مفاہمتی ایجنڈا اور محدود امکانات

ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت کو سیاسی حکمت عملی میں بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے

salmanabidpk@gmail.com

مفاہمتی سوچ ہماری قومی سیاست کی اہم ترجیح ہونی چاہیے تھی کیونکہ جو مسائل ہمیں درپیش ہیں، ان کا واحد علاج ہی مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔لیکن مفاہمتی سیاست سے مراد رسمی اور روایتی مفاہمت نہیں جو محض اقتدار کی بندر بانٹ تک محدود ہو بلکہ ایک حقیقی مفاہمت ہمیں درکار ہے۔

لیکن ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت کو سیاسی حکمت عملی میں بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے اور اس کا مقصد مفاہمت سے زیادہ اقتدار کی تقسیم ہے ۔مفاہمت کے پیچھے اصل طاقت ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنا اور قومی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرکے آگے بڑھنا ہے۔

لیکن لگتا ہے کہ ہم مفاہمت کی سیاست سے بہت دور ہیں یا یہ ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ ہم سیاست میں محاذ آرائی ، ٹکراؤ اور سیاسی دشمنی میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور ان حالات کو پیدا کرنے کی ذمے داری کسی ایک فریق پر نہیں بلکہ سب پر ہی عائد ہوتی ہے ۔

نئی پارلیمنٹ کے ابتدائی دنوں کے مناظر دیکھ کر ہمیں 90کی دہائی کی سیاست یاد آگئی جہاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی باہم دست وگریبان تھیں، آج یہ شدت پی ٹی آئی پلس سنی اتحاد کونسل اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان دیکھنے کو مل رہی ہے اور لگتا ہے کہ ہماری مجموعی سیاست محاذ آرائی سے باہر نہیں نکل سکے گی۔

ہر سیاسی جماعت خود کو مفاہمت کی حامی اور دوسری جماعتوں کو مخالف کہتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ سب کا رویہ غیرمفاہمانہ ہے ۔ایک طبقہ کا خیال ہے کہ مفاہمت کی سیاست میں سب سے بڑی رکاوٹ پی ٹی آئی اور عمران خان کا طرز عمل ہے لہذا انھیں ہی مفاہمت میں پہل کرنا ہوگی جب کہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لہجے میںاپنے سیاسی یا غیر سیاسی مخالفین کے خلاف تلخی اور غصہ کا پہلو نمایاں ہے اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے یا جو کچھ اب بھی کیا جارہا ہے اس کا ردعمل فطری ہے ۔ اس غصے یا تلخی کو کم کرنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔

پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کا سیاسی غصہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر جو لب ولہجہ محمود خان اچکزئی ، سردار اختر مینگل، مولانا فضل الرحمن ، ایمل ولی خان اور جماعت اسلامی میں دیکھنے کو مل رہا ہے، اسے دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ مفاہمت شاید جلد نہ ہوسکے بلکہ یہ مزاحمت کا اشارہ ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کی جانب سے آصف زرداری سمیت بلاول بھٹو مفاہمت کی سیاست پر زور دے رہے ہیں۔ ان کے بقول تمام سیاسی قوتوں کو سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر اتفاق کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔لیکن سوال یہ ہے کیا سازگار حالات پیدا کیے بغیر مفاہمت کی سیاست آگے بڑھ سکے گی ، جواب نفی میں ہوگا ۔کیونکہ مفاہمت کی سیاست کے لیے جو فہم وفراست اور بردباری درکار ہے، وہ کہاں سے لائی جائے گی ۔کیونکہ مفاہمت کو پیدا کرنے کے لیے دو طرفہ تعاون درکار ہوتا ہے ۔


جو سیاسی فریقین میں نظر نہیں آرہا ہے۔ ایک دوسرے کو مائنس کرنے کی خواہش مفاہمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر مفاہمت کا راستہ کسی نے بھی نکالنا ہے تو تمام سیاسی قیادت کو اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرنا ہوں گی۔ ایسا کیے بغیر کم ازکم اب مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہوگا۔

ایک طرف مفاہمت کی سیاست یا معیشت پر زور تو دوسری طرف الیکشن کمیشن کی طرف سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے نے بھی سیاست کو گرما دیا ہے ۔

یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے۔ سیاسی فریقین کو سمجھنا ہوگا کہ مفاہمت نے اگر آگے بڑھنا ہے تو یہ روایتی طور طریقوں سے نہیں ہوگابلکہ اس کے لیے تمام فریقوں کی جانب سے غیر معمولی فیصلے درکار ہیں ۔یہ جو باہمی بداعتمادی بڑھ رہی ہے اس کا خاتمہ کرنا ہوگا وگرنہ یہ ماحول مزید نئی تلخیوں کو جنم دے گا ۔ مزاحمت کی سیاست اپنی جگہ لیکن سیاسی تدبر کی بنیاد پر سیاسی راستہ نکالنا ہی کارگر ہوتا ہے ۔اس لیے سیاسی قیادت جہاں بھی مذاکرات کا آپشن دیکھیں تو اس دروازے کو بند نہ کریں بلکہ مکالمہ کی طرف بڑھنا ہی درست سیاسی حکمت عملی ہوگی ۔

پاکستان میں جو لوگ بھی سیاسی مسائل کو نظرانداز کرکے معاشی بہتری کے ایجنڈے کوبنیاد بنا کر بڑا اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کیسے ممکن ہوسکے گا؟کیونکہ ایک ہی بنیادی تھیوری ہے کہ ہم داخلی سیاسی استحکام کی بنیاد پر ہی معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

مگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے معاشی حل تلاش کیا جائے، وہ پہلے بھی غلطی پر تھے اور آج بھی وہ غلطی پر ہی ہیں۔کیونکہ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ایک طرف مفاہمت کا ایجنڈا تو دوسری طرف کسی کے خاتمہ کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے ۔کاش ہماری سیاسی و غیر سیاسی قیادت داخلی مسائل کا بہتر طور پر ادراک کرسکے اور سمجھ سکے کہ ہمیں داخلی ، علاقائی اور عالمی محاذ پر جو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان کا علاج مفاہمت کی سیاست کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے ۔

موجودہ حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمیں سیاسی اور غیر سیاسی افراد یا اداروں کی بنیاد پر ایک بڑے '' گرینڈ ڈائیلاگ '' کی ضرورت ہے۔ لیکن اس گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے پہلے ایک سازگار دو طرفہ ماحول بننا چاہیے جہاںتمام فریق ایک دوسرے کی اہمیت اور افادیت کو قبول کرکے آگے بڑھنے کا عزم کریں تو بات یقینی طور پر آگے بڑھ سکتی ہے ۔

فی الحال جو نظر آرہا ہے وہ مفاہمت کے لیے سازگار نہیں اور ہم سب ہی مجموعی طور پر الجھ گئے ہیں اور ایک دوسرے پر سیاسی برتری کے جنون کی وجہ سے غلطیوں پر غلطیاں کررہے ہیں ۔ یہ ہی عمل مفاہمت کی سیاست کے خلاف بھی ہے اور یہ ہی عمل ریاستی وعوامی مفادات کے برعکس ہے ۔
Load Next Story