جملۂ معترضہ
تنخواہ داری اور عیال داری کو بہانہ بناکر کسی سرکاری افسر کو بدعنوانی میں ملوث ہونے پر بڑی آسانی سے درگزر کردیا جاتا ہے
حکیم محمد سعید صاحب ، ابن الحسن کے اخباری کالموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہر وہ جملہ کہ جو طبع نازک پر گراں گزرے جملۂ معترضہ میں شمار ہوتا ہے، مگر وہ جملہ کہ جو حقیقت سے عبارت ہو اور صداقت اس کا عنوان ہو، تاریخ بن جاتا ہے۔
مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ کالم نگاری کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لکھنے والا وسیع المطالعہ ہو، تاریخ ہی سے نہیں، ان تمام علوم سے بھی واقف ہو جنہوں نے اس کے عہد کی سیاست کی صورت گری کی ہے اور یہ کسی ایک جغرافیائی خطے تک محدود نہ ہوں بلکہ پورے کرۂ ارض سے تعلق رکھتے ہوں ،کیونکہ موجودہ دور میں کسی بھی خطے کی صورتحال کسی دوسرے بعید ترین خطے کی صورتحال کو متاثر کرسکتی ہے۔
تاریخ ہمیشہ دو دائروں میں سفر کرتی ہے، ایک دائرہ مقامی تاریخ کا ہوتا ہے اور دوسرا عالمی تاریخ کا۔ یہ دونوں دائرے ایک دوسرے کی حدوں میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ کالم نگار اگر ان دائروں کے باہمی ربط سے آگاہ نہیں ہوگا تو اس کی تحریر حقیقت کی عکاسی سے قاصر رہے گی۔
ابن الحسن کی کالم نگاری کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے، اس سارے تاریخی عمل پر نظر رکھتے ہیں جس کے ایک حصے کے طور پر یہ حالات و واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر ان کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کا نتیجہ ہے۔
ان کا مطالعہ تاریخ عالم، معاشیات، سماجیات اور سیاسیات سے لے کر ادیان عالم تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے مشاہدے کا عالم ہے کہ وہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مطالعاتی سفرکرچکے ہیں اور عہد حاضر کے بہت سے عالمی سیاست دانوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ اسی لیے ان کے کالموں میں جہاں ایک طرف موضوع کا سنجیدہ اور فکر انگیز تجزیہ ہوتا ہے وہاں دوسری طرف وہ ذاتی مشاہدات، اعتبار اور دلچسپی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
ابن الحسن کے منتخب کالموں کی کتاب '' جملۂ معترضہ'' کے بارے میں مشفق خواجہ لکھتے ہیں'' ابن الحسن صاحب کا دائرہ تحریر بہت وسیع ہے ، قومی اور عالمی سیاست ، معاشی و معاشرتی مسائل اور بعض شخصیات کے حوالے سے انہوں نے جوکچھ لکھا ہے، اس کی مستقل اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ کالموں کی اس کتاب میں جتنے کالم بھی شامل ہیں، ان کی تازگی اشاعت کے روز اول کی طرح برقرار ہے۔ ورنہ عام طور پر یہ دیکھاگیا ہے کہ اخباری کالموں کی زندگی بھی اخباروں کی ہی طرح صرف ایک دن کی ہوتی ہے۔
یہ کتاب '' جملۂ معترضہ'' زبان و بیان کے اعتبار سے بھی لائق توجہ ہے۔ ابن الحسن کی تحریر عام صحافتی تحریروں کی طرح خشک اور بے مزہ نہیں ہوتی، وہ ایک منفرد سیاسی مبصر کے ذہن سے سوچتے ہیں اور ایک شگفتہ نگار ادیب کے قلم سے لکھتے ہیں۔'' ابن الحسن اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان ہے '' ہم بے خبری اور باخبری میں ہر عالم سے ایسے گزرے'' لکھتے ہیں۔ ''یہ ایک عجیب بات ہے کہ برسر اقتدار نہ ہوتے ہوئے تو پاکستان میں ہر شخص آئین اور جمہوریت کے ہر رمز اور نکتہ سے اس طرح واقف ہوتا ہے کہ کیا جیفرسن اور میڈلین بھی ہوں گے۔
کسی محفل یا تقریب میں ان مسائل پر تقریرکرا لیجیے تو یہ معلوم ہوگا کہ روسو اور والٹیر اور جان اسٹیوراٹ مل وغیرہ سب ان کے سامنے طفلِ مکتب تھے، لیکن جب انہیں اقتدار اور اختیارات سے واسطہ پڑتا ہے، خواہ وہ نجی زندگی ہو یا کاروباری زندگی میں یا سیاسی زندگی میں تو ان کا سارا علم اورآگہی، اصول پسندی اور ملفوضات سب رفوچکر ہوجاتے ہیں، غیر ضروری اور بے معنی ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو '' بہ زوری'' بزاری اور بہ زر '' مٹا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ان کیلئے کوئی قدر، کوئی قانون، کوئی ضابطہ محترم نہیں رہتا۔ پھر یہ اقتدار کی کرسی کو تخت طائوس سمجھتے ہیں، پارلیمنٹ کو دربار خاص، عمال حکومت کو نورتن اور قومی امانتوں کو خزانۂ عامرہ تصور کرتے ہیں۔
زبانی احکامات پر اس طرح عمل کراتے ہیں جیسے یہ فرمان ہوں اور پھر جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے اور خود اپنے اٹھائے طوفان میں غوطے کھانے لگتے ہیں پھر کوئی ارضی یا سماوی طاقت سیلاب بلا میں از خود پھنسے ہوئے اہل اقتدار کو غرق ہونے سے بچالیتی ہے تو الٹا اسی کو طوفان کیلئے موردالزام قرار دیتے ہیں۔ برابر یہی ہورہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برابر یہی ہوتا رہے گا۔ پاکستان کو ایک سیاسی لیبارٹری بنا رکھا ہے۔ طرح طرح کے نسخے برسوں سے آزمائے جا رہے ہیں۔''
ابن الحسن اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان ہے '' جو جس سے ہو سکا سو کیا پیٹ کیلئے'' لکھتے ہیں۔ '' بڑے بڑے عہدوں پر متمکن سرکاری افسر اپنی تعلیم اور تجربہ کے باوصف کسی معتوب حکومت کے دور اقتدار میں کی گئی بدعنوانیوں اور بد دیانتیوں میں اپنی شرکت اور آمدگی کے الزام کے بارے میں یہ صفائی پیش کرتے ہیں کہ وہ اس جبرکا شکار ہوئے جو ایک تنخواہ دار اور عیال دار سرکاری ملازم کی حیثیت سے انہیں قبول کرنا پڑا تو ان بے چاروں سے ہمدردی تو ضرور ہوتی ہے لیکن محض عارضی طور پرکیونکہ جب غورکیا جاتا ہے کہ ان میں سے کس نے کیا طریقہ اختیارکیا اورکس طرح اپنا دامن بچایا اور مضبوط کردارکا مظاہرہ کر کے بدعنوانیوں اور بددیانتیوں میں شریک ہونے سے انکارکردیا تو تنخواہ دار اور عیال دار سرکاری ملازموں کی بظاہر یہ معصومانہ صفائی کے وہ جبر کا شکار رہے۔
خوئے پدرا بہانۂ بسیار معلوم ہوتی ہے۔ اس صفائی کو جو نصف حقیقت پر مبنی ہے مصلحتاً قبول کرلیا جائے تو اور بات ہے ورنہ سچ پوچھے تو طبیعت اسے قبول کرنے پر مائل نہیں ہوتی۔ حکومتوں کی بدعنوانیوں میں سیاسی عناصر کا جو بھی حصہ ہے، وہ ایک الگ داستان ہے، آپ سنیے گا تو شرمائیے گا لیکن اونچے منصب پر فائز سرکاری افسروں کی بلا ارادہ بلکہ ذوق و شوق کیساتھ شرکت کو بھی بیان کیا جائے تووہ کچھ کم شرمناک روئیداد نہیں ہوگی۔
تنخواہ داری اور عیال داری کو بہانہ بناکر کسی سرکاری افسر کو بدعنوانی میں ملوث ہونے پر بڑی آسانی سے درگزر کردیا جاتا ہے بالعموم یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بدعنوان اور بددیانت حکومت کے دور اقتدار میں ان افسروں نے خود کیسے کیسے فائدے اٹھائے، ان کا رہن سہن کس قسم کا تھا؟ یہ اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کیلئے کیسی کیسی آسانیاں حاصل کرتے رہے تھے۔ یہ اقتدار اور مراعات کے سحر میں گرفتار تھے۔
ان کا ان کے اہل خانہ کا رنگ ڈھنگ یہ چغلی کھاتا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے اور جس کے نتیجے میں انہیں زندگی کی یہ آسائشیں اور عشرتیں حاصل ہوگئی ہیں انہیں دل سے پسند ہے اور ان کے حصول میں ان کی اپنی کوششوں کا بھی دخل ہے۔ ان اعلیٰ افسروں کا حال تو ان کے ماتحتوں سے پوچھا جائے جو ذرا ذرا سی بات کی خبر رکھتے ہیں۔
'' سوچنے کی بات ہے کہ کیا پاکستان میں قومی مفادات کا خیال کرنے اور ان کے تحفظ کی ساری ذمہ داری صرف غریب عوام پر ہے؟ کیا ان پر یہ تہمت رکھ کر کہ وہی حاکمیت کا سرچشمہ ہیں اور انہیں اس فریب میں مبتلا کرکے جو کچھ کیا جارہا ہے انہی کے مفاد کیلئے کیا جارہا ہے، قوم اور وطن کے استحکام اور ترقی کیلئے کیا جارہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور بااختیار سرکاری افسران پر سات خون صرف اس لیے معاف کردینے چاہئیں کہ وہ بے چارے تنخواہ دار ملازم ہیں۔ غضب خدا کا ایک صوبے کا چیف سیکریٹری اپنی دانستہ کوتاہیوں اور غلط کاریوں کیلئے یہ صفائی پیش کرے کہ وہ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ کے احکام کا پابند تھا۔ ایک کارپوریشن کا چیئرمین یا بینک کا سربراہ اپنے ادارے میں کی گئی بدعنوانیوں سے یہ کہہ کر خود کو بری الزمہ ثابت کرنا چاہے کہ وہ حکومت وقت کے احکام سے سرتابی کرتا تو ملازمت سے برطرف کردیا جاتا س کے نتیجے میں اس کی دنیا تنگ و تاریک ہوجاتی۔''
مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ کالم نگاری کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لکھنے والا وسیع المطالعہ ہو، تاریخ ہی سے نہیں، ان تمام علوم سے بھی واقف ہو جنہوں نے اس کے عہد کی سیاست کی صورت گری کی ہے اور یہ کسی ایک جغرافیائی خطے تک محدود نہ ہوں بلکہ پورے کرۂ ارض سے تعلق رکھتے ہوں ،کیونکہ موجودہ دور میں کسی بھی خطے کی صورتحال کسی دوسرے بعید ترین خطے کی صورتحال کو متاثر کرسکتی ہے۔
تاریخ ہمیشہ دو دائروں میں سفر کرتی ہے، ایک دائرہ مقامی تاریخ کا ہوتا ہے اور دوسرا عالمی تاریخ کا۔ یہ دونوں دائرے ایک دوسرے کی حدوں میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ کالم نگار اگر ان دائروں کے باہمی ربط سے آگاہ نہیں ہوگا تو اس کی تحریر حقیقت کی عکاسی سے قاصر رہے گی۔
ابن الحسن کی کالم نگاری کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے، اس سارے تاریخی عمل پر نظر رکھتے ہیں جس کے ایک حصے کے طور پر یہ حالات و واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر ان کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کا نتیجہ ہے۔
ان کا مطالعہ تاریخ عالم، معاشیات، سماجیات اور سیاسیات سے لے کر ادیان عالم تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے مشاہدے کا عالم ہے کہ وہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مطالعاتی سفرکرچکے ہیں اور عہد حاضر کے بہت سے عالمی سیاست دانوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ اسی لیے ان کے کالموں میں جہاں ایک طرف موضوع کا سنجیدہ اور فکر انگیز تجزیہ ہوتا ہے وہاں دوسری طرف وہ ذاتی مشاہدات، اعتبار اور دلچسپی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
ابن الحسن کے منتخب کالموں کی کتاب '' جملۂ معترضہ'' کے بارے میں مشفق خواجہ لکھتے ہیں'' ابن الحسن صاحب کا دائرہ تحریر بہت وسیع ہے ، قومی اور عالمی سیاست ، معاشی و معاشرتی مسائل اور بعض شخصیات کے حوالے سے انہوں نے جوکچھ لکھا ہے، اس کی مستقل اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ کالموں کی اس کتاب میں جتنے کالم بھی شامل ہیں، ان کی تازگی اشاعت کے روز اول کی طرح برقرار ہے۔ ورنہ عام طور پر یہ دیکھاگیا ہے کہ اخباری کالموں کی زندگی بھی اخباروں کی ہی طرح صرف ایک دن کی ہوتی ہے۔
یہ کتاب '' جملۂ معترضہ'' زبان و بیان کے اعتبار سے بھی لائق توجہ ہے۔ ابن الحسن کی تحریر عام صحافتی تحریروں کی طرح خشک اور بے مزہ نہیں ہوتی، وہ ایک منفرد سیاسی مبصر کے ذہن سے سوچتے ہیں اور ایک شگفتہ نگار ادیب کے قلم سے لکھتے ہیں۔'' ابن الحسن اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان ہے '' ہم بے خبری اور باخبری میں ہر عالم سے ایسے گزرے'' لکھتے ہیں۔ ''یہ ایک عجیب بات ہے کہ برسر اقتدار نہ ہوتے ہوئے تو پاکستان میں ہر شخص آئین اور جمہوریت کے ہر رمز اور نکتہ سے اس طرح واقف ہوتا ہے کہ کیا جیفرسن اور میڈلین بھی ہوں گے۔
کسی محفل یا تقریب میں ان مسائل پر تقریرکرا لیجیے تو یہ معلوم ہوگا کہ روسو اور والٹیر اور جان اسٹیوراٹ مل وغیرہ سب ان کے سامنے طفلِ مکتب تھے، لیکن جب انہیں اقتدار اور اختیارات سے واسطہ پڑتا ہے، خواہ وہ نجی زندگی ہو یا کاروباری زندگی میں یا سیاسی زندگی میں تو ان کا سارا علم اورآگہی، اصول پسندی اور ملفوضات سب رفوچکر ہوجاتے ہیں، غیر ضروری اور بے معنی ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو '' بہ زوری'' بزاری اور بہ زر '' مٹا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ان کیلئے کوئی قدر، کوئی قانون، کوئی ضابطہ محترم نہیں رہتا۔ پھر یہ اقتدار کی کرسی کو تخت طائوس سمجھتے ہیں، پارلیمنٹ کو دربار خاص، عمال حکومت کو نورتن اور قومی امانتوں کو خزانۂ عامرہ تصور کرتے ہیں۔
زبانی احکامات پر اس طرح عمل کراتے ہیں جیسے یہ فرمان ہوں اور پھر جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے اور خود اپنے اٹھائے طوفان میں غوطے کھانے لگتے ہیں پھر کوئی ارضی یا سماوی طاقت سیلاب بلا میں از خود پھنسے ہوئے اہل اقتدار کو غرق ہونے سے بچالیتی ہے تو الٹا اسی کو طوفان کیلئے موردالزام قرار دیتے ہیں۔ برابر یہی ہورہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برابر یہی ہوتا رہے گا۔ پاکستان کو ایک سیاسی لیبارٹری بنا رکھا ہے۔ طرح طرح کے نسخے برسوں سے آزمائے جا رہے ہیں۔''
ابن الحسن اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان ہے '' جو جس سے ہو سکا سو کیا پیٹ کیلئے'' لکھتے ہیں۔ '' بڑے بڑے عہدوں پر متمکن سرکاری افسر اپنی تعلیم اور تجربہ کے باوصف کسی معتوب حکومت کے دور اقتدار میں کی گئی بدعنوانیوں اور بد دیانتیوں میں اپنی شرکت اور آمدگی کے الزام کے بارے میں یہ صفائی پیش کرتے ہیں کہ وہ اس جبرکا شکار ہوئے جو ایک تنخواہ دار اور عیال دار سرکاری ملازم کی حیثیت سے انہیں قبول کرنا پڑا تو ان بے چاروں سے ہمدردی تو ضرور ہوتی ہے لیکن محض عارضی طور پرکیونکہ جب غورکیا جاتا ہے کہ ان میں سے کس نے کیا طریقہ اختیارکیا اورکس طرح اپنا دامن بچایا اور مضبوط کردارکا مظاہرہ کر کے بدعنوانیوں اور بددیانتیوں میں شریک ہونے سے انکارکردیا تو تنخواہ دار اور عیال دار سرکاری ملازموں کی بظاہر یہ معصومانہ صفائی کے وہ جبر کا شکار رہے۔
خوئے پدرا بہانۂ بسیار معلوم ہوتی ہے۔ اس صفائی کو جو نصف حقیقت پر مبنی ہے مصلحتاً قبول کرلیا جائے تو اور بات ہے ورنہ سچ پوچھے تو طبیعت اسے قبول کرنے پر مائل نہیں ہوتی۔ حکومتوں کی بدعنوانیوں میں سیاسی عناصر کا جو بھی حصہ ہے، وہ ایک الگ داستان ہے، آپ سنیے گا تو شرمائیے گا لیکن اونچے منصب پر فائز سرکاری افسروں کی بلا ارادہ بلکہ ذوق و شوق کیساتھ شرکت کو بھی بیان کیا جائے تووہ کچھ کم شرمناک روئیداد نہیں ہوگی۔
تنخواہ داری اور عیال داری کو بہانہ بناکر کسی سرکاری افسر کو بدعنوانی میں ملوث ہونے پر بڑی آسانی سے درگزر کردیا جاتا ہے بالعموم یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بدعنوان اور بددیانت حکومت کے دور اقتدار میں ان افسروں نے خود کیسے کیسے فائدے اٹھائے، ان کا رہن سہن کس قسم کا تھا؟ یہ اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کیلئے کیسی کیسی آسانیاں حاصل کرتے رہے تھے۔ یہ اقتدار اور مراعات کے سحر میں گرفتار تھے۔
ان کا ان کے اہل خانہ کا رنگ ڈھنگ یہ چغلی کھاتا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے اور جس کے نتیجے میں انہیں زندگی کی یہ آسائشیں اور عشرتیں حاصل ہوگئی ہیں انہیں دل سے پسند ہے اور ان کے حصول میں ان کی اپنی کوششوں کا بھی دخل ہے۔ ان اعلیٰ افسروں کا حال تو ان کے ماتحتوں سے پوچھا جائے جو ذرا ذرا سی بات کی خبر رکھتے ہیں۔
'' سوچنے کی بات ہے کہ کیا پاکستان میں قومی مفادات کا خیال کرنے اور ان کے تحفظ کی ساری ذمہ داری صرف غریب عوام پر ہے؟ کیا ان پر یہ تہمت رکھ کر کہ وہی حاکمیت کا سرچشمہ ہیں اور انہیں اس فریب میں مبتلا کرکے جو کچھ کیا جارہا ہے انہی کے مفاد کیلئے کیا جارہا ہے، قوم اور وطن کے استحکام اور ترقی کیلئے کیا جارہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور بااختیار سرکاری افسران پر سات خون صرف اس لیے معاف کردینے چاہئیں کہ وہ بے چارے تنخواہ دار ملازم ہیں۔ غضب خدا کا ایک صوبے کا چیف سیکریٹری اپنی دانستہ کوتاہیوں اور غلط کاریوں کیلئے یہ صفائی پیش کرے کہ وہ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ کے احکام کا پابند تھا۔ ایک کارپوریشن کا چیئرمین یا بینک کا سربراہ اپنے ادارے میں کی گئی بدعنوانیوں سے یہ کہہ کر خود کو بری الزمہ ثابت کرنا چاہے کہ وہ حکومت وقت کے احکام سے سرتابی کرتا تو ملازمت سے برطرف کردیا جاتا س کے نتیجے میں اس کی دنیا تنگ و تاریک ہوجاتی۔''