حکومت کے سیاسی اور معاشی چیلنجز

شہباز شریف حکومت کو بڑا چیلنج وہ مسائل ہیں جو انہں پچھلے دور سے بطور جہیز ملے ہیں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان میں حکومت چلانا ایک مشکل چیلنج ہوتا ہے۔ لوگوں کو ان کے بنیادی مسائل کا حل پیش کرنا واقعی ایک غیر معمولی کام ہے ۔بالخصوص ایک مخلوط حکومت کے لیے۔

پاکستان کے جو حالات ہیں اورجو ہمارا حکمرانی کا نظام ہے، اس میں ایک مضبوط حکومت ہی نہیں بلکہ مضبوط سیاسی نظام بھی درکار ہے۔کیونکہ ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات یا سخت فیصلوں کی بنیاد پر ہی ہم حکمرانی کے نظام میں سیاسی طور پر سرخرو ہوسکتے ہیں ۔

شہباز شریف اس وقت وزیر اعظم ہیں جنھیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہے، جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہے ، پنجاب میں وزیراعظم شہباز شریف کی بھتیجی اور نواز شریف کی بیٹی مریم نواز وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے موجود ہیں ۔اس سے قبل شہبازشریف 16ماہ کی اتحادی حکومت میں وزیراعظم رہے مگر یہ تجربہ انھیں اور مسلم لیگ ن کے لیے سیاسی فائدہ کم اور نقصان کے طور پر زیادہ دیکھا جارہا ہے۔

اس وزارت عظمی کے دور میں ان کی شخصیت جو شہباز شریف اسپیڈ کے نام سے مشہور تھی، اس کا امیج برقرار نہیں رہا اور ن لیگ کی مقبولیت کے گراف میں کمی آئی تھی ۔ ا ب دیکھنا ہوگا کہ ان کا یہ نیا حکومتی دور پہلے سے مختلف ہوگا یا نہیں کیونکہ سابقہ دور میں بھی ان کے ساتھ پیپلزپارٹی سمیت ایم کیو ایم حصہ دار تھی اور اس نئے دور میں بھی وہ ان کے ساتھ اقتدار کی سیاست میں کھڑے ہیں ۔

شہباز شریف حکومت کو بڑا چیلنج وہ مسائل ہیں جو انہں پچھلے دور سے بطور جہیز ملے ہیں، اس میں معاشی بگاڑ ، حکمرانی کا فرسودہ نظام ، سیاسی تقسیم اور محاذ آرائی شامل ہیں ۔اسی طرح یہ حکومتی نظام ماضی سے جاری سیاسی بندوبست ہے، اس میں سیاسی لوگوں کے پاس اختیارات کم جب کہ ذمے داریاں زیادہ ہیں ، غیر سیاسی لوگوں کا کنٹرول زیادہ ہے جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

انتخابی دھاندلی جیسے الزامات چلتے رہیں گے۔یہ معاملات شہباز شریف کو دباؤ میں رکھیں گے اور ان کو بہت زیادہ آزادانہ بنیادوں پر فیصلہ کرنے کے لیے بھی سیاسی اور غیرسیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

یہ بات حقیقت ہے کہ سیاسی تقسیم کم نہیں بلکہ اور زیادہ گہری ہوئی ہے اور ان کے سیاسی مخالفین محض پی ٹی آئی تک محدود نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں اور بالخصوص علاقائی جماعتیں جن میں محمود خان اچکزئی ، سردار اختر مینگل ، ایمل ولی خان ، مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی کی بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔پی ٹی آئی عرف سنی اتحاد کونسل وفاق اور پنجاب میں موجود ہے اور وہ پارلیمنٹ سے باہر بھی مزاحمتی سیاست کا دربار سجانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا پر بھی ان کی بالادستی کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے جو یقینی طور پر شہباز شریف حکومت کے لیے آسان چیلنج نہیں ہوگا۔


اسی طرح نئی وفاقی حکومت کا ایک اور چیلنج اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات کار ہوںگے ۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ان کی اتحادی جماعتیں ہیں ۔لیکن یہ دونوں جماعتیں اختیارات کے حصول کی حد تک ان کے ساتھ ہیں مگر وہ کسی بھی صورت میں حکومتی مشکلات یا ناکامی میں حصہ دار بننے کے لیے تیار نہیں ہوں گی ۔

ابتدا ہی میں پیپلزپارٹی نے ایک طرف وفاق کی سطح پر وزارتوں میں حصہ دار بننے سے انکار کیا ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدہ سے بھی خود کو علیحدہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ معاشی مشکلات اور بوجھ میں وہ حکومت کے حصہ دار نہ بنیں اور اس کھیل میں مسلم لیگ ن کو ہی یہ ذمے داری قبول کرنا ہوگی ۔

ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی اچھے دنوں کے اتحادی ہوتے ہیں اور مشکل وقت میں یہ یا تو اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں یا اپنی سیاست بچانے کے لیے حکومت کو بیچ منجدھار میں چھوڑنے کی مشہوری بھی رکھتے ہیں۔شہباز شریف کے کام کرنے کا ماڈل اختیارات کی مرکزیت پر ہوتا ہے ، وہ زیادہ اختیارات نیچے دینے کے حق میں نہیں ہوتے بلکہ ان کا انحصار بیوروکریسی یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات کار سے جڑا ہوتا ہے ۔

اگرچہ شہباز شریف نے حزب اختلاف کو ایک مثبت سوچ کے ساتھ تعمیری سیاست اور مفاہمت کی دعوت دی ہے جن میںمیثاق معیشت بھی شامل ہے۔ لیکن تضاد یہ ہے کہ ایک طرف مفاہمت کی دعوت تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن ، گرفتاریاں ، نظربند افراد کی رہائی کو ممکن نہ بنانا، انتخابی دھاندلی کے الزامات پر خاموشی ،مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے تحفظات دور نہ کرنا، ایسے میں مفاہمت کی سیاست محض رسمی کارروائی سے زیادہ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ عملی بنیادوں پر دیکھا جاسکے گا۔یہ بھی سوال اہم ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف واقعی پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کی پوزیشن یا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں یا نواز شریف کی منظوری ضروری ہوگی ۔ اس لیے یکطرفہ مفاہمت کی سیاست کوئی رنگ نہیں دکھا سکے گی اور نہ ہی مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی ایک ساتھ چل سکے گی ۔

اسی طرح شہباز شریف کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سیاسی استحکام یا سیاسی طور پر مفاہمت کے بغیر معیشت کا ایجنڈا بھی کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔شہباز شریف اتحادیوں کے سہارے کھڑے ہیں اوروہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہیں،ایسی صورت آزادانہ فیصلے کرنا مشکل ہے۔ شہباز شر یف کو آگے جاکر پتہ چلے گا کہ یہ سیم پیچ کب تک برقرار رہتا ہے یا یہاں بھی ایک وقت میں ان کو بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس کھیل میں نواز شریف کہاں کھڑے ہوںگے اور کیا وہ آزادانہ بنیادوں پر عملی طور پر شہباز حکومت کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں گے یا سیاسی ڈکٹیشن دیں گے۔

اصل چیلنج معیشت کا ہے ۔ معیشت پر ان کو کچھ بڑے فیصلے کرنے ہیں لیکن کیا حکومت سخت گیر فیصلے کو یقینی بناسکے گی ؟ اسی طرح یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ 18ویںترمیم میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ، این ایف سی ایوارڈ کی مالی تقسیم ، پی آئی اے اور اسٹیل مل سمیت دیگر اداروں کی نج کا ری کے عمل میں خود حکومت کہاں کھڑی ہوگی اور پیپلزپارٹی ان فیصلوں میں کس حد تک حکومت کی حمایت کرے گی ،آسان کام نہیں ہوگا۔

اسی طرح معیشت صرف شہباز شریف نے چلانی ہے یا اس میں اسٹیبلیشمنٹ کا کلیدی کردار ہوگا اور پیپلز پارٹی کا اس کھیل میں کتنا حصہ اور ذمے داری ہوگی ۔جو نئی معاشی ٹیم لائی جارہی ہے، وہ کس حد تک کامیاب رہتی ہے،ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ بالخصوص عام لوگوں کو ریلیف دینے میں فوری حل اگر نہ نکالا گیا تو حالات بے قابو ہوںگے ۔لوگ فوری طور پر بجلی ، گیس ، پٹرول ، ڈیزل ،مہنگائی ، بے روزگاری اور ٹیکسوں کی بھرمار کے کھیل سے عملاً ریلیف چاہتے ہیں مگر ایسے لگتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے بعد معاشی حالات میں بہتری کم اور بگاڑ زیادہ ہوگا۔

آمدن اور اخراجات میں جو عدم توازن ہے وہ حکومت کو آسانی سے حکومت نہیں کرنے دے گا اور نہ ہی حکومت مشکل اور کڑوے فیصلوں کا بوجھ عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور افراد کو منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسی طرح صوبائی حکومتوں کی بری حکمرانی بھی وفاق پر نئے الزامات اور ان ہی کو بگاڑ کی ذمے دار قرار دے گی اور ایسے میں شہباز شریف حکومت تنہائی کا شکار ہوسکتی ہے۔
Load Next Story