کپاس کی کاشت میں ریکارڈ نوعیت کی کمی کے خدشات
مارچ کا تیسرا ہفتہ شروع ہونے کے باوجود ایف سی اے کی جانب سے اہداف مقرر نہیں کیے گئے
کپاس کے سال 2024-25 کیلیے وفاقی حکومت کی جانب سے کاشت اور پیداواری اہداف مقرر نہ ہونے، کپاس کی امدادی قیمت کے عدم تعین اور صنعتی شعبوں کے لیے توانائی کی قیمتیں تسلسل سے بڑھانے جیسے اقدامات کے باعث پوری کاٹن گروئنگ مینوفیکچرنگ اور سپلائی چین اضطراب سے دوچار ہوگئی ہے۔
کپاس کی کاشت میں ریکارڈ نوعیت کی کمی اور مزید ٹیکسٹائل ملوں کے غیر فعال ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں، چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ فیڈرل کمیٹی آن ایگریکلچر(ایف سی اے) روایتی طور پر ہر سال فروری کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں اس سال کے لیے ملک بھر میں کپاس کی کاشت اور پیداواری اہداف کا تعین کرتی تھی جس سے تمام کاٹن اسٹیک ہولڈرز کو اس سال کے لیے اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں کافی مدد ملتی تھی۔
چند سال قبل تک وفاقی حکومت کپاس کی امدادی قیمت کا بھی تعین کرتی تھی جبکہ گزشتہ برس سے امدادی کے بجائے مداخلتی قیمت رائج کی گئی جبکہ اس سال مارچ کا تیسرا ہفتہ شروع ہونے کے باوجود ایف سی اے کی جانب سے نہ تو کوئی اہداف مقرر کیے گئے ہیں اور نہ کپاس کی امدادی یا مداخلتی قیمت کا کوئی تعین کیا گیا ہے جس سے کاشت کاروں سمیت پورے کاٹن سیکٹر میں تشویش دیکھی جا رہی ہے.
انہوں نے بتایا کہ بھاری ٹیکسز و مارک اپ جبکہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں ریکارڈاضافے کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹراس وقت ساٹھ فیصد سے زیادہ غیر فعال ہے جس کے باعث ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں بھی مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے ۔
کپاس کی کاشت میں ریکارڈ نوعیت کی کمی اور مزید ٹیکسٹائل ملوں کے غیر فعال ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں، چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ فیڈرل کمیٹی آن ایگریکلچر(ایف سی اے) روایتی طور پر ہر سال فروری کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں اس سال کے لیے ملک بھر میں کپاس کی کاشت اور پیداواری اہداف کا تعین کرتی تھی جس سے تمام کاٹن اسٹیک ہولڈرز کو اس سال کے لیے اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں کافی مدد ملتی تھی۔
چند سال قبل تک وفاقی حکومت کپاس کی امدادی قیمت کا بھی تعین کرتی تھی جبکہ گزشتہ برس سے امدادی کے بجائے مداخلتی قیمت رائج کی گئی جبکہ اس سال مارچ کا تیسرا ہفتہ شروع ہونے کے باوجود ایف سی اے کی جانب سے نہ تو کوئی اہداف مقرر کیے گئے ہیں اور نہ کپاس کی امدادی یا مداخلتی قیمت کا کوئی تعین کیا گیا ہے جس سے کاشت کاروں سمیت پورے کاٹن سیکٹر میں تشویش دیکھی جا رہی ہے.
انہوں نے بتایا کہ بھاری ٹیکسز و مارک اپ جبکہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں ریکارڈاضافے کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹراس وقت ساٹھ فیصد سے زیادہ غیر فعال ہے جس کے باعث ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں بھی مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے ۔