سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ کا مسئلہ
اس معاہدہ کے تحت سندھ پبلک سروس کمیشن کی تنظیم نوکی گئی تھی
سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کی بنیادی ساکھ پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے : "Institutions like SPSS are being polluted for political reasons"۔ سندھ ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس امجد علی شاہ نے اپنے 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے '' ہم افسوس کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ ادارے جن کا آزادانہ کردار ہونا ضروری ہوتا ہے۔
سیاسی وجوہات کی بناء پر آلودہ ہوگئے ہیں۔'' سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین عباسی اور جسٹس امجد علی شاہ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں میرٹ کی پامالی کے حوالے سے کئی عرض داشتوں پر اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے ''ہم شعوری طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سندھ کی حکومت نے شفافیت برقرار رکھنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔'' فاضل ججوں نے میونسپل افسروں، ٹاؤن افسروں اور اسسٹنٹ اکاؤنٹس افسروں کی اسامیوں پر گزشتہ سال کمیشن کی جانب سے کی جانے والی تقرریوں کے مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کو ہدایات جاری کیں کہ کمیشن کے رکن رضوان میمن کے خلاف بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے بارے میں تحقیقات کرائی جائیں اور اس کی رپورٹ دو ماہ میں سندھ ہائی کورٹ کو پیش کی جائے۔
فاضل ججوں نے یہ ہدایات بھی دیں کہ جن امیدواروں کے انٹرویو ہوئے ہیں ان کی وڈیو ریکارڈنگ محفوظ رکھی جائے۔ فاضل ججوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کمیشن کی امیدواروں کے انٹرویوکرنے والی ٹیم نے آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام نہیں دیے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی کے خلاف فیصلے دیے ہیں۔ چند سال قبل سندھ ہائی کورٹ کے فاضل ججوں نے کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کمیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو مسترد کیا، یوں تو پورے ملک میں سرکاری محکموں کی مختلف اسامیوں پر تقرری کا معاملہ ہمیشہ تضادات کا شکار رہا ہے، لیکن سندھ کی مخصوص ڈیموگرافی کی وجہ سے صوبے میں سرکاری اسامیوں پر تقرریوں کا معاملہ خاصا پیچیدہ رہا اور شہری اور دیہی تضادات پیدا ہوئے ہیں۔
اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں کے قابل امیدوار میرٹ کی پامالی کی بناء پر فرسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں زیادہ رٹیںدیہی علاقوں کے امیدوار دائر کررہے ہیں۔ گزشتہ سال جب سندھ پبلک سروس کمیشن نے میونسپل افسروں کے نتائج کا اجراء کیا تھا تو یہ خبریں شایع ہوئی تھیں کہ کامیاب امیدوار سندھ کی کابینہ کے اراکین کے قریبی رشتے دار ہیں۔
کئی ناقدین کہتے ہیں کہ جب بھی گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی اسامیوں پر تقرریاں ہوئیں تو پتا چلا کہ بااثر افراد کے قریبی عزیز نوازے گئے ہیں اور جب بھی کمیشن نے نتائج کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر کامیاب ہونے والے امیدواروں اور ان کے رشتے داروں کے نام گردش کرنے لگے۔ دو سال قبل یہ بھی الزامات ذرایع ابلاغ کی زینت بنے تھے کہ کمیشن کے ایک اہم عہدیدار کے تین قریبی عزیز کمیشن کے تمام امتحانات میں کامیاب قرار پائے تھے۔ اس عہدیدار نے اپنے قریبی عزیزوں کی کامیابی کی کچھ وضاحت بھی کی تھی۔
دو سال قبل صدر آصف زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ کو تحریک انصاف کی وفاق میں قائم حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لیے تیارکیا تو دونوں جماعتوں میں ایک معاہدہ ہوا۔
اس معاہدہ کے تحت سندھ پبلک سروس کمیشن کی تنظیم نوکی گئی تھی۔ کمیشن کے چیئرمین اور نئے اراکین کی نامزدگی کے عمل سے یہ امید ہوچکی تھی کہ اب کمیشن کی کارکردگی بہتر ہوگی اور کمیشن سرکاری آسامیوں پر میرٹ اور شفافیت کے اصولوں کے تحت فیصلہ کرے گا مگر گزشتہ ایک سال کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے مایوسی کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے کمیشنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کمیشنوں کی کارکردگی سندھ کے کمیشن کے مقابلے میں بہت بہتر نظر آتی ہے۔
سابق نگراں وزیر اعظم معین قریشی کے دور میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ گریڈ 11 سے لے کر اوپر کے گریڈ کی تمام اسامیوں کی تقرریاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ہوں گی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس فیصلے کا اعادہ ہوا۔ پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے دور سے اس فیصلے پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ میاں شہباز شریف اور پھر تحریک انصاف کی حکومت میں اسی فیصلے پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ خیبر پختون خوا میں پبلک سروس کمیشن کو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی اسامیوں پر تقرر کا اختیار ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ صوبہ کے کمیشن نے بعض اسامیوں پر فیصلہ کرنے میں خاصی دیر لگائی تھی مگر کمیشن کی مجموعی کارکردگی تسلی بخش ہے۔
بلوچستان کے پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی سندھ جیسی ہی ہے۔ حکومت سندھ گریڈ 16 تک کی اسامیوں پر خود تقرر کرتی ہے۔ گزشتہ عشرہ میں ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گریڈ 17 پر ایڈہاک تقرریاں کیں۔ صوبائی اسمبلی نے اس تقرریوں کی توثیق کردی۔ سرکاری ملازمتوں پر صوبہ کا ڈومیسائل رکھنے والے ہر فرد کا حق ہے مگر یہ معاملہ محض شہریوں کے حق اور انتخابات کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد تک محدود نہیں بلکہ یہ معاملہ نوجوانوں کی ذہنی صحت اور اچھی طرزِ حکومت اور ایک شفاف نظام کے قیام میں مضمر ہے۔
جب کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی ابتدائی عمر سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتا ہے اور اس کے والدین اپنی جمع پونجی اپنے بچوں پر خرچ کرتے ہیں تو پھر یہ نوجوان اچھی ملازمت کے حصول کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کے اشتہار کے جواب میں فارم جمع کراتے ہیں تو پھر اس کو اپنے اردگرد یہ آوازیں سننے کو ملتی ہیں کہ اچھی ملازمت کے لیے سفارش اور نذرانہ کی بھاری رقم ضروری ہوتی ہے مگر یہ نوجوان ان آوازوں کو فراموش کرتے ہوئے کمیشن کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں۔
تحریری امتحان میں اچھے نمبر حاصل کیے جاتے ہیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے اعلیٰ سطح انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہوتے ہیں مگر وہ امتحان پاس نہیں کرپاتے ، البتہ ان کے ایسے کلاس فیلو جن کے مختلف جماعتوں میں کارکردگی معمولی رہی ان ملازمتوں کے مستحق قرار دے دیے جاتے ہیں تو ایک ہی نہیں اس کے ساتھی، بھائی بہن سب ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اب اس نوجوان کے سامنے فرسٹریشن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔ نا صرف اس نوجوان بلکہ اس کے بھائیوں، ماں اور باپ کا کمیشن کے طریقہ کار سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ یوں صرف ایک نوجوان ہی نہیں اس کے قریبی رشتے دار اور اس کے کلاس فیلوز بھی مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ اچھی طرز حکومت کا ہے۔ جب صوبے کا نظام ایسے افسران کے سپرد ہوگا جو سفارش یا دولت کی بنیاد پر منتخب ہوئے تو ان کا مطمع نظر زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں ترقی کا عمل خاصا مایوس کن ہے۔
معروف دانشور نور الہدیٰ شاہ کو اسی وجہ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ملتان سے سکھر آتے ہوئے ترقی کے مناظر دوسرے ہوتے ہیں اورکراچی سے سکھر جاتے ہوئے مناظرکچھ اور ہوتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے منتخب اراکین کو سندھ کو ماڈل صوبہ بنانے کے لیے ایک شفاف اور خود مختار پبلک سروس کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ سندھ میں آباد نوجوان مطمئن ہوں اور اچھی طرزِ حکومت سے غربت کے خاتمے کا عمل تیز ہوسکے۔
سیاسی وجوہات کی بناء پر آلودہ ہوگئے ہیں۔'' سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین عباسی اور جسٹس امجد علی شاہ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں میرٹ کی پامالی کے حوالے سے کئی عرض داشتوں پر اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے ''ہم شعوری طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سندھ کی حکومت نے شفافیت برقرار رکھنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔'' فاضل ججوں نے میونسپل افسروں، ٹاؤن افسروں اور اسسٹنٹ اکاؤنٹس افسروں کی اسامیوں پر گزشتہ سال کمیشن کی جانب سے کی جانے والی تقرریوں کے مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کو ہدایات جاری کیں کہ کمیشن کے رکن رضوان میمن کے خلاف بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے بارے میں تحقیقات کرائی جائیں اور اس کی رپورٹ دو ماہ میں سندھ ہائی کورٹ کو پیش کی جائے۔
فاضل ججوں نے یہ ہدایات بھی دیں کہ جن امیدواروں کے انٹرویو ہوئے ہیں ان کی وڈیو ریکارڈنگ محفوظ رکھی جائے۔ فاضل ججوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کمیشن کی امیدواروں کے انٹرویوکرنے والی ٹیم نے آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام نہیں دیے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی کے خلاف فیصلے دیے ہیں۔ چند سال قبل سندھ ہائی کورٹ کے فاضل ججوں نے کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کمیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو مسترد کیا، یوں تو پورے ملک میں سرکاری محکموں کی مختلف اسامیوں پر تقرری کا معاملہ ہمیشہ تضادات کا شکار رہا ہے، لیکن سندھ کی مخصوص ڈیموگرافی کی وجہ سے صوبے میں سرکاری اسامیوں پر تقرریوں کا معاملہ خاصا پیچیدہ رہا اور شہری اور دیہی تضادات پیدا ہوئے ہیں۔
اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں کے قابل امیدوار میرٹ کی پامالی کی بناء پر فرسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں زیادہ رٹیںدیہی علاقوں کے امیدوار دائر کررہے ہیں۔ گزشتہ سال جب سندھ پبلک سروس کمیشن نے میونسپل افسروں کے نتائج کا اجراء کیا تھا تو یہ خبریں شایع ہوئی تھیں کہ کامیاب امیدوار سندھ کی کابینہ کے اراکین کے قریبی رشتے دار ہیں۔
کئی ناقدین کہتے ہیں کہ جب بھی گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی اسامیوں پر تقرریاں ہوئیں تو پتا چلا کہ بااثر افراد کے قریبی عزیز نوازے گئے ہیں اور جب بھی کمیشن نے نتائج کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر کامیاب ہونے والے امیدواروں اور ان کے رشتے داروں کے نام گردش کرنے لگے۔ دو سال قبل یہ بھی الزامات ذرایع ابلاغ کی زینت بنے تھے کہ کمیشن کے ایک اہم عہدیدار کے تین قریبی عزیز کمیشن کے تمام امتحانات میں کامیاب قرار پائے تھے۔ اس عہدیدار نے اپنے قریبی عزیزوں کی کامیابی کی کچھ وضاحت بھی کی تھی۔
دو سال قبل صدر آصف زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ کو تحریک انصاف کی وفاق میں قائم حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لیے تیارکیا تو دونوں جماعتوں میں ایک معاہدہ ہوا۔
اس معاہدہ کے تحت سندھ پبلک سروس کمیشن کی تنظیم نوکی گئی تھی۔ کمیشن کے چیئرمین اور نئے اراکین کی نامزدگی کے عمل سے یہ امید ہوچکی تھی کہ اب کمیشن کی کارکردگی بہتر ہوگی اور کمیشن سرکاری آسامیوں پر میرٹ اور شفافیت کے اصولوں کے تحت فیصلہ کرے گا مگر گزشتہ ایک سال کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے مایوسی کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے کمیشنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کمیشنوں کی کارکردگی سندھ کے کمیشن کے مقابلے میں بہت بہتر نظر آتی ہے۔
سابق نگراں وزیر اعظم معین قریشی کے دور میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ گریڈ 11 سے لے کر اوپر کے گریڈ کی تمام اسامیوں کی تقرریاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ہوں گی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس فیصلے کا اعادہ ہوا۔ پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے دور سے اس فیصلے پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ میاں شہباز شریف اور پھر تحریک انصاف کی حکومت میں اسی فیصلے پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ خیبر پختون خوا میں پبلک سروس کمیشن کو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی اسامیوں پر تقرر کا اختیار ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ صوبہ کے کمیشن نے بعض اسامیوں پر فیصلہ کرنے میں خاصی دیر لگائی تھی مگر کمیشن کی مجموعی کارکردگی تسلی بخش ہے۔
بلوچستان کے پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی سندھ جیسی ہی ہے۔ حکومت سندھ گریڈ 16 تک کی اسامیوں پر خود تقرر کرتی ہے۔ گزشتہ عشرہ میں ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گریڈ 17 پر ایڈہاک تقرریاں کیں۔ صوبائی اسمبلی نے اس تقرریوں کی توثیق کردی۔ سرکاری ملازمتوں پر صوبہ کا ڈومیسائل رکھنے والے ہر فرد کا حق ہے مگر یہ معاملہ محض شہریوں کے حق اور انتخابات کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد تک محدود نہیں بلکہ یہ معاملہ نوجوانوں کی ذہنی صحت اور اچھی طرزِ حکومت اور ایک شفاف نظام کے قیام میں مضمر ہے۔
جب کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی ابتدائی عمر سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتا ہے اور اس کے والدین اپنی جمع پونجی اپنے بچوں پر خرچ کرتے ہیں تو پھر یہ نوجوان اچھی ملازمت کے حصول کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کے اشتہار کے جواب میں فارم جمع کراتے ہیں تو پھر اس کو اپنے اردگرد یہ آوازیں سننے کو ملتی ہیں کہ اچھی ملازمت کے لیے سفارش اور نذرانہ کی بھاری رقم ضروری ہوتی ہے مگر یہ نوجوان ان آوازوں کو فراموش کرتے ہوئے کمیشن کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں۔
تحریری امتحان میں اچھے نمبر حاصل کیے جاتے ہیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے اعلیٰ سطح انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہوتے ہیں مگر وہ امتحان پاس نہیں کرپاتے ، البتہ ان کے ایسے کلاس فیلو جن کے مختلف جماعتوں میں کارکردگی معمولی رہی ان ملازمتوں کے مستحق قرار دے دیے جاتے ہیں تو ایک ہی نہیں اس کے ساتھی، بھائی بہن سب ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اب اس نوجوان کے سامنے فرسٹریشن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔ نا صرف اس نوجوان بلکہ اس کے بھائیوں، ماں اور باپ کا کمیشن کے طریقہ کار سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ یوں صرف ایک نوجوان ہی نہیں اس کے قریبی رشتے دار اور اس کے کلاس فیلوز بھی مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ اچھی طرز حکومت کا ہے۔ جب صوبے کا نظام ایسے افسران کے سپرد ہوگا جو سفارش یا دولت کی بنیاد پر منتخب ہوئے تو ان کا مطمع نظر زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں ترقی کا عمل خاصا مایوس کن ہے۔
معروف دانشور نور الہدیٰ شاہ کو اسی وجہ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ملتان سے سکھر آتے ہوئے ترقی کے مناظر دوسرے ہوتے ہیں اورکراچی سے سکھر جاتے ہوئے مناظرکچھ اور ہوتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے منتخب اراکین کو سندھ کو ماڈل صوبہ بنانے کے لیے ایک شفاف اور خود مختار پبلک سروس کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ سندھ میں آباد نوجوان مطمئن ہوں اور اچھی طرزِ حکومت سے غربت کے خاتمے کا عمل تیز ہوسکے۔