سب سے بڑا لیڈر کون
سب موقع پرست اور مفاد پرست سیاستدان ہیں جنھوں نے ملک نہیں ذاتی مال اور عوام کو بے وقوف بنایا
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما علی محمد خان نے ایک انٹرویو میں اپنے پارٹی بانی عمران خان کو ملک کا سب سے بڑا لیڈر قرار دے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بھی اپنی اپنی پارٹی کے لیڈر ہیں مگرکوئی ملک دشمن نہیں، یہ دونوں بھی محب وطن ہیں اور سب کو مل کر ملک و قوم کا سوچنا چاہیے۔
علی محمد خان کا شمار پی ٹی آئی کے سلجھے ہوئے اور اعتدال پسند رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اپنے بانی چیئرمین کے انتہائی وفادار ہیں جو تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ایوان میں موجود تھے جب کہ باقی کوئی رہنما وہاں موجود نہیں تھا اور علی محمد خان بعد میں گرفتار بھی ہوئے اور پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور دیگر کی طرح منحرف نہیں ہوئے اور حق و سچ کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں مگر اپنے لیڈر کی انھوں نے کبھی غلطیوں کی نشان دہی نہیں کی اور اپنے لیڈر کے گن ہی گاتے رہے۔
پی ٹی آئی کے ایک نئے رہنما شیر افضل مروت نے اتنی ہمت تو کی ہے اور اپنے لیڈر کے اس فیصلے کو غلط قرار دیا ہے جس میں بانی پی ٹی آئی نے اپنی برطرفی کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دلوائے اور اپنی پنجاب و کے پی کے ، کی اسمبلیاں تڑوائی تھیں جس کی وجہ سے سانحہ 9 مئی کا پارٹی کو سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کی حکومتیں بھی ختم ہوئیں۔
پی ٹی آئی میں شفقت محمود، اسد عمر جیسے بعض مخلص رہنما بھی تھے جنھوں نے بانی چیئرمین کی پالیسی کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور جب پارٹی پر برا وقت آیا تو انھوں نے پارٹی لیڈر کی پالیسی پر تنقید نہیں کی نہ پارٹی چھوڑی نہ پارٹی کے لیے کوئی تکلیف اٹھائی اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی اپنے لیڈر سے پارٹی کے اندرکوئی اختلاف کر سکتا ہے نہ لیڈر کی مخالفت میں بول سکتا ہے، صرف اپنی رائے کا اظہار ضرور کر سکتا ہے اور اس کی رائے یا رویہ پسند نہ آئے تو پارٹی اسے کھڈے لائن لگا سکتی ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔
پی ٹی آئی 2011ء سے قبل جب بالاتروں کی سرپرستی میں نہیں تھی اس وقت بھی پارٹی چیئرمین سے اختلاف اور مشورے پر اکبر ایس بابر کو نکال دیا گیا تھا۔ سینئر وکیل حامد خان کو کھڈے لائن لگایا گیا اور اقتدار سے محرومی کے بعد لیڈر کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کو بلا لیا گیا جو برے وقت میں بھی لیڈر اور پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے قیام کے وقت جو رہنما شامل ہوئے تھے وہ لیڈر کی من مانی دیکھ کر اسی وقت پارٹی چھوڑ گئے تھے کیونکہ ان کی سنی ہی نہیں جاتی تھی۔ پیپلز پارٹی میں بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دور میں متعدد سینئر رہنما پی پی چھوڑ گئے تھے۔ بعض نے اپنی پارٹیاں بھی بنائیں جو سب ناکام رہے تھے۔
بے نظیر بھٹو کے بعد سے پیپلز پارٹی پر آصف زرداری کی گرفت مضبوط ہے کہ کوئی ان سے اختلاف نہیں کرتا۔ پی پی کی قیادت کی پالیسی کے تحت پنجاب میں پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا اور اس کے بہت سے رہنما پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے۔اور انھوں نے عمران خان کو لیڈر بنا لیا تھا جن میں مشہور نام ندیم افضل چن اور راجہ ریاض کا بھی تھا جو پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی میں گئے اور بعد میں پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے مگر یہ لوگ اس وقت پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے جب پارٹی اقتدار میں تھی کیونکہ بانی لیڈر کسی کی سنتے ہی نہیں تھے۔
علی محمد خان اپنے بانی کو ملک کا سب سے بڑا لیڈر کہہ رہے ہیں جنھیں حالیہ الیکشن میں تقریباً پونے دو کروڑ اور ان کی مخالف پارٹیوں کو ساڑھے چارکروڑ ووٹ ملا ہے اور ملک میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بھی ایسی ہی حکومت قائم ہوئی ہے جیسی 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور پنجاب میں مشکلات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی اکثریت تھی مگر اس کی حکومت نہیں بننے دی گئی تھی جب کہ سانحہ 9 مئی اور تحفظات کے باوجود کے پی کے میں اکثریت کے باعث پی ٹی آئی کی حکومت بننے دی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے بھی اسے قبول کیا ہے مگر کے پی کے میں پی ٹی آئی کا جو شخص وزیر اعلیٰ بنا ہے جس نے بانی سے ملاقات کے بعد وفاقی حکومت کے خلاف بیان دیا ہے۔
دنیا اور بڑے ملکوں نے نئی حکومت کو تسلیم کیا ہے اور اس کے منتخب صدر اور وزیر اعظم کو بڑا لیڈر تسلیم کرکے مبارک باد دی ہے اور دونوں پارٹیوں کی وفاق اور تین صوبوں میں حکومتیں ہیں۔ میاں نواز شریف کو ان کے شدید مخالف جنرل پرویز نے بھی سیکیورٹی رسک قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف کرپشن کا بیانیہ عمران خان کی طرح بنایا تھا۔ دونوں کو کرپشن پر عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی تھی جب کہ پی ٹی آئی کے مبینہ بڑے لیڈر کو گھڑی چوری سمیت متعدد مقدمات میں سزا سنائی جا چکی ہے مگر کسی نے انھیں ملک دشمن نہیں کہا تھا۔
پاکستان میں سب سے بڑے لیڈر قائد اعظم تھے اور اب بھی ہیں، ان کا اب بھی کوئی مقابلہ نہیں، باقی سب موقع پرست اور مفاد پرست سیاستدان ہیں جنھوں نے ملک نہیں ذاتی مال اور عوام کو بے وقوف بنایا جن کی وجہ سے ملک سنگین مشکلات میں اور عوام سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کے لیڈر نے عوام کا نہیں ہمیشہ سیاسی اور ذاتی مفادات کو مقدم رکھا۔ خود کو امیر ترین اور امیروں کو مزید امیر اور متوسط طبقے کو غریب بنا کر رکھ دیا ہے۔ بڑے لیڈر خود کو نہیں ملک و قوم کو بناتے ہیں یہ لیڈر نہیں سیاستدان ہیں جنھیں ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں۔
علی محمد خان کا شمار پی ٹی آئی کے سلجھے ہوئے اور اعتدال پسند رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اپنے بانی چیئرمین کے انتہائی وفادار ہیں جو تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ایوان میں موجود تھے جب کہ باقی کوئی رہنما وہاں موجود نہیں تھا اور علی محمد خان بعد میں گرفتار بھی ہوئے اور پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور دیگر کی طرح منحرف نہیں ہوئے اور حق و سچ کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں مگر اپنے لیڈر کی انھوں نے کبھی غلطیوں کی نشان دہی نہیں کی اور اپنے لیڈر کے گن ہی گاتے رہے۔
پی ٹی آئی کے ایک نئے رہنما شیر افضل مروت نے اتنی ہمت تو کی ہے اور اپنے لیڈر کے اس فیصلے کو غلط قرار دیا ہے جس میں بانی پی ٹی آئی نے اپنی برطرفی کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دلوائے اور اپنی پنجاب و کے پی کے ، کی اسمبلیاں تڑوائی تھیں جس کی وجہ سے سانحہ 9 مئی کا پارٹی کو سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کی حکومتیں بھی ختم ہوئیں۔
پی ٹی آئی میں شفقت محمود، اسد عمر جیسے بعض مخلص رہنما بھی تھے جنھوں نے بانی چیئرمین کی پالیسی کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور جب پارٹی پر برا وقت آیا تو انھوں نے پارٹی لیڈر کی پالیسی پر تنقید نہیں کی نہ پارٹی چھوڑی نہ پارٹی کے لیے کوئی تکلیف اٹھائی اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی اپنے لیڈر سے پارٹی کے اندرکوئی اختلاف کر سکتا ہے نہ لیڈر کی مخالفت میں بول سکتا ہے، صرف اپنی رائے کا اظہار ضرور کر سکتا ہے اور اس کی رائے یا رویہ پسند نہ آئے تو پارٹی اسے کھڈے لائن لگا سکتی ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔
پی ٹی آئی 2011ء سے قبل جب بالاتروں کی سرپرستی میں نہیں تھی اس وقت بھی پارٹی چیئرمین سے اختلاف اور مشورے پر اکبر ایس بابر کو نکال دیا گیا تھا۔ سینئر وکیل حامد خان کو کھڈے لائن لگایا گیا اور اقتدار سے محرومی کے بعد لیڈر کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کو بلا لیا گیا جو برے وقت میں بھی لیڈر اور پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے قیام کے وقت جو رہنما شامل ہوئے تھے وہ لیڈر کی من مانی دیکھ کر اسی وقت پارٹی چھوڑ گئے تھے کیونکہ ان کی سنی ہی نہیں جاتی تھی۔ پیپلز پارٹی میں بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دور میں متعدد سینئر رہنما پی پی چھوڑ گئے تھے۔ بعض نے اپنی پارٹیاں بھی بنائیں جو سب ناکام رہے تھے۔
بے نظیر بھٹو کے بعد سے پیپلز پارٹی پر آصف زرداری کی گرفت مضبوط ہے کہ کوئی ان سے اختلاف نہیں کرتا۔ پی پی کی قیادت کی پالیسی کے تحت پنجاب میں پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا اور اس کے بہت سے رہنما پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے۔اور انھوں نے عمران خان کو لیڈر بنا لیا تھا جن میں مشہور نام ندیم افضل چن اور راجہ ریاض کا بھی تھا جو پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی میں گئے اور بعد میں پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے مگر یہ لوگ اس وقت پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے جب پارٹی اقتدار میں تھی کیونکہ بانی لیڈر کسی کی سنتے ہی نہیں تھے۔
علی محمد خان اپنے بانی کو ملک کا سب سے بڑا لیڈر کہہ رہے ہیں جنھیں حالیہ الیکشن میں تقریباً پونے دو کروڑ اور ان کی مخالف پارٹیوں کو ساڑھے چارکروڑ ووٹ ملا ہے اور ملک میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بھی ایسی ہی حکومت قائم ہوئی ہے جیسی 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور پنجاب میں مشکلات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی اکثریت تھی مگر اس کی حکومت نہیں بننے دی گئی تھی جب کہ سانحہ 9 مئی اور تحفظات کے باوجود کے پی کے میں اکثریت کے باعث پی ٹی آئی کی حکومت بننے دی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے بھی اسے قبول کیا ہے مگر کے پی کے میں پی ٹی آئی کا جو شخص وزیر اعلیٰ بنا ہے جس نے بانی سے ملاقات کے بعد وفاقی حکومت کے خلاف بیان دیا ہے۔
دنیا اور بڑے ملکوں نے نئی حکومت کو تسلیم کیا ہے اور اس کے منتخب صدر اور وزیر اعظم کو بڑا لیڈر تسلیم کرکے مبارک باد دی ہے اور دونوں پارٹیوں کی وفاق اور تین صوبوں میں حکومتیں ہیں۔ میاں نواز شریف کو ان کے شدید مخالف جنرل پرویز نے بھی سیکیورٹی رسک قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف کرپشن کا بیانیہ عمران خان کی طرح بنایا تھا۔ دونوں کو کرپشن پر عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی تھی جب کہ پی ٹی آئی کے مبینہ بڑے لیڈر کو گھڑی چوری سمیت متعدد مقدمات میں سزا سنائی جا چکی ہے مگر کسی نے انھیں ملک دشمن نہیں کہا تھا۔
پاکستان میں سب سے بڑے لیڈر قائد اعظم تھے اور اب بھی ہیں، ان کا اب بھی کوئی مقابلہ نہیں، باقی سب موقع پرست اور مفاد پرست سیاستدان ہیں جنھوں نے ملک نہیں ذاتی مال اور عوام کو بے وقوف بنایا جن کی وجہ سے ملک سنگین مشکلات میں اور عوام سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کے لیڈر نے عوام کا نہیں ہمیشہ سیاسی اور ذاتی مفادات کو مقدم رکھا۔ خود کو امیر ترین اور امیروں کو مزید امیر اور متوسط طبقے کو غریب بنا کر رکھ دیا ہے۔ بڑے لیڈر خود کو نہیں ملک و قوم کو بناتے ہیں یہ لیڈر نہیں سیاستدان ہیں جنھیں ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں۔