’’محسنِ انسانیّت‘‘ ایک شاہکار کتاب
حضورنبی کریمﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپﷺ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتمائی انسان کو اندر سے بدل دیا
جناب نعیم صدیقی جیسا اعلیٰ پائے کا دانشور جماعتِ اسلامی میںپھر پیدا نہیں ہو سکا۔دنیابھر کی زبانوں میںسیرت النبّیؐ پرہزاروں لاکھوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر نعیم صدّیقی صاحب کی ''محسنِؐ انسانیت'' ایک ایسی شاہکار کتاب ہے جس کی اردو زبان میں کوئی مثال نہیں ملتی، اس کے سوکے قریب ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور اس پر تبصرے کے لیے کئی کالم درکا رہیں۔
حیاتِ طیّبہ پر صدیقی صاحب کی تحقیق انتہائی گرانقدر اور تحریر بے حد د ل نشین ہے۔ قاری چاہے جتنی بار پڑھے،اس کی تازگی اور دل پذیری سے ہر بار روح تک سرشار ہوجاتی ہے۔ چند اقتباس ملاخطہ فرمائیں ''انبیا کے ماسواکوئی عنصر تاریخ میں ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انسان کو،پورے کے پورے انسان کو، اجتمائی انسان کواندر سے بدل سکا ہو۔
حضورنبی کریمﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپﷺ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتمائی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغتہ اﷲ کا ایک ہی رنگ، مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسہ سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدانِ جنگ تک چھا گیا۔
ذہن بدل گئے،خیالات کی روح بدل گئی ،نگاہ کا زاویہ بدل گیا ، عادات و اطوار بدل گئے ، حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں۔خیر و شر کے معیار، حلال اور حرام کے پیمانے بدل گئے ،اخلاقی قدریں بدل گئیں ،دستوراور قانون بدل گئے ، جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے، معیشت اور تمدنّ اطوار بدل گئے۔ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی تاریخِ انسانی میں کوئی مثال نہیں ملتی''۔
''سرورؐ عالم کی زندگی کی مثال ایک ٹھہرے ہوئے پانی کی نہیں ہے کہ جس کے ایک کنارے کھڑے ہوکر ہم بیک نظر اس کا جائزہ لے ڈالیں ۔وہ ایک بہتا ہوا دریا ہے جس میں حرکت ہے'روانی ہے' کشمکش ہے'موج وجبات ہیں'سیپیاں اور موتی ہیں۔ اور جس کے پانی سے مردہ کھیتوں کو مسلسل زندگی مل رہی ہے'اس دریاکا رمز آشنا ہونے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رواںرہنا پڑتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سیرت کی بہت سی کتابیں پڑھ کرنادر معلومات ملتی ہیں۔لیکن ہمارے اندر تحریک پیدا نہیں ہوتی ۔جذبے انگڑائی نہیں لیتے'عزم و ہمّت کی رگوں میں نیا خون نہیںدوڑتا'ذوقِ عمل میں نئی حرارت نہیں آتی'ہماری زندگیوںکا جمود نہیں ٹوٹتا۔وہ شرارِ آرزوہم اخذنہیںکرپاتے جس کی گرمی نے ایک یکّہ وتنہا اور بے سرو سامان فردکو قرنوں کے جمے ہوئے فاسد نظام کے خلاف معرکہ آرا کر دیا۔وہ سوز و ساز ایمان ہمیں نہیں ملتاجس نے ایک یتیم بے نوا کو عرب وعجم کی قستمو ں کا فیصلہ کرنے والا بنادیا''۔ مصنّف نے کیا خوبصورت بات لکھی ہے۔
''دنیا میں بہت سے آدمی پیدا ہوئے اورہوتے ہیں ۔ بڑے لوگ وہی ہیں جنھوں نے کوئی اچھی تعلیم اور کوئی تعمیری فکر پیش کردی۔وہ بھی ہیں جنھوںنے اخلاق و قانون کے نظام سوچے' وہ بھی ہیں جنھوں نے اصلاحِ معاشرہ کے کام کیے ۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے ملک فتح کیے اور بہادرانہ کارناموں کی میراث چھوڑی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے سلطنتیں چلائیں۔وہ بھی ہیں۔
جنھوں نے فقرو درویشی کے عجیب عجیب نمونے ہمارے سامنے پیش کیے۔وہ بھی ہیں جنھوں نے دنیا کے سامنے انفرادی اخلاق کا اونچے سے اونچا معیار قائم کر دکھایا مگر ایسے بڑے آدمیوں کی زندگی کو کسی ایک شاخ نے چوس لیا اور باقی ساری ٹہنیاں سوکھی رہ گئیں۔ ایک پہلو اگر بہت زیادہ روشن ملتاہے تو کوئی دوسرا پہلو تاریک دکھائے دیتا ہے''۔
ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف تفریط!لیکن نبیﷺ کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن بھی ہے۔اور پھر ہر گوشہ ایک ہی طرح کے کمال کا نمونہ بھی ہے۔ جلال ہے تو جمال بھی ہے۔روحانیّت ہے تو مادیّت بھی ہے ' معاد ہے تو معاش بھی ہے'دین ہے تو دنیا بھی ہے۔ مظلوموں کی دادرسی ہے تو ظالموں کا ہاتھ پکڑ نے کا اہتمام بھی ہے''۔ نعیم صدّیقی حضرت محمدﷺ کو انسانِ اعظم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں
''آپؐ کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم' ایک امیر،ایک وزیر ،ایک ملازم،ایک آقا،ایک سپاہی،ایک تاجر ،ایک مزدور،ایک جج ،ایک معلم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفارمر، ایک فلسفی، ایک ادیب ہر کوئی یکساں درسِ حکمت و عمل لے سکتا ہے 'وہاںایک باپ کے لیے ، ایک ہمسفر کے لیے، ایک پڑوسی کے لیے یکساں مثالی نمونہ موجود ہے۔
ایک بار جو کوئی اس درسگاہ تک آپہنچتا ہے پھر اسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹا نے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ اس ایک ہستی میں جلوہ گرہے،اسی لیے میں اس ہستی کو''انسانِ اعظمﷺ'' کے لقب سے پکارنے پرمجبو ر ہوا۔ تاریخ کے پاس انسان اعظم صرف یہی ایک ہے جس کو چراغ بنا کر ہردور میں ایوانِ حیات کو ر وشن کر سکتے ہیں۔
کروڑوں افراد انسانی نے اس سے روشنی لی،لاکھوں بزرگوں نے اپنے علم وفضل کے دیے اسی کی لو سے جلائے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا پیغام گونج رہا ہے اور دیس دیس کے تمدن پر اس کی دی ہوئی تعلیم کے گہرے اثرات پڑے ہیں۔کوئی انسان نہیں جو اس ''انسانِ اعظم ﷺ کا کسی نہ کسی پہلو سے زیر بارِ احسان مند نہیں''۔ پھر دل گرفتگی میں تحریر کرتے ہیں ''اُس کی ہستی کے تعارف اور اس کے پیغام کے فروغ کی ذمے داری مسلم قوم کی جماعت پر تھی لیکن وہ جماعت خود ہی اس سے اور اس کے پیغام سے دورجا پڑی ہے۔
اس کے پاس کتابوں کے اوراق میں کیا کیا کچھ موجود نہیں ، لیکن اس کی کھلی ہوئی کتابِ عمل کے اوراق پر انسانِ اعظمﷺ کی سیرت کی کوئی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔اس جماعت اور قوم کی مذہبیّت ، اس کی سیاست،اس کی معاشرت،اس کے اخلاق ،اس کے قانونی نظام اور اس کے کلچر پر اُس کی سیرت کے بہت ہی دھندلے نشانات باقی رہ گئے ہیں اور وہ بھی بے شمار نئے نقوش میں خَلط مَلط ہو کر مسخ ہو رہے ہیں۔
اس جماعت یا قوم کا اجتماعی ماحول زمین کے کسی ایک چپے پر بھی یہ گواہی نہیں دیتاکہ میں محمدﷺ کے دیے ہوئے اصولوں اور اس کی قائم کردہ روایات و اقدار کا آئینہ دارہوں،بلکہ الٹا یہ جماعت اور یہ قوم دنیا کے مختلف فاسد نظاموں کے دروازوں پر بھیک مانگتی پھرتی ہے اور ہر قائم شدہ طاقت سے مرعوب ہو کر اپنے سرمایۂ افتخارپر شرمسار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس نے قرآن کو غلافوں میں لپیٹ دیا اور انسان اعظمﷺ کی سیرت کا گلدستہ بناکر طاق نسیاں پر رکھ دیا''۔ مصنّف مسلمانوں کی سنگین کوتاہی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں۔
''دوسرا غضب یہ ڈھایاکہ اپنے آپ کو ایک مذہبی و قومی جتھے میں بدل کر محمد ﷺ کو محض اپنے قومی و مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی اور اس بین الاقوامی ہستی کے پیغام اور نمونۂ حیات کو گروہی اجارہ بنا لیا۔ حالانکہ آپؐ ساری انسانیّت کے رہنما بن کر آئے تھے اور ساری انسانیّت کے لیے پیغام اور نمونہ لائے تھے۔
ضرورت، سیرتِ رسولؐ کو اس انداز سے پیش کرنے کی تھی کہ انسانیّت کا یہ ایک نمونہ ہے کہ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنے اور اپنے ابنائِ نوع کی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے اور مسائل کے گونا گوں خارزاروں سے نجات پاکر ایک پاکیزہ نظامِ زندگی حاصل کر سکتا ہے۔
حضورﷺکا پیغام اور اُسوہ در حقیقت سورج کی روشنی اور بارش کے پانی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح کا فیضان عام تھا لیکن اسے ہم نے اپنی نااہلی سے گروہی خول میں بند کردیا۔آج افلاطون وسقر اط ،ڈارون، میکاولی،مارکس،فرائڈ اور آئن اسٹائن سے تو ہر ملک و مذہب کے لوگ تھوڑایا بہت استفادہ کرتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے کسی کے خلاف کسی گروہ میں اندھاتعصّب کار فرما نہیں ہے لیکن محمد ﷺ کے نورِ علم اور رہنمائی سے استفادہ کرنے میں بے شمار تعصّبات حائل ہیں۔
لوگ یوں سوچتے ہیں کہ محمدﷺ تو مسلمانوں کے ہیں اور مسلمان ہم سے الگ اورہم مسلمانوںسے الگ ہیں لہٰذا مسلمانوں کے ہادی اور رہبر سے ہمار اکیا واسطہ! افسوس ہے کہ اس تاثَر کے پیدا ہونے اور غیر معمولی حد تک پہنچنے میں میں ہمارے اپنے طرزِعمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ خود ہم ہیں کہ جنھوں نے محسنِ انسانیّتﷺ کی نہایت غلط نمایندگی کی ہے'' ۔
نوٹ: قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن (راقم جس کا صدر ہے) انتہائی مستحق طلباء کو تعلیمی اخراجات فراہم کرتی ہے، سیکڑوں نوجوان اس فاؤنڈیشن کی امداد سے ڈاکٹر اور انجینئر بن کر اپنے خاندان کا سہارا بن چکے ہیں اور ''کرن'' میری نگرانی میںسیکڑوں غریب اور مستحق خاندانوں کو سال میں چار بار راشن فراہم کرتی ہے۔ دونوں تنظیموں کی دل کھول کر مدد کیجیے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کیجیے۔ ان کے بینک اکاؤنٹ شیئر کیے جارہے ہیں۔
Kiran (کرن)
قائداعظم فاؤنڈیشن 'الائیڈ بینک 'اکاؤنٹ
0010014639190023
ٹائٹل:جوائنٹ اکاؤنٹ 'مولانا محمد اقبال اور ذوالفقار احمد چیمہ 'برانچ کوڈ :0567'سوئفٹ کوڈ
ABPAPPKA979
بینک آف پنجاب 'اکاؤنٹ نمبر:
6020220431300014
اکاؤنٹ ٹائٹل 'قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن 'برانچ کوڈ: 0147
حیاتِ طیّبہ پر صدیقی صاحب کی تحقیق انتہائی گرانقدر اور تحریر بے حد د ل نشین ہے۔ قاری چاہے جتنی بار پڑھے،اس کی تازگی اور دل پذیری سے ہر بار روح تک سرشار ہوجاتی ہے۔ چند اقتباس ملاخطہ فرمائیں ''انبیا کے ماسواکوئی عنصر تاریخ میں ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انسان کو،پورے کے پورے انسان کو، اجتمائی انسان کواندر سے بدل سکا ہو۔
حضورنبی کریمﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپﷺ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتمائی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغتہ اﷲ کا ایک ہی رنگ، مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسہ سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدانِ جنگ تک چھا گیا۔
ذہن بدل گئے،خیالات کی روح بدل گئی ،نگاہ کا زاویہ بدل گیا ، عادات و اطوار بدل گئے ، حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں۔خیر و شر کے معیار، حلال اور حرام کے پیمانے بدل گئے ،اخلاقی قدریں بدل گئیں ،دستوراور قانون بدل گئے ، جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے، معیشت اور تمدنّ اطوار بدل گئے۔ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی تاریخِ انسانی میں کوئی مثال نہیں ملتی''۔
''سرورؐ عالم کی زندگی کی مثال ایک ٹھہرے ہوئے پانی کی نہیں ہے کہ جس کے ایک کنارے کھڑے ہوکر ہم بیک نظر اس کا جائزہ لے ڈالیں ۔وہ ایک بہتا ہوا دریا ہے جس میں حرکت ہے'روانی ہے' کشمکش ہے'موج وجبات ہیں'سیپیاں اور موتی ہیں۔ اور جس کے پانی سے مردہ کھیتوں کو مسلسل زندگی مل رہی ہے'اس دریاکا رمز آشنا ہونے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رواںرہنا پڑتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سیرت کی بہت سی کتابیں پڑھ کرنادر معلومات ملتی ہیں۔لیکن ہمارے اندر تحریک پیدا نہیں ہوتی ۔جذبے انگڑائی نہیں لیتے'عزم و ہمّت کی رگوں میں نیا خون نہیںدوڑتا'ذوقِ عمل میں نئی حرارت نہیں آتی'ہماری زندگیوںکا جمود نہیں ٹوٹتا۔وہ شرارِ آرزوہم اخذنہیںکرپاتے جس کی گرمی نے ایک یکّہ وتنہا اور بے سرو سامان فردکو قرنوں کے جمے ہوئے فاسد نظام کے خلاف معرکہ آرا کر دیا۔وہ سوز و ساز ایمان ہمیں نہیں ملتاجس نے ایک یتیم بے نوا کو عرب وعجم کی قستمو ں کا فیصلہ کرنے والا بنادیا''۔ مصنّف نے کیا خوبصورت بات لکھی ہے۔
''دنیا میں بہت سے آدمی پیدا ہوئے اورہوتے ہیں ۔ بڑے لوگ وہی ہیں جنھوں نے کوئی اچھی تعلیم اور کوئی تعمیری فکر پیش کردی۔وہ بھی ہیں جنھوںنے اخلاق و قانون کے نظام سوچے' وہ بھی ہیں جنھوں نے اصلاحِ معاشرہ کے کام کیے ۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے ملک فتح کیے اور بہادرانہ کارناموں کی میراث چھوڑی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے سلطنتیں چلائیں۔وہ بھی ہیں۔
جنھوں نے فقرو درویشی کے عجیب عجیب نمونے ہمارے سامنے پیش کیے۔وہ بھی ہیں جنھوں نے دنیا کے سامنے انفرادی اخلاق کا اونچے سے اونچا معیار قائم کر دکھایا مگر ایسے بڑے آدمیوں کی زندگی کو کسی ایک شاخ نے چوس لیا اور باقی ساری ٹہنیاں سوکھی رہ گئیں۔ ایک پہلو اگر بہت زیادہ روشن ملتاہے تو کوئی دوسرا پہلو تاریک دکھائے دیتا ہے''۔
ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف تفریط!لیکن نبیﷺ کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن بھی ہے۔اور پھر ہر گوشہ ایک ہی طرح کے کمال کا نمونہ بھی ہے۔ جلال ہے تو جمال بھی ہے۔روحانیّت ہے تو مادیّت بھی ہے ' معاد ہے تو معاش بھی ہے'دین ہے تو دنیا بھی ہے۔ مظلوموں کی دادرسی ہے تو ظالموں کا ہاتھ پکڑ نے کا اہتمام بھی ہے''۔ نعیم صدّیقی حضرت محمدﷺ کو انسانِ اعظم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں
''آپؐ کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم' ایک امیر،ایک وزیر ،ایک ملازم،ایک آقا،ایک سپاہی،ایک تاجر ،ایک مزدور،ایک جج ،ایک معلم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفارمر، ایک فلسفی، ایک ادیب ہر کوئی یکساں درسِ حکمت و عمل لے سکتا ہے 'وہاںایک باپ کے لیے ، ایک ہمسفر کے لیے، ایک پڑوسی کے لیے یکساں مثالی نمونہ موجود ہے۔
ایک بار جو کوئی اس درسگاہ تک آپہنچتا ہے پھر اسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹا نے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ اس ایک ہستی میں جلوہ گرہے،اسی لیے میں اس ہستی کو''انسانِ اعظمﷺ'' کے لقب سے پکارنے پرمجبو ر ہوا۔ تاریخ کے پاس انسان اعظم صرف یہی ایک ہے جس کو چراغ بنا کر ہردور میں ایوانِ حیات کو ر وشن کر سکتے ہیں۔
کروڑوں افراد انسانی نے اس سے روشنی لی،لاکھوں بزرگوں نے اپنے علم وفضل کے دیے اسی کی لو سے جلائے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا پیغام گونج رہا ہے اور دیس دیس کے تمدن پر اس کی دی ہوئی تعلیم کے گہرے اثرات پڑے ہیں۔کوئی انسان نہیں جو اس ''انسانِ اعظم ﷺ کا کسی نہ کسی پہلو سے زیر بارِ احسان مند نہیں''۔ پھر دل گرفتگی میں تحریر کرتے ہیں ''اُس کی ہستی کے تعارف اور اس کے پیغام کے فروغ کی ذمے داری مسلم قوم کی جماعت پر تھی لیکن وہ جماعت خود ہی اس سے اور اس کے پیغام سے دورجا پڑی ہے۔
اس کے پاس کتابوں کے اوراق میں کیا کیا کچھ موجود نہیں ، لیکن اس کی کھلی ہوئی کتابِ عمل کے اوراق پر انسانِ اعظمﷺ کی سیرت کی کوئی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔اس جماعت اور قوم کی مذہبیّت ، اس کی سیاست،اس کی معاشرت،اس کے اخلاق ،اس کے قانونی نظام اور اس کے کلچر پر اُس کی سیرت کے بہت ہی دھندلے نشانات باقی رہ گئے ہیں اور وہ بھی بے شمار نئے نقوش میں خَلط مَلط ہو کر مسخ ہو رہے ہیں۔
اس جماعت یا قوم کا اجتماعی ماحول زمین کے کسی ایک چپے پر بھی یہ گواہی نہیں دیتاکہ میں محمدﷺ کے دیے ہوئے اصولوں اور اس کی قائم کردہ روایات و اقدار کا آئینہ دارہوں،بلکہ الٹا یہ جماعت اور یہ قوم دنیا کے مختلف فاسد نظاموں کے دروازوں پر بھیک مانگتی پھرتی ہے اور ہر قائم شدہ طاقت سے مرعوب ہو کر اپنے سرمایۂ افتخارپر شرمسار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس نے قرآن کو غلافوں میں لپیٹ دیا اور انسان اعظمﷺ کی سیرت کا گلدستہ بناکر طاق نسیاں پر رکھ دیا''۔ مصنّف مسلمانوں کی سنگین کوتاہی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں۔
''دوسرا غضب یہ ڈھایاکہ اپنے آپ کو ایک مذہبی و قومی جتھے میں بدل کر محمد ﷺ کو محض اپنے قومی و مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی اور اس بین الاقوامی ہستی کے پیغام اور نمونۂ حیات کو گروہی اجارہ بنا لیا۔ حالانکہ آپؐ ساری انسانیّت کے رہنما بن کر آئے تھے اور ساری انسانیّت کے لیے پیغام اور نمونہ لائے تھے۔
ضرورت، سیرتِ رسولؐ کو اس انداز سے پیش کرنے کی تھی کہ انسانیّت کا یہ ایک نمونہ ہے کہ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنے اور اپنے ابنائِ نوع کی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے اور مسائل کے گونا گوں خارزاروں سے نجات پاکر ایک پاکیزہ نظامِ زندگی حاصل کر سکتا ہے۔
حضورﷺکا پیغام اور اُسوہ در حقیقت سورج کی روشنی اور بارش کے پانی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح کا فیضان عام تھا لیکن اسے ہم نے اپنی نااہلی سے گروہی خول میں بند کردیا۔آج افلاطون وسقر اط ،ڈارون، میکاولی،مارکس،فرائڈ اور آئن اسٹائن سے تو ہر ملک و مذہب کے لوگ تھوڑایا بہت استفادہ کرتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے کسی کے خلاف کسی گروہ میں اندھاتعصّب کار فرما نہیں ہے لیکن محمد ﷺ کے نورِ علم اور رہنمائی سے استفادہ کرنے میں بے شمار تعصّبات حائل ہیں۔
لوگ یوں سوچتے ہیں کہ محمدﷺ تو مسلمانوں کے ہیں اور مسلمان ہم سے الگ اورہم مسلمانوںسے الگ ہیں لہٰذا مسلمانوں کے ہادی اور رہبر سے ہمار اکیا واسطہ! افسوس ہے کہ اس تاثَر کے پیدا ہونے اور غیر معمولی حد تک پہنچنے میں میں ہمارے اپنے طرزِعمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ خود ہم ہیں کہ جنھوں نے محسنِ انسانیّتﷺ کی نہایت غلط نمایندگی کی ہے'' ۔
نوٹ: قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن (راقم جس کا صدر ہے) انتہائی مستحق طلباء کو تعلیمی اخراجات فراہم کرتی ہے، سیکڑوں نوجوان اس فاؤنڈیشن کی امداد سے ڈاکٹر اور انجینئر بن کر اپنے خاندان کا سہارا بن چکے ہیں اور ''کرن'' میری نگرانی میںسیکڑوں غریب اور مستحق خاندانوں کو سال میں چار بار راشن فراہم کرتی ہے۔ دونوں تنظیموں کی دل کھول کر مدد کیجیے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کیجیے۔ ان کے بینک اکاؤنٹ شیئر کیے جارہے ہیں۔
Kiran (کرن)
قائداعظم فاؤنڈیشن 'الائیڈ بینک 'اکاؤنٹ
0010014639190023
ٹائٹل:جوائنٹ اکاؤنٹ 'مولانا محمد اقبال اور ذوالفقار احمد چیمہ 'برانچ کوڈ :0567'سوئفٹ کوڈ
ABPAPPKA979
بینک آف پنجاب 'اکاؤنٹ نمبر:
6020220431300014
اکاؤنٹ ٹائٹل 'قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن 'برانچ کوڈ: 0147