کھیل کود ٹیم میں نہ سہی ہماری فٹبال میں تو دم ہے
جس گیند کے پیچھے نیمار، میسی، رونالڈو، رونی ، روبیری اور دیگر سپر اسٹار بھاگ رہے ہیں وہ ہم نے بنائی ہے۔
اس وقت پوری دنیا کو فٹبال کے وائرس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہم ہیں کہ اس وائرس کے پھیلائو کا حصہ بننے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، ہمارے اس طرح جامے سے باہر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جمعرات سے شروع ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستانی فٹبال بھی استعمال ہوگی۔ بھلے ہماری فٹبال ٹیم میں دم نہ ہو مگر ہمارے لئے یہ بات بھی خوشی کا باعث ہے کہ کم سے کم ہماری فٹبال میں تو دم ہے۔
ورلڈ کپ فٹبال شائقین کے لئے سمجھیں 104 کابخار ہے جو کہ چڑھتا ہے تو پھر اترتا نہیں اور کچھ سر پھرے شائقین کے لئے تو یہ ' گردن توڑبخار' بن جاتا ہے، ادھر آپ نے اس کی پسندیدہ ٹیم کی برائی کی اور ادھر اس کے ہاتھ آپ کی گردن کی جانب بڑھے، بہتر یہی ہے کہ اس جذباتی موقع پر آپ کسی کے جذبات نہیں کھیلیں اور اگر آپ کو 'پنگا' لینے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر اپنی گردن کا بچائو پہلے سے کرلیں بعد میں نہ کہنا کہ خبر نہیں ہوئی۔
ورلڈ کپ فٹبال کے دیوانے لوگوں کے لئے ایسے ہی ہے جس طرح ہمارے نزدیک کرکٹ ورلڈ کپ ہے، ہم بھی اس میں مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اگر ٹیم بری پرفارمنس دکھائے تو پھر بس نہیں چلتا کہ کھلاڑیوں کو کچا چبا جائیں مگر غصہ نکالنے کا بھی اپنا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے چونکہ ہم ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہیں اس لئے جذبات میں آکر دوسروں کو نقصان پہنچانے پر تل جاتے ہیں جبکہ مہذب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا وہاں سیدھا دل کا دورہ پڑجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یورپ وغیرہ میں ورلڈ کپ دوران دل کی دھڑکن رک جانے کے باعث اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
ہم کیا ہر ذی شعور یہی کہتا ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دینا چاہئے مگر کیا کریں جب کھیل سے جذبات جڑ جاتے ہیں تو وہ جنگ سے بھی خطرناک صورت اختیار کرجاتا ہے اور ویسے بھی برازیل میں 32 ممالک کے درمیان فٹبال کی عالمی جنگ چھڑنے والی ہے۔
جنگ برازیل میں چھڑنے والی ہے، کھیل دنیا کی 32 بہترین ٹیمیں رہی ہیں مگر جذباتی ہم ہوئے جارہے ہیں لیکن ہم پر 'بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ' کا الزام تو عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس پاک سرزمین پر فٹبال کھیلنے اور پسند کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اب اگر کرکٹ چھائی ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہئے کہ اس ملک میں صرف کرکٹ ہی اور باقی کھیل 'کوڑا کرکٹ'۔ فٹبال کے کھیل میں دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد پاکستان میں بھی لاکھوں میں ہے اور ہزاروں تو اس سے جذباتی لگائو رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ بات کتنے افسوس کی ہے کہ عالمی درجہ بندی میں ہماری ٹیم ورلڈ کپ آتے ہی مزید 5 درجے نیچے یعنی 164 ویں نمبر پرچلا گیا ہے۔ اس سے افغانستان کہیں زیادہ بہتر ہے جوکہ 130 ویں نمبر پر موجود ہے۔ رینکنگ میں اتنا زیادہ فرق بھی ہمارے ملک میں فٹبال کے کرتا دھرتا لوگوں کی آنکھیں نہیں کھول پایا۔پاکستان میں افغانستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر سہولیات موجود مگر نتیجہ دھاک کے تین پات ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ارجنٹائن کے سابق عظیم فٹبالر ڈیگو میراڈونا نے اپنے ملک کے فٹبال شائقین کو پاکستان جیسا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو فٹبال کی کوئی سوجھ بوجھ ہی نہیں، ساتھ میں انہوںنے وضاحت بھی کردی تھی کہ اس موازنے کا مقصد پاکستان کی تضحیک نہیں بلکہ انہوں نے اس کھیل میں کبھی پاکستان کا نام نہیں سنا اور نہ ہی اس نے کبھی ورلڈ کپ کھیلا ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو اس کھیل کی سوجھ بوجھ ہی نہیں۔ ان کا یہ بیان بھی ہمارے فٹبال حکام کو شرم نہیں دلا سکا بلکہ الٹا پاکستان فٹبال فیڈریشن کی جانب سے ڈیگومیرا ڈونا سے کہا گیا کہ وہ آکر ہماری فٹبال سدھارنے میں مدد کریں اور وہ بھی مفت۔ اب میرا ڈونا کوئی خدائی خدمتگار تو ہیں نہیں کہ یہاں پر پہنچ جاتے۔
فیفا نے پاکستان میں فٹبال کی بہتری کے لئے کافی فنڈز دیئے اور یہاں پر گول پروجیکٹس بھی شروع کئے گئے ہیں کراچی میں بھی اسی قسم کا ایک گول پروجیکٹ عرصہ دراز سے زیر تکمیل ہے اور آخری رپورٹس جو میں نے پڑھی تھیں ہنوز وہ مکمل نہیں ہوا تھا۔
کافی عرصہ ہونے کو آیا ہے اور اگر میری یاداشت مجھے دھوکا نہیں دیتی تو پاکستان کے ہی ایک فٹبال آفیشل نے یہ نوید سنائی تھی کہ پاکستان دس بیس برس میں ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کرنے کے قابل ہوجائے گا مگر جس طرح ملک میں فٹبال کے کھیل کو چلایا جارہا ہے اس سے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاید 2040 تک بھی ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی نہیں کرپائے گی اور جب تک پاکستان کی ٹیم دنیا کے سب سے بڑا اسپورٹس میلے میں نہیں پہنچتی تب تک تو ہمارے ملک کے شائقین اپنی اپنی پسندیدہ ٹیموں کو سپورٹ کرنے میں حق بجانب ہیںاور بڑے شوق سے اپنے کمروں میں میسی، رونالڈو، رونی، نیمار جس کی چاہیں تصویر لگا سکتے ہیں اور گھر پر جس ملک کا چاہیں (صرف فٹبال ورلڈ کپ کی حد تک) پرچم لہرا سکتے ہیں۔
اب بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی تو ذکر ہورہا تھا کہ ورلڈ کپ میں کم سے کم فٹبال تو ہماری استعمال ہوگی، یہ بھی کسی خوشی سے کم نہیں ہے، میگا ایونٹ میں پاکستانی فٹبال کا استعمال نیا نہیں مگر بیچ میں اس میں کچھ تعطل آگیا تھا جب کھیلوں کی مصنوعات بنانے والی فرم جس کا فیفا کے ساتھ فٹبال کی فراہمی کا معاہدہ ہے اس نے چین کی کسی کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا تھا، اس بار وہ کمپنی ڈیڈ لائن تک مقررہ تعداد میں فٹبال فراہم نہیں کرپائی تو سیالکوٹ کی ایک کمپنی نے یہ آرڈر حاصل کافی جدوجہد اور اپنی فیکٹری کو اپ ٹو ڈیٹ کرکے حاصل کرلیا۔ اب ہم بھی فخریہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جس گیند کے پیچھے نیمار، میسی، رونالڈو، رونی ، روبیری اور دیگر سپر اسٹار بھاگ رہے ہیں وہ ہم نے بنائی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ورلڈ کپ فٹبال شائقین کے لئے سمجھیں 104 کابخار ہے جو کہ چڑھتا ہے تو پھر اترتا نہیں اور کچھ سر پھرے شائقین کے لئے تو یہ ' گردن توڑبخار' بن جاتا ہے، ادھر آپ نے اس کی پسندیدہ ٹیم کی برائی کی اور ادھر اس کے ہاتھ آپ کی گردن کی جانب بڑھے، بہتر یہی ہے کہ اس جذباتی موقع پر آپ کسی کے جذبات نہیں کھیلیں اور اگر آپ کو 'پنگا' لینے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر اپنی گردن کا بچائو پہلے سے کرلیں بعد میں نہ کہنا کہ خبر نہیں ہوئی۔
ورلڈ کپ فٹبال کے دیوانے لوگوں کے لئے ایسے ہی ہے جس طرح ہمارے نزدیک کرکٹ ورلڈ کپ ہے، ہم بھی اس میں مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اگر ٹیم بری پرفارمنس دکھائے تو پھر بس نہیں چلتا کہ کھلاڑیوں کو کچا چبا جائیں مگر غصہ نکالنے کا بھی اپنا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے چونکہ ہم ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہیں اس لئے جذبات میں آکر دوسروں کو نقصان پہنچانے پر تل جاتے ہیں جبکہ مہذب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا وہاں سیدھا دل کا دورہ پڑجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یورپ وغیرہ میں ورلڈ کپ دوران دل کی دھڑکن رک جانے کے باعث اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
ہم کیا ہر ذی شعور یہی کہتا ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دینا چاہئے مگر کیا کریں جب کھیل سے جذبات جڑ جاتے ہیں تو وہ جنگ سے بھی خطرناک صورت اختیار کرجاتا ہے اور ویسے بھی برازیل میں 32 ممالک کے درمیان فٹبال کی عالمی جنگ چھڑنے والی ہے۔
جنگ برازیل میں چھڑنے والی ہے، کھیل دنیا کی 32 بہترین ٹیمیں رہی ہیں مگر جذباتی ہم ہوئے جارہے ہیں لیکن ہم پر 'بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ' کا الزام تو عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس پاک سرزمین پر فٹبال کھیلنے اور پسند کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اب اگر کرکٹ چھائی ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہئے کہ اس ملک میں صرف کرکٹ ہی اور باقی کھیل 'کوڑا کرکٹ'۔ فٹبال کے کھیل میں دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد پاکستان میں بھی لاکھوں میں ہے اور ہزاروں تو اس سے جذباتی لگائو رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ بات کتنے افسوس کی ہے کہ عالمی درجہ بندی میں ہماری ٹیم ورلڈ کپ آتے ہی مزید 5 درجے نیچے یعنی 164 ویں نمبر پرچلا گیا ہے۔ اس سے افغانستان کہیں زیادہ بہتر ہے جوکہ 130 ویں نمبر پر موجود ہے۔ رینکنگ میں اتنا زیادہ فرق بھی ہمارے ملک میں فٹبال کے کرتا دھرتا لوگوں کی آنکھیں نہیں کھول پایا۔پاکستان میں افغانستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر سہولیات موجود مگر نتیجہ دھاک کے تین پات ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ارجنٹائن کے سابق عظیم فٹبالر ڈیگو میراڈونا نے اپنے ملک کے فٹبال شائقین کو پاکستان جیسا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو فٹبال کی کوئی سوجھ بوجھ ہی نہیں، ساتھ میں انہوںنے وضاحت بھی کردی تھی کہ اس موازنے کا مقصد پاکستان کی تضحیک نہیں بلکہ انہوں نے اس کھیل میں کبھی پاکستان کا نام نہیں سنا اور نہ ہی اس نے کبھی ورلڈ کپ کھیلا ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو اس کھیل کی سوجھ بوجھ ہی نہیں۔ ان کا یہ بیان بھی ہمارے فٹبال حکام کو شرم نہیں دلا سکا بلکہ الٹا پاکستان فٹبال فیڈریشن کی جانب سے ڈیگومیرا ڈونا سے کہا گیا کہ وہ آکر ہماری فٹبال سدھارنے میں مدد کریں اور وہ بھی مفت۔ اب میرا ڈونا کوئی خدائی خدمتگار تو ہیں نہیں کہ یہاں پر پہنچ جاتے۔
فیفا نے پاکستان میں فٹبال کی بہتری کے لئے کافی فنڈز دیئے اور یہاں پر گول پروجیکٹس بھی شروع کئے گئے ہیں کراچی میں بھی اسی قسم کا ایک گول پروجیکٹ عرصہ دراز سے زیر تکمیل ہے اور آخری رپورٹس جو میں نے پڑھی تھیں ہنوز وہ مکمل نہیں ہوا تھا۔
کافی عرصہ ہونے کو آیا ہے اور اگر میری یاداشت مجھے دھوکا نہیں دیتی تو پاکستان کے ہی ایک فٹبال آفیشل نے یہ نوید سنائی تھی کہ پاکستان دس بیس برس میں ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کرنے کے قابل ہوجائے گا مگر جس طرح ملک میں فٹبال کے کھیل کو چلایا جارہا ہے اس سے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاید 2040 تک بھی ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی نہیں کرپائے گی اور جب تک پاکستان کی ٹیم دنیا کے سب سے بڑا اسپورٹس میلے میں نہیں پہنچتی تب تک تو ہمارے ملک کے شائقین اپنی اپنی پسندیدہ ٹیموں کو سپورٹ کرنے میں حق بجانب ہیںاور بڑے شوق سے اپنے کمروں میں میسی، رونالڈو، رونی، نیمار جس کی چاہیں تصویر لگا سکتے ہیں اور گھر پر جس ملک کا چاہیں (صرف فٹبال ورلڈ کپ کی حد تک) پرچم لہرا سکتے ہیں۔
اب بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی تو ذکر ہورہا تھا کہ ورلڈ کپ میں کم سے کم فٹبال تو ہماری استعمال ہوگی، یہ بھی کسی خوشی سے کم نہیں ہے، میگا ایونٹ میں پاکستانی فٹبال کا استعمال نیا نہیں مگر بیچ میں اس میں کچھ تعطل آگیا تھا جب کھیلوں کی مصنوعات بنانے والی فرم جس کا فیفا کے ساتھ فٹبال کی فراہمی کا معاہدہ ہے اس نے چین کی کسی کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا تھا، اس بار وہ کمپنی ڈیڈ لائن تک مقررہ تعداد میں فٹبال فراہم نہیں کرپائی تو سیالکوٹ کی ایک کمپنی نے یہ آرڈر حاصل کافی جدوجہد اور اپنی فیکٹری کو اپ ٹو ڈیٹ کرکے حاصل کرلیا۔ اب ہم بھی فخریہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جس گیند کے پیچھے نیمار، میسی، رونالڈو، رونی ، روبیری اور دیگر سپر اسٹار بھاگ رہے ہیں وہ ہم نے بنائی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔