23مارچ سے 23 مارچ تک
ملک ٹوٹنے کی سیاسی و عسکری طور پر سو وجوہات بیان کیے جا سکتے ہیں
آج سے ٹھیک دو دن بعد 23 مارچ کو ہم اپنا 84واں یوم پاکستان منانے جارہے ہیں۔ یومِ پاکستان برصغیر کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے، اس دن قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔ مینارِ پاکستان اس تاریخی قرارداد کی نشانی ہے، جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی گئی اور 7برس کے قلیل عرصے میں برصغیر کے مسلمان اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوئے، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ یہ دن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم 23 مارچ 1940 سے 23 مارچ 2024 تک کے تاریخی سفر کا جائزہ لیں کہ ہم نے یہ وطن جس نصب العین کے تحت حاصل کیا تھا 84 سال گزرنے کے بعد اس پر کس حد تک عمل کیا۔
23 مارچ 1940کے دن مسلمانان برصغیر کے قائدین کا اہم اجلاس لاہور میں جاری تھا۔ اجلاس میں تحریک پاکستان کے بڑے بڑے اکابرین موجود تھے۔ میرٹھ سے تعلق رکھنے والے سید رؤف شاہ نے مسلم اکثریتی صوبوں سے آئے ہوئے وفود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ''عزیز بھائیو! جب آپ آزاد اور خود مختار ہو جائیں گے تو بھارت کے ہندو ہمیں نیست ونابود کر دیں گے۔
ہمیں پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جائے گی، ہمیں شودروں کی طرح زندگی بسر کرنا ہوگی، اس کے باوجود ہم خوش ہوں گے کہ کم از کم آپ آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ جب آپ آزاد ہو جائیں اور آزاد مملکت میں زندگی بسر کرنے لگیں تو کبھی کبھی ہمارے لیے بھی دعا کر لیا کرے''۔ سید رؤف شاہ اپنی ساری تقریر کے دوران روتے رہے اور اپنی جذباتی تقریر سے ہزاروں شرکاء کو بھی رُلاتے رہے۔ آخر میں کہنے لگے ''بھائیو میرے آنسو اس لیے نہیں کہ ہندو ہمارے ساتھ ناروا سلوک کریں گے، ہمیں چیر پھاڑیں گے، بلکہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آپ ایک ایسے آزاد ملک میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہو گی''۔ سید رؤف شاہ نے جب یہ بات کہی تو مجمع پر عجب کیفیت طاری ہو گئی، آنسو بے قابو ہو گئے، ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔ تب حاضرینِ مجلس میں سے کچھ اکابرین اٹھے اور کہا پاکستان صرف ہمارا ہی نہیں آپ کا بھی ہوگا، یہ اسلام اور قرآن کا ملک ہو گا۔ ہم بھارت میں رہ جانے والے اپنے بھائیوں کوبھولیں گے، نہ بے یارومددگار چھوڑ یں گے اور نہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر کوئی ظلم ہونے دینگے۔ ہر مظلوم مسلمان کا تحفظ اور مدد پاکستان کی اولین ذمے داری ہو گی۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلامی نظریے نے ہی برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا، ان کی روحوں کو تڑپایا اور انھیں ایسا نصب العین بخشا جس کے لیے وہ لٹنے، تباہ ہونے، بسے بسائے گھر اجاڑنے اور اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوگئے۔ اگر مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا نہ ہوتا تو پاکستان بھی کبھی نہ بنتا۔ لیکن افسوس کہ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جو جذبہ پاکستان کے حصول کا باعث و محرک بنا وہی اس کی بقا و استحکام کا ضامن بھی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان سوائے اسلام کے اور کونسی قدر مشترک تھی؟ دونوں حصوں میں رہنے والوں کی زبان، مزاج، رہن سہن، کھانا پینا، تاریخ و ثقافت، آب و ہوا، سبھی کچھ ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ مگر صرف ایک قدر مشترک "اسلام" نے ان کو یکجان کر دیا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جب حصول پاکستان کے بعد ہم نظریہ پاکستان اور اپنے نصب العین سے منحرف ہوگئے تو پھر ہمارے متحد رہنے کا جواز بھی باقی نہ رہا اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔
ملک ٹوٹنے کی سیاسی و عسکری طور پر سو وجوہات بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سانحے کی بنیادی وجہ نظریہ پاکستان سے ہٹنا تھی۔ جس نے ہمارا تعلق کمزور کیا اور پھر باقی محرکات کی وجہ سے ملک دولخت ہونے کا سانحہ پیش آیا۔ اتنا بڑا سانحہ ہمیں یہ سبق دے گیا کہ ملک و ملت کا استحکام اور فروغ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے افراد کے اندر کوئی قومی جذبہ اتحاد کار فرما نہ ہواور یہ جذبہ بغیر ایک بڑے نصب العین کے ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا۔ دوسری قوموں میں تو یہ جذبہ نسل، وطن، قومیت کی بنا پر پیدا ہوجاتا ہے لیکن ملت اسلامیہ کا خمیر کچھ ایسا بنا ہے کہ صرف اسلام اور اسلامی نظریہ حیات کے قیام کے لیے بڑے ولولے کے ساتھ سر گرم عمل ہوسکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہم آج تک اس ملک میں اس نظریے کو نہیں اپنا سکے جس کے لیے یہ ملک معرض ِ وجود میں آیا تھا، اس کے علاوہ ہم نے کئی نظریات اپنائے، کئی تجربات کیے، سب کے سب ہماری تباہی و بربادی کا سامان لے کر آئے۔ ہم نے اِن تجربات میں آدھا ملک گنوا دیا لیکن ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ آج بھی ہم مسائل کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ نظریہ پاکستان جو حقیقت میں نظریہ اسلام ہے اس کی جڑیں ساڑھے چودہ سو سال کی گہرائی اور نصرت الہی رکھتی ہے اسے چھوڑ کر کسی اورنظریے کو اختیار کرنا اپنی نسلوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔ ملکی تعمیر و ترقی اور استحکام اگر ممکن ہے تو صرف نظریہ اسلام کے اختیار کرنے سے ہی ممکن ہے۔
اسلامی نظریے کو غیر اسلامی نظریات سے اختلاط اور ملاوٹ سے کوئی ایسا نظام تشکیل نہیں پاسکتا جس پر چل کر ہم کامیابی کے زینے طے کر سکیں، ایسا کرنا منافقت اور دو رنگی کی ایک بدترین صورت ہوگی۔ ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں اسلام یا ترک اسلام؟ یقینی طور پر دوسرا راستہ ناقابل تصور ہے اس لیے آپشن صرف ایک ہی ہے۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ تحریک پاکستان اسلامی نظریے کا علم اٹھا کر چلی ہے اسلامی نظام قائم کرنے کے وعدے پر مسلمان عوام مجتمع ہوئے، قربانیاں دیں، پاکستان بننے کے بعد بھی قائد اعظم محمد علی جناح، خاں لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب نشتر، علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر اکابرین نے اس وعدے کو، عزم ِصمیم کو بار بار دہرایا اور قوم نے ہر بار اس پر آمین و لبیک کہا۔ بحیثیت ملت اس وعدے کو پورا کرنے کی ذمے داری خدا کے حضور بھی اور خلق خدا کے سامنے بھی ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستان کے طول وارض میں رہنے والے اسلام کے ہر نام لیوا پر یہ فرض عائد ہوتا کہ اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ نظریہ پاکستان سے جڑ جائے۔ مگر ہم جس گرداب میں پھنس چکے ہیں اس سے نکل کر نظریہ اسلام کی جانب کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اسلامی نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے سب سے پہلے اس امر کی ضرورت ہے کہ ایسے رجال کار پیدا ہوں جو دل سے وجود باری تعالیٰ کے قائل اور عمل میں اسلام کے گرویدہ ہوں۔ محض دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ صرف خالق کی خوشنودی خدمت خلق کے ذریعے ہو اور ان کی زندگیاں نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہوں۔ انھیں طاقت و عزت کی ہوس ہو نہ وہ ناموری کے پیچھے دوڑیں، اپنی علیحدہ ڈھیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑی کرنے والے نہ ہوں۔
ان کے افعال، کردار، اعمال، ایثار اور بے غرض ہوں، نوعِ انسان کی خدمت، دلیری، سچائی اور اس قسم کے دوسرے اوصاف کا آئینہ دار ہوں۔ جب قوم میں ایسے رجال کار پیدا ہوں گے تو ہماری تہذیبی اور سیاسی زندگی بتدریج درست ہوتی چلی جائیں گی اور اخلاقی و روحانی انقلاب سے خوشحالی اور آسودگی آئے گی۔ نبی رحمت اللعالمین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوعِ انسان کو دین و دنیا کی کامیابی کے لیے سیدھی راہ دکھائی ہے۔ یہی راہ ہمیں ہمارے اصل مقصد تک لے جائے گی۔ جہاں ہم تحریک پاکستان کے درد مند رہنما سید رؤف شاہ کی امنگوں پر بھی پورا اتر سکیں گے اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی توقعات پر بھی پورا اتر سکیں گے۔
زخموں سے چور فلسطینی ہر روز پوچھتے ہیں کہ اے ملت مسلمہ کے حکمرانوں اور پاکستانی افواج آپ کہاں ہیں کیوں ہماری آوازیں سنائی نہیں دیتی؟ رمضان کے بابرکت مہینے میں عوام خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں اور حکمران ہوش کے ناخن لیں تاکہ قہار و جبار رب کے قہر اور شافع محشر کی ناراضگی سے بچ سکیں۔ اللہ کریم مظلوم فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور صیہونیت کو نیست و نابود کرے۔
پاکستان کا وجود، اس کا استحکام، اس کا استقلال اور اس کا ارتقاء یکسر نظریہ اسلامی کو اختیار کرنے پر منحصر ہے، جس کے لیے من حیث القوم ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ اس کے علاوہ باقی جہاں جاؤ گے لوٹے جاؤ گے۔
23 مارچ 1940کے دن مسلمانان برصغیر کے قائدین کا اہم اجلاس لاہور میں جاری تھا۔ اجلاس میں تحریک پاکستان کے بڑے بڑے اکابرین موجود تھے۔ میرٹھ سے تعلق رکھنے والے سید رؤف شاہ نے مسلم اکثریتی صوبوں سے آئے ہوئے وفود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ''عزیز بھائیو! جب آپ آزاد اور خود مختار ہو جائیں گے تو بھارت کے ہندو ہمیں نیست ونابود کر دیں گے۔
ہمیں پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جائے گی، ہمیں شودروں کی طرح زندگی بسر کرنا ہوگی، اس کے باوجود ہم خوش ہوں گے کہ کم از کم آپ آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ جب آپ آزاد ہو جائیں اور آزاد مملکت میں زندگی بسر کرنے لگیں تو کبھی کبھی ہمارے لیے بھی دعا کر لیا کرے''۔ سید رؤف شاہ اپنی ساری تقریر کے دوران روتے رہے اور اپنی جذباتی تقریر سے ہزاروں شرکاء کو بھی رُلاتے رہے۔ آخر میں کہنے لگے ''بھائیو میرے آنسو اس لیے نہیں کہ ہندو ہمارے ساتھ ناروا سلوک کریں گے، ہمیں چیر پھاڑیں گے، بلکہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آپ ایک ایسے آزاد ملک میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہو گی''۔ سید رؤف شاہ نے جب یہ بات کہی تو مجمع پر عجب کیفیت طاری ہو گئی، آنسو بے قابو ہو گئے، ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔ تب حاضرینِ مجلس میں سے کچھ اکابرین اٹھے اور کہا پاکستان صرف ہمارا ہی نہیں آپ کا بھی ہوگا، یہ اسلام اور قرآن کا ملک ہو گا۔ ہم بھارت میں رہ جانے والے اپنے بھائیوں کوبھولیں گے، نہ بے یارومددگار چھوڑ یں گے اور نہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر کوئی ظلم ہونے دینگے۔ ہر مظلوم مسلمان کا تحفظ اور مدد پاکستان کی اولین ذمے داری ہو گی۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلامی نظریے نے ہی برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا، ان کی روحوں کو تڑپایا اور انھیں ایسا نصب العین بخشا جس کے لیے وہ لٹنے، تباہ ہونے، بسے بسائے گھر اجاڑنے اور اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوگئے۔ اگر مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا نہ ہوتا تو پاکستان بھی کبھی نہ بنتا۔ لیکن افسوس کہ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جو جذبہ پاکستان کے حصول کا باعث و محرک بنا وہی اس کی بقا و استحکام کا ضامن بھی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان سوائے اسلام کے اور کونسی قدر مشترک تھی؟ دونوں حصوں میں رہنے والوں کی زبان، مزاج، رہن سہن، کھانا پینا، تاریخ و ثقافت، آب و ہوا، سبھی کچھ ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ مگر صرف ایک قدر مشترک "اسلام" نے ان کو یکجان کر دیا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جب حصول پاکستان کے بعد ہم نظریہ پاکستان اور اپنے نصب العین سے منحرف ہوگئے تو پھر ہمارے متحد رہنے کا جواز بھی باقی نہ رہا اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔
ملک ٹوٹنے کی سیاسی و عسکری طور پر سو وجوہات بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سانحے کی بنیادی وجہ نظریہ پاکستان سے ہٹنا تھی۔ جس نے ہمارا تعلق کمزور کیا اور پھر باقی محرکات کی وجہ سے ملک دولخت ہونے کا سانحہ پیش آیا۔ اتنا بڑا سانحہ ہمیں یہ سبق دے گیا کہ ملک و ملت کا استحکام اور فروغ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے افراد کے اندر کوئی قومی جذبہ اتحاد کار فرما نہ ہواور یہ جذبہ بغیر ایک بڑے نصب العین کے ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا۔ دوسری قوموں میں تو یہ جذبہ نسل، وطن، قومیت کی بنا پر پیدا ہوجاتا ہے لیکن ملت اسلامیہ کا خمیر کچھ ایسا بنا ہے کہ صرف اسلام اور اسلامی نظریہ حیات کے قیام کے لیے بڑے ولولے کے ساتھ سر گرم عمل ہوسکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہم آج تک اس ملک میں اس نظریے کو نہیں اپنا سکے جس کے لیے یہ ملک معرض ِ وجود میں آیا تھا، اس کے علاوہ ہم نے کئی نظریات اپنائے، کئی تجربات کیے، سب کے سب ہماری تباہی و بربادی کا سامان لے کر آئے۔ ہم نے اِن تجربات میں آدھا ملک گنوا دیا لیکن ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ آج بھی ہم مسائل کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ نظریہ پاکستان جو حقیقت میں نظریہ اسلام ہے اس کی جڑیں ساڑھے چودہ سو سال کی گہرائی اور نصرت الہی رکھتی ہے اسے چھوڑ کر کسی اورنظریے کو اختیار کرنا اپنی نسلوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔ ملکی تعمیر و ترقی اور استحکام اگر ممکن ہے تو صرف نظریہ اسلام کے اختیار کرنے سے ہی ممکن ہے۔
اسلامی نظریے کو غیر اسلامی نظریات سے اختلاط اور ملاوٹ سے کوئی ایسا نظام تشکیل نہیں پاسکتا جس پر چل کر ہم کامیابی کے زینے طے کر سکیں، ایسا کرنا منافقت اور دو رنگی کی ایک بدترین صورت ہوگی۔ ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں اسلام یا ترک اسلام؟ یقینی طور پر دوسرا راستہ ناقابل تصور ہے اس لیے آپشن صرف ایک ہی ہے۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ تحریک پاکستان اسلامی نظریے کا علم اٹھا کر چلی ہے اسلامی نظام قائم کرنے کے وعدے پر مسلمان عوام مجتمع ہوئے، قربانیاں دیں، پاکستان بننے کے بعد بھی قائد اعظم محمد علی جناح، خاں لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب نشتر، علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر اکابرین نے اس وعدے کو، عزم ِصمیم کو بار بار دہرایا اور قوم نے ہر بار اس پر آمین و لبیک کہا۔ بحیثیت ملت اس وعدے کو پورا کرنے کی ذمے داری خدا کے حضور بھی اور خلق خدا کے سامنے بھی ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستان کے طول وارض میں رہنے والے اسلام کے ہر نام لیوا پر یہ فرض عائد ہوتا کہ اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ نظریہ پاکستان سے جڑ جائے۔ مگر ہم جس گرداب میں پھنس چکے ہیں اس سے نکل کر نظریہ اسلام کی جانب کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اسلامی نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے سب سے پہلے اس امر کی ضرورت ہے کہ ایسے رجال کار پیدا ہوں جو دل سے وجود باری تعالیٰ کے قائل اور عمل میں اسلام کے گرویدہ ہوں۔ محض دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ صرف خالق کی خوشنودی خدمت خلق کے ذریعے ہو اور ان کی زندگیاں نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہوں۔ انھیں طاقت و عزت کی ہوس ہو نہ وہ ناموری کے پیچھے دوڑیں، اپنی علیحدہ ڈھیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑی کرنے والے نہ ہوں۔
ان کے افعال، کردار، اعمال، ایثار اور بے غرض ہوں، نوعِ انسان کی خدمت، دلیری، سچائی اور اس قسم کے دوسرے اوصاف کا آئینہ دار ہوں۔ جب قوم میں ایسے رجال کار پیدا ہوں گے تو ہماری تہذیبی اور سیاسی زندگی بتدریج درست ہوتی چلی جائیں گی اور اخلاقی و روحانی انقلاب سے خوشحالی اور آسودگی آئے گی۔ نبی رحمت اللعالمین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوعِ انسان کو دین و دنیا کی کامیابی کے لیے سیدھی راہ دکھائی ہے۔ یہی راہ ہمیں ہمارے اصل مقصد تک لے جائے گی۔ جہاں ہم تحریک پاکستان کے درد مند رہنما سید رؤف شاہ کی امنگوں پر بھی پورا اتر سکیں گے اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی توقعات پر بھی پورا اتر سکیں گے۔
زخموں سے چور فلسطینی ہر روز پوچھتے ہیں کہ اے ملت مسلمہ کے حکمرانوں اور پاکستانی افواج آپ کہاں ہیں کیوں ہماری آوازیں سنائی نہیں دیتی؟ رمضان کے بابرکت مہینے میں عوام خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں اور حکمران ہوش کے ناخن لیں تاکہ قہار و جبار رب کے قہر اور شافع محشر کی ناراضگی سے بچ سکیں۔ اللہ کریم مظلوم فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور صیہونیت کو نیست و نابود کرے۔
پاکستان کا وجود، اس کا استحکام، اس کا استقلال اور اس کا ارتقاء یکسر نظریہ اسلامی کو اختیار کرنے پر منحصر ہے، جس کے لیے من حیث القوم ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ اس کے علاوہ باقی جہاں جاؤ گے لوٹے جاؤ گے۔