سب سے پہلی ایجاد
دنیا کی سب سے بڑی ایجاد ’’پہیہ‘‘ہے جسے ایجادوں اور مشینوں کی ’’ ماں‘‘ کہا جاتا ہے
اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ دنیا کی سب سے پہلی ''ایجاد'' کیا ہے تو ہم بے دھڑک بتاسکتے ہیں حالانکہ لوگ اس سوال پر بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے دنیا کی سب سے بڑی ایجاد ''پہیہ''ہے جسے ایجادوں اور مشینوں کی '' ماں'' کہا جاتا ہے۔
کوئی ''ضرورت'' کو ہر ایجاد کی ماں بتاتا ہے طبعیات والے ''آگ'' کو سب سے پہلی کیمیائی ایجاد بتاتے ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں دنیا کی سب سے پہلی اور شاید آخری بھی ثابت ہوجائے ''ڈیوائڈ اینڈ رول'' ہے اگرچہ لوگ انگریزوں کو اس کا موجد بتاتے ہیں۔لیکن غلط ہے۔
انگریزوں نے اس کا ''استعمال'' سب سے زیادہ کیا ہے ''ایجاد'' کسی اور کی ہے اور یہ کوئی اور وہ ہے۔جو اور بھی ساری ایجادات کا''آئن سٹائن'' ہے۔ اب تو آپ پہچان گئے ہوں گے وہی غرزیل جو ابلیس تخلص کرتا تھا اور شیطان کی عرفیت سے مشہور ہے۔ سب سے پہلے برتری اور کمتری کا جو راگ الاپا تھا وہی ڈیوائڈ اینڈ رول ہے۔اور یہ اتنی ہمہ گیر ایجاد ہے جتنا اس کا ''موجد''چاردانگ عالم میں مشہور و معروف ہے۔بلکہ اس کا سب کچھ اتنا ہی مشہور ہے
تری آنکھیں تری زلفیں ترے ابرو ترے لب
اب بھی مشہور ہیں دنیا میں مثالوں کی طرح
یہ ایجاد اتنی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔اگر کہیے تو یہ ساری دنیا ہی اس ایجاد''ڈیوائڈ اینڈ رول'' پر چل رہی ہے یہ جو آپ''روٹی'' کھا رہے ہیں یہ بھی گندم یا اناج کا ڈیوائڈ اینڈ رول ہے بلکہ آپ اسے ''ڈیوائڈ اینڈ ایٹ''بھی کہہ سکتے ہیں۔
پانی جب آپ پیتے ہیں تو ''گھونٹ گھونٹ'' کرکے پیتے ہیں یہ بھی ڈیوائڈ اینڈ ایٹ یا ڈیوائڈ اینڈ ٹیک'' ہے۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں خود اپنے آپ کو اپنی سرگرمیوں،منہ گرمیوں اور دست گرمیوں کو دیکھیے۔کون سی چیز ہے جسے آپ''سالم'' کھاسکتے ہیں غلہ، سبزیاں، گوشت پھل کسی بھی چیز کو آپ''سالم'' نہیں نگل سکتے ہیں۔
پہلے اسے بیرونی ذرائع سے کاٹیں گے اور جب اچھی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے ''ذرہ ذرہ''، ''پیس'' نہ جائے آپ اسے نہیں کھا سکتے ہیں۔اور بیرونی''ڈیوائڈ'' کے بعد آپ اسے ''منہ'' کی چکی میں یا مشین میں ڈالتے ہیں اور مزید پیس کر یا ڈیوائڈ کرنے کے بعد نگلیں گے۔
چنانچہ دیکھا جائے تو انسان یا جاندار کی ساری زندگی ''ڈیوائڈ اینڈ ڈیوائڈ اینڈ ڈیوائڈ کی رہین منت ہے۔ ڈیوائڈ نہ کرے تو نہ کچھ کھا سکے نہ پی سکے نہ ہضم کر سکے۔خوراک کو تو ایک طرف کردیجیے۔پانی کے بارے میں بھی ہم نے بتا دیا ہے یہاں تک کہ سانس بھی ہوا کو ڈیوائڈ کرکے ہی لیتا ہے۔
جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے اسی لیے تو''سانس'' لینے کو سزا کہا ہوا ہے۔اور ڈیوائڈ''بہر حال ایک''سزا'' ہوتی ہے۔اور پھر ہوا یوں کہ انسانوں کا ایک طبقہ''آدم خور'' ہوگیا ، ظاہر ہے کہ انسان جب اس طبقے کی خوراک ہوگئے تو ''سالم سموچے''انسان کو تو کھا نہیں سکتے اس لیے ڈیوائڈ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا۔
اور''ڈیوائڈ'' کے ساتھ ''رول'' کو چپکا دیا گیا۔کیونکہ یہ نیا طبقہ جو آدم خوروں کا پیدا ہوا تھا تعداد میں کم تھا لیکن حرص و ہوس میں بہت زیادہ ۔اس لیے پندرہ فیصد ہوکر پچاسی فیصد کو کھانے کے لیے ''ڈیوائڈ اینڈ رول'' ہی سے کام لیتا تھا۔ویسے تو آپ پہچان گئے ہوں گے کہ یہ پندرہ فیصد آدم خور جو پچاسی فیصد آدمیوں کو کھاتے ہیں تو اسی ترقی دادہ ہتھیار یا ''چکی'' کی مدد ہی سے کھاتے ہیں۔ ویسے تو اس آدم خور طبقے نے ہاتھی کے دانتوں کی طرح اپنے ''نام''کچھ اور رکھے ہوئے ہیں۔
اشراف، حکمران،دیوتا زادے، ظل الہیٰ اور سایہ خدائے ذوالجلال وغیرہ لیکن حقیقت میں اپنے موجد کے نام پر ابلیسہ کہلانے کے لائق ہے کہ اس کا بھی وہی''دعویٰ برتری'' ہے جو اس کے بانی مبانی اور موجد کا تھا۔وہی کہ ہم آدم سے برتر ہیں برتری کا دعویٰ کل بھی''آگ'' پر تھا اور آج بھی آتشیں ہتھیاروں پر ہے۔کل بھی خود کو برتر مان کر حکمران بنے تھے اور آج کل آدم اور مٹی کی اولادوں کو حقیر اور خود کو برتر سمجھتے ہیں سمجھاتے ہیں اور منواتے ہیں، خیر ہتھیار تو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن ''کام'' وہی ہے ڈیوائڈ اینڈ رول۔پھوڑو، نچوڑو اور کھاؤ
لے آئی پھر کہاں پر،قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
ہاں تھوڑا سا فرق پڑا ہے کل یہ اجناس کو ڈیوائڈ کرکے کھاتا لیکن اب جنس کے ساتھ''انس'' بھی ڈیوائڈ در ڈیوائڈ کرکے کھاتا ہے۔ایک کسان نے سویرے دیکھا کہ اس کے کھیت میں تین لوگ چوری کر رہے ہیں۔اب وہ اکیلا اور چور تین۔تب اسے ''ڈیوائڈ'' کا ہتھیار یاد آیا۔
چوروں میں ایک جلاہا تھا، ایک کسان اور تیسرا استاد۔اس نے پہلے جلاہے سے کہا۔وہ ایک تو میرا کسان بھائی ہے۔اگر اس نے میرے کھیت سے کچھ لیا ہے تو کوئی بات نہیں اور دوسرا ہمارا استاد ہے اس کا بھی مجھ پر اور میرے کھیت پر حق ہے۔لیکن تم کس کھیت کی مولی ہو۔اور اسے پکڑا ایک پیڑ سے باندھ دیا۔پھر پلٹ کر کسان سے بولا۔استاد صاحب تو ہمارے محترم ہیں۔ہم پر بہت سے حقوق رکھتے ہیں لیکن تم بتاؤ میں نے کبھی تمہارے کھیت سے کچھ لیا،توڑا ہے یا کھایا۔اور تمہیں تو کسان ہونے کے ناطے پتہ ہونا چاہیے کہ ایک کسان کے لیے اپنی فصل کتنی اہم اور محبوب ہوتی ہے۔
کسان کو بھی دوسرے پیڑ سے باندھ کر وہ استاد کی طرف پلٹا۔تم بتاؤ تم تو استاد ہو حرام و حلال کا فرق سمجھتے ہو بلکہ ہمیں بھی ہر وقت حلال و حرام کے مسائل سناتے ہو اور کررہے ہو چوری۔ چنانچہ استاد کو بھی باندھ کر اس نے ایک ٹہینی توڑی اور تینوں پر پل پڑا۔اور اس بڈھے کا قصہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا جس نے اپنے بیٹوں کو لکڑیوں کے ایک گھٹے پر آزمایا تھا۔آٹھ دس لکڑیوں کو اس نے اکٹھا باندھ کر بیٹوں سے توڑنے کے لیے کہا۔
بیٹوں نے زورآزمائی کی لیکن بندھی ہوئی لکڑیوں کا گھٹا توڑنے میں ناکام ہوئے پھر اس نے گھٹا کھول کر ایک ایک لکڑی توڑنے کا کہا۔تو بیٹوں نے ایک ایک کرکے سارے لکڑی کے ٹکڑے توڑ دیے۔ہمارے سامنے بھی یہ جو''بازیچہ اطفال'' ہے اس میں بھی ایسے تماشے ہم روز دیکھتے ہیں ڈیوائڈ اینڈ رول۔
کاٹو،توڑو،پھوڑو لڑاؤ۔ پیسو اور چباؤ۔ وہ کون سا مقام ہے جہاں یہ عمل جاری نہیں اور جب اس کے ساتھ وہ ایجاد بھی شامل ہوجاتا ہے جو ''قابیل'' نے ہابیل سے چھٹکارا پانے کے لیے ایجاد کیا تھا تو بات اور بھی دلچسپ ہوجاتی ہے اور یہی گانے کو جی چاہتا ہے کہ
اب کے سجن ساون میں
آگ لگے گی بدن میں
گھٹا برسے گی نظر ترسے گی
مگر مل نہ سکیں''دو''من ایک ہی آنگن میں
کوئی ''ضرورت'' کو ہر ایجاد کی ماں بتاتا ہے طبعیات والے ''آگ'' کو سب سے پہلی کیمیائی ایجاد بتاتے ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں دنیا کی سب سے پہلی اور شاید آخری بھی ثابت ہوجائے ''ڈیوائڈ اینڈ رول'' ہے اگرچہ لوگ انگریزوں کو اس کا موجد بتاتے ہیں۔لیکن غلط ہے۔
انگریزوں نے اس کا ''استعمال'' سب سے زیادہ کیا ہے ''ایجاد'' کسی اور کی ہے اور یہ کوئی اور وہ ہے۔جو اور بھی ساری ایجادات کا''آئن سٹائن'' ہے۔ اب تو آپ پہچان گئے ہوں گے وہی غرزیل جو ابلیس تخلص کرتا تھا اور شیطان کی عرفیت سے مشہور ہے۔ سب سے پہلے برتری اور کمتری کا جو راگ الاپا تھا وہی ڈیوائڈ اینڈ رول ہے۔اور یہ اتنی ہمہ گیر ایجاد ہے جتنا اس کا ''موجد''چاردانگ عالم میں مشہور و معروف ہے۔بلکہ اس کا سب کچھ اتنا ہی مشہور ہے
تری آنکھیں تری زلفیں ترے ابرو ترے لب
اب بھی مشہور ہیں دنیا میں مثالوں کی طرح
یہ ایجاد اتنی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔اگر کہیے تو یہ ساری دنیا ہی اس ایجاد''ڈیوائڈ اینڈ رول'' پر چل رہی ہے یہ جو آپ''روٹی'' کھا رہے ہیں یہ بھی گندم یا اناج کا ڈیوائڈ اینڈ رول ہے بلکہ آپ اسے ''ڈیوائڈ اینڈ ایٹ''بھی کہہ سکتے ہیں۔
پانی جب آپ پیتے ہیں تو ''گھونٹ گھونٹ'' کرکے پیتے ہیں یہ بھی ڈیوائڈ اینڈ ایٹ یا ڈیوائڈ اینڈ ٹیک'' ہے۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں خود اپنے آپ کو اپنی سرگرمیوں،منہ گرمیوں اور دست گرمیوں کو دیکھیے۔کون سی چیز ہے جسے آپ''سالم'' کھاسکتے ہیں غلہ، سبزیاں، گوشت پھل کسی بھی چیز کو آپ''سالم'' نہیں نگل سکتے ہیں۔
پہلے اسے بیرونی ذرائع سے کاٹیں گے اور جب اچھی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے ''ذرہ ذرہ''، ''پیس'' نہ جائے آپ اسے نہیں کھا سکتے ہیں۔اور بیرونی''ڈیوائڈ'' کے بعد آپ اسے ''منہ'' کی چکی میں یا مشین میں ڈالتے ہیں اور مزید پیس کر یا ڈیوائڈ کرنے کے بعد نگلیں گے۔
چنانچہ دیکھا جائے تو انسان یا جاندار کی ساری زندگی ''ڈیوائڈ اینڈ ڈیوائڈ اینڈ ڈیوائڈ کی رہین منت ہے۔ ڈیوائڈ نہ کرے تو نہ کچھ کھا سکے نہ پی سکے نہ ہضم کر سکے۔خوراک کو تو ایک طرف کردیجیے۔پانی کے بارے میں بھی ہم نے بتا دیا ہے یہاں تک کہ سانس بھی ہوا کو ڈیوائڈ کرکے ہی لیتا ہے۔
جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے اسی لیے تو''سانس'' لینے کو سزا کہا ہوا ہے۔اور ڈیوائڈ''بہر حال ایک''سزا'' ہوتی ہے۔اور پھر ہوا یوں کہ انسانوں کا ایک طبقہ''آدم خور'' ہوگیا ، ظاہر ہے کہ انسان جب اس طبقے کی خوراک ہوگئے تو ''سالم سموچے''انسان کو تو کھا نہیں سکتے اس لیے ڈیوائڈ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا۔
اور''ڈیوائڈ'' کے ساتھ ''رول'' کو چپکا دیا گیا۔کیونکہ یہ نیا طبقہ جو آدم خوروں کا پیدا ہوا تھا تعداد میں کم تھا لیکن حرص و ہوس میں بہت زیادہ ۔اس لیے پندرہ فیصد ہوکر پچاسی فیصد کو کھانے کے لیے ''ڈیوائڈ اینڈ رول'' ہی سے کام لیتا تھا۔ویسے تو آپ پہچان گئے ہوں گے کہ یہ پندرہ فیصد آدم خور جو پچاسی فیصد آدمیوں کو کھاتے ہیں تو اسی ترقی دادہ ہتھیار یا ''چکی'' کی مدد ہی سے کھاتے ہیں۔ ویسے تو اس آدم خور طبقے نے ہاتھی کے دانتوں کی طرح اپنے ''نام''کچھ اور رکھے ہوئے ہیں۔
اشراف، حکمران،دیوتا زادے، ظل الہیٰ اور سایہ خدائے ذوالجلال وغیرہ لیکن حقیقت میں اپنے موجد کے نام پر ابلیسہ کہلانے کے لائق ہے کہ اس کا بھی وہی''دعویٰ برتری'' ہے جو اس کے بانی مبانی اور موجد کا تھا۔وہی کہ ہم آدم سے برتر ہیں برتری کا دعویٰ کل بھی''آگ'' پر تھا اور آج بھی آتشیں ہتھیاروں پر ہے۔کل بھی خود کو برتر مان کر حکمران بنے تھے اور آج کل آدم اور مٹی کی اولادوں کو حقیر اور خود کو برتر سمجھتے ہیں سمجھاتے ہیں اور منواتے ہیں، خیر ہتھیار تو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن ''کام'' وہی ہے ڈیوائڈ اینڈ رول۔پھوڑو، نچوڑو اور کھاؤ
لے آئی پھر کہاں پر،قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
ہاں تھوڑا سا فرق پڑا ہے کل یہ اجناس کو ڈیوائڈ کرکے کھاتا لیکن اب جنس کے ساتھ''انس'' بھی ڈیوائڈ در ڈیوائڈ کرکے کھاتا ہے۔ایک کسان نے سویرے دیکھا کہ اس کے کھیت میں تین لوگ چوری کر رہے ہیں۔اب وہ اکیلا اور چور تین۔تب اسے ''ڈیوائڈ'' کا ہتھیار یاد آیا۔
چوروں میں ایک جلاہا تھا، ایک کسان اور تیسرا استاد۔اس نے پہلے جلاہے سے کہا۔وہ ایک تو میرا کسان بھائی ہے۔اگر اس نے میرے کھیت سے کچھ لیا ہے تو کوئی بات نہیں اور دوسرا ہمارا استاد ہے اس کا بھی مجھ پر اور میرے کھیت پر حق ہے۔لیکن تم کس کھیت کی مولی ہو۔اور اسے پکڑا ایک پیڑ سے باندھ دیا۔پھر پلٹ کر کسان سے بولا۔استاد صاحب تو ہمارے محترم ہیں۔ہم پر بہت سے حقوق رکھتے ہیں لیکن تم بتاؤ میں نے کبھی تمہارے کھیت سے کچھ لیا،توڑا ہے یا کھایا۔اور تمہیں تو کسان ہونے کے ناطے پتہ ہونا چاہیے کہ ایک کسان کے لیے اپنی فصل کتنی اہم اور محبوب ہوتی ہے۔
کسان کو بھی دوسرے پیڑ سے باندھ کر وہ استاد کی طرف پلٹا۔تم بتاؤ تم تو استاد ہو حرام و حلال کا فرق سمجھتے ہو بلکہ ہمیں بھی ہر وقت حلال و حرام کے مسائل سناتے ہو اور کررہے ہو چوری۔ چنانچہ استاد کو بھی باندھ کر اس نے ایک ٹہینی توڑی اور تینوں پر پل پڑا۔اور اس بڈھے کا قصہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا جس نے اپنے بیٹوں کو لکڑیوں کے ایک گھٹے پر آزمایا تھا۔آٹھ دس لکڑیوں کو اس نے اکٹھا باندھ کر بیٹوں سے توڑنے کے لیے کہا۔
بیٹوں نے زورآزمائی کی لیکن بندھی ہوئی لکڑیوں کا گھٹا توڑنے میں ناکام ہوئے پھر اس نے گھٹا کھول کر ایک ایک لکڑی توڑنے کا کہا۔تو بیٹوں نے ایک ایک کرکے سارے لکڑی کے ٹکڑے توڑ دیے۔ہمارے سامنے بھی یہ جو''بازیچہ اطفال'' ہے اس میں بھی ایسے تماشے ہم روز دیکھتے ہیں ڈیوائڈ اینڈ رول۔
کاٹو،توڑو،پھوڑو لڑاؤ۔ پیسو اور چباؤ۔ وہ کون سا مقام ہے جہاں یہ عمل جاری نہیں اور جب اس کے ساتھ وہ ایجاد بھی شامل ہوجاتا ہے جو ''قابیل'' نے ہابیل سے چھٹکارا پانے کے لیے ایجاد کیا تھا تو بات اور بھی دلچسپ ہوجاتی ہے اور یہی گانے کو جی چاہتا ہے کہ
اب کے سجن ساون میں
آگ لگے گی بدن میں
گھٹا برسے گی نظر ترسے گی
مگر مل نہ سکیں''دو''من ایک ہی آنگن میں