آئینی صدر
مجموعی صورتحال میں ملک میں ایک پارٹی کا صدر اور دوسری پارٹی کی حکومت کا تجربہ ہورہا ہے
آصف علی زرداری کا سندھ کے ایک معروف سیاسی خاندان سے تعلق ہے۔ ان کے والد حاکم علی زرداری کا شمار پیپلز پارٹی کے اولین رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے ایک میر رسول بخش تالپور، ان کے بھائی علی احمد تالپور اور میر علی بخش تالپور کے گروپ میں شامل تھے۔ جب پیپلز پارٹی میں میروں کا زوال ہوا تو حاکم زرداری بھی معتوب قرار پائے، وہ بعد میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوگئے۔
آصف علی زرداری کی بے نظیر سے شادی کے بعد ان کا پورا خاندان پیپلز پارٹی کا حصہ بن گیا، مگر بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد بظاہر ان کا پیپلز پارٹی میں کردار نظر نہیں آیا البتہ جب تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی تو اس تحریک کو ناکام بنانے میں ان کا کردار ابھر کر سامنے آیا تھا۔ آصف زرداری میاں نواز شریف کی حکومت کے دونوں ادوار میں جیلوں میں مقید رہے۔
پولیس افسران کی تفتیش کے دوران ان کی زبان زخمی ہوئی تھی مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان مفاہمت اور میثاق جمہوریت پر اتفاق کرانے میں آصف زرداری نے مثبت کردار ادا کیا تھا۔
2007میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انھوں نے پارٹی کو ایک نئے انداز میں منظم کیا۔ میاں نواز شریف اور دیگر مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر سابق صدر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔
2008میں جب وہ صدارتی امیدوار بنے تو مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق نے ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑے کیے تھے مگر اس وقت تمام ترقی پسند قوتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں ان کی حمایت کررہی تھیں۔ صدر زرداری نے اپنی پہلی پریس کانفرنس جس میں افغانستان کے اس وقت کے صدر حامد کرزئی بھی موجود تھے بھارت سے تعلقات کو معمول پرلانے کے لیے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
لیکن آصف زرداری کی اس تجویز کو ممبئی میں دہشت گردی کی واردات کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا جس کے نتیجے میں جب تک آصف زرداری صدر رہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے، اگرچہ اس وقت صدر آصف علی زرداری فوری طور پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے وعدہ پر عملدرآمد کے لیے تیار نہ ہوئے تھے مگر 2010میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کی اٹھارہویں ترمیم کی متفقہ منظوری پاکستان کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔
اس ترمیم کے تحت صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے، صوبوں کے گورنروں کے تقرر اور مسلح افواج کے سربراہوں کے تقرر کے اختیار سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کا مسئلہ حل ہوا اور قومی مالیاتی ایوارڈ کی از سرنو تشکیل کا فارمولہ طے ہوا مگر آصف زرداری کے سوئٹزرلینڈ میں اکاؤنٹس کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی قربان ہوگئے تھے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی کی تنظیم تقریباً ختم ہوگئی تھی۔ آصف علی زرداری نے منظور وٹو اور اپنی ہمشیرہ کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی کا مشن سونپا لیکن پیپلز پارٹی پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہوگئی ۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف نے اس حکمت عملی سے فائدہ اٹھایا اور تحریک انصاف پنجاب اور کے پی سے مضبوط جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی۔
پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں پانچ سال تک اور صوبہ سندھ میں 15 سالہ دور میں اچھی طرز حکومت قائم کرنے میںکامیاب نہ رہی۔ سندھ ترقی کی دوڑ میں پنجاب سے بہت پیچھے رہ گیا اور میڈیا سے یہ تصور فروغ پاگیا کہ گذگورننس پیپلز پارٹی کی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تینوں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ کی 30کے قریب قومی اسمبلی نشستوں تک محدود رہی۔ پیپلز پارٹی پنجاب اور پختون خوا صوبہ میں ضمنی انتخابات میں کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی تھی، یہی وہ وجوہات تھیں کہ جب دو ماہ قبل انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کو نشانہ بنایا تھا اور بلاول کی تقریر لکھنے والوں نے سندھ کی ترقی کے بارے میں بلاول کی تقاریر میں دعوے شروع کردیے تھے تو مسلم لیگی رہنماؤں نے یہ کہنا شروع کیا تھا کہ بلاول لاہور کو بھی کراچی بنانا چاہتے ہیں۔
اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک کا نظریہ موجودہ صدرِ پاکستان نے ہی پیش کیا اور اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے ان کا کردار سب سے زیادہ اہم رہا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو نے مسلم لیگ ن کے بارے میں جارحانہ رویہ اختیار کررکھا تھا مگر آصف زرداری نے مسلسل مفاہمت پر زور دیا۔
یوں 8فروری کے انتخابات میں مسلم لیگ ن اکثریت حاصل نا کرسکی جس کی بناء پر میاں نواز شریف نے وزیر اعظم بننے سے معذرت کرلی ۔ یوں بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں ووٹوں کی بناء پر خود کو وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ سے علیحدہ کرلیا ، لہٰذا شہباز شریف وزیر اعظم اور اب آصف زرداری صدر منتخب ہوگے۔
اب آصف زرداری کے اتحادی تبدیل ہوگئے ہیں، صدارتی الیکشن میں وہ مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن ساتھ ہی سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادہ اعجاز الحق نے بھی انھیں ووٹ دیا ہے۔
اعجاز الحق نے ایسے وقت آصف زرداری کی حمایت کا فیصلہ کیا، جب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بارے میں سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا ہے۔ بھٹو کے عدالتی قتل کی بنیادی ذمے داری جنرل ضیاء الحق پر عائد ہوتی ہے ۔ اس صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ صدر آصف زرداری کی مکمل حمایت کررہی ہے مگر دوسری طرف سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
8فروری کے انتخابات کی شفافیت پر انتخابات کی نگرانی کرنے والی تنظیموں نے بھی شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف تو اس پر احتجاج کررہی ہے ، پولیس نے احتجاج میں شریک وکلائ، خواتین اور سیاسی کارکنان کو گرفتار کرلیا تاہم بعد میں وکلا وغیرہ کو رہا کردیا گیا ۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حمایت سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے جس کے سربراہ سرفراز بگٹی ہیں۔کے پی تحریک انصاف کے کنٹرول میں ہے ۔
اسٹیبلشمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے۔ ایک طرف موسمیاتی تباہی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کی بناء پر مہنگائی کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی مسلسل خراب ہورہی ہے۔
اس مجموعی صورتحال میں ملک میں ایک پارٹی کا صدر اور دوسری پارٹی کی حکومت کا تجربہ ہورہا ہے۔ پاکستانی سیاست کے طالب علموں کے ذہنوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا اس دفعہ واقعی آصف زرداری آئینی صدر رہیں گے؟
حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے ایک میر رسول بخش تالپور، ان کے بھائی علی احمد تالپور اور میر علی بخش تالپور کے گروپ میں شامل تھے۔ جب پیپلز پارٹی میں میروں کا زوال ہوا تو حاکم زرداری بھی معتوب قرار پائے، وہ بعد میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوگئے۔
آصف علی زرداری کی بے نظیر سے شادی کے بعد ان کا پورا خاندان پیپلز پارٹی کا حصہ بن گیا، مگر بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد بظاہر ان کا پیپلز پارٹی میں کردار نظر نہیں آیا البتہ جب تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی تو اس تحریک کو ناکام بنانے میں ان کا کردار ابھر کر سامنے آیا تھا۔ آصف زرداری میاں نواز شریف کی حکومت کے دونوں ادوار میں جیلوں میں مقید رہے۔
پولیس افسران کی تفتیش کے دوران ان کی زبان زخمی ہوئی تھی مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان مفاہمت اور میثاق جمہوریت پر اتفاق کرانے میں آصف زرداری نے مثبت کردار ادا کیا تھا۔
2007میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انھوں نے پارٹی کو ایک نئے انداز میں منظم کیا۔ میاں نواز شریف اور دیگر مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر سابق صدر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔
2008میں جب وہ صدارتی امیدوار بنے تو مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق نے ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑے کیے تھے مگر اس وقت تمام ترقی پسند قوتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں ان کی حمایت کررہی تھیں۔ صدر زرداری نے اپنی پہلی پریس کانفرنس جس میں افغانستان کے اس وقت کے صدر حامد کرزئی بھی موجود تھے بھارت سے تعلقات کو معمول پرلانے کے لیے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔
لیکن آصف زرداری کی اس تجویز کو ممبئی میں دہشت گردی کی واردات کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا جس کے نتیجے میں جب تک آصف زرداری صدر رہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے، اگرچہ اس وقت صدر آصف علی زرداری فوری طور پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کے وعدہ پر عملدرآمد کے لیے تیار نہ ہوئے تھے مگر 2010میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کی اٹھارہویں ترمیم کی متفقہ منظوری پاکستان کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔
اس ترمیم کے تحت صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے، صوبوں کے گورنروں کے تقرر اور مسلح افواج کے سربراہوں کے تقرر کے اختیار سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کا مسئلہ حل ہوا اور قومی مالیاتی ایوارڈ کی از سرنو تشکیل کا فارمولہ طے ہوا مگر آصف زرداری کے سوئٹزرلینڈ میں اکاؤنٹس کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی قربان ہوگئے تھے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی کی تنظیم تقریباً ختم ہوگئی تھی۔ آصف علی زرداری نے منظور وٹو اور اپنی ہمشیرہ کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی کا مشن سونپا لیکن پیپلز پارٹی پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہوگئی ۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف نے اس حکمت عملی سے فائدہ اٹھایا اور تحریک انصاف پنجاب اور کے پی سے مضبوط جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی۔
پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں پانچ سال تک اور صوبہ سندھ میں 15 سالہ دور میں اچھی طرز حکومت قائم کرنے میںکامیاب نہ رہی۔ سندھ ترقی کی دوڑ میں پنجاب سے بہت پیچھے رہ گیا اور میڈیا سے یہ تصور فروغ پاگیا کہ گذگورننس پیپلز پارٹی کی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تینوں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ کی 30کے قریب قومی اسمبلی نشستوں تک محدود رہی۔ پیپلز پارٹی پنجاب اور پختون خوا صوبہ میں ضمنی انتخابات میں کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی تھی، یہی وہ وجوہات تھیں کہ جب دو ماہ قبل انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کو نشانہ بنایا تھا اور بلاول کی تقریر لکھنے والوں نے سندھ کی ترقی کے بارے میں بلاول کی تقاریر میں دعوے شروع کردیے تھے تو مسلم لیگی رہنماؤں نے یہ کہنا شروع کیا تھا کہ بلاول لاہور کو بھی کراچی بنانا چاہتے ہیں۔
اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک کا نظریہ موجودہ صدرِ پاکستان نے ہی پیش کیا اور اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے ان کا کردار سب سے زیادہ اہم رہا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو نے مسلم لیگ ن کے بارے میں جارحانہ رویہ اختیار کررکھا تھا مگر آصف زرداری نے مسلسل مفاہمت پر زور دیا۔
یوں 8فروری کے انتخابات میں مسلم لیگ ن اکثریت حاصل نا کرسکی جس کی بناء پر میاں نواز شریف نے وزیر اعظم بننے سے معذرت کرلی ۔ یوں بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں ووٹوں کی بناء پر خود کو وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ سے علیحدہ کرلیا ، لہٰذا شہباز شریف وزیر اعظم اور اب آصف زرداری صدر منتخب ہوگے۔
اب آصف زرداری کے اتحادی تبدیل ہوگئے ہیں، صدارتی الیکشن میں وہ مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن ساتھ ہی سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادہ اعجاز الحق نے بھی انھیں ووٹ دیا ہے۔
اعجاز الحق نے ایسے وقت آصف زرداری کی حمایت کا فیصلہ کیا، جب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بارے میں سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا ہے۔ بھٹو کے عدالتی قتل کی بنیادی ذمے داری جنرل ضیاء الحق پر عائد ہوتی ہے ۔ اس صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ صدر آصف زرداری کی مکمل حمایت کررہی ہے مگر دوسری طرف سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
8فروری کے انتخابات کی شفافیت پر انتخابات کی نگرانی کرنے والی تنظیموں نے بھی شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف تو اس پر احتجاج کررہی ہے ، پولیس نے احتجاج میں شریک وکلائ، خواتین اور سیاسی کارکنان کو گرفتار کرلیا تاہم بعد میں وکلا وغیرہ کو رہا کردیا گیا ۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حمایت سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے جس کے سربراہ سرفراز بگٹی ہیں۔کے پی تحریک انصاف کے کنٹرول میں ہے ۔
اسٹیبلشمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے۔ ایک طرف موسمیاتی تباہی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کی بناء پر مہنگائی کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی مسلسل خراب ہورہی ہے۔
اس مجموعی صورتحال میں ملک میں ایک پارٹی کا صدر اور دوسری پارٹی کی حکومت کا تجربہ ہورہا ہے۔ پاکستانی سیاست کے طالب علموں کے ذہنوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا اس دفعہ واقعی آصف زرداری آئینی صدر رہیں گے؟