ایئرپورٹ حملے کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کی ضرورت

دہشت گردوں کو ان کے سرپرستوں نے یہ بھی باورکرا دیا ہوگا کہ وہ زندہ بچ کر نہیں آسکیں گے لہٰذا انہیں جتنازیادہ وقت۔۔۔

دہشت گردوں کو ان کے سرپرستوں نے یہ بھی باور کرا دیا ہوگا کہ وہ زندہ بچ کر نہیں آسکیں گے لہٰذا انہیں جتنازیادہ وقت ملتا، وہ اتنا زیادہ نقصان کرتے۔ فوٹو : فائل

اتوار اور پیر کی درمیانی شب کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے اچانک حملے کی وجہ سے پاکستان میں حساس سرکاری تنصیبات کی سکیورٹی کے بارے میں کئی اہم سوالات پیدا کردیئے ہیں۔

یہ اعصاب شکن خونی ڈرامہ رات کوتقریباً11بجے شروع ہوا اورصبح کی اذان تک جاری رہا۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ دہشت گرد ایئرپورٹ کے اندرداخل کیسے ہوئے؟ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاک فوج ، رینجرز ، ایئرپورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف)، پولیس اور دیگرسکیورٹی اداروں کے افسروں اور جوانوں نے جانفروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو ختم کر کے ان کی پشت پناہی کرنے والے ملک دشمن عناصر کے مکروہ عزائم کو بھی ناکام بنا دیا۔

دہشت گرد مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے بین الاقوامی ہوائی اڈے کواپنا ہدف بنایا تھا۔ اگر وہ ہوائی اڈے کے ایئر کنٹرول روم ، ہینگرز اور فیول ڈپو پرقبضہ کر لیتے اوراس قبضے کو 24 گھنٹے تک برقرار رکھ لیتے تو وہ مملکت خداداد پاکستان کو کمزور''بارگیننگ پوزیشن'' پر لے جاتے تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی لیکن سکیورٹی اداروں نے اپنی جانوں پرکھیل کر ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا ۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اے ایس ایف ، رینجرز اور پولیس کے متعددجوان شہید ہوگئے۔

شہداء میں دیگر لوگ بھی شامل ہیں۔ اگرچہ دہشت گردوں کے حملوں میں 27 افراد شہید اور 29 زخمی ہوئے، اس کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو کامیاب قراردیا جاسکتا ہے کیونکہ دہشت گرد تو یہ طے کرکے آئے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جان ومال کا نقصان کریں گے۔ دہشت گردوں کو ان کے سرپرستوں نے یہ بھی باور کرا دیا ہوگا کہ وہ زندہ بچ کر نہیں آسکیں گے لہٰذا انہیں جتنازیادہ وقت ملتا، وہ اتنا زیادہ نقصان کرتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تویہ صرف پانچ گھنٹے میں اس منظم حملے کو ناکام بنانا یقیناً کامیابی ہے۔ اس حوالے سے سکیورٹی ادارے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔


بالکل اسی طرح کا دہشت گردوں کا ایک حملہ چند سال پہلے پی این ایس مہران پر بھی ہوا تھا۔ کراچی ایئرپورٹ کا عقبی علاقہ اور پی این ایس مہران کا بھی عقبی علاقہ ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ درمیاں میں انہیں ایک سڑک علیحدہ کرتی ہے۔ دونوں حملوں میں مماثلت ہے۔ دونوں حملوں میں حملہ آورعقبی علاقوں سے داخل ہوئے۔ حالانکہ ان عقبی علاقوں میں بھی چیک پوسٹس موجود ہیں ۔ دونوں حملے رات کے وقت ہوئے۔ دہشت گردوں کے حملہ کرنے کا طریقہ ایک تھا۔ دونوں حملوں میں اسلحہ اور ہتھیار بھی تقریباً ایک جیسے استعمال ہوئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی این ایس مہران میں مارے جانے والے دہشت گرد شکلوں سے تاجک،ازبک اور افغان لگتے تھے، جن کی شناخت آج تک سامنے نہیں آسکی ہے۔

کراچی ایئرپورٹ پر 10 حملہ آور دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی یہی بتایا جا رہا ہے کہ وہ شکل سے تاجک، ازبک اور افغان ہیں۔ پی این ایس مہران میں بھی حملہ آوروں کا ہدف ہینگرز میں کھڑے طیارے تھے اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے میں بھی دہشت گردوں کا ہدف ہینگرز میں کھڑے ہوئے طیارے تھے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پی این ایس مہران پر حملے کے بعد ایئرپورٹ کے عقبی علاقے کو زیادہ محفوظ نہیں بنایا گیا۔ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت اور متعلقہ اداروں کو ایک خط کے ذریعہ آگاہ کر دیا تھا کہ کراچی میں دہشت گرد کوئی بڑی کارروائی کر سکتے ہیں۔ پورے کراچی میں ریڈ الرٹ کی صورتحال تھی۔ مگر دہشت گردایئرپورٹ کے اندر بھاری اسلحہ کے ساتھ داخل ہوگئے۔ دوسری طرف طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس بات کی توقع بھی تھی کہ طالبان ہی ذمہ داری قبول کریں گے۔ لیکن معاملہ اس قدر سادہ نہیں ہے۔ کراچی ایئرپورٹ پرحملے کی بہت سے پہلوؤں سے تحقیقات ہونی چاہئے۔ اس حملے نے ایئرپورٹس کی سکیورٹی پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے اوراس سے پاکستان میں ٹریول اور ٹورازم کوبہت نقصان ہو سکتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹوزرداری اورشریک چیئرمین آصف علی زرداری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں وزیراعلیٰ سندھ اور پولیس حکام کو مسلسل معلومات فراہم کرتے رہے اور ہدایات دیتے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری خود ایئرپورٹ جانا چاہتے تھے لیکن وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے انہیں وہاں آنے سے روک دیا۔ ان کی ہدایت پر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ پوری رات ایئرپورٹ پر موجود رہے اور اگلے مورچوں پر لڑنے والی فورسز کی قیادت کی۔ وہ شاید پہلے وزیراعلیٰ ہیں جوآپریشن کے خاتمے تک موقع پر موجود رہے۔

اس سے فورسز کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید اویس مظفراور دیگررہنما بھی ان کے ہمراہ تھے۔ دوسرے دن پیر کو بلاول بھٹو زرداری سکیورٹی کی پرواہ کیے بغیر جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) پہنچ گئے اور ایئرپورٹ پر زخمی ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی عیادت کی۔ انہوں نے زخمیوں کو ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت کے ذمہ داران کے اس رویے سے نہ صرف فورسزکی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ خاندانوں کی بھی ڈھارس بندھی۔ تاہم وزیراعلیٰ سندھ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان سے رابطہ تک نہیں کیا۔ وفاقی حکومت کا یہ رویہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
Load Next Story