سندھ ہائیکورٹ صنعتوں کیلیے گیس کی قیمت بڑھانے کے نگراں حکومت کے نوٹی فکیشنز معطل
سندھ ہائی کورٹ نے نگراں حکومت کے 8 نومبر اور 14 دسمبر کے نوٹی فکیشنز پر حکم امتناع دیتے ہوئے دلائل طلب کرلیے
سندھ ہائی کورٹ نے صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے پر نگراں وفاقی حکومت کے 8 نومبر اور 14 دسمبر کے نوٹی فکیشنز معطل کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کردیا۔
ایکسپریس کے مطابق ہائی کورٹ میں درآمد اور برآمد کرنے والی 400 سے زائد کمپنیوں کی نگراں حکومت کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف دیا کہ قانون کے مطابق گیس جس صوبے میں پیدا ہوگی سب سے پہلے اسی صوبے کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا، ملک میں سب سے زیادہ گیس سندھ میں پیدا ہوتی ہے، گیس کی قیمتوں میں اضافہ نگران وفاقی حکومت کا اختیار ہی نہیں تھا، نگران حکومت روز مرہ کے معاملات چلاسکتی تھی تاہم بڑے پالیسی معاملات میں فیصلہ نہیں لے سکتی تھی۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے موقف دیا کہ نگران وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر ریونیو بڑھانے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔
جسٹس محمود اے خان نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ کہاں ہے؟ جو کاپی عدالت میں پیش کی گئی وہ معاہدہ نہیں پریس ریلیز ہے، آئی ایم ایف کی پریس ریلیز کے مطابق شرط صرف ریونیو بڑھانے کی تھی، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکس بڑھانے کی تجویز نگراں حکومت کی اپنی تھی۔
اوگرا کے وکیل نے موقف دیا کہ درخواست گزار گیس کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلوں میں موجود تھے، آدھے درخواست گزار حکومت میں شامل تھے اور صورتحال کو جانتے ہیں، عدالت کا پالیسی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ یہ تو پرانی باتیں ہیں عدالت قانون دیکھے گی۔ بعدازاں عدالت نے صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے پر حکم امتناع جاری کردیا۔ عدالت نے صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق نگران حکومت کا 8 نومبر اور 14 دسمبر 2023ء کا نوٹی فکیشن معطل کردیا۔
عدالت نے کمپنیوں کو اضافی رقم ناظر سندھ ہائی کورٹ کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی ناظرکے بجائے رقم حکومت کو ادا کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، اوگرا، ایس ایس جی سی اور دیگر سے 14 مارچ کو تحریری دلائل دینے کا حکم دیا ہے۔
ایکسپریس کے مطابق ہائی کورٹ میں درآمد اور برآمد کرنے والی 400 سے زائد کمپنیوں کی نگراں حکومت کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف دیا کہ قانون کے مطابق گیس جس صوبے میں پیدا ہوگی سب سے پہلے اسی صوبے کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا، ملک میں سب سے زیادہ گیس سندھ میں پیدا ہوتی ہے، گیس کی قیمتوں میں اضافہ نگران وفاقی حکومت کا اختیار ہی نہیں تھا، نگران حکومت روز مرہ کے معاملات چلاسکتی تھی تاہم بڑے پالیسی معاملات میں فیصلہ نہیں لے سکتی تھی۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے موقف دیا کہ نگران وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر ریونیو بڑھانے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔
جسٹس محمود اے خان نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ کہاں ہے؟ جو کاپی عدالت میں پیش کی گئی وہ معاہدہ نہیں پریس ریلیز ہے، آئی ایم ایف کی پریس ریلیز کے مطابق شرط صرف ریونیو بڑھانے کی تھی، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکس بڑھانے کی تجویز نگراں حکومت کی اپنی تھی۔
اوگرا کے وکیل نے موقف دیا کہ درخواست گزار گیس کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلوں میں موجود تھے، آدھے درخواست گزار حکومت میں شامل تھے اور صورتحال کو جانتے ہیں، عدالت کا پالیسی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ یہ تو پرانی باتیں ہیں عدالت قانون دیکھے گی۔ بعدازاں عدالت نے صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے پر حکم امتناع جاری کردیا۔ عدالت نے صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق نگران حکومت کا 8 نومبر اور 14 دسمبر 2023ء کا نوٹی فکیشن معطل کردیا۔
عدالت نے کمپنیوں کو اضافی رقم ناظر سندھ ہائی کورٹ کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی ناظرکے بجائے رقم حکومت کو ادا کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، اوگرا، ایس ایس جی سی اور دیگر سے 14 مارچ کو تحریری دلائل دینے کا حکم دیا ہے۔