خوف کے سائے
غفلت کے باعث ہونے والے حملے کے نقصانات اور اثرات
کراچی ایئر پورٹ پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے نے جہاں ایک طرف سیکیوریٹی اداروں کی نااہلی کی پول کھول دی ہے وہیں قتل و غارت گری کے اس دل خراش واقعے نے ہوائی اڈے پر کام کرنے والے ملازمین اور اُن کے اہل خانہ کو اضطراب میں مبتلا کردیا ہے کیوں کہ اس واقعے سے قبل کراچی ایئر پورٹ کو کام کے لیے ایک محفوظ جگہ تصور کیا جاتا تھا۔
ماں بیٹے کی، بیٹی باپ اور بیوی شوہر کی طرف سے مطمئن ہوتی تھی کہ اس کا بیٹا، باپ، بھائی شوہر ایک محفوظ جگہ پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ لیکن اب صورت حال اس کے بر عکس ہے۔ اب شاید کوئی ماں اپنے بیٹے کے لیے گھر کی دہلیز پر انتظار کرے گی تو کوئی بہن اپنے بھائی کی حفاظت کے لیے دعا گو رہے گی۔ اس حملے نے ہوائی اڈے پر کام کرنے والے ملازمین کے ذہنوں پر بھی نہایت بُرے اثرات مرتب کیے ہیں، جنہیں اپنے ساتھیوں سے جدائی کا غم بھلانے کے لیے عرصہ درکار ہوگا۔ ایئر پورٹ پر حملے نے نہ صرف کراچی بل کہ پورے پاکستان کے عوامی حلقوں کو بھی گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ نے رواں برس جنوری، مارچ، اور مئی 2014 میں حساس اداروں کی اطلاعات پر کراچی ایئرپورٹ اور بندرگاہوں سمیت اہم سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کی وارننگ جاری کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات سخت کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موثر حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے اے ایس ایف اور سول ایوی ایشن کی کارکردگی کے حوالے سے تحفظات پیدا ہوگئے ہیں۔ سیکیوریٹی اداروں کی نااہلی اور وزارت داخلہ کی وارننگ کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصان کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
گذشتہ ہفتے بھی محکمۂ داخلہ سندھ نے اپنی رپورٹ میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ رونما ہونے کی اطلاع دی تھی لیکن متعدد بار دہشت گردی کے خطرے کی نشان دہی کے باجود کراچی ایئر پورٹ پر حفاظتی اقدامات میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اور اتوار کی رات ہونے والے حملے میں اے ایس ایف (ایئرپورٹ سیکیوریٹی فورس) کی وردی اور سروس کارڈ کے ساتھ دس دہشت گرد پرانے ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونے میں کام یاب ہوگئے۔ ایئرپورٹ کے ٹرمینل ون میں داخل ہونے والے دس حملہ آوروں اور سیکیوریٹی فورسز میں وقفے وقفے سے گولہ باری اور دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا ۔ تقریباً 8 گھنٹے جاری رہنے والے اس آپریشن میں رینجرز، اے ایس ایف، پولیس کمانڈوز اور فوج کے اسپیشل سروسزگروپ کے کمانڈوز نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ 8 گھنٹے جاری رہنے والے اس آپریشن کے بعد سیکیوریٹی فورسز نے دس حملہ آوروں کو ہلاک کرکے اُن کے قبضے سے بھارتی ساختہ اسلحہ بھی برآمد کرلیا۔
ان دہشت گردوں نے پاکستان کے ایک بڑے اور مصروف ترین ایئر پورٹ کے فضائی آپریشن کو تیرہ گھنٹے معطل رکھا، جس سے پہلے ہی خسارے میں چلنے والے ادارے کو مزید مالی نقصان میں مبتلا کردیا۔ مالی نقصان کا ازالہ تو ممکن ہے، لیکن 28 قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا ازالہ کسی طور ممکن نہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر شدت پسندوں کے حملے نے ملک میں سیکیوریٹی اقدامات پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
ایک خبر کے مطابق ملک کا مصروف ترین جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ گذشتہ چھے ماہ سے ''سیکیوریٹی ڈائریکٹر'' سے محروم ہے۔ ایئر پورٹ ویجی لینس اور سیکیوریٹی کی سب سے اہم اسامی پر کسی ''موزوں'' امیدوار کی تعیناتی کے لیے حکام ابھی تک ناموں پر غور کر رہے ہیں۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ حملہ آور اے ایس ایف کی وردی میں ملبوس تھے اور اُن کے پاس ادارے کے شناختی کارڈز بھی موجود تھے۔ کیا اے ایس ایف کے پاس اپنے ملازمین کی شناخت کا کوئی موثر طریقہ موجود نہیں کہ جس کا بھی دل چاہے وہ جعلی کارڈ لٹکا کر ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہوجائے؟ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ کے بیان کے مطابق حملہ آور شکل و صورت سے ازبک لگتے ہیں توکیا شکل دیکھ کر بھی کسی کو شک نہیں ہوا؟ واضح رہے کہ ان نکات پر سول ایوی ایشن اور ایئرپورٹ حکام کا موقف لینے کے لیے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن کسی اہم عہدے دار نے فون اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔
کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد اعلیٰ حکومتی حکام کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی سامنے آیا اور کافی دیر تک حملے کی ذمے داری ایک دوسرے کے سر ڈالی جاتی رہی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اگلے ہی دن بیان دیا کہ انہوں نے پوری رات ایئرپورٹ پر موجود رہ کر سارے آپریشن کی نگرانی کی لیکن وفاقی وزیر داخلہ نے ان سے فون پر رابطہ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
وزیراعظم نوازشریف کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد ایئرپورٹ پر کھڑے تمام طیاروں کو تباہ کرنا چاہتے تھے اور ان کا ہدف پاکستان کے شہری ہوابازی کا نظام مفلوج کرنا تھا، رینجرز ترجمان نے مارے گئے دہشت گردوں کی شناخت کو قبل ازوقت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں نے کارروائی کے دوران روسی اور بھارتی ساختہ اسلحہ استعمال کیا جن میں ایس ایم جی، اے کے 47، دستی اور پیٹرول بم شامل ہیں۔
دہشت گردوں کی کارروائی میں کسٹمز ایئرفریٹ یونٹ کراچی میں درآمد ہونے والے قیمتی موبائل فونز، جراحی کے آلات ، ادویات، کمپیوٹراور برقی آلات جل کر خاکستر ہوگئے ہیں۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق جلنے والے اس ساز و سامان کی مالیت 5 ارب روپے سے زاید ہے، جس کے ملکی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایف بی آر کو پہلے ہی ریونیوشارٹ فال کا سامنا ہے اور حکومت کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں 2 ارب روپے سے زاید مالیت کے ریونیو سے محروم ہونا پڑے گا۔ حملے کے نتیجے میں تین جہازوں، گراؤنڈ ٹیکنیکل سپورٹ کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ کچھ ماہرین کراچی ایئر پورٹ پر حملے کو مہران ایئر بیس پر حملے جیسی کارروائی قرار دے رہے ہیں، حتمی طور پر کچھ کہنا تو قبل ازوقت ہے، لیکن ابتدائی شواہد کے مطابق مہران بیس اور کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے طریقۂ کار میں مماثلث ہے بل کہ دن اور وقت بھی تقریبا یکساں ہے۔
حملے کے کچھ دیر بعد ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اسے حکیم اﷲ محسود اور قبائلی علاقوں میں فضائی حملوں کے نتیجے میں مرنے والوں کا بدلہ قرار دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر حملہ آغاز ہے ہم آئندہ مزید کارروائیاں کریں گے۔ اگر ہمارے سیکیوریٹی ادارے اسی طرح غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے تو شدت پسند کسی بھی دن کسی بھی ادارے کو ایک بار پھر یرغمال بنا کر معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیل سکتے ہیں۔ سیکیوریٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ حفاظتی اقدامات بہتر بنائیں تاکہ مستقبل میں ایسی کارروائیوں سے محفوظ رہا جاسکے۔
ماں بیٹے کی، بیٹی باپ اور بیوی شوہر کی طرف سے مطمئن ہوتی تھی کہ اس کا بیٹا، باپ، بھائی شوہر ایک محفوظ جگہ پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ لیکن اب صورت حال اس کے بر عکس ہے۔ اب شاید کوئی ماں اپنے بیٹے کے لیے گھر کی دہلیز پر انتظار کرے گی تو کوئی بہن اپنے بھائی کی حفاظت کے لیے دعا گو رہے گی۔ اس حملے نے ہوائی اڈے پر کام کرنے والے ملازمین کے ذہنوں پر بھی نہایت بُرے اثرات مرتب کیے ہیں، جنہیں اپنے ساتھیوں سے جدائی کا غم بھلانے کے لیے عرصہ درکار ہوگا۔ ایئر پورٹ پر حملے نے نہ صرف کراچی بل کہ پورے پاکستان کے عوامی حلقوں کو بھی گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ نے رواں برس جنوری، مارچ، اور مئی 2014 میں حساس اداروں کی اطلاعات پر کراچی ایئرپورٹ اور بندرگاہوں سمیت اہم سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کی وارننگ جاری کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات سخت کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موثر حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے اے ایس ایف اور سول ایوی ایشن کی کارکردگی کے حوالے سے تحفظات پیدا ہوگئے ہیں۔ سیکیوریٹی اداروں کی نااہلی اور وزارت داخلہ کی وارننگ کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصان کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
گذشتہ ہفتے بھی محکمۂ داخلہ سندھ نے اپنی رپورٹ میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ رونما ہونے کی اطلاع دی تھی لیکن متعدد بار دہشت گردی کے خطرے کی نشان دہی کے باجود کراچی ایئر پورٹ پر حفاظتی اقدامات میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا اور اتوار کی رات ہونے والے حملے میں اے ایس ایف (ایئرپورٹ سیکیوریٹی فورس) کی وردی اور سروس کارڈ کے ساتھ دس دہشت گرد پرانے ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونے میں کام یاب ہوگئے۔ ایئرپورٹ کے ٹرمینل ون میں داخل ہونے والے دس حملہ آوروں اور سیکیوریٹی فورسز میں وقفے وقفے سے گولہ باری اور دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا ۔ تقریباً 8 گھنٹے جاری رہنے والے اس آپریشن میں رینجرز، اے ایس ایف، پولیس کمانڈوز اور فوج کے اسپیشل سروسزگروپ کے کمانڈوز نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ 8 گھنٹے جاری رہنے والے اس آپریشن کے بعد سیکیوریٹی فورسز نے دس حملہ آوروں کو ہلاک کرکے اُن کے قبضے سے بھارتی ساختہ اسلحہ بھی برآمد کرلیا۔
ان دہشت گردوں نے پاکستان کے ایک بڑے اور مصروف ترین ایئر پورٹ کے فضائی آپریشن کو تیرہ گھنٹے معطل رکھا، جس سے پہلے ہی خسارے میں چلنے والے ادارے کو مزید مالی نقصان میں مبتلا کردیا۔ مالی نقصان کا ازالہ تو ممکن ہے، لیکن 28 قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا ازالہ کسی طور ممکن نہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر شدت پسندوں کے حملے نے ملک میں سیکیوریٹی اقدامات پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
ایک خبر کے مطابق ملک کا مصروف ترین جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ گذشتہ چھے ماہ سے ''سیکیوریٹی ڈائریکٹر'' سے محروم ہے۔ ایئر پورٹ ویجی لینس اور سیکیوریٹی کی سب سے اہم اسامی پر کسی ''موزوں'' امیدوار کی تعیناتی کے لیے حکام ابھی تک ناموں پر غور کر رہے ہیں۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ حملہ آور اے ایس ایف کی وردی میں ملبوس تھے اور اُن کے پاس ادارے کے شناختی کارڈز بھی موجود تھے۔ کیا اے ایس ایف کے پاس اپنے ملازمین کی شناخت کا کوئی موثر طریقہ موجود نہیں کہ جس کا بھی دل چاہے وہ جعلی کارڈ لٹکا کر ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہوجائے؟ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ کے بیان کے مطابق حملہ آور شکل و صورت سے ازبک لگتے ہیں توکیا شکل دیکھ کر بھی کسی کو شک نہیں ہوا؟ واضح رہے کہ ان نکات پر سول ایوی ایشن اور ایئرپورٹ حکام کا موقف لینے کے لیے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن کسی اہم عہدے دار نے فون اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔
کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد اعلیٰ حکومتی حکام کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی سامنے آیا اور کافی دیر تک حملے کی ذمے داری ایک دوسرے کے سر ڈالی جاتی رہی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اگلے ہی دن بیان دیا کہ انہوں نے پوری رات ایئرپورٹ پر موجود رہ کر سارے آپریشن کی نگرانی کی لیکن وفاقی وزیر داخلہ نے ان سے فون پر رابطہ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
وزیراعظم نوازشریف کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد ایئرپورٹ پر کھڑے تمام طیاروں کو تباہ کرنا چاہتے تھے اور ان کا ہدف پاکستان کے شہری ہوابازی کا نظام مفلوج کرنا تھا، رینجرز ترجمان نے مارے گئے دہشت گردوں کی شناخت کو قبل ازوقت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں نے کارروائی کے دوران روسی اور بھارتی ساختہ اسلحہ استعمال کیا جن میں ایس ایم جی، اے کے 47، دستی اور پیٹرول بم شامل ہیں۔
دہشت گردوں کی کارروائی میں کسٹمز ایئرفریٹ یونٹ کراچی میں درآمد ہونے والے قیمتی موبائل فونز، جراحی کے آلات ، ادویات، کمپیوٹراور برقی آلات جل کر خاکستر ہوگئے ہیں۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق جلنے والے اس ساز و سامان کی مالیت 5 ارب روپے سے زاید ہے، جس کے ملکی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایف بی آر کو پہلے ہی ریونیوشارٹ فال کا سامنا ہے اور حکومت کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں 2 ارب روپے سے زاید مالیت کے ریونیو سے محروم ہونا پڑے گا۔ حملے کے نتیجے میں تین جہازوں، گراؤنڈ ٹیکنیکل سپورٹ کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ کچھ ماہرین کراچی ایئر پورٹ پر حملے کو مہران ایئر بیس پر حملے جیسی کارروائی قرار دے رہے ہیں، حتمی طور پر کچھ کہنا تو قبل ازوقت ہے، لیکن ابتدائی شواہد کے مطابق مہران بیس اور کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے طریقۂ کار میں مماثلث ہے بل کہ دن اور وقت بھی تقریبا یکساں ہے۔
حملے کے کچھ دیر بعد ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اسے حکیم اﷲ محسود اور قبائلی علاقوں میں فضائی حملوں کے نتیجے میں مرنے والوں کا بدلہ قرار دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر حملہ آغاز ہے ہم آئندہ مزید کارروائیاں کریں گے۔ اگر ہمارے سیکیوریٹی ادارے اسی طرح غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے تو شدت پسند کسی بھی دن کسی بھی ادارے کو ایک بار پھر یرغمال بنا کر معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیل سکتے ہیں۔ سیکیوریٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ حفاظتی اقدامات بہتر بنائیں تاکہ مستقبل میں ایسی کارروائیوں سے محفوظ رہا جاسکے۔