انسان کی رگوں میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کا انکشاف
سائنس دانوں نے ان ذرات کا مشاہدہ انسان کی خون کی بند رگوں میں بھی کیا
دنیا کے سب سے گہرے مقام ماریانا ٹرینچ سے لے کر بلند ترین مقام ماؤنٹ ایورسٹ تک ہر جگہ مائیکرو پلاسٹک (پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات) پائے گئے ہیں۔ لیکن ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے ان ذرات کا مشاہدہ انسان کی خون کی بند رگوں میں بھی کر لیا ہے۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف کیمپانیا میں کی جانے والی تحقیق میں گردن میں موجود شہ رگ کو صاف کرانے والے مریضوں کی نصف تعداد میں چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے ذرات کا مشاہدہ کیا گیا۔
تحقیق کے نتائج نے مائیکرو پلاسٹک کے سبب قلبی مرض، فالج اور اموات کے خطرات میں اضافے کے متعلق تشویش میں اضافہ کیا ہے۔
تحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر رافیل مارفیلا کے مطابق اگر مطالعے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ قلبی صحت پر ڈرامائی اثرات مرتب کرے گا کیوں کہ ہم لوگ پلاسٹک آلودگی کے خلاف کوئی دفاع نہیں رکھتے۔
تحقیق میں محققین نے 304 ایسے مریضوں کا جائزہ لیا جنہوں نے گردن میں موجود شہ رگ کو صاف کرانے کے لیے آپریشن کرایا تھا۔
نصف سے زیادہ (58 فی صد) افراد کی رگ میں ناہموار کناروں والے مائیکرو اسکوپک اورنینو اسکوپک پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ ان ذرات میں پولی ایتھائلین اور پولی وینائل کلورائیڈ شامل تھے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین کا کہنا تھا کہ پولی ایتھائلین اور پولی وینائل کلورائیڈ مختلف شکلوں میں وسیع پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں جس میں کھانے اور کاسمیٹک کے برتن اور پانی کے پائپ شامل ہیں۔
محققین کے مطابق جن مریضوں کی رگ میں یہ پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ان کو دل کا دورہ یا فالج یا آئندہ تین برسوں میں موت کے امکانات کا خطرہ تھا۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف کیمپانیا میں کی جانے والی تحقیق میں گردن میں موجود شہ رگ کو صاف کرانے والے مریضوں کی نصف تعداد میں چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے ذرات کا مشاہدہ کیا گیا۔
تحقیق کے نتائج نے مائیکرو پلاسٹک کے سبب قلبی مرض، فالج اور اموات کے خطرات میں اضافے کے متعلق تشویش میں اضافہ کیا ہے۔
تحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر رافیل مارفیلا کے مطابق اگر مطالعے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ قلبی صحت پر ڈرامائی اثرات مرتب کرے گا کیوں کہ ہم لوگ پلاسٹک آلودگی کے خلاف کوئی دفاع نہیں رکھتے۔
تحقیق میں محققین نے 304 ایسے مریضوں کا جائزہ لیا جنہوں نے گردن میں موجود شہ رگ کو صاف کرانے کے لیے آپریشن کرایا تھا۔
نصف سے زیادہ (58 فی صد) افراد کی رگ میں ناہموار کناروں والے مائیکرو اسکوپک اورنینو اسکوپک پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ ان ذرات میں پولی ایتھائلین اور پولی وینائل کلورائیڈ شامل تھے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین کا کہنا تھا کہ پولی ایتھائلین اور پولی وینائل کلورائیڈ مختلف شکلوں میں وسیع پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں جس میں کھانے اور کاسمیٹک کے برتن اور پانی کے پائپ شامل ہیں۔
محققین کے مطابق جن مریضوں کی رگ میں یہ پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ان کو دل کا دورہ یا فالج یا آئندہ تین برسوں میں موت کے امکانات کا خطرہ تھا۔