باادب باملاحظہ ہوشیار
میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں اس جاہ وجلال کے مظاہرے جمہوریت کے ان موسموں میں دیکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔۔۔
RAWALPINDI:
''باادب باملاحظہ ہوشیار'' والے جاہ وجلال کی کہانیاں داستانوں میں ضرور پڑھیں۔ کبھی کبھار اس کا نمونہ تاریخی فلموں میں بھی دیکھنے کو ملا۔ عملی زندگی میں ایسے جاہ وجلال کو کبھی خود اپنی آنکھوں کے سامنے پورے جوبن میں جلوہ نما ہوتے ہوئے مگر بہت کم دیکھا ہے۔ منگل کے دن ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو میں اس ضمن میں کبھی رہتی زندگی تک بھول نہیں پائوں گا۔
ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے سرکار دربار سے کسی نہ کسی طرح کا واسطہ ضرور رکھنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو ہمیں ''بریف'' وغیرہ کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مدعو کرنے کی ضرورت آن پڑتی ہے۔ ایوان صدر ہو یا وزیراعظم کا دفتر اور اسی حوالے سے چند دوسرے اہم مگر ''حساس'' دفاتر، وہاں بلایا جائے تو عمارتوں کا شکوہ، بڑی طویل اور کشادہ راہ داریوں میں جبروتی محسوس ہونے والی خاموشی اور ہمیں خوش آمدید کہنے کے بعد صاحبان تک پہنچانے والے عملے کی مؤدبانہ چال ڈھال ''باادب با ملاحظہ ہوشیار'' والی فضاء ضرور بنا دیتی ہے۔ مگر جب ''بریفنگ''کے لیے بیٹھو تو میرے جیسے ''دوٹکے کے صحافی'' اپنے اُلٹے پلٹے سوالوں سے ماحول کو تقریباً بے تکلف بنا ڈالتے ہیں۔ سوال کرنے کی مہلت اور اجازت ویسے بھی آپ کو مخاطب پر عارضی طور پر ہی سہی تھوڑا بہت بھاری ضرور بنا دیتی ہے۔
بہرحال منگل کے دن 12بج کر 40منٹ ہوچکے تھے۔ قومی اسمبلی میں سید خورشید شاہ کی طولانی تقریر ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ پارلیمانی روایات کے مطابق قائدِ حزب اختلاف کا حق ہوتا ہے کہ وہ جتنی دیر تک چاہے کسی وزیر خزانہ کے پیش کردہ بجٹ کے بارے میں عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے جو چاہے بولے۔ اپنے اس حق کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھر سے متعدد بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے شاہ صاحب گزشتہ جمعے کے دن وزیر اعظم کی موجودگی میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دیر تک بولتے رہے۔ پھر جمعہ کی اذان ہوگئی۔ شاہ صاحب نے اسپیکر کو مطلع کیا کہ ان کی تقریر ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پیر کی شام وہ اپنی تقریر کا آغاز اسی نکتے سے شروع کریں گے جہاں اب ختم کر رہے ہیں۔
اتوار کی رات مگر کراچی کے اس ایئرپورٹ پر جسے وزیرداخلہ ''پرانا ایئرپورٹ''کہنے پر بضد ہیں ایک ناخوش گوار واقعہ ہوگیا۔ اس کے دوسرے روز تمام اپوزیشن والوں نے حکومت کو قائل کردیا کہ بجٹ گیا بھاڑ میں۔ ''واقعہ سخت ہے اور جان عزیز'' والا قصہ ہوگیا ہے۔ اب وہ تقاریر کریں گے تو صرف ملک میں خوفزدہ کرنے کی حد تک بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورتحال کے بارے میں۔ لہذا تقریر پر تقریر ہوئی مگر جس حالت میں ہم گرفتار ہوچکے ہیں اس سے باہر نکلنے کے راستے کسی نے بتانے اور سمجھانے کی کوشش ہی نہ کی۔ منگل کے دن ہم اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ پر خورشید شاہ کی نامکمل ٹھہری تقریر کو مکمل ہوتا دیکھنے کے عذاب سے گزرتے رہے۔
پریس گیلری میں اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے مجھے جمائیاں آنا شروع ہوجائیں تو وہاں سے اُٹھ کر گیلری کے عقب میں بنائے پریس لائونج میں آجاتا ہوں۔ وہاں آرام سے بیٹھنے کو صوفے بچھے ہیں۔ گپ شپ لگانے کو چند صحافی دوست مل جاتے ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے وہاں موجود ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی اور سنائی بھی دیتا رہتا ہے۔ ان میں سے ایک ٹی وی کو ہم ''تازہ ترین خبروں'' سے خود کو آگاہ رکھنے کے لیے بغیر آواز کے Onکیے رہتے ہیں۔ خورشید شاہ کی تقریر ابھی جاری تھی کہ ''بریکنگ نیوز'' آگئی۔ اس کے ذریعے کراچی ایئرپورٹ کے قریب ASFسے متعلقہ کسی عمارت کے دائیں بائیں ایک اور ناخوش گوار واقعہ ہوتا بتایا گیا۔ لائونج میں تھرتھلی مچ گئی۔ ہم چینل پر چینل بدلتے ہوئے اس واقعہ کی تفصیلات جاننے میں مصروف ہوگئے۔
اسی دوران اطلاع آگئی کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب ایوان میں کھڑے ہوکر تقریر فرمانا شروع ہوگئے ہیں۔ ''دوٹکے کے صحافیوں''کی طرح میں نے بھی یہ فرض کرلیا کہ وہ اپنی تقریر کا آغاز اس واقعہ سے کریں گے جو پریس لائونج میں موجود ہم سب نے چینل گھماگھما کر تقریباً ہر اسکرین پر بہت پریشانی سے دیکھا تھا۔ ہمارے وزیر داخلہ مگر اس پورے واقعہ سے لاعلم دکھائی دیے۔ اس حوالے سے حیران ہونے کی مگر ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی۔ شاید اپنی تقریر کے نکات کی تیاری میں مصروف رہے ہوں گے۔ آدھ گھنٹہ گزرنے کے باوجود بھی لیکن جب وہ منگل کی دوپہر کراچی میں ہونے والے ایک اور ناخوش گوار دِکھنے والے واقعے سے قطعی بے خبر دکھائی دیے تو میرے چند صحافی دوستوں نے پورے اخلاص سے کاغذی چٹوں پر یہ واقعہ لکھ کر چوہدری صاحب کو پہنچانا چاہا۔
قومی اسمبلی کے عملے کا کوئی فرد مگر ان چٹوں کو وزیر داخلہ تک پہنچانے کو تیار نہیں تھا۔ انھیں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ جب وہ قومی اسمبلی میں اپنی نشست پر بیٹھے ہوں تو انھیں چٹیں وغیرہ بھیج کر ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ چوہدری صاحب کے جاہ وجلال کا احترام کرتے ہوئے بالآخر کچھ دوستوں نے ایسی ہی چٹوں کے ذریعے ان کے دائیں بائیں بیٹھے دو ''تگڑے وزراء'' زاہد حامد اور خرم دستگیر خان کو کراچی والے تازہ واقعہ کی بابت مطلع کرنا چاہا۔ ان دونوں تک وہ چٹیں پہنچ تو گئیں۔ مگر ان میں سے ایک کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ انھیں چوہدری نثار علی خان کی توجہ طلب کرنے کی غرض سے وزیر داخلہ تک پہنچا سکیں۔ ان دونوں کو مگر دوش کیوں دینا۔ چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ چوہدری صاحب بڑی گھن گرج کے ساتھ اپنی قومی سلامتی پالیسی پیش کررہے تھے۔
اس تقریر کے دوران ان کے دائیں ہاتھ اپنی مخصوص نشست پر وزیر اعظم بھی براجمان تھے۔ چوہدری صاحب کی تقریر طولانی ہوتی چلی گئی۔ وزیر اعظم کا مگر ہیلی کاپٹر تیار تھا۔ انھیں کسی اہم معاملے کے لیے کسی دوسرے شہر جانا تھا۔ انھیں جانے میں دیر ہورہی تھی۔ چوہدری نثار علی خان کو اپنی تقریر ختم کرنے کے لیے انھوں نے ایک نہیں تین چٹیں لکھیں۔ وزیر داخلہ نے ان میں سے کسی ایک پر بھی توجہ نہ دی۔
اپنی تقریر اسی وقت ختم کی جب انھیں اطمینان ہوگیا کہ انھوں نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا ہے جو وہ اس تقریر کے ذریعے کہنا چاہتے تھے۔ ''باادب باملاحظہ'' والا جاہ وجلال اس کے سوا اور کیا ہے؟ میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں اس جاہ وجلال کے مظاہرے جمہوریت کے ان موسموں میں دیکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ وہ موسم ہوتے ہیں جب ''خلقِ خدا'' راج کیا کرتی ہے۔ باادب باملاحظہ ہوشیار والے ظل سبحانی نہیں۔
''باادب باملاحظہ ہوشیار'' والے جاہ وجلال کی کہانیاں داستانوں میں ضرور پڑھیں۔ کبھی کبھار اس کا نمونہ تاریخی فلموں میں بھی دیکھنے کو ملا۔ عملی زندگی میں ایسے جاہ وجلال کو کبھی خود اپنی آنکھوں کے سامنے پورے جوبن میں جلوہ نما ہوتے ہوئے مگر بہت کم دیکھا ہے۔ منگل کے دن ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو میں اس ضمن میں کبھی رہتی زندگی تک بھول نہیں پائوں گا۔
ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے سرکار دربار سے کسی نہ کسی طرح کا واسطہ ضرور رکھنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو ہمیں ''بریف'' وغیرہ کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مدعو کرنے کی ضرورت آن پڑتی ہے۔ ایوان صدر ہو یا وزیراعظم کا دفتر اور اسی حوالے سے چند دوسرے اہم مگر ''حساس'' دفاتر، وہاں بلایا جائے تو عمارتوں کا شکوہ، بڑی طویل اور کشادہ راہ داریوں میں جبروتی محسوس ہونے والی خاموشی اور ہمیں خوش آمدید کہنے کے بعد صاحبان تک پہنچانے والے عملے کی مؤدبانہ چال ڈھال ''باادب با ملاحظہ ہوشیار'' والی فضاء ضرور بنا دیتی ہے۔ مگر جب ''بریفنگ''کے لیے بیٹھو تو میرے جیسے ''دوٹکے کے صحافی'' اپنے اُلٹے پلٹے سوالوں سے ماحول کو تقریباً بے تکلف بنا ڈالتے ہیں۔ سوال کرنے کی مہلت اور اجازت ویسے بھی آپ کو مخاطب پر عارضی طور پر ہی سہی تھوڑا بہت بھاری ضرور بنا دیتی ہے۔
بہرحال منگل کے دن 12بج کر 40منٹ ہوچکے تھے۔ قومی اسمبلی میں سید خورشید شاہ کی طولانی تقریر ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ پارلیمانی روایات کے مطابق قائدِ حزب اختلاف کا حق ہوتا ہے کہ وہ جتنی دیر تک چاہے کسی وزیر خزانہ کے پیش کردہ بجٹ کے بارے میں عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے جو چاہے بولے۔ اپنے اس حق کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھر سے متعدد بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے شاہ صاحب گزشتہ جمعے کے دن وزیر اعظم کی موجودگی میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دیر تک بولتے رہے۔ پھر جمعہ کی اذان ہوگئی۔ شاہ صاحب نے اسپیکر کو مطلع کیا کہ ان کی تقریر ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پیر کی شام وہ اپنی تقریر کا آغاز اسی نکتے سے شروع کریں گے جہاں اب ختم کر رہے ہیں۔
اتوار کی رات مگر کراچی کے اس ایئرپورٹ پر جسے وزیرداخلہ ''پرانا ایئرپورٹ''کہنے پر بضد ہیں ایک ناخوش گوار واقعہ ہوگیا۔ اس کے دوسرے روز تمام اپوزیشن والوں نے حکومت کو قائل کردیا کہ بجٹ گیا بھاڑ میں۔ ''واقعہ سخت ہے اور جان عزیز'' والا قصہ ہوگیا ہے۔ اب وہ تقاریر کریں گے تو صرف ملک میں خوفزدہ کرنے کی حد تک بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورتحال کے بارے میں۔ لہذا تقریر پر تقریر ہوئی مگر جس حالت میں ہم گرفتار ہوچکے ہیں اس سے باہر نکلنے کے راستے کسی نے بتانے اور سمجھانے کی کوشش ہی نہ کی۔ منگل کے دن ہم اسحاق ڈار کے پیش کردہ بجٹ پر خورشید شاہ کی نامکمل ٹھہری تقریر کو مکمل ہوتا دیکھنے کے عذاب سے گزرتے رہے۔
پریس گیلری میں اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے مجھے جمائیاں آنا شروع ہوجائیں تو وہاں سے اُٹھ کر گیلری کے عقب میں بنائے پریس لائونج میں آجاتا ہوں۔ وہاں آرام سے بیٹھنے کو صوفے بچھے ہیں۔ گپ شپ لگانے کو چند صحافی دوست مل جاتے ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے وہاں موجود ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی اور سنائی بھی دیتا رہتا ہے۔ ان میں سے ایک ٹی وی کو ہم ''تازہ ترین خبروں'' سے خود کو آگاہ رکھنے کے لیے بغیر آواز کے Onکیے رہتے ہیں۔ خورشید شاہ کی تقریر ابھی جاری تھی کہ ''بریکنگ نیوز'' آگئی۔ اس کے ذریعے کراچی ایئرپورٹ کے قریب ASFسے متعلقہ کسی عمارت کے دائیں بائیں ایک اور ناخوش گوار واقعہ ہوتا بتایا گیا۔ لائونج میں تھرتھلی مچ گئی۔ ہم چینل پر چینل بدلتے ہوئے اس واقعہ کی تفصیلات جاننے میں مصروف ہوگئے۔
اسی دوران اطلاع آگئی کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب ایوان میں کھڑے ہوکر تقریر فرمانا شروع ہوگئے ہیں۔ ''دوٹکے کے صحافیوں''کی طرح میں نے بھی یہ فرض کرلیا کہ وہ اپنی تقریر کا آغاز اس واقعہ سے کریں گے جو پریس لائونج میں موجود ہم سب نے چینل گھماگھما کر تقریباً ہر اسکرین پر بہت پریشانی سے دیکھا تھا۔ ہمارے وزیر داخلہ مگر اس پورے واقعہ سے لاعلم دکھائی دیے۔ اس حوالے سے حیران ہونے کی مگر ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی۔ شاید اپنی تقریر کے نکات کی تیاری میں مصروف رہے ہوں گے۔ آدھ گھنٹہ گزرنے کے باوجود بھی لیکن جب وہ منگل کی دوپہر کراچی میں ہونے والے ایک اور ناخوش گوار دِکھنے والے واقعے سے قطعی بے خبر دکھائی دیے تو میرے چند صحافی دوستوں نے پورے اخلاص سے کاغذی چٹوں پر یہ واقعہ لکھ کر چوہدری صاحب کو پہنچانا چاہا۔
قومی اسمبلی کے عملے کا کوئی فرد مگر ان چٹوں کو وزیر داخلہ تک پہنچانے کو تیار نہیں تھا۔ انھیں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ جب وہ قومی اسمبلی میں اپنی نشست پر بیٹھے ہوں تو انھیں چٹیں وغیرہ بھیج کر ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ چوہدری صاحب کے جاہ وجلال کا احترام کرتے ہوئے بالآخر کچھ دوستوں نے ایسی ہی چٹوں کے ذریعے ان کے دائیں بائیں بیٹھے دو ''تگڑے وزراء'' زاہد حامد اور خرم دستگیر خان کو کراچی والے تازہ واقعہ کی بابت مطلع کرنا چاہا۔ ان دونوں تک وہ چٹیں پہنچ تو گئیں۔ مگر ان میں سے ایک کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ انھیں چوہدری نثار علی خان کی توجہ طلب کرنے کی غرض سے وزیر داخلہ تک پہنچا سکیں۔ ان دونوں کو مگر دوش کیوں دینا۔ چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ چوہدری صاحب بڑی گھن گرج کے ساتھ اپنی قومی سلامتی پالیسی پیش کررہے تھے۔
اس تقریر کے دوران ان کے دائیں ہاتھ اپنی مخصوص نشست پر وزیر اعظم بھی براجمان تھے۔ چوہدری صاحب کی تقریر طولانی ہوتی چلی گئی۔ وزیر اعظم کا مگر ہیلی کاپٹر تیار تھا۔ انھیں کسی اہم معاملے کے لیے کسی دوسرے شہر جانا تھا۔ انھیں جانے میں دیر ہورہی تھی۔ چوہدری نثار علی خان کو اپنی تقریر ختم کرنے کے لیے انھوں نے ایک نہیں تین چٹیں لکھیں۔ وزیر داخلہ نے ان میں سے کسی ایک پر بھی توجہ نہ دی۔
اپنی تقریر اسی وقت ختم کی جب انھیں اطمینان ہوگیا کہ انھوں نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا ہے جو وہ اس تقریر کے ذریعے کہنا چاہتے تھے۔ ''باادب باملاحظہ'' والا جاہ وجلال اس کے سوا اور کیا ہے؟ میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں اس جاہ وجلال کے مظاہرے جمہوریت کے ان موسموں میں دیکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ وہ موسم ہوتے ہیں جب ''خلقِ خدا'' راج کیا کرتی ہے۔ باادب باملاحظہ ہوشیار والے ظل سبحانی نہیں۔