’’ہم بنگلادیشی ہے۔۔۔ہمارا شوہر پاکستانی پنجابی‘‘

ہر طرف تُرک برانڈز، ایک بھی غیرملکی اسٹور نظر نہیں آیا

فوٹو : فائل

(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ آٹھواں پڑاؤ)

''مجھے لگتا ہے کہ میں عطار کا ایک پرندہ ہوں نہ معلوم منزل کی جانب ایک کھوج، جستجو کے عشق میں اڑی جاتی ہوں۔ سفر سے عشق میرے بچپنے کا عشق ہے مگر عشق کی سات منزلیں عبور کرنا میرے بس میں کہاں''

عشق آوارگی (ناہید سلطانہ مرزا)

یہ اقتباس میں نے ناہید سلطانہ مرزا کے سفرنامے عشق آوارگی کے ابتدائیے سے لیا ہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہر سیاح کے اندر عطار کا پرندہ رہتا ہے جو نامعلوم منزلوں کی کھوج میں اڑا جاتا ہے۔

میں نے اپنے ساتواں پڑاؤ میں آیا صوفیہ اور مسجد سلطان کا ذکر کیا تھا۔ استنبول میں عہدخلافت کی کافی تعداد میں مساجد موجود ہیں جو طرزتعمیر کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ استنبول کے مشرقی حصے میں اتنی زیادہ تعداد میں مساجد نہیں ہوں گی، کیوںکہ یہ کافی ماڈرن علاقہ ہے یہاں کافی یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ ہمارا ارادہ صبح جلدی اٹھنے کا تھا۔ میرے لیے تو مشکل نہ تھا، میں رات کتنی بھی دیر سے سوتی ہوں مگر سویرے جلدی آنکھ کھل جاتی ہے، مگر ہمارے بیٹے عبدالعزیز تو دیر سے اٹھنے کے ماہر ہیں۔

سویرے ہی کمرے میں کچھ ہلچل کا احساس ہوا تو دیکھا عزیز صاحب تو بالکل تیار ہیں اور جوتے پہن رہے ہیں۔ ارے بیٹا! اتنی جلدی سویرا ہوگیا یا استنبول میں سورج جلدی نکلتا ہے۔ اماں! آج تقسیم اسکوائر جانا ہے پھر ڈول مچاوی جانا ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ آپ بھی جلدی سے تیار ہوجائیں۔ میں تو ناشتا کرنے جارہا ہوں۔ وہ مشرقی حصہ دیکھنے کے لیے بہت بے تاب تھا۔

میں جب تیار ہوکر ڈائننگ ہال میں آئی تو وہ مکمل بھرچکا تھا۔ آج آسمان پر بادل تھے اور فضا میں ہلکی خوش گوار سی ٹھنڈک تھی۔ لوگ سب وہی تھے صرف دو انگریز خواتین کا اضافہ ہوا تھا۔ شکل سے دونوں ماں بیٹی لگ رہی تھیں مگر خاموشی سے ناشتا کررہی تھیں۔ کونے والی میز پر وہی گورا تھا جو تب تک موجود رہتا تھا جب تک ناشتے کا وقت ختم نہیں ہو جاتا تھا پھر اپنا پروفیشنل کیمرا اٹھاکر ہوٹل سے باہر چلا جاتا تھا۔

عزیز نے اپنا ناشتہ ختم کرلیا تھا۔ میرے لیے ناشتے کی پلیٹ تیار کرلی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی تُرک خاتون جو ناشتہ بناتی تھیں انہوں نے اوون سے ٹرکش ڈبل روٹی کے موٹے موٹے سلائس نکال کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے ترک زبان میں کہا جس کا مطلب یہی تھاکہ فریش ہیں۔

میں نے شکریہ کہا اور ٹوسٹ لے کر اپنی میز پر آگئی۔ انہوں نے گرم چائے کا کپ لاکر میری میز پر رکھ دیا۔ یہ فائدہ ہوا تھا ان کی چائے کی تعریف کرنے کا۔ گرم گرم چائے ٹیبل پر مل رہی تھی۔

اتنے خوش گوار موسم کی صبح میں گرم ٹوسٹ پر مکھن جام اور چائے کا لطف آگیا۔ اس وقت تک انڈے نہیں ابلے تھے مگر جیسے ہی انہوں نے ابلے ہوئے انڈے نکال کر رکھے وہ گورا اپنی ٹیبل سے اٹھا اور اپنی پلیٹ میں چار پانچ انڈے لے کر آگیا۔

اتنی ہی تیزی سے انگریز بیٹی اٹھی اس نے بھی چار انڈے اپنی پلیٹ میں ڈال لیے۔ عزیز نے مجھے بتایا کہ آپ کے آنے سے پہلے یہ لڑکی ان کو کہہ کر آئی تھی کہ جلدی سے جلدی انڈے ابال کر دو ورنہ ہم تمہاری شکایت کردیں گے۔ انگریزوں کا انڈوں سے محبت کا بلکہ عشق کا تو ہمیں پہلے سے معلوم تھا بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ اگر کسی انگریز کو ناشتے پر انڈے نہ ملیں تو یہ اتاؤلے ہوجاتے ہیں آج دیکھ بھی لیا۔

ویسے آپس کی بات ہے کسی انگریز سے آپ مروت کی توقع کبھی مت رکھیے گا۔ فلموں میں ان کی محبت اور انسانی ہم دردی کی داستانیں دکھائی جاتی ہیں وہ صرف فلموں تک محدود ہیں۔ آپ کے ساتھ سفر میں اگر کوئی انگریز ساتھ ہو تو وہ گھنٹوں کے سفر میں بھی آپ سے کوئی بات نہیں کرے گا بلکہ ہیلو بھی نہیں کہے گا یا تو کوئی کتاب پڑھتا رہے گا، فی زمانہ لیپ ٹاپ کھول کر یا موبائل دیکھتا رہے گا۔

اگر کبھی کسی انگریز کو آپ کی بات سنی پڑجائے تو وہ ایسے سنے گا جیسے آپ بے کار گفتگو کررہے ہیں اور اس کا وقت ضائع کررہے ہیں۔ جناب یہ میرے ذاتی تجربات ہیں مگر ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے وہ ہمارے آقا رہے ہیں تو ہمارے ساتھ ان کا رویہ آقاؤں والا ہو اور ہم کالے لوگوں کو دیکھ کر ان کی آقاؤں والی فطرت غالب آجاتی ہو اور وہ سمجھتے ہوں کہ ہم ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ابھی ہم لوگوں سے غلامی کی بوباس نہیں گئی ہے۔

خیر یہ موضوع تو بہت طویل ہے اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے، ہمارا موضوع تو انگریز خواتین تھا۔ دونوں نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا اور اپنے بیگ اٹھاکر باہر نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی ہماری میزبان کچھ ریلیکس نظر آئیں اور میز صاف کرنے آئیں تو ہم سے چائے کا پوچھا اور میرا جواب سنے بغیر آگے بڑھ گئیں۔ عزیز ناشتہ ختم کرچکا تھا ۔ اپنے برتن اٹھاکر کاؤنٹر پر رکھنے گیا تو میرے لیے چائے بھی لیتا آیا۔ آپ کبھی بھی ترکی جائیں تو وہاں سے ترکی کی چائے ضرور ساتھ لے کر آئیے گا۔ بہت ذائقہ دار ہوتی ہے۔

ہمارا پروگرام تقسیم اسکوائر جانے کا تھا۔ اس کے لیے ہمیں بس کا راستہ سب سے آسان لگا۔ حالاںکہ مشرقی حصے کی طرف میٹرو ٹرین، ٹرام اور کشتی سے بھی جایا جاسکتا ہے مگر اس وقت تک ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ راہ نمائی کے لیے صرف گوگل تھا یا پھر وہ تُرک تھے جو زبان نہ جاننے کے باوجود راہ نمائی کردیتے تھے۔

ایک راستہ اور تھا، وہ ان پُلوں کا تھا جو دونوں کناروں کو ملانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ آپ جب کبھی استنبول جائیں گے تو ایک کنارے پر کھڑے ہوکر جائزہ لیں تو ان پلوں پر ہزاروں لوگوں کی آمدورفت نظر آئے گی۔ کبھی بھی کسی وقت یہ پل خالی نظر نہیں آتے۔ یہ وہ ورکنگ کلاس طبقہ ہوتا ہے جو ایک سرے سے دوسرے پر کام کے لیے آتا ہے اور اس میں طالب علم بھی شامل ہوتے ہیں۔

استنبول میں اسکوٹی چلانے کا رواج بہت زیادہ ہے۔ اسکوٹی طالب علموں کی پسندیدہ سواری ہے جو پل سے گزرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے بھی تقسیم اسکوائر کے لیے بس لی جس جگہ بس نے ہمیں اتارا تھا وہاں اوپر سے میٹرو ٹرین اور ٹرام بھی گزر رہی تھیں اور پل کے نیچے بس اسٹاپ بنے ہوئے تھے اور تقسیم کے لیے ہمیں بھی برقی سیڑھیاں استعمال کرنی پڑی تھیں جن کے ختم ہوتے ہی سامنے تقسیم اسکوائر تھا۔

یہ جگہ حیران کن حد تک خوب صورت تھی۔ ایک پختہ پتھریلا میدان تھا جس کے درمیان میں جنگی سپاہیوں کے خوب صورت مجسمے ایستادہ تھے، جن کے سائے میں لوگ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے کچھ سیاح تصویریں بنارہے تھے۔


ہم نے یہاں سے ترکی کی پہلی شاپنگ کی۔ کچھ دیہی علاقوں سے آئی ہوئی خواتین تھیں جو چھوٹے چھوٹے کیبنوں میں بیٹھی تھیں اور کپڑے سے بنے پھولوں کے ہیئرپن، ہیئر بینڈ اور دوسری سجاوٹ کی چیزیں بیچ رہی تھیں۔ ہر چیز پر قیمت درج تھی۔ میں نے ہیئربینڈ کی قیمت دیکھی۔۔۔ سولیرا تو بہت زیادہ تھی۔ میں آگے بڑھنے لگی تو عورت نے میرا ہاتھ پکڑلیا ''99 لیرا''، میں نے نفی میں گردن ہلائی۔ مجھے معلوم تھا کہ جو قیمت میں لگاؤں گی یہ اسی قیمت میں دے دے گی۔ اماں کیا وقت ضائع کرنا ضروری ہے جو قیمت کہہ رہی ہیں دے دیں اور یہ آپ کیا اپنے لیے خرید رہی ہیں۔

عزیز نے میرا کاندھا ہلاتے ہوئے کہا۔ بیٹا اس بوڑھے منہ پر یہ پھولوں والے بینڈ اچھے لگیں گے! یہ تو میں انان اور عنایا کے لیے لے رہی ہوں، چھوٹی بچیوں پر اچھے لگتے ہیں۔ میں نے مری سے بھی ایسے بینڈ خریدے تھے مگر وہ اصلی پھولوں کے تھے۔ اتنی احتیاط سے میں انہیں گھر لے کر آئی تھی مگر گھر آتے آتے مرجھاگئے تھے، مگر میری دونوں نواسیاں انہیں پہن کر بہت خوش ہوئی تھیں۔ تو یہ کپڑے کے تھے مرجھائیں گے بھی نہیں۔ اسٹال والی عورت نے حساب لگاتے ہوئے کہا 75لیرا۔

میں نے کہا 50 لیرا، مجھے دو چاہییں۔ اس نے خوشی خوشی دو بینڈ تھیلے میں ڈال کر میرے حوالے کردیے۔ ہم ذرا آگے بڑھے تو اس اسٹائل کے بینڈ 50 لیرا میں ہر اسٹال پر موجود تھے۔

تقسیم اسکوائر کے بالکل ساتھ ایک اور مسجد تھی۔ اس مسجد کا اسٹائل بھی وہی خلافت عثمانیہ کے زمانے کی مسجد کا تھا۔ ابھی نماز میں کچھ دیر باقی تھی۔ ہم نے سوچا آس پاس گھوم کر دیکھ لیتے ہیں۔ شاید کوئی قابل ذکر مقام ہو۔

مسجد کی پچھلی دیوار سے لگا ہوا ایک بازار تھا، جس کا اسٹائل Spiceبازار جیسا تھا۔ ہم نے وہاں ایک چکر لگایا مگر خریدا کچھ نہیں، کیوںکہ وہی چیزیں تھیں جو استنبول میں ہر جگہ موجود تھیں۔ خوامخواہ بوجھ اٹھانے کی کیا ضرورت تھی مگر ذرا آگے بڑھے تو کافی ماڈرن علاقہ آگیا۔ یہاں کافی بڑی بڑی عمارتیں اور شو روم تھے اور بڑے بڑے برانڈ کے اسٹور بھی تھے مگر سارے اسٹور ترکی کے برانڈز کے تھے۔

ایک بھی غیرملکی اسٹور نظر نہیں آیا۔ ایک خاصی بڑی اور جدید کافی شاپ تھی، وہاں کافی رش تھا۔ عزیز نے اپنے لیے کافی اور سینڈوچز لیے اور میرے لیے بھی تُرک اسٹائل کی بڑا سا پیٹیز لیا اور میری پسندیدہ چائے، مگر قیمت وہی تھی جو چائے اور کافی کی عام ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں ہوتی ہے۔ ترکی میں یہ بات بہت اچھی ہے کہ ہوٹل کسی معیار کا ہو کھانے پینے کی چیزوں کے دام مقرر ہیں۔ البتہ اسٹال والوں سے بھاؤتاؤ کرسکتے ہیں کیوںکہ وہ ایک لیرا کی چیز دس لیرا میں لگاتے ہیں۔ بھاؤ تاؤ کرو تو خاصی کمی کردیتے ہیں۔ کافی شاپ میں بھی ایک لڑکی مل گئی بار بار مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔ ہم

سمجھے کہ یہ کافی شاپ کی ملازم ہے اس لیے یہ پروفیشنل قسم کی مسکراہٹ ہوگی، لیکن جب ہم کافی شاپ سے باہر آئے تو وہ ہمارے پیچھے آگئی۔ ''میم! ایک منٹ وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولی۔'' اردو سن کر ہم رک گئے۔ ''آپ پاکستانی ہیں؟ میں بھی پاکستانی ہوں، لاہور سے پڑھنے آئی ہوں۔ پارٹ ٹائم جاب کرتی ہوں۔ آپ کو دیکھتے ہی سمجھ گئی تھی۔ آپ کو دیکھ کراتنی خوشی ہوئی کہ بتا نہیں سکتی۔ دل چاہا رہا تھا کہ کسی سے اپنی زبان میں بات کروں۔'' لیکن آپ نے ہمیں کیسے پہچانا میں نے اس کی پنجابی لہجے والی اردو سنتے ہوئے کہا۔ ''جی بس اپنے وطن کی خوشبو آتی ہے۔

یہ تو کوئی ہم سے پوچھے جو وطن سے دور ہوتے ہیں۔'' اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ ہم سے معذرت کرکے پلٹ گئی۔ ''میم میری ڈیوٹی کا ٹائم ہے، خدا حافظ۔'' کافی شاپ کا مینیجر ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ ہم وہاں سے بس اسٹاپ کی طرف آگئے۔ استنبول میں بہت چلنا پڑتا ہے اور راستے بہت چڑھائی اور اترائی وال ہیں جس سے تھکن بہت ہوجاتی ہے۔ ہمیں تقسیم اسکوائر سے بس لینے کے لیے بھی کافی چلنا پڑا تھا مگر تقسیم اسکوائر سے راستہ ہموار تھا۔ بس بھی فوری طور پر آگئی۔ اس لڑکی کی بات سن کر میں بھی خاصی اداس ہوگئی تھی۔

لڑکی کی بات دل کی دل میں رہ گئی تھی۔ کاش چند منٹ اس سے بات کرنے کو مل جاتے۔ مجھے خاموش دیکھ کر عزیز نے پہچان لیا۔ اماں آپ اس لڑکی کی وجہ سے اداس ہیں۔ ہاں بیٹا۔ لیکن اماں ایک بات ہے ہم پاکستانی بے شک کسی بھی صوبے سے ہوں جب کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو صرف پاکستانی ہوتے ہیں۔ جی بیٹا! یہ بات سچ ہے۔ کاش یہ بات ہمارے بڑوں کو بھی سمجھ آجائے جو ہم کو Divedکرکے Ruleکررہے ہیں۔

ہماری منزل ڈول مچاوی پیلس تھا۔ یہ ایک سفید محل ہے ہمیں وہ سمندر سے بھی کنارے سے لگا دکھائی دے رہا تھا اور کشتی کے ناخدا نے بھی ہم سے کہا تھا یہ محل مغربی کنارے کی سب سے خوب صورت جگہ ہے، مگر ابھی میری اداسی کا بھی سامان ہونا تھا۔ ڈول مچاوی جانے والی بس بہت بھری ہوئی تھی مگر ہمیں بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔

ترکی والوں کا طریقہ ہے آپ بوڑھے ہوں یا جوان ہوں عورت ہوں یا مرد بس یا ٹرام میں کوئی بھی اٹھ کر آپ کو جگہ نہیں دے گا، مگر ہمارے ہاں یہ طریقہ نہیں ہے ہمارے ساتھ ہی ایک سانولی سلونی سی لڑکی اپنے سال بھر کے بچے کو گود میں لیے سوار ہوئی اور بچے کو لیے سامنے کی جگہ میں کھڑی ہوگئی تھی۔ عزیز اس کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اسے میرے برابر بیٹھنے کی جگہ دے دی اور گوگل کھول کر راستہ دیکھنے لگا۔ پھر اس نے اردو میں مجھ سے کہا، اماں ڈول مچاوی یہاں سے کافی دور ہے، کئی اسٹاپ بعد آئے گا۔ لڑکی نے مجھے چونک کر دیکھا۔ ''آپ انڈین ہیںٕ یا پاکستانی۔'' ہم پاکستانی ہیں۔ ''ہم بنگلادیشی ہے، ہمارا نام سلمیٰ ہے۔'' اوہو یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تم سے مل کر خوشی ہوئی۔ ''ہم بھی خوش ہوا ہے میم۔ ہمارا میاں ادھر یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔

پاکستانی پنجابی ہے۔ ہم یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتا تھا۔ میرا فادر فوجی ہے۔ وہ پہلے بہت ناراض تھا۔ اب جب سے ہمارا بیٹا ہوا ہے خوش ہے، راضی ہوگیا ہے۔ ابھی ہم ماں بیٹا بنگلادیش سے ہوکر آیا ہے۔'' میں نے حیرت سے اس کی گود میں بیٹھے ہوئے بچے کو دیکھا گورا چٹا بچہ۔ واقعی کہیں سے بھی اس کا بیٹا نہیں لگ رہا تھا۔ تم پاکستان جاتی ہو۔ ''ابھی نہیں گیا۔ ڈر لگتا ہے مگر اب جائے گا۔ میرا Mother inlaw تو پہلے بھی راضی تھا۔ اب تو روزانہ ویڈیو کال کرتا ہے، آجاؤ علی کو دیکھنا ہے۔ یہ میرا بیٹا، اس کا نام علی ہے۔ دادی کو پہچانتا ہے۔

پیار کرتا ہے Waveکرتا ہے۔'' اس نے بیٹے کا منہ چوم لیا۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا سلمیٰ خوش رہو، جیتی رہو، بہت دعائیں تمہارے لیے اور تمہارے میاں اور بچے کے لیے بھی۔ پاکستان ضرور آنا۔ یہ بچے ہوتے ہیں ناں یہ دادا دادی کو بہت پیارے ہوتے ہیں۔ یہ بہت سی دیواریں ڈھا دیتے ہیں۔ ''لیکن میم یہ اتنی نفرت کیوں؟ پہلے تو ہم ایک تھے میں اپنے فادر کو پوچھتی ہوں ہمارا قصور کیا ہے؟کیا یہ نفرت ختم نہیں ہوسکتی۔'' سلمیٰ تم بچوں نے پہلا قدم تو بڑھا دیا ہے۔ آہستہ آہستہ نفرت ختم ہوجائے گی۔ ''انشاء اﷲ'' وہ بچے کو گود میں سنبھالتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کا اسٹاپ آگیا تھا لیکن بہت سے سوال چھوڑ گئی تھی، صرف ان لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں اور احساس کرسکتے ہیں یا وہ لوگ جو اس کرب سے گزرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جنہوں نے ملک کے ٹوٹنے کی اذیت سہی ہوگی۔

وہ میرا بچپن تھا جب مشرق پاکستان بنگلادیش بنا تھا۔ میں نے کبھی مشرقی پاکستان نہیں دیکھا تھا لیکن وہ دن یاد ہے جب بنگلادیش بنا تھا اور اس بنگلادیشی لڑکی سے مل کر وہ دکھ پھر تازہ ہوگیا تھا۔ باہر کے مناظر بدل رہے تھے۔ کھلی کھلی شاہراہوں کے ساتھ بنے اونچی دیواروں والے وسیع رقبے پر پھیلی عمارتیں تھیں جن کے دیواریں بیلوں اور پھلوں سے ڈھکی ہوئی تھیں اور احاطے درختوں سے گھرے ہوئے تھے۔ یہ مبہوت کرنے والے مناظر تھے۔

میں نے سنا ہے کہ بنگلادیش بہت خوب صورت ہے۔ وہاں ندیاں بہتی ہیں۔ دریا میں مانجھی کشتیاں کھینچتے ہوئے مدھر گیت گاتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ایک بار جاکر بنگلادیش بھی دیکھنا چاہیے۔ میں نے عزیز سے کہا۔ واہ اماں واہ، آپ تو کہتی ہیں کہ ماضی کی راکھ کریدنے کا کیا فائدہ اب خود راکھ کرید رہی ہیں۔ یہ دیکھیں ہم ڈول مچاوی پیلس کے ساتھ کی دیوار کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ ہمارا اسٹاپ آچکا تھا۔ اب ہم کو دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گیٹ کی سمت آنا تھا۔ یہ خاصا طویل راستہ تھا، جو ہمیں پیدل طے کرنا پڑا تھا، فٹ پاتھ اتنے صاف اور ہم وار تھے کہ پیدل چلنا بھی ایک تفریح تھا۔

ڈول مچاوی اب بھی دور تھا اور گھاس کے بڑے قطعات اور درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ اپنے سفید رنگ کی وجہ سے دور سے کسی موتی کی طرح جھلملا رہا تھا۔ ایک سیاح کے لیے یہ منظر کسی طلسم ہوش ربا کی طرح تھا۔ ڈول مچاوی پیلس جانے کے لیے پکی روشیں تھیں۔ جگہ جگہ بینچیں لگی تھیں۔ پیلس کے بیرونی دروازے کے اندر کی طرف دیکھیں تو وہاں سے اندرونی منظر نظر نہیں آتا ہے مگر دائیں جانب ایک چھوٹا گیٹ تھا جہاں پر لوگوں کی لمبی لائن تھی جو اندر جانے کے لیے اپنی باری کے انتظار میں تھے اور دوسری جانب کھلا باسفورس تھا جس کا پانی سورج کی روشنی میں جھلملا رہا تھا۔ ساتھ بنے ہوٹلوں میں لوگ کھانے پینے میں مصروف تھے۔

دوسری طرف استنبول کا مغربی حصہ نظر آرہا تھا۔ یہاں سے کھڑے ہوکر سمندر کو دیکھنا ایسا تھا جیسے یہ کسی فلم کا منظر ہو۔ میں ابھی اس منظر میں کھوئی ہوئی تھی کہ عزیز نے یہ انکشاف کرکے مجھے چونکا دیا کہ اماں اندر جانے کا ٹکٹ ہزار لیرے کا ہے۔

ادھر ہم اپنے آٹھویں پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔ اگلے پڑاؤ میں ہم ڈول مچاوی پیلس کے اندرونی منظر کا احاطہ کریں گے جو باہر سے زیادہ اندر سے شان دار ہے، جہاں چھے سلطان حکومت کرچکے ہیں اور یہ کمال اتاترک کا بھی صدارتی محل رہ چکا تھا۔
Load Next Story