’’مفاہمت کے پیکر‘‘ کی آزمائش

آصف علی زرداری نے اپنے کردار سے بار بار ثابت کیا ہے کہ واقعی معنوں میں وہ مفاہمت کے پیکر ہیں

tanveer.qaisar@express.com.pk

صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی صدارت سے سبکدوش ہو رہے ہیں ۔ اور کل بروز ہفتہ بتاریخ 9مارچ2024نئے صدرِ مملکت کا چناؤ ہونے جا رہا ہے۔ سربراہِ ریاست کے عہدے کے لیے دو اُمیدوار میدان میں ہیں ۔

ایک طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری ہیں اور دوسری طرف ''پختونخوا ملی عوامی پارٹی'' کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی ہیں ۔ زرداری صاحب کا تعلق سندھ سے ہے اور اُنہیں کئی اتحادی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے ۔

اچکزئی صاحب بلوچستان سے ہیں ۔ وہ ''سُنی اتحاد کونسل'' المعروف پی ٹی آئی کے بھی حمایت یافتہ ہیں ۔ دونوں اُمیدوار تندہی سے اپنے ووٹوں کے حصول کے لیے سرگرم ہیں ۔ اندازے مگر یہ ہیں کہ سابق صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری ایک بار پھر صدرِ پاکستان منتخب ہو جائیں گے۔ ایسے نازک اور شاندار موقع پر، بروقت، جناب آصف زرداری بارے ایک نہایت دلکشا کتاب مارکیٹ میں آئی ہے ۔ یہ کتاب بشیر ریاض صاحب کی قلمی کاوشوں اور کمٹمنٹ کا نتیجہ ہے ۔

بشیر ریاض صاحب کی شخصیت کی کئی جہتیں اور پرتیں ہیں ۔ وہ ہمارے بزرگ اور تجربہ کار سیاسی دانشور اور مشاہدہ بیں ہیں ۔افسانہ نگار بھی ہیں، سیاسی وقائع نگار بھی اور کہنہ مشق سوانح نگار بھی۔اُنہیں اگر ''فنا فی الپیپلز پارٹی'' کہا جائے تو شاید یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا ۔اور اگر یہ کہا جائے کہ بشیر ریاض پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان بارے ایک چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا ہیں تو اِس میں بھی قطعی کوئی مبالغہ نہیں ہوگا ۔

اِس محبت اور وابستگی میں اُنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹوکا زبردست اعتماد اور اعتبار حاصل کررکھا تھا ۔ یہ گہرے اعتبار اور اعتماد ہی کا شاخسانہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اُنہیں ہمیشہ ''بیش'' کے نام سے لکھتیں اور پکارتی تھیں ۔ بعد ازاں اُنہیں جناب آصف علی زرداری کا بھی اعتماد حاصل ہُوا ۔اب محبت و اعتمادکا یہ سیلِ رواں پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد جناب بلاول بھٹو زرداری کی جانب رواں دواں ہے ۔

ہمارے ہاں کم ہی کوئی ایسی مثال ملتی ہوگی کہ کسی لکھاری نے اپنا قلم اور ذہن صرف ایک سیاسی جماعت اور اس کے قائدین کی جانب موڑ رکھا ہو ۔ بشیر ریاض صاحب کو مگر یہ منفرد اعزاز حاصل ہے ۔ اُن کے قلم و ذہن کی جملہ توانائیاں پیپلز پارٹی اور اس کے مرکزی قائدین اور بھٹو خاندان کی سیاسی، سماجی اور معاشی خدمات گنوانے اور مرتب کرنے کے لیے وقف ہیں ۔ اُنہوں نے بھٹو خاندان پر جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں، سب اپنے براہِ راست مشاہدات اور تجربات پر مشتمل ہیں ۔

یوں ہمیں اُن کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ایک ایسے خاندان کی ممکنہ مکمل تاریخ صفحہ قرطاس پر بکھیر دی ہے جس کے کئی افراد نے سیاست کے میدان میں عملی طور پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے مگر آمروں، آئین شکنوں اور جمہوریت دشمنوں کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔ پیپلز پارٹی کے نظریات اور طرزِ سیاست سے اختلاف کرنے والوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے لیکن اِس کے باوصف بشیر ریاض اپنی کمٹمنٹ نبھائے چلے جارہے ہیں ۔

کہولت کے باوجود بشیر ریاض صاحب کے قلم اور ذہن کو پھپھوندی نہیں لگی ہے ۔اُن کے قلم کا بادبان ہمہ وقت کھلا رہتا ہے ۔ ایسے میں مجھے جدید جاپانی ادب کے معروف ادیب اور ناولسٹ ، ہاروکی موراکامی، کا ایک قول یاد آتا ہے :'' یا خدایا، مجھے اُس وقت تک زندہ اور صحتمند رکھنا جب تک میرا یہ ناول مکمل نہیں ہو پاتا۔''میرا خیال ہے کہ بشیر ریاض صاحب بھی اپنی ہر نئی کتاب لکھتے وقت ایسی ہی دعا اپنے اللہ سے مانگتے ہوں گے ۔

اب وہ ہمارے سامنے تقریباً ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ایک نئی کتاب لائے ہیں ۔ اور اِس کا عنوان ہے :''آصف علی زرداری: مفاہمت کا پیکر۔'' کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے زیر نظر کتاب کا عنوان دراصل معروف کالم نگارجناب نذیر ناجی مرحوم کے ایک کالم سے کشید کیا ہے ۔


ناجی صاحب کا یہ خاص کالم مصنف نے زیر نظر کتاب (صفحہ 226 ) میں شامل بھی کیا ہے ۔ کالم نگار نے اپنی اِس تحریر میں دل کھول کر جناب آصف علی زرداری کی تحسین کی ہے اور واقعی معنوں میں اُنہیں ''مفاہمت کا پیکر'' ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔

جناب آصف علی زرداری پر زیر نظر کتاب ''بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن'' نے شائع کی ہے ۔ اِس کے تقسیمِ کار مگر مزنگ ( لاہور) میں واقع بک ہوم پبلشر والے عبدالرحمن صاحب ہیں جو پہلے بھی بھٹو صاحب، بے نظیر بھٹو صاحبہ اور پیپلز پارٹی کی تاریخ پر کئی کتابیں شائع کر چکے ہیں ۔یہ کتاب تین درجن سے زائد ابواب پر مشتمل ہے ۔

بعض ابواب محترمہ بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری پر بھی ہیں لیکن یہ بھی درحقیقت آصف علی زرداری کے سیاسی ، معاشی اور مدبرانہ کردار سے منسلک ہیں ۔ اور یوں یہ متنوع ابواب ایک دوسرے سے مربوط ہو کر ایک کامل، دلچسپ اور معلومات افزا داستان بن جاتے ہیں ۔

کتاب کی فہرست پر ایک نظر ڈالی جائے تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرنے کی اپنی سی بھرپور کوشش کی گئی ہے ۔

مثال کے طور پر: زرداری خاندان اور سیاسی خدمات، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی نسبت، میڈیا ٹرائل اور آصف علی زرداری،سرے محل کی من گھڑت کہانی،آصف علی زرداری اور سیاسی مخالفوں کا اعتراف، ایوانِ صدر میں صدر زرداری کے پانچ سال ، اٹھارویں آئینی ترمیم صدر زرداری کا بڑا کارنامہ وغیرہ ۔ یوں زیر نظر کتاب میں ایسا مواد اور مٹیریل شامل کر دیا گیا ہے جس نے آصف علی زرداری کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی تفہیم میں قدرے آسانی پیدا کر دی ہے ۔

سولہ سو روپے قیمت کی حامل یہ کتاب ( آصف علی زرداری: مفاہمت کا پیکر) تحقیق کا پیکر کم اور محبت و عقیدت کا پیکر زیادہ ہے کہ مصنف نے اپنے ہیرو کو عظمت و اصول کے پہاڑ پر کھڑا کر دیا ہے ۔

آصف علی زرداری صاحب سے اختلاف رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ وہ اِس کتاب کے مندرجات سے بھی اختلاف کریں گے ، لیکن بشیر ریاض صاحب نے یہ کتاب لکھ کر یوں مستحسن اقدام کیا ہے کہ ہمارے ہاں طاقتوروں نے جہاں دانستہ اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے سیاستدانوں کی کردار کشی کی متعدد کوششیں کی ہیں، ایسے میں ایک سابق صدرِ پاکستان کے سیاسی و معاشی اقدامات کی تعریف بے جا نہیں ہے ۔

آصف علی زرداری نے اپنے کردار سے بار بار ثابت کیا ہے کہ واقعی معنوں میں وہ مفاہمت کے پیکر ہیں ۔ اپنی عظیم اہلیہ کی المناک شہادت پر اُنہوں نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگا کر بے مثل مفاہمت کا ثبوت دیا۔8فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے جناب آصف زرداری کا نون لیگ کے ساتھ مل بیٹھنا اُن کی مفاہمت کی نئی مثال ہے ۔

کہنا پڑے گا کہ زیر نظر کتاب نہایت مناسب موقع پر سامنے آئی ہے ۔ اب جب کہ نیا صدارتی انتخاب ہو رہا ہے اور نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے،ایسے میں جناب آصف علی زرداری کے مفاہمانہ اور مصالحانہ کردار کی پرکھ اور آزمائش پھر ہونے والی ہے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ نئے سیاسی حالات میں جناب آصف علی زرداری کے معروف مفاہمانہ کردار کو حضرت مولانا فضل الرحمن تسلیم نہیں کررہے۔ اُنہوں نے اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا :'' آصف زرداری مفاہمت کے نہیں، مفادات کے بادشاہ ہیں۔''
Load Next Story