قصہ ایک سڑسٹھ سالہ نوجوان مریض کا
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی یہ تو ابتدا تھی کیونکہ اس کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی اس خطرناک مرض نے دوسرے ۔۔۔
پچھلے دنوں مملکت ناپرسان کے صوبہ ''خیر پہ خیر'' میں جو المناک اندوہناک اور افسوس ناک حادثہ ہوا اس پر تقریباً ساری مملکت کی ''ناکیں'' اشک بار ہو گئیں، آنکھوں کے بجائے ناک کا اشک بار ہونا مملکت ناپرسان کی اسپیشلٹی ہے۔
اگر آپ نے بھارتی فلم ''ویلکم ٹو سجن پور'' دیکھی ہو تو اس میں ایک عورت اپنی پوتی کی شادی پر ہر وقت ناک بہاتی ہوئی دکھائی گئی ہے، وہ عورت دراصل ''ناپرسانی'' تھی اور سجن پور میں بیاہ کر آئی تھی، اسے جب بھی رونا آتا تھا آنسو اس کی ناک سے بہنے لگتے، اس لیے مملکت ناپرسان میں ہر واقعہ کسی نہ کسی کی ''ناک'' ہوتا ہے الم ناک، افسوس ناک، اندوہ ناک، شرم ناک، خوف ناک یا خطرناک ... یہ آخری تین قسم کی ''ناکیں'' یعنی شرمناک خوفناک اور خطرناک لیڈروں کی ہوتی ہیں، جس ناک واقعے کا ذکر ہم کر رہے ہیں یہ ایک ایسے نوجوان کے ساتھ پیش آیا جو تیرہ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ایک شادی پچھلے ہفتے ہوئی تھی دوسری چار دن پہلے اور تیسری کل ہونے والی تھی، بے چارے کے آٹھ دس چھوٹے چھوٹے ماں باپ تھے اور دو بوڑھے والدین بھی تھے، جو اب اس کی چار بیویوں کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں اس نوخیز نوجوان کی عمر ابھی صرف اسی سال کی تھی اسی لیے اس کی قبر پر لکھا گیا تھا کہ
پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
یہ غنچہ جو بن کھلے مرجھا گئے ''کرپشن'' نامی خطرناک نشے کی لت میں گرفتار تھا جب تک اسے نشہ ملتا رہا زندہ رہا اور کبھی بھی شرمندہ نہیں رہا، لیکن بدقسمتی سے مملکت کے صوبہ خیر پہ خیر میں ایک ایسی حکومت برسراقتدار آ گئی جس کی کرپشن کے ساتھ بہت پرانی اور خاندانی دشمنی تھی اس نے کرپشن پر جو بے پناہ حملہ کیا تو کرپشن کے سارے لاؤ لشکروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، کشتوں کے پشتے لگ گئے اور ہر شہر ہر محکمے اور ہر دفتر میں قلعہ مینار بنا دیے گئے، ویسے تو کرپشن کی مکمل بے بیخ کنی کی گئی ... لیکن ... جب حکومت نے للکارا مارا تو کرپشن بے چارہ درد کا مارا اچانک فرار ... یعنی اس نے دو اپنے پاؤں کیے دو کسی سے کرائے پر لیے اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی
د یزید چرتہ معلومہ نہ شوہ پتہ
ڈیرتکل ورپسے اوشو پورت خکتہ
یعنی اس کا کوئی پتہ نہیں چلا حالانکہ بہت تلاش کی گئی اس کی اوپر نیچے آگے پیچھے، دراصل اگرچہ کرپشن کے پاس بھی بہت بڑے بڑے پہلوان اور جنگ جو تھے لیکن حکومت کے پاس جو منتخب سورما لڑاکا واریئر اور یُدھا اس مرتبہ آئے تھے وہ کرپشن کے جدی پشتی دشمنی تھے کیا وزیر کیا مشیر کیا معاون کیا سیکریٹری ہر ایک ''عالم میں انتخاب'' تھا یعنی
کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
صرف اپنی کیٹرنگ یعنی چمچوں کانٹوں اور چھریوں کو لے کر کرپشن پر ایسا ہلہ بول دیا ایسا بول دیا کہ خود ''ہلہ'' بھی ہکا بکا رہ گیا اور لوگوں کے منہ سے بے اختیار داد و تحسین کے ڈونگرے بلند ہو گئے کہ مونچھیں ہوں تو نٹور لال جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
قصہ مختصر کہ کرپشن کا نام و نشان بھی نہیں رہا لیکن اس کی داستان تک بھی نہیں رہی داستانوں ... صرف ''بیانوں'' میں اس کا ذکر ہی باقی رہ گیا
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا کچھ خاص قسم کے کرپشن کے نشئی متاثر ہونے لگے باقی تو کسی نہ کسی طرح گزارہ کرتے رہے لیکن جس نو خیز اسی سالہ نوجوان کا ذکر ہم کر رہے ہیں اس کی جان پر بن آئی ایک دن اچانک لم لیٹ ہو گیا ... پس ماندگان نے چن چن کر ڈاکٹر، حکیم، طبیب، معالج حتیٰ کہ لقمان زمانہ تک بلوا لیے، سب نے اس کا معائنہ کیا جوتوں سے سارے جسم کی پیمائش کی گئی، کوڑوں سے ٹیسٹ کیے گئے، تھپڑوں لاتوں اور کھونسوں سے جانچ پڑتال کی گئی اور سارے معالج ان نتائج کو لے کر ایک کمرے میں بند ہو گئے آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے جب سب کے سروں کی جوئیں چھاؤنیاں بدل کر سیٹ ہو گئیں تو ایک جائنٹ کمیونکے جاری کیا گیا کہ اس مریض کا واحد علاج کرپشن صرف کرپشن اور کرپشن ہے، جب تک ''کرپشن'' اسے پلائی کھلائی اور نگلائی نہیں جائے گی اس کا مرض بڑھتا ہی رہے گا جو آخر کار مرض الموت میں تبدیل ہو جائے گا۔
لواحقین نے اعلان باانعام کیا کہ جو کوئی مطلوبہ دوا یعنی کرپشن لا کر دے گا اسے ایک خطیر رقم بطور انعام دی جائے گی، جو لیٹے تھے وہ اٹھ گئے جو بیٹھے تھے وہ اٹھ کھڑے ہوئے جو کھڑے تھے وہ چل پڑے اور جو چل رہے تھے وہ دوڑ پڑے تا کہ پڑوسی ملکوں اور صوبوں سے کرپشن ''اسمگل'' کر کے انعام حاصل کریں لیکن افسوس کہ کامیابی کسی کو بھی نہ ملی، مریض کے حلق میں گھنگھرو بولنے لگا اور وہ گھنگھروں کے ساز پر گنگنانے لگا
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور بھر تو دوا کر چلے
دراصل صوبہ ''خیر پہ خیر'' کی حکومت نے سرحدوں کو مکمل طور پر سیل کیا ہوا تھا اس کے پاس جو منتخب روزگار قسم کے ''کرپشن شناس'' تھے ان کو سرحدوں پر تعینات کیا گیا تھا جن کی آنکھوں میں کانوں میں ناک میں ہر ہر جگہ کرپشن ڈیڈیکٹر لگے ہوئے تھے بلکہ کئیوں کی ناک میں تو اعلیٰ پائے کے سراغرساں کتوں کی ناکیں بھی فٹ کی گئی تھیں چنانچہ اگر کسی کے پاس رائی کے دانے جتنی کرپشن بھی ہوتی تو سارے آلات پیں پیں کر کے اس کی طرف اشارہ کرنے لگتے اور وہ اسی وقت ''مال'' برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیتے، ادھر بے چارے نوخیز نوجوان اسی سالہ مریض کی حالت دم بہ دم بگڑتی رہی
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اس کا مطلب یہ نہیں کہ معالجین و ماہرین اس وقت تک خالی ہاتھ بیٹھے رہے، دوائے کرپشن کا انتظار بھی کرتے رہے لیکن ساتھ ہی اپنی تدابیر بھی آزماتے رہے تا کہ کسی طرح 67 سالہ نوجوان مریض کو ''دوائے کرپشن'' آنے تک زندہ رکھا جا سکے، ایک بوڑھے سال خوردہ حکیم نے اس کی نبض اور قارورہ وغیرہ چیک کر کے اپنا ہلتا ہوا سر مزید ہلا کر کہا
تاتریاق از عراق آوردہ شود
مارگزیدہ بچارہ مردہ شود
کیونکہ اس وقت دوائے کرپشن کا سب سے بڑا مرکز عراق ہوا کرتا تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ عراق سے دوائے کرپشن اسمگل کر کے لانے والے بھی پکڑے گئے اور ''تریاق'' کو منتخب اہل کاروں نے ضبط کر لیا اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ عراق کو مختصر طور پر آئی ایم ایف بھی کہتے ہیں بہرحال وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، 67 سالہ نوخیز و نوجوان مریض اپنے پیچھے سارے لواحقین کو بلکتا ہوا چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی یہ تو ابتدا تھی کیونکہ اس کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی اس خطرناک مرض نے دوسرے مریضوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا، آخر کار حکومت کو جھکنا پڑا لیکن ساتھ ہی چونکہ باتدبیر بھی تھی اس لیے کرپشن کو درآمد کرنے اور صحیح طریقے سے تقسیم کرنے اور صرف مستحق مریضوں کو پہنچانے کے لیے مخصوص منتخب اور اچھی ''ساکھ'' رکھنے والوں کو لائسنس ایشو کیے گئے جو نہایت ایمان داری اور انصاف کے ساتھ اسے صرف مستحق مریضوں ہی کو دیتے ہیں۔
اگر آپ نے بھارتی فلم ''ویلکم ٹو سجن پور'' دیکھی ہو تو اس میں ایک عورت اپنی پوتی کی شادی پر ہر وقت ناک بہاتی ہوئی دکھائی گئی ہے، وہ عورت دراصل ''ناپرسانی'' تھی اور سجن پور میں بیاہ کر آئی تھی، اسے جب بھی رونا آتا تھا آنسو اس کی ناک سے بہنے لگتے، اس لیے مملکت ناپرسان میں ہر واقعہ کسی نہ کسی کی ''ناک'' ہوتا ہے الم ناک، افسوس ناک، اندوہ ناک، شرم ناک، خوف ناک یا خطرناک ... یہ آخری تین قسم کی ''ناکیں'' یعنی شرمناک خوفناک اور خطرناک لیڈروں کی ہوتی ہیں، جس ناک واقعے کا ذکر ہم کر رہے ہیں یہ ایک ایسے نوجوان کے ساتھ پیش آیا جو تیرہ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ایک شادی پچھلے ہفتے ہوئی تھی دوسری چار دن پہلے اور تیسری کل ہونے والی تھی، بے چارے کے آٹھ دس چھوٹے چھوٹے ماں باپ تھے اور دو بوڑھے والدین بھی تھے، جو اب اس کی چار بیویوں کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں اس نوخیز نوجوان کی عمر ابھی صرف اسی سال کی تھی اسی لیے اس کی قبر پر لکھا گیا تھا کہ
پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
یہ غنچہ جو بن کھلے مرجھا گئے ''کرپشن'' نامی خطرناک نشے کی لت میں گرفتار تھا جب تک اسے نشہ ملتا رہا زندہ رہا اور کبھی بھی شرمندہ نہیں رہا، لیکن بدقسمتی سے مملکت کے صوبہ خیر پہ خیر میں ایک ایسی حکومت برسراقتدار آ گئی جس کی کرپشن کے ساتھ بہت پرانی اور خاندانی دشمنی تھی اس نے کرپشن پر جو بے پناہ حملہ کیا تو کرپشن کے سارے لاؤ لشکروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، کشتوں کے پشتے لگ گئے اور ہر شہر ہر محکمے اور ہر دفتر میں قلعہ مینار بنا دیے گئے، ویسے تو کرپشن کی مکمل بے بیخ کنی کی گئی ... لیکن ... جب حکومت نے للکارا مارا تو کرپشن بے چارہ درد کا مارا اچانک فرار ... یعنی اس نے دو اپنے پاؤں کیے دو کسی سے کرائے پر لیے اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی
د یزید چرتہ معلومہ نہ شوہ پتہ
ڈیرتکل ورپسے اوشو پورت خکتہ
یعنی اس کا کوئی پتہ نہیں چلا حالانکہ بہت تلاش کی گئی اس کی اوپر نیچے آگے پیچھے، دراصل اگرچہ کرپشن کے پاس بھی بہت بڑے بڑے پہلوان اور جنگ جو تھے لیکن حکومت کے پاس جو منتخب سورما لڑاکا واریئر اور یُدھا اس مرتبہ آئے تھے وہ کرپشن کے جدی پشتی دشمنی تھے کیا وزیر کیا مشیر کیا معاون کیا سیکریٹری ہر ایک ''عالم میں انتخاب'' تھا یعنی
کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
صرف اپنی کیٹرنگ یعنی چمچوں کانٹوں اور چھریوں کو لے کر کرپشن پر ایسا ہلہ بول دیا ایسا بول دیا کہ خود ''ہلہ'' بھی ہکا بکا رہ گیا اور لوگوں کے منہ سے بے اختیار داد و تحسین کے ڈونگرے بلند ہو گئے کہ مونچھیں ہوں تو نٹور لال جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
قصہ مختصر کہ کرپشن کا نام و نشان بھی نہیں رہا لیکن اس کی داستان تک بھی نہیں رہی داستانوں ... صرف ''بیانوں'' میں اس کا ذکر ہی باقی رہ گیا
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا کچھ خاص قسم کے کرپشن کے نشئی متاثر ہونے لگے باقی تو کسی نہ کسی طرح گزارہ کرتے رہے لیکن جس نو خیز اسی سالہ نوجوان کا ذکر ہم کر رہے ہیں اس کی جان پر بن آئی ایک دن اچانک لم لیٹ ہو گیا ... پس ماندگان نے چن چن کر ڈاکٹر، حکیم، طبیب، معالج حتیٰ کہ لقمان زمانہ تک بلوا لیے، سب نے اس کا معائنہ کیا جوتوں سے سارے جسم کی پیمائش کی گئی، کوڑوں سے ٹیسٹ کیے گئے، تھپڑوں لاتوں اور کھونسوں سے جانچ پڑتال کی گئی اور سارے معالج ان نتائج کو لے کر ایک کمرے میں بند ہو گئے آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے جب سب کے سروں کی جوئیں چھاؤنیاں بدل کر سیٹ ہو گئیں تو ایک جائنٹ کمیونکے جاری کیا گیا کہ اس مریض کا واحد علاج کرپشن صرف کرپشن اور کرپشن ہے، جب تک ''کرپشن'' اسے پلائی کھلائی اور نگلائی نہیں جائے گی اس کا مرض بڑھتا ہی رہے گا جو آخر کار مرض الموت میں تبدیل ہو جائے گا۔
لواحقین نے اعلان باانعام کیا کہ جو کوئی مطلوبہ دوا یعنی کرپشن لا کر دے گا اسے ایک خطیر رقم بطور انعام دی جائے گی، جو لیٹے تھے وہ اٹھ گئے جو بیٹھے تھے وہ اٹھ کھڑے ہوئے جو کھڑے تھے وہ چل پڑے اور جو چل رہے تھے وہ دوڑ پڑے تا کہ پڑوسی ملکوں اور صوبوں سے کرپشن ''اسمگل'' کر کے انعام حاصل کریں لیکن افسوس کہ کامیابی کسی کو بھی نہ ملی، مریض کے حلق میں گھنگھرو بولنے لگا اور وہ گھنگھروں کے ساز پر گنگنانے لگا
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور بھر تو دوا کر چلے
دراصل صوبہ ''خیر پہ خیر'' کی حکومت نے سرحدوں کو مکمل طور پر سیل کیا ہوا تھا اس کے پاس جو منتخب روزگار قسم کے ''کرپشن شناس'' تھے ان کو سرحدوں پر تعینات کیا گیا تھا جن کی آنکھوں میں کانوں میں ناک میں ہر ہر جگہ کرپشن ڈیڈیکٹر لگے ہوئے تھے بلکہ کئیوں کی ناک میں تو اعلیٰ پائے کے سراغرساں کتوں کی ناکیں بھی فٹ کی گئی تھیں چنانچہ اگر کسی کے پاس رائی کے دانے جتنی کرپشن بھی ہوتی تو سارے آلات پیں پیں کر کے اس کی طرف اشارہ کرنے لگتے اور وہ اسی وقت ''مال'' برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیتے، ادھر بے چارے نوخیز نوجوان اسی سالہ مریض کی حالت دم بہ دم بگڑتی رہی
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اس کا مطلب یہ نہیں کہ معالجین و ماہرین اس وقت تک خالی ہاتھ بیٹھے رہے، دوائے کرپشن کا انتظار بھی کرتے رہے لیکن ساتھ ہی اپنی تدابیر بھی آزماتے رہے تا کہ کسی طرح 67 سالہ نوجوان مریض کو ''دوائے کرپشن'' آنے تک زندہ رکھا جا سکے، ایک بوڑھے سال خوردہ حکیم نے اس کی نبض اور قارورہ وغیرہ چیک کر کے اپنا ہلتا ہوا سر مزید ہلا کر کہا
تاتریاق از عراق آوردہ شود
مارگزیدہ بچارہ مردہ شود
کیونکہ اس وقت دوائے کرپشن کا سب سے بڑا مرکز عراق ہوا کرتا تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ عراق سے دوائے کرپشن اسمگل کر کے لانے والے بھی پکڑے گئے اور ''تریاق'' کو منتخب اہل کاروں نے ضبط کر لیا اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ عراق کو مختصر طور پر آئی ایم ایف بھی کہتے ہیں بہرحال وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، 67 سالہ نوخیز و نوجوان مریض اپنے پیچھے سارے لواحقین کو بلکتا ہوا چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی یہ تو ابتدا تھی کیونکہ اس کی وفات حسرت آیات کے ساتھ ہی اس خطرناک مرض نے دوسرے مریضوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا، آخر کار حکومت کو جھکنا پڑا لیکن ساتھ ہی چونکہ باتدبیر بھی تھی اس لیے کرپشن کو درآمد کرنے اور صحیح طریقے سے تقسیم کرنے اور صرف مستحق مریضوں کو پہنچانے کے لیے مخصوص منتخب اور اچھی ''ساکھ'' رکھنے والوں کو لائسنس ایشو کیے گئے جو نہایت ایمان داری اور انصاف کے ساتھ اسے صرف مستحق مریضوں ہی کو دیتے ہیں۔