رمضان میں اکابر کا معمول اور قرآن سے خصوصی شغف
قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک خاص رات میں نازل ہوا۔ اس مبارک رات کو لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ بہت ہی بابرکت مہینہ ہے۔ رمضان المبارک کو مہینوں کا سردار کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس پورے مہینہ کا روزے مسلمانوں پر فرض کیے ہیں۔
اس مہینہ کی اہمیت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ رجب سے ہی رمضان المبارک میں پہنچنے کی دعا شروع کردیتے تھے۔ آپ ﷺ دعا کرتے تھے:''اے اللہ! ہمارے لیے رجب وشعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینہ تک پہنچا (شعب الایمان: 3534)''
رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں:''میری امت رمضان کے حوالے سے پانچ ایسی چیزوں سے نوازی گئی ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو وہ چیزیں نہیں دی گئیں۔ پہلی چیز: جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے اللہ تعالی اس امت کی طرف دیکھتے ہیں اور اللہ تعالی جن کی طرف دیکھ لیتے ہیں، ان کو کبھی بھی عذاب نہیں دیتے۔ دوسری چیز: افطار کے وقت روزہ داروں کے منہ کی خوشبو اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔ تیسری چیز: فرشتے ان کے لیے دن ورات استغفار کرتے ہیں۔ چوتھی چیز: اللہ اپنی جنت کو حکم کرتے ہوئے فرماتا ہے: میرے بندوں کے لیے تزئین کرلو اور تیار ہوجاؤ۔ پانچویں چیز: جب (رمضان) کی آخری رات ہوتی ہے، تو(اللہ تعالی) ان سب کو معاف فرمادیتے ہیں۔(شعب الایمان: 3331)''
قرآن کریم اسی ماہ مبارک رمضان میں نازل ہوا۔ فرمان خداوندی ہے: ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ (سورۃ بقرۃ: 185)
قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک خاص رات میں نازل ہوا۔ اس مبارک رات کو لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ: بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ (سورۃ القدر:1)
قرآن کریم کا ماہ رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو ''لوح محفوظ سے آسمان اول پر۔'' بیت العزت میں بیک وقت شب قدر میں اتارا۔ پھراللہ تعالی نے بیت العزت سے ضرورت کے مطابق تئیس سالوں میں نبی اکرم صلی ﷺ تک حضرت جبریل علیہ السلام کے معرفت بھیجا۔
مشہور مفسر عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بصری لکھتے ہیں:''ابن عباس وغیرہ (رضی اللہ عنہم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پورا قرآن شریف لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر بیت العزت میں یکبارگی (شب قدر میں) نازل فرمایا۔ پھر واقعات کے مطابق تفصیل وار تئیس سالوں میں رسول اللہﷺ پر (تھوڑا تھوڑا) نازل ہوا۔ (تفسیر ابن کثیر 8/441)''
قرآن کریم کا رمضان میں نازل ہونا ایک حقیقت ہے۔ رمضان سے قرآن کریم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ہمیں رمضان کے اوقات وساعات کی قدر کرتے ہوئے، روزہ کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہنا چاہیے۔ رمضان اور قرآن ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ یہ دونوں قیامت کے دن روزہ رکھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش بھی کریں گے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن قیامت کے دن (روزہ رکھنے والے اور تلاوت کرنے والے کے حق میں) سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے سے روک دیا تھا؛ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمالیں! قرآن کریم کہے گا: اے میرے رب! میں نے رات میں اس کو سونے سے روک دیا تھا؛ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرلیں۔ پھر ان دونوں کی سفارشیں قبول کرلی جائیں گی۔ (حلیۃ الاولیا وطبقات الاصفیا ئ8 /161)
قارئین کرام! ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اپنا وقت زیادہ تر قرآن کریم میں تدبروتفکر اور اس کی تلاوت وقرات میں گزاریں۔ یہ عمل جہاں ہمیں رمضان جیسے مبارک مہینے میں ادھر ادھر کی لغو اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھے گا وہیں اس عمل سے آخرت بھی سدھرے گی اور من جانب اللہ بڑا اجر و ثواب بھی ملے گا۔ اللہ تعالی نے ہمارے اسلاف واکابر کو اس حوالے توفیق دی اور وہ رمضان المبارک میں سارے مشاغل سے دور رہ کر اپنے اکثر اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں ہی صرف کرتے تھے۔
امام الانبیاء ؐکا رمضان میں تلاوت قرآن کرنا
نبی اکرم ﷺ کا بھی یہ معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک میں حضرت جبریلؑ کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓرمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت وغم خواری اور حضرت جبرئیلؑ کے ساتھ قرآن کریم کے دور کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ خیر کے معاملے میں لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت رمضان میں اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرئیلؐؑ آپ ﷺ سے ملتے۔ جبرئیلؑ آپ ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے، تا آں کہ رمضان ختم ہوجاتا۔ آپ ﷺ جبرئیلؑؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے۔ جب جبرئیلؑ آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 1902)
اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں جہاں ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، وہیں ہمیں صدقات وخیرات میں سخاوت سے کام لینا چاہیے۔
رمضان میں ساٹھ قرآن ختم
حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی شخصیت عوام وخواص میں جانی پہچانی ہے۔ امام صاحب کے بارے میں علی بن زید صیدانی بیان کرتے ہیں کہ وہ رمضان میں ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے، ایک ختم دن میں اور ایک ختم رات میں۔ (التدوین فی اخبار قزوین 2 /332)
قرآن کی تلاوت اور دل چسپی
حضرت امام مالک ؒ کے بارے میں ابن عبدالحکیم فرماتے ہیں: ''جب رمضان کا مہینہ آتا تو امام مالک حدیث کی تدریس اور اہل علم کی مجلسوں سے دور رہتے اور پوری دل چسپی سے قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کرتے۔ (لطائف المعارف لابن رجب 1/171)
ہر رات ایک قرآن ختم
امام شافعی ؒ شروع میں طلب علم میں مشغولیت کی وجہ سے قرآن کی تلاوت کم کرتے تھے۔ پھر آخر عمر میں بہت زیادہ تلاوت کرتے تھے۔ ربیع آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ ماہ رمضان میں آپ ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے۔ (المنتظم فی تاریخ المم والملو 10 /135)
نفلی عبادت اور قرآن کی تلاوت
حضرت سفیان ثوری ؒ کے بارے میں عبد الرزاق فرماتے ہیں: جب رمضان آتا تو سفیان ثوری رحمہ اللہ ساری (نفلی) عبادتوں کو چھوڑ دیتے اور پوری دل چسپی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ (لطائف المعارف لابن رجب 1/171)
رمضان اور سترہ قرآن
ولید بن عبد الملک بنوامیہ کے نام ور اور مشہور خلیفہ تھے۔ آپ کے بارے میں ابراہیم بن ابوعبلہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے انہوں نے ایک دن پوچھا: کتنے دن میں قرآن ختم کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا اتنے اتنے دنوں میں۔ پھر وہ بولے: امیر المومنین مشغول ہونے کے باوجود تین دن میں ایک قرآن ختم کرتا ہے۔ وہ ماہ رمضان میں سترہ قرآن ختم کرتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ9 /182)
تین دنوں میں قرآن ختم
امام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بخاری ؒ کے رمضان کا معمول بیان کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی ؒفرماتے ہیں: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی تو امام بخاری اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے۔ آپ ان کی امامت کرتے اور ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت کرتے۔ یہی آپ کا معمول رہتا، تا آں کہ آپ قرآن مکمل کرتے۔ اور آپ سحری کے وقت تک نصف سے ثلث قرآن کے درمیان تک پڑھتے چناںچہ ہر تیسری رات کو سحری کے وقت ایک قرآن ختم کرتے۔ آپ دن میں ہر روز ایک قرآن ختم کرتے۔ (فتح الباری 1/ 481)
ماہ رمضان میں نوے قرآن ختم
محمد بن زہیر بن قمیر فرماتے ہیں: میرے والد ہم سب کو رمضان میں قرآن کریم ختم کرتے وقت جمع کرتے تھے۔ ایک دن ورات میں تین قرآن ختم کرتے تھے۔ ماہ رمضان میں نوے قرآن ختم کرلیا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد 8/ 485)
امام بغوی (433 516 ھ) زہیر محمد بن قمیر کے بارے میں فرماتے ہیں: امام احمد بن حنبل کے بعد، ان (زہیر محمد بن قمیر)سے بہتر کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ وہ رمضان میں نوے قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (العبر فی خبر من غبر 1 / 369)
33 مرتبہ قرآن ختم
مامون رشید مشہور ومعروف عباسی خلفاء میں سے تھے۔ اللہ تعالی نے ان کو علم، حلم اور شجاعت وبہادری سے نوازا تھا۔ انہوں نے خلق قرآن کے حوالے سے علماء کرام پر ظلم کیا۔ یہ ان کی زندگی کی ناگفتہ بہ حقیقت ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے: وہ بعض رمضان میں 33 مرتبہ قرآن کریم ختم کرلیا کرتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/226)
تین قرآن ختم
ابوجعفر محمد بن عبد اللہ فرغانی فرماتے ہیں کہ ابو العباس بن عطا نے فرمایا: اے ابو جعفر! بہت سالوں سے ہر روز میں ایک قرآن ختم کرتا ہوں۔ رمضان میں ایک دن اور رات میں تین قرآن ختم کرتا ہوں۔ (صفۃ الصفوۃ 1/533)
ایک رات میں ایک قرآن
حضرت قتادہ ؒہر سات رات میں ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے۔ جب رمضان آتا تو ہر تین رات میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ جب آخری عشرہ ہوتا تو ہر ایک رات میں ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (نداء الریان فی فقہ الصوم وفضل رمضان 1 /198)
قرآن مجید میں تدبر وتفکر
حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانیؒ حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کا رمضان میں قرآن کریم میں تدبروتفکر کے حوالے سے رقم طراز ہیں: علم کی گہرائی اور دقت نظر کا کچھ اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حضرت نے اپنا یہ حال خود ایک دفعہ بیان فرمایا کہ میں رمضان مبارک میں قرآن مجید شروع کرتا ہوں اور تدبر وتفکر کے ساتھ اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں لیکن کبھی پورا نہیں ہوتا۔ جب دیکھتا ہوں کہ آج رمضان المبارک ختم ہونے والا ہے تو پھر اپنے خاص طرز کو چھوڑ کر جو کچھ باقی ہوتا ہے اس دن ختم کرکے دور پورا کرلیتا ہوں۔ یہ عاجز (حضرت نعمانی) عرض کرتا ہے کہ رمضان المبارک میں کبھی حضرت کے قریب رہنے کا اتفاق تو نہیں ہوا لیکن یہ معلوم ہے کہ آپ انزل فیہ القرآن والے اس مبارک مہینہ میں زیادہ وقت قرآن مجید ہی کی تلاوت اور تدبر وتفکر پر صرف فرماتے تھے۔ اس کے باوجود قرآن کریم ختم نہیں کرپاتے تھے۔ (عبد الرحمن کوندو، الانور، ص: 307)
روزانہ ایک قرآن ختم
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ؒ حدیث اور علوم حدیث کے ایک اہم اسکالر کے طور پر عرب وعجم میں مشہور تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو درس وتدریس، تعلیم وتعلم، تصنیف وتالیف، عبادت وریاضت اور اصلاح وتزکیے کے لیے وقف کررکھا تھا۔ رمضان میں کئی سالوں تک آپ کا یہ معمول رہا کہ آپ روزانہ ایک قرآن کریم ختم کرتے۔ آپ رقم طراز ہیں: (سن) 38 ہجری سے ماہ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا، جو تقریباً (سن) 80 ہجری تک رہا بلکہ اس کے بھی بعد تک (رہا)۔ (آپ بیتی 1/ 72)
رمضان میں چالیس پارے روزانہ
حضرت شیخ الحدیث صاحب کی دادی محترمہ قرآن کریم کی حافظہ تھیں۔ آپ کو دوران حفظ اپنی دادی سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے۔ آپ ان کی تلاوت قرآن پاک کے بارے میں لکھتے ہیں: میری دادی صاحبہ حافظہ تھیں اور بہت اچھا یاد تھا۔ سال بھر کا معمول، خانگی مشاغل، کھانے پکانے کے علاوہ، ایک منزل روزانہ کا تھا اور رمضان میں چالیس پارے روزانہ کا تھا۔ (آپ بیتی 1/ 72)
یومیہ قرآن کا ختم
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ رمضان المبارک میں روزانہ مکمل قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب آپ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: رمضان المبارک میں یہ معمول اتنا بڑھ جاتا تھا کہ یومیہ پورا قرآن مجید پڑھتے تھے۔ (تذکرہ شیخ الکل مولانا سلیم اللہ خانؒ، ص: 132)
قارئین کرام! ہمارے اسلاف واکابر رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ساتھ کس طرح چمٹے رہتے تھے۔ دراصل وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کی تلاوت اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ وہ تلاوتِ قرآن کریم کی توفیق کو اپنے لیے خوش قسمتی سمجھتے تھے۔ ہمیں بھی اپنے بڑوں سے سیکھ کر، قرآن کریم تلاوت کو شب وروز کا معمول بنانا چاہیے۔ خاص کر رمضان المبارک کے مہینے میں، ہمیں پوری دل چسپی اور لگن کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر ایک شخص ساری نفلی عبادتوں کو چھوڑ دے، تاآں کہ وہ تسبیح وتہلیل اور دعا وغیرہ کو بھی چھوڑ کر، صرف تلاوت قرآن کریم میں مشغول رہتا ہے تو اللہ پاک اس کی ساری مرادیں پوری فرمائیں گے۔
تلاوت قرآن میں مشغولیت کی وجہ سے دعا بھی نہیں مانگ سکا تو اللہ تعالی اس شخص کو وہ چیزیں بھی عطا فرمائیں گے جو مانگنے سے رہ گئیں ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے:
ترجمہ: جس شخص کو قرآن کریم میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے سے مشغول کردے میں اس شخص کو اس سے بہتر دیتا ہوں جو میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں۔ (ترمذی: 2926)
رمضان کے مبارک مہینہ میں، اکابر واسلاف اور علما ء وصلحا کا قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور قرات وتلاوت نذر قارئین کیا ہے۔ وہ قرآن کریم کے ساتھ ان کی دل چسپی، شغف اور محبت وعقیدت کا بین ثبوت ہے۔ ہمیں بھی خود کو قرآن کریم کے حوالے سے کچھ اسی طرح کی جدوجہد اور سعی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جب ہم خود کو اس پاک ذات کے کلام کے ساتھ مشغول رکھیں گے اس کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے تو وہ پاک ذات بھی ہمیں پسند کرے گی اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرما لے گی اور ہماری آخرت سنور جائے گی۔
ایمان بسا دل میں ہے پہچان میں آجا
اے پیارے مرے حلقہ قرآن میں آجا
کیوں تجھ کو تردد ہے پس وپیش میں کیوں ہے
عارف ہے تو میخانۂ عرفان میں آجا
مل جائے گی پھر عظمت رفتہ تجھے ناداں
تو بابِ عمل کھول کے میدان میں آجا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کے قیمتی اوقات کے قدر کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)
اس مہینہ کی اہمیت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ رجب سے ہی رمضان المبارک میں پہنچنے کی دعا شروع کردیتے تھے۔ آپ ﷺ دعا کرتے تھے:''اے اللہ! ہمارے لیے رجب وشعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینہ تک پہنچا (شعب الایمان: 3534)''
رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں:''میری امت رمضان کے حوالے سے پانچ ایسی چیزوں سے نوازی گئی ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو وہ چیزیں نہیں دی گئیں۔ پہلی چیز: جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے اللہ تعالی اس امت کی طرف دیکھتے ہیں اور اللہ تعالی جن کی طرف دیکھ لیتے ہیں، ان کو کبھی بھی عذاب نہیں دیتے۔ دوسری چیز: افطار کے وقت روزہ داروں کے منہ کی خوشبو اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔ تیسری چیز: فرشتے ان کے لیے دن ورات استغفار کرتے ہیں۔ چوتھی چیز: اللہ اپنی جنت کو حکم کرتے ہوئے فرماتا ہے: میرے بندوں کے لیے تزئین کرلو اور تیار ہوجاؤ۔ پانچویں چیز: جب (رمضان) کی آخری رات ہوتی ہے، تو(اللہ تعالی) ان سب کو معاف فرمادیتے ہیں۔(شعب الایمان: 3331)''
قرآن کریم اسی ماہ مبارک رمضان میں نازل ہوا۔ فرمان خداوندی ہے: ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ (سورۃ بقرۃ: 185)
قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک خاص رات میں نازل ہوا۔ اس مبارک رات کو لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ: بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ (سورۃ القدر:1)
قرآن کریم کا ماہ رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو ''لوح محفوظ سے آسمان اول پر۔'' بیت العزت میں بیک وقت شب قدر میں اتارا۔ پھراللہ تعالی نے بیت العزت سے ضرورت کے مطابق تئیس سالوں میں نبی اکرم صلی ﷺ تک حضرت جبریل علیہ السلام کے معرفت بھیجا۔
مشہور مفسر عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بصری لکھتے ہیں:''ابن عباس وغیرہ (رضی اللہ عنہم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پورا قرآن شریف لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر بیت العزت میں یکبارگی (شب قدر میں) نازل فرمایا۔ پھر واقعات کے مطابق تفصیل وار تئیس سالوں میں رسول اللہﷺ پر (تھوڑا تھوڑا) نازل ہوا۔ (تفسیر ابن کثیر 8/441)''
قرآن کریم کا رمضان میں نازل ہونا ایک حقیقت ہے۔ رمضان سے قرآن کریم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ہمیں رمضان کے اوقات وساعات کی قدر کرتے ہوئے، روزہ کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہنا چاہیے۔ رمضان اور قرآن ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ یہ دونوں قیامت کے دن روزہ رکھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش بھی کریں گے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن قیامت کے دن (روزہ رکھنے والے اور تلاوت کرنے والے کے حق میں) سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے سے روک دیا تھا؛ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمالیں! قرآن کریم کہے گا: اے میرے رب! میں نے رات میں اس کو سونے سے روک دیا تھا؛ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرلیں۔ پھر ان دونوں کی سفارشیں قبول کرلی جائیں گی۔ (حلیۃ الاولیا وطبقات الاصفیا ئ8 /161)
قارئین کرام! ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اپنا وقت زیادہ تر قرآن کریم میں تدبروتفکر اور اس کی تلاوت وقرات میں گزاریں۔ یہ عمل جہاں ہمیں رمضان جیسے مبارک مہینے میں ادھر ادھر کی لغو اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھے گا وہیں اس عمل سے آخرت بھی سدھرے گی اور من جانب اللہ بڑا اجر و ثواب بھی ملے گا۔ اللہ تعالی نے ہمارے اسلاف واکابر کو اس حوالے توفیق دی اور وہ رمضان المبارک میں سارے مشاغل سے دور رہ کر اپنے اکثر اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں ہی صرف کرتے تھے۔
امام الانبیاء ؐکا رمضان میں تلاوت قرآن کرنا
نبی اکرم ﷺ کا بھی یہ معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک میں حضرت جبریلؑ کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓرمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت وغم خواری اور حضرت جبرئیلؑ کے ساتھ قرآن کریم کے دور کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ خیر کے معاملے میں لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت رمضان میں اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرئیلؐؑ آپ ﷺ سے ملتے۔ جبرئیلؑ آپ ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے، تا آں کہ رمضان ختم ہوجاتا۔ آپ ﷺ جبرئیلؑؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے۔ جب جبرئیلؑ آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 1902)
اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں جہاں ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، وہیں ہمیں صدقات وخیرات میں سخاوت سے کام لینا چاہیے۔
رمضان میں ساٹھ قرآن ختم
حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی شخصیت عوام وخواص میں جانی پہچانی ہے۔ امام صاحب کے بارے میں علی بن زید صیدانی بیان کرتے ہیں کہ وہ رمضان میں ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے، ایک ختم دن میں اور ایک ختم رات میں۔ (التدوین فی اخبار قزوین 2 /332)
قرآن کی تلاوت اور دل چسپی
حضرت امام مالک ؒ کے بارے میں ابن عبدالحکیم فرماتے ہیں: ''جب رمضان کا مہینہ آتا تو امام مالک حدیث کی تدریس اور اہل علم کی مجلسوں سے دور رہتے اور پوری دل چسپی سے قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کرتے۔ (لطائف المعارف لابن رجب 1/171)
ہر رات ایک قرآن ختم
امام شافعی ؒ شروع میں طلب علم میں مشغولیت کی وجہ سے قرآن کی تلاوت کم کرتے تھے۔ پھر آخر عمر میں بہت زیادہ تلاوت کرتے تھے۔ ربیع آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ ماہ رمضان میں آپ ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے۔ (المنتظم فی تاریخ المم والملو 10 /135)
نفلی عبادت اور قرآن کی تلاوت
حضرت سفیان ثوری ؒ کے بارے میں عبد الرزاق فرماتے ہیں: جب رمضان آتا تو سفیان ثوری رحمہ اللہ ساری (نفلی) عبادتوں کو چھوڑ دیتے اور پوری دل چسپی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ (لطائف المعارف لابن رجب 1/171)
رمضان اور سترہ قرآن
ولید بن عبد الملک بنوامیہ کے نام ور اور مشہور خلیفہ تھے۔ آپ کے بارے میں ابراہیم بن ابوعبلہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے انہوں نے ایک دن پوچھا: کتنے دن میں قرآن ختم کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا اتنے اتنے دنوں میں۔ پھر وہ بولے: امیر المومنین مشغول ہونے کے باوجود تین دن میں ایک قرآن ختم کرتا ہے۔ وہ ماہ رمضان میں سترہ قرآن ختم کرتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ9 /182)
تین دنوں میں قرآن ختم
امام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بخاری ؒ کے رمضان کا معمول بیان کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی ؒفرماتے ہیں: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی تو امام بخاری اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے۔ آپ ان کی امامت کرتے اور ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت کرتے۔ یہی آپ کا معمول رہتا، تا آں کہ آپ قرآن مکمل کرتے۔ اور آپ سحری کے وقت تک نصف سے ثلث قرآن کے درمیان تک پڑھتے چناںچہ ہر تیسری رات کو سحری کے وقت ایک قرآن ختم کرتے۔ آپ دن میں ہر روز ایک قرآن ختم کرتے۔ (فتح الباری 1/ 481)
ماہ رمضان میں نوے قرآن ختم
محمد بن زہیر بن قمیر فرماتے ہیں: میرے والد ہم سب کو رمضان میں قرآن کریم ختم کرتے وقت جمع کرتے تھے۔ ایک دن ورات میں تین قرآن ختم کرتے تھے۔ ماہ رمضان میں نوے قرآن ختم کرلیا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد 8/ 485)
امام بغوی (433 516 ھ) زہیر محمد بن قمیر کے بارے میں فرماتے ہیں: امام احمد بن حنبل کے بعد، ان (زہیر محمد بن قمیر)سے بہتر کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ وہ رمضان میں نوے قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (العبر فی خبر من غبر 1 / 369)
33 مرتبہ قرآن ختم
مامون رشید مشہور ومعروف عباسی خلفاء میں سے تھے۔ اللہ تعالی نے ان کو علم، حلم اور شجاعت وبہادری سے نوازا تھا۔ انہوں نے خلق قرآن کے حوالے سے علماء کرام پر ظلم کیا۔ یہ ان کی زندگی کی ناگفتہ بہ حقیقت ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے: وہ بعض رمضان میں 33 مرتبہ قرآن کریم ختم کرلیا کرتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/226)
تین قرآن ختم
ابوجعفر محمد بن عبد اللہ فرغانی فرماتے ہیں کہ ابو العباس بن عطا نے فرمایا: اے ابو جعفر! بہت سالوں سے ہر روز میں ایک قرآن ختم کرتا ہوں۔ رمضان میں ایک دن اور رات میں تین قرآن ختم کرتا ہوں۔ (صفۃ الصفوۃ 1/533)
ایک رات میں ایک قرآن
حضرت قتادہ ؒہر سات رات میں ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے۔ جب رمضان آتا تو ہر تین رات میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ جب آخری عشرہ ہوتا تو ہر ایک رات میں ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (نداء الریان فی فقہ الصوم وفضل رمضان 1 /198)
قرآن مجید میں تدبر وتفکر
حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانیؒ حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کا رمضان میں قرآن کریم میں تدبروتفکر کے حوالے سے رقم طراز ہیں: علم کی گہرائی اور دقت نظر کا کچھ اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حضرت نے اپنا یہ حال خود ایک دفعہ بیان فرمایا کہ میں رمضان مبارک میں قرآن مجید شروع کرتا ہوں اور تدبر وتفکر کے ساتھ اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں لیکن کبھی پورا نہیں ہوتا۔ جب دیکھتا ہوں کہ آج رمضان المبارک ختم ہونے والا ہے تو پھر اپنے خاص طرز کو چھوڑ کر جو کچھ باقی ہوتا ہے اس دن ختم کرکے دور پورا کرلیتا ہوں۔ یہ عاجز (حضرت نعمانی) عرض کرتا ہے کہ رمضان المبارک میں کبھی حضرت کے قریب رہنے کا اتفاق تو نہیں ہوا لیکن یہ معلوم ہے کہ آپ انزل فیہ القرآن والے اس مبارک مہینہ میں زیادہ وقت قرآن مجید ہی کی تلاوت اور تدبر وتفکر پر صرف فرماتے تھے۔ اس کے باوجود قرآن کریم ختم نہیں کرپاتے تھے۔ (عبد الرحمن کوندو، الانور، ص: 307)
روزانہ ایک قرآن ختم
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ؒ حدیث اور علوم حدیث کے ایک اہم اسکالر کے طور پر عرب وعجم میں مشہور تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو درس وتدریس، تعلیم وتعلم، تصنیف وتالیف، عبادت وریاضت اور اصلاح وتزکیے کے لیے وقف کررکھا تھا۔ رمضان میں کئی سالوں تک آپ کا یہ معمول رہا کہ آپ روزانہ ایک قرآن کریم ختم کرتے۔ آپ رقم طراز ہیں: (سن) 38 ہجری سے ماہ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا، جو تقریباً (سن) 80 ہجری تک رہا بلکہ اس کے بھی بعد تک (رہا)۔ (آپ بیتی 1/ 72)
رمضان میں چالیس پارے روزانہ
حضرت شیخ الحدیث صاحب کی دادی محترمہ قرآن کریم کی حافظہ تھیں۔ آپ کو دوران حفظ اپنی دادی سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے۔ آپ ان کی تلاوت قرآن پاک کے بارے میں لکھتے ہیں: میری دادی صاحبہ حافظہ تھیں اور بہت اچھا یاد تھا۔ سال بھر کا معمول، خانگی مشاغل، کھانے پکانے کے علاوہ، ایک منزل روزانہ کا تھا اور رمضان میں چالیس پارے روزانہ کا تھا۔ (آپ بیتی 1/ 72)
یومیہ قرآن کا ختم
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ رمضان المبارک میں روزانہ مکمل قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب آپ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: رمضان المبارک میں یہ معمول اتنا بڑھ جاتا تھا کہ یومیہ پورا قرآن مجید پڑھتے تھے۔ (تذکرہ شیخ الکل مولانا سلیم اللہ خانؒ، ص: 132)
قارئین کرام! ہمارے اسلاف واکابر رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ساتھ کس طرح چمٹے رہتے تھے۔ دراصل وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کی تلاوت اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ وہ تلاوتِ قرآن کریم کی توفیق کو اپنے لیے خوش قسمتی سمجھتے تھے۔ ہمیں بھی اپنے بڑوں سے سیکھ کر، قرآن کریم تلاوت کو شب وروز کا معمول بنانا چاہیے۔ خاص کر رمضان المبارک کے مہینے میں، ہمیں پوری دل چسپی اور لگن کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر ایک شخص ساری نفلی عبادتوں کو چھوڑ دے، تاآں کہ وہ تسبیح وتہلیل اور دعا وغیرہ کو بھی چھوڑ کر، صرف تلاوت قرآن کریم میں مشغول رہتا ہے تو اللہ پاک اس کی ساری مرادیں پوری فرمائیں گے۔
تلاوت قرآن میں مشغولیت کی وجہ سے دعا بھی نہیں مانگ سکا تو اللہ تعالی اس شخص کو وہ چیزیں بھی عطا فرمائیں گے جو مانگنے سے رہ گئیں ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے:
ترجمہ: جس شخص کو قرآن کریم میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے سے مشغول کردے میں اس شخص کو اس سے بہتر دیتا ہوں جو میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں۔ (ترمذی: 2926)
رمضان کے مبارک مہینہ میں، اکابر واسلاف اور علما ء وصلحا کا قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور قرات وتلاوت نذر قارئین کیا ہے۔ وہ قرآن کریم کے ساتھ ان کی دل چسپی، شغف اور محبت وعقیدت کا بین ثبوت ہے۔ ہمیں بھی خود کو قرآن کریم کے حوالے سے کچھ اسی طرح کی جدوجہد اور سعی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جب ہم خود کو اس پاک ذات کے کلام کے ساتھ مشغول رکھیں گے اس کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے تو وہ پاک ذات بھی ہمیں پسند کرے گی اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرما لے گی اور ہماری آخرت سنور جائے گی۔
ایمان بسا دل میں ہے پہچان میں آجا
اے پیارے مرے حلقہ قرآن میں آجا
کیوں تجھ کو تردد ہے پس وپیش میں کیوں ہے
عارف ہے تو میخانۂ عرفان میں آجا
مل جائے گی پھر عظمت رفتہ تجھے ناداں
تو بابِ عمل کھول کے میدان میں آجا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کے قیمتی اوقات کے قدر کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)