کے لیے صدارت، سینیٹ چیئرمین، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، بلوچستان کی وزارت اعلیٰ، پنجاب اورخیبر پختونخوا کے گورنرز اور اپنے من پسند افراد کو چند منافع بخش اداروں کے سربراہی پر گزارا کریں گے، حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔
ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے مسلم لیگ کی قیادت کے عقل پر کہ وزارت عظمٰی کے پھندے کے بدلے اپنے سیاسی حریف کو اس طرح نوازا گیا۔ ارے بھائی آپ لوگوں نے تو پاکستان کو نوازنا تھا، آپ نے تو پیپلزپارٹی کو نواز دیا۔ اوپر سے زرداری صاحب کے مدمقابل صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، حالانکہ اس وقت بلوچستان میں وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہے، اس بات کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ چھاپہ ان کو مقابلے سے دستبرداری کے لیے مارا گیا یا پھر یہ ایوان میں کی گئی ان کی تقریرکے آفٹر شاکس ہوں۔ یا بقول بلاول کہ بلاوجہ صدارتی الیکشن کو متنازعہ بنایا جارہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مولانا کو اندازہ تھا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، وہ بالکل پھنس چکے تھے مگر اب کی بار وہ پرانا حساب بھی پورا کریں گے۔ انھوں نے وزیراعظم کے چناؤ میں حصہ نہ لے کر اپنی سمت کا تعین کردیا ہے۔ مختصر وقفے کے بعد مولانا ایک بار پھر پوری سیاست کا محور بن چکے ہیں۔ کبھی پی ٹی آئی، کبھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے وفود آرہے ہیں۔ کبھی شہباز شریف تو کبھی نواز شریف ان کے در کے چکر لگا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے پاس اپوزیشن والے اگر ووٹ مانگنے آرہے ہیں تو ان کے نمبر اتنے کم ہیں کہ مولانا کے ساتھ دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ حکومت والے آرہے ہیں تو ان کے نمبر پورے بھی ہیں، مولانا ساتھ دیتے یا نہ دیتے، حکومت سازی کے عمل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر آخر کیوں اپوزیشن اور حکومتی ذمے داران سب مولانا کے در پر سجدہ ریز ہیں؟
یہ بات مولانا کے دشمن بھی مانتے ہیں کہ مولانا جب ساتھ دیتے ہیں تو ڈٹ کر دیتے ہیں، اس لیے اپوزیشن کی خواہش ہے کہ اگر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنی ہیں تو عوام صرف مولانا کی آواز ہی پر نکلیں گے اور اسی خوف کی وجہ سے حکومتی اراکین بھی پریشان ہیں کہ اسمبلی کے اندر تحریک انصاف اور سڑکوں پر مولانا کا سامنا ہو تو ایسے حالات میں خاک حکومت کریں گے۔
اس لیے ہر ایک کی خواہش ہے کہ مولانا ان کے ساتھ ہوں تو خود کو مضبوط اور محفوظ سمجھیں گے۔ مولانا کا اعلان جنگ ان قوتوں کے خلاف ہے جو عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارنے کو اپنا حق سمجھ کر بیٹھے ہیں۔ مولانا کا یہ سیاسی روپ بہت سی قوتوں اور بہت سے چہروں کے لیے حیران کن ہوسکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی کئی بار انھیں انتخابی عمل کے حوالے سے شکوے شکایات رہی ہیں لیکن اس کے باوجود نظام کے اندر رہ کر بہتری کے لیے کوشاں رہنے کے قائل رہے مگر ہر بار انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ذمے دار اور وقت کے لاڈلے کو آلہ کار قرار دیا۔
2018کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے نتیجے میں وقت کے لاڈلے کے لیے ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور دیگر چھوٹی موٹی جماعتوں کو ہانک کر حکومتی بینچوں پر بٹھایا گیا اور ان کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک پر کشمکش کا شکار تھیں صرف مولانا فضل الرحمان میدان عمل میں آئے اور دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف بھرپور تحریک چلائی، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو مجبوراً مولانا کا ہمنوا بننا پڑا۔
مولانا کا بیانیہ اتنا مقبول ہوا کہ صرف دینی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی مولانا کی مقبولیت کا گراف بڑھنے لگا، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے سخت گیر کارکن بھی مولانا کی سیاست کے گرویدہ نظر آنے لگے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جے یو آئی سے بڑی بڑی جماعتیں موجود تھیں مگر کسی کے پاس وہ اسٹریٹ پاور نہیں تھی جو مولانا کے پاس تھی۔ مولانا کی ایک کال پر عوام کا سمندرامڈ آتا ہے۔ جب عوامی سطح پر اتنی مقبولیت ہو اور انتخابی نتائج اس سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو پھر دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی سمجھی جائے گی۔
مولانا کے تحفظات درست ہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ان کا عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ اسی لیے انھوں نے ایوان کے بجائے میدان کا راستہ چنا ہے۔ مولانا کا لب و لہجہ بتا رہا ہے کہ اس بار مولانا جو کرینگے وہ صرف حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی مشکل میں ڈالے گا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول مولانا کے پاس جو دلیل کی طاقت ہے اس کا کوئی توڑ نہیں، مولانا صاحب اکیلے بھی ہوں تو وہ باقی سب پر حاوی ہوتے ہیں انھوں نے ثابت کر دیا کہ آج کم سیاسی پارلیمانی طاقت کے ساتھ بھی لوگ ان کے محتاج ہیں۔ بہرحال لگتا ہے کہ اب مولانا جو کرنے جارہے ہیں وہ پہلے سے مختلف نہیں بہت مختلف اور پریشان کن ہوگا۔