بلاول اور بلوچستان
پیپلز پارٹی اب تک چار دفعہ برسر اقتدار آچکی ہے مگر بلوچستان کے حالات بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں
بلاول بھٹو زرداری کو ان کے والد نے مشکل کام سپرد کردیا۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ ماہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کی اور اس موقعے پر انھوں نے تقریر میں کہا کہ صوبے کے مسائل بہت زیادہ ہیں، کوئی سیاسی جماعت تنہا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ تمام اسٹیک ہولڈرزکو ساتھ ملائیں گے۔
انھوں نے بے نظیر بھٹو کی مفاہمتی سوچ کے تحت لاپتہ افراد کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ڈھونڈنے کی تجویز پیش کی۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا مقابلہ کریں گے۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ وہ زیادہ اسلام آباد کے بجائے کوئٹہ اورکراچی میں وقت دیں گے۔
پیپلز پارٹی کی 2008 میں قائم ہونے والی حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر عملدرآمد جاری رہتا تو بقول ان کے آج دوسرا بلوچستان ہوتا۔ پیپلز پارٹی اب تک چار دفعہ برسر اقتدار آچکی ہے مگر بلوچستان کے حالات بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے گزشتہ مہینوں میں ان کی جماعت میں شامل ہونے والے سرفراز بگٹی کو صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا ہے وہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر مکمل مختلف بیانیہ رکھتے ہیں۔
سرفراز بگٹی اور سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ لاپتہ افراد کے معاملے کو ریاستی سلامتی کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب دو ماہ قبل بلوچستان کی خواتین کا قافلہ لاپتہ افراد کے مسئلے پرآگاہی کے لیے اسلام آباد میں داخل ہو رہا تھا تو پولیس نے ان خواتین پر تشدد کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت ان خواتین کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دینے کی اجازت ملی تھی تو سرفراز بگٹی کی سرپرستی میں اس کیمپ کے مقابلہ میں شہداء بلوچستان کے نام سے کیمپ لگایا گیا۔ جب بلوچ خواتین نے اپنا کیمپ ختم کیا تو یہ کیمپ بھی ختم ہوگیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے لاپتہ افراد کے مسئلے کی تاریخ پر توجہ نہیں دی۔ یہ مسئلہ نئی صدی کے ابتدائی برسوں میں پیدا ہوا اور ہنوز سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پہلی دفعہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا تھا اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ یہ کمیشن لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل نہیں کرسکا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہارکیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد کی تعریف کرتے ہوئے واضح طور پر تحریر کیا تھا کہ لاپتہ افراد سے مراد وہ شہری ہیں جنھیں اغواء کیا گیا ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا جس کے سپرد اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے سفارشات تیار کرنا تھیں۔
معزز عدالت نے پہلے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا مگر انھوں نے معذرت کرلی تھی، پھر سردار اختر مینگل کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سردار اختر مینگل نے ایک مفصل رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی مگر اس دوران جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ بھیج دیا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا جائے مگر اس فیصلہ پر عملدرآمد نا ہوا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جنیوا میں ہونے والے سالانہ اجلاسوں میں یہ مسئلہ شامل ہوا اور سابقہ حکومت نے کسی فرد کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ سینیٹ میں پیش کیا تھا جہاں یہ مسودہ منظور ہوا مگر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ تاریخی اعلان کیا کہ یہ مسودہ لاپتہ ہوگیا۔
چند مہینے قبل جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کے مقدمے میں ایک دن سماعت کی تو سینیٹ سیکریٹریٹ نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ لاپتہ افراد کے قانون کا مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے۔ سیکریٹریٹ نے یہ مسودہ اسمبلی کے سیکریٹریٹ کو بھجوادیا ۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تھے اور اس مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی مگر ان کی حکومت ختم ہوئی اور یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کیا تھا، وہ کئی بار عدالت کے سامنے پیش نا ہو سکے۔
گزشتہ ہفتہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو اپنا موقف بیان کیا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدلیہ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نا کرے۔ انوار الحق کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان شہیدوں کو بھی یاد کریں جنھیں سرمچاروں نے ہلاک کیا ہے، ان کا یہ موقف تھا کہ جو محب وطن افراد ریاست کے باغیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں ان کو بھلا نہ دیا جائے۔ نگراں وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی مگر معاملات ہنوز التواء کا شکار ہیں۔
ایک طبقے کی جانب سے بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کی ایک وجہ سی پیک کا منصوبہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ گوادر کے عوام کئی برسوں سے بحیرہ عرب میں ماہی گیروں کے حق کو منوانے کے لیے احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ماہی گیروں کے ایک نمایندہ جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمن بار بار کہتے تھے کہ گوادر کے باسی ہزاروں سال سے بحیرہ عرب سے استفادہ کرتے آرہے ہیں۔ اب ان سے ماہی گیری کا حق چھین کر روزگار سے محروم کردیا گیا ہے۔ مکران ڈویژن میں عوام سیکیورٹی کی چوکیوں سے پریشان رہتے ہیں۔ گوادر شدید بارشوں سے مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔
گوادر کے مکین کہتے ہیں کہ سی پیک کی سڑکوں کی تعمیر سے شہر کا قدرتی پانی کی نکاسی کا نظام بند ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں پانی گھروں میں داخل ہوا ہے۔ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں بلوچ سماج میں سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ بلوچ نوجوان خواتین نے فرسودہ روایات کو پامال کرتے ہوئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔
دوسری طرف ایک منصوبہ کے تحت 1973ء کے آئین کے دائرہ کار میں جدوجہد کرنے والی قوم پرست جماعتوں کے نمایندوں کو ایک منظم منصوبے کے تحت قومی انتخابات میں شکست دلوائی گئی ہے اور جو لوگ منتخب کرائے گئے ہیں وہ عالمی شہرت رکھتے ہیں، یوں مفاہمت کا نعرہ لگانے والے رہنماؤں کو مختلف رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ کسی پارلیمانی کمیٹی سے حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کا دائمی حل پارلیمنٹ کی بالادستی ہے، اگر بلاول واقعی بلوچستان میں صورتحال معمول پر لانے کے خواہاں ہیں تو انھیں چاہیے کہ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔
پارلیمنٹ ہر فرد کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا قانون منظور کرے اور اس قانون پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے۔ انتخابی دھاندلیوں کا کسی بھی طرح تدارک ہونا چاہیے تاکہ 1973کے آئین کے دائرہ میں جدوجہد کرنے والی قوم پرست جماعتوں کے رہنما اسمبلیوں میں آئیں اور جلاوطن رہنماؤں سے دوبارہ مذاکرات شروع کیے جائیں۔
اگر پیپلز پارٹی کی حکومت یہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہوجائے تو بلوچستان کے عوام کو یقین ہونا چاہیے کہ اب1973 جیسے آپریشن والے حالات پیدا نہیں ہونگے۔
انھوں نے بے نظیر بھٹو کی مفاہمتی سوچ کے تحت لاپتہ افراد کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ڈھونڈنے کی تجویز پیش کی۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا مقابلہ کریں گے۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ وہ زیادہ اسلام آباد کے بجائے کوئٹہ اورکراچی میں وقت دیں گے۔
پیپلز پارٹی کی 2008 میں قائم ہونے والی حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر عملدرآمد جاری رہتا تو بقول ان کے آج دوسرا بلوچستان ہوتا۔ پیپلز پارٹی اب تک چار دفعہ برسر اقتدار آچکی ہے مگر بلوچستان کے حالات بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے گزشتہ مہینوں میں ان کی جماعت میں شامل ہونے والے سرفراز بگٹی کو صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا ہے وہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر مکمل مختلف بیانیہ رکھتے ہیں۔
سرفراز بگٹی اور سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ لاپتہ افراد کے معاملے کو ریاستی سلامتی کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب دو ماہ قبل بلوچستان کی خواتین کا قافلہ لاپتہ افراد کے مسئلے پرآگاہی کے لیے اسلام آباد میں داخل ہو رہا تھا تو پولیس نے ان خواتین پر تشدد کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت ان خواتین کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دینے کی اجازت ملی تھی تو سرفراز بگٹی کی سرپرستی میں اس کیمپ کے مقابلہ میں شہداء بلوچستان کے نام سے کیمپ لگایا گیا۔ جب بلوچ خواتین نے اپنا کیمپ ختم کیا تو یہ کیمپ بھی ختم ہوگیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے لاپتہ افراد کے مسئلے کی تاریخ پر توجہ نہیں دی۔ یہ مسئلہ نئی صدی کے ابتدائی برسوں میں پیدا ہوا اور ہنوز سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پہلی دفعہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا تھا اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ یہ کمیشن لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل نہیں کرسکا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہارکیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد کی تعریف کرتے ہوئے واضح طور پر تحریر کیا تھا کہ لاپتہ افراد سے مراد وہ شہری ہیں جنھیں اغواء کیا گیا ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا جس کے سپرد اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے سفارشات تیار کرنا تھیں۔
معزز عدالت نے پہلے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا مگر انھوں نے معذرت کرلی تھی، پھر سردار اختر مینگل کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سردار اختر مینگل نے ایک مفصل رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی مگر اس دوران جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ بھیج دیا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا جائے مگر اس فیصلہ پر عملدرآمد نا ہوا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جنیوا میں ہونے والے سالانہ اجلاسوں میں یہ مسئلہ شامل ہوا اور سابقہ حکومت نے کسی فرد کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ سینیٹ میں پیش کیا تھا جہاں یہ مسودہ منظور ہوا مگر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ تاریخی اعلان کیا کہ یہ مسودہ لاپتہ ہوگیا۔
چند مہینے قبل جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کے مقدمے میں ایک دن سماعت کی تو سینیٹ سیکریٹریٹ نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ لاپتہ افراد کے قانون کا مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے۔ سیکریٹریٹ نے یہ مسودہ اسمبلی کے سیکریٹریٹ کو بھجوادیا ۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تھے اور اس مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی مگر ان کی حکومت ختم ہوئی اور یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کیا تھا، وہ کئی بار عدالت کے سامنے پیش نا ہو سکے۔
گزشتہ ہفتہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو اپنا موقف بیان کیا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدلیہ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نا کرے۔ انوار الحق کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان شہیدوں کو بھی یاد کریں جنھیں سرمچاروں نے ہلاک کیا ہے، ان کا یہ موقف تھا کہ جو محب وطن افراد ریاست کے باغیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں ان کو بھلا نہ دیا جائے۔ نگراں وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی مگر معاملات ہنوز التواء کا شکار ہیں۔
ایک طبقے کی جانب سے بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کی ایک وجہ سی پیک کا منصوبہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ گوادر کے عوام کئی برسوں سے بحیرہ عرب میں ماہی گیروں کے حق کو منوانے کے لیے احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ماہی گیروں کے ایک نمایندہ جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمن بار بار کہتے تھے کہ گوادر کے باسی ہزاروں سال سے بحیرہ عرب سے استفادہ کرتے آرہے ہیں۔ اب ان سے ماہی گیری کا حق چھین کر روزگار سے محروم کردیا گیا ہے۔ مکران ڈویژن میں عوام سیکیورٹی کی چوکیوں سے پریشان رہتے ہیں۔ گوادر شدید بارشوں سے مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔
گوادر کے مکین کہتے ہیں کہ سی پیک کی سڑکوں کی تعمیر سے شہر کا قدرتی پانی کی نکاسی کا نظام بند ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں پانی گھروں میں داخل ہوا ہے۔ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں بلوچ سماج میں سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ بلوچ نوجوان خواتین نے فرسودہ روایات کو پامال کرتے ہوئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔
دوسری طرف ایک منصوبہ کے تحت 1973ء کے آئین کے دائرہ کار میں جدوجہد کرنے والی قوم پرست جماعتوں کے نمایندوں کو ایک منظم منصوبے کے تحت قومی انتخابات میں شکست دلوائی گئی ہے اور جو لوگ منتخب کرائے گئے ہیں وہ عالمی شہرت رکھتے ہیں، یوں مفاہمت کا نعرہ لگانے والے رہنماؤں کو مختلف رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ کسی پارلیمانی کمیٹی سے حل نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کا دائمی حل پارلیمنٹ کی بالادستی ہے، اگر بلاول واقعی بلوچستان میں صورتحال معمول پر لانے کے خواہاں ہیں تو انھیں چاہیے کہ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔
پارلیمنٹ ہر فرد کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا قانون منظور کرے اور اس قانون پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے۔ انتخابی دھاندلیوں کا کسی بھی طرح تدارک ہونا چاہیے تاکہ 1973کے آئین کے دائرہ میں جدوجہد کرنے والی قوم پرست جماعتوں کے رہنما اسمبلیوں میں آئیں اور جلاوطن رہنماؤں سے دوبارہ مذاکرات شروع کیے جائیں۔
اگر پیپلز پارٹی کی حکومت یہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہوجائے تو بلوچستان کے عوام کو یقین ہونا چاہیے کہ اب1973 جیسے آپریشن والے حالات پیدا نہیں ہونگے۔