مہنگی بجلی قومی پیداوار میں 029 فیصد کمی کا سبب نیپرا
مقامی صارفین کے ساتھ کمرشل، انڈسٹریل، ایگری کلچر اور سروس سیکٹر صارفین بھی متاثر
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی کی بلند لاگت معاشی ترقی کی شرح نمو پر اثر ڈالنے والے اہم عوامل میں سے ایک ہے اور مالی سال 2022-23 میں مجموعی قومی پیداوار میں 0.29فیصد کمی کا سبب بنی۔
نیپرا کی اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ 2023کے مطابق پاکستان میں بجلی کی بلند قیمت معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کررہی ہے، مقامی صارفین کے ساتھ کمرشل، انڈسٹریل، ایگری کلچر اور سروس سیکٹر بھی بجلی کی بلند لاگت سے متاثر ہورہے ہیں۔
نیپرا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن کی بلند قیمت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے، پاکستان کا زیادہ انحصار درآمد شدہ توانائی کے ذرائع پر ہے، جن میں کوئلے اور آئل اینڈ گیس شامل ہیں، روپے کی قدر میں کمی سے ایندھن کی درآمدی لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے بجلی کی قیمتوں میں براہ راست اضافہ ہورہا ہے اور صارفین کو اضافی بوجھ اٹھانا پڑرہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق معاشی نکتہ نظر سے نیوکلیئر اور کوئلے سے چلنے والے پلانٹ بیس لوڈ پاور کا سب سے موزوں ذریعہ ہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ تھر میں کوئلے کی کان سے پیداوار کو مزید بڑھایا جائے اور اس سے متعلقہ انفرااسٹرکچر بشمول ریل نیٹ ورک کو جلد تعمیر کیا جائے۔ تھر کول پاور پلانٹ اپنی بلند ترین پیداواری گنجائش بروئے کار لاتے ہوئے انرجی سیکٹر میں 10فیصد حصہ ڈال رہا ہے، جسے 15سے 20فیصد تک بڑھاکر بجلی کی قیمت میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کروا دی
نیپرا کی رپورٹ اور معاشی نمو پر مہنگی بجلی کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے چیز سیکیوریٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ یوسف ایم فاروق نے کہا کہ یہ صورتحال کوئلے کے وسائل پر انحصار بڑھانے کا تقاضہ کرتی ہے، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹس ملک میں مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے سب سے کم لاگت پاور پروڈیوسرز ہیں۔ تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداواری لاگت 5سے 7روپے فی کلو واٹ ہے جبکہ درآمدی کوئلے سے بننے والی بجلی 15سے 25روپے کلو واٹ کی پڑ رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا آغاز پچاس سال کی تاخیر سے کیا ہے، تھر کے کوئلے سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت کی ساورن گارنٹی اور اسٹیٹ بینک کے اشتراک سے تھر کے کوئلے میں سرمایہ کاری کے لیے انسٹرومینٹس تشکیل دیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ کوئلے کی کان کنی کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے یہ ایک بلند لاگت کی صنعت ہے، اس شعبے کے لیے عالمی مالیات لگ بھگ بند ہوچکی ہے، اس لیے کوئلے کے وسیع مقامی ذخائر سے معاشی فوائد اٹھانے کے لیے ملکی سطح پر پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ہی واحد راستہ ہے۔
یوسف ایم فاروق نے کہا کہ تھر کے کوئلے کے امکانات کو بھرپور انداز میں بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ ساورن فنڈ تشکیل دیا جائے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کو فروغ دیا جائے۔ انھوں نے پاکستان کو توانائی کے شعبے میں خودکفیل بنانے اور توانائی کے موجودہ بحران کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئلے کی کان کنی میں اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی ضرورت پر زور دیا۔
نیپرا کی اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ 2023کے مطابق پاکستان میں بجلی کی بلند قیمت معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کررہی ہے، مقامی صارفین کے ساتھ کمرشل، انڈسٹریل، ایگری کلچر اور سروس سیکٹر بھی بجلی کی بلند لاگت سے متاثر ہورہے ہیں۔
نیپرا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن کی بلند قیمت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے، پاکستان کا زیادہ انحصار درآمد شدہ توانائی کے ذرائع پر ہے، جن میں کوئلے اور آئل اینڈ گیس شامل ہیں، روپے کی قدر میں کمی سے ایندھن کی درآمدی لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے بجلی کی قیمتوں میں براہ راست اضافہ ہورہا ہے اور صارفین کو اضافی بوجھ اٹھانا پڑرہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق معاشی نکتہ نظر سے نیوکلیئر اور کوئلے سے چلنے والے پلانٹ بیس لوڈ پاور کا سب سے موزوں ذریعہ ہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ تھر میں کوئلے کی کان سے پیداوار کو مزید بڑھایا جائے اور اس سے متعلقہ انفرااسٹرکچر بشمول ریل نیٹ ورک کو جلد تعمیر کیا جائے۔ تھر کول پاور پلانٹ اپنی بلند ترین پیداواری گنجائش بروئے کار لاتے ہوئے انرجی سیکٹر میں 10فیصد حصہ ڈال رہا ہے، جسے 15سے 20فیصد تک بڑھاکر بجلی کی قیمت میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کروا دی
نیپرا کی رپورٹ اور معاشی نمو پر مہنگی بجلی کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے چیز سیکیوریٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ یوسف ایم فاروق نے کہا کہ یہ صورتحال کوئلے کے وسائل پر انحصار بڑھانے کا تقاضہ کرتی ہے، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹس ملک میں مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے سب سے کم لاگت پاور پروڈیوسرز ہیں۔ تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداواری لاگت 5سے 7روپے فی کلو واٹ ہے جبکہ درآمدی کوئلے سے بننے والی بجلی 15سے 25روپے کلو واٹ کی پڑ رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا آغاز پچاس سال کی تاخیر سے کیا ہے، تھر کے کوئلے سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی حکومت کی ساورن گارنٹی اور اسٹیٹ بینک کے اشتراک سے تھر کے کوئلے میں سرمایہ کاری کے لیے انسٹرومینٹس تشکیل دیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ کوئلے کی کان کنی کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے یہ ایک بلند لاگت کی صنعت ہے، اس شعبے کے لیے عالمی مالیات لگ بھگ بند ہوچکی ہے، اس لیے کوئلے کے وسیع مقامی ذخائر سے معاشی فوائد اٹھانے کے لیے ملکی سطح پر پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ہی واحد راستہ ہے۔
یوسف ایم فاروق نے کہا کہ تھر کے کوئلے کے امکانات کو بھرپور انداز میں بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ ساورن فنڈ تشکیل دیا جائے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کو فروغ دیا جائے۔ انھوں نے پاکستان کو توانائی کے شعبے میں خودکفیل بنانے اور توانائی کے موجودہ بحران کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئلے کی کان کنی میں اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی ضرورت پر زور دیا۔