حکومت توجہ فرمائے
تنخواہ دار طبقہ اور پنشنرز جس مشکل میں زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اندازہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا
پچھلے کچھ دنوں سے دو تین ویڈیوز یو ٹیوب پر گردش کر رہی ہیں کہ عید سے قبل تنخواہ دار سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی پنشن اور تنخواہوں میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کٹوتی کا حکم جاری کردیا ہے۔
تنخواہ دار طبقہ اور پنشنرز جس مشکل میں زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اندازہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ ہمیں تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ بات سچ ہے کہ بجائے عید پر بونس دینے کے یا اضافی رقم دینے کے ایک بڑا زبردست جھٹکا دے دیا ہے۔
گزشتہ برسوں میں ایک ادبی کانفرنس میں جس کا انعقاد جناب عطا الحق قاسمی نے کیا تھا اس میں قاسمی صاحب نے ہم ادیبوں کی ملاقات ناشتے پر جناب شہباز شریف سے کروائی تھی، یہ ناشتہ جناب شہباز شریف کی طرف سے دیا گیا تھا، کراچی سے اس کانفرنس میں عقیل عباس جعفری بھی شریک تھے۔ تب ہم نے ان سے کہا کہ '' کراچی کو بھی ضرورت ہے ایک شہباز شریف کی جو اس بدنصیب ٹوٹے پھوٹے شہر کو صاف ستھرا کر دے، پانی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو بنوا دے، ہم نے ایک کالم بھی لکھا تھا کہ ''ضرورت ہے ایک شہباز شریف کی۔'' وزیر اعلیٰ پنجاب نے وہ کالم دیکھا تھا۔
اس لیے جب ہم نے ان سے شکوہ کیا کہ انھوں نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ''سندھ میں ہماری حکومت نہیں ہے، اس لیے وہ کراچی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے، یہ پیپلز پارٹی کا کام ہے۔'' ان کی بات درست تھی، لیکن اب تو حالات دگر ہیں، شہباز شریف پورے ملک کے حکمران ہیں۔
ان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو اتنا بڑا جھٹکا دیں گے۔ امید تو یہ تھی کہ شاید اس بار کچھ اچھا ہو جائے۔ پرائیویٹ اداروں کی تنخواہوں کی بہ نسبت سرکاری اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، لیکن سرکاری ملازمت میں صرف ایک ہی چارم ہے اور وہ ہے '' پنشن'' کا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک خاص رقم ملازمین کو ملتی ہے، اگر بارہ سال تک ملازمین زندہ رہیں تو پنشن میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا ہے اور اگر کوئی ملازم پچاسی سال تک حیات رہے تو پنشن دگنی ہو جاتی ہے۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کے لیے، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھائے گئے اور اب بجلی گری سرکاری ملازمین کی پنشن پر اور تنخواہوں پر۔ کیا خوب فیصلہ کیا گیا ہے! ۔ یہ جو چہیتے وزارتوں سے مستفیض ہوئے ہیں وہ تو بغلیں بجا رہے ہیں کہ '' کچھ تو ملا '' لیکن اب بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ '' خفیہ ہاتھ'' بہت تیزی سے حرکت میں آگئے ہیں، انھی خفیہ ہاتھوں نے کٹھ پتلیوں کو نچانا شروع کر دیا ہے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بڑی مشکل سے یہ فیصلہ کیا ہوگا۔
پنشنرز حضرات کی ایک بڑی تعداد خاصے مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر لوگ ہیں جو کہیں دوسری جاب کر رہے ہیں۔ خواتین پنشنرز تو ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت بھی نہیں کرتیں، بہت سے گھروں کے چولہے بڑی مشکل سے چلتے ہیں، اگر وہ بیٹے بہو کے ساتھ رہتے ہیں تو انھیں گھر کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ کہیں حالات اتنے خراب ہیں کہ ریٹائرڈ ملازمین کو گھر کا کرایہ بھی دینا پڑ رہا ہے اور دیگر اخراجات بھی برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔
پاکستانی قوم پچھتر سال سے الیکشن کا پتلی تماشا دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ الیکشن سے پہلے بڑے بڑے نعرے لگائے جاتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ آج میں آپ کو وہ نعرہ یاد دلاتی ہوں جو انھوں نے اپنی پچھلی حکومت میں لگایا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔
انھوں نے جن کے خلاف بیرونی قوتوں اور حکومت کو خط لکھا تھا کہ لوٹا ہوا پیسہ دراصل حکومت پاکستان کا ہے۔ نیکلس کی کہانی بھی سامنے آئی، سرے محل کا بھی پتا چلا، (ن) لیگ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ لوٹا ہوا پیسہ ہر صورت وہ واپس لائیں گے، ہر دوسری تقریر میں یہ جملہ ہوتا تھا کہ وہ '' لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے'' لیکن ایسا نہ ہوا۔
تنخواہ دار اور پنشنرز خواتین و حضرات پر کٹوتی کی یہ بجلی جو گری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ منتخب حکومت طاقتور حلقوں کے آگے مجبور ہو گی لیکن ایک منتخب حکومت کو اتنا اختیار تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کا خیال کرے جو جیسے تیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ تنخواہ دار ملازمین کی ایک بڑی اکثریت ایسی ہے جو پورے خاندان کی کفالت کرتی ہے۔ ایسے میں بجائے عید پر بونس دینے کے، کٹوتی کی خبر سنا دی۔۔۔! کیا منتخب حکومت کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ اس کٹوتی کو روک سکے؟
ایک وقت وہ بھی تھا جب ایف آئی اے کے پاس ثبوتوں کا پورا صندوق تھا۔ ان دنوں ''رکشے والا'' اور ''فالودے والا'' اکاؤنٹس کا بڑا چرچا تھا۔ بہت سے دوسرے طاقتور لوگ اس اسکینڈل میں سرخیوں میں رہے، لیکن کیا ہوا؟ اربوں، کھربوں ڈالرز کے مالکان سے پیسہ نکلوا کر آئی ایم ایف کا قرضہ چکایا جا سکتا تھا۔
جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو عمران خان چادر منہ پہ ڈال کے سوتے رہتے تھے، کبھی کبھار ان کے ''لارڈ'' جو انھیں لے کر آئے تھے انھیں جھاڑ پونچھ کے ہوا لگاتے اور چند جملے بولنے کو کہتے۔ وہ پبلک کے سامنے آئے بغیر میڈیا کو بیان دیتے۔ ''میں این آر او نہیں دوں گا۔'' بس اسی ایک جملے کی تکرار ان کے بیان میں ہوتی تھی اور انھوں نے بھی ''لوٹی ہوئی دولت'' واپس لانے کا نعرہ لگایا تھا۔ لیکن ہوا کیا؟ یہ تو سبھی جانتے ہیں۔
نیکلس کی کہانی بھی سامنے آئی تھی اور نواز شریف حکومت نے اس پر ایکشن لینے کا فیصلہ بھی کیا تھا، سوئٹزرلینڈ میں رکھی ہوئی دولت بھی پاکستانی عوام کا پیسہ تھا جو مختلف مدوں میں لوٹا گیا، لیکن ہوا کیا؟
بہرحال ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ تنخواہ دار سرکاری ملازمین اور پنشنرز پر کٹوتی کی بجلی نہ گرائی جائے۔
تنخواہ دار طبقہ اور پنشنرز جس مشکل میں زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اندازہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ ہمیں تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ بات سچ ہے کہ بجائے عید پر بونس دینے کے یا اضافی رقم دینے کے ایک بڑا زبردست جھٹکا دے دیا ہے۔
گزشتہ برسوں میں ایک ادبی کانفرنس میں جس کا انعقاد جناب عطا الحق قاسمی نے کیا تھا اس میں قاسمی صاحب نے ہم ادیبوں کی ملاقات ناشتے پر جناب شہباز شریف سے کروائی تھی، یہ ناشتہ جناب شہباز شریف کی طرف سے دیا گیا تھا، کراچی سے اس کانفرنس میں عقیل عباس جعفری بھی شریک تھے۔ تب ہم نے ان سے کہا کہ '' کراچی کو بھی ضرورت ہے ایک شہباز شریف کی جو اس بدنصیب ٹوٹے پھوٹے شہر کو صاف ستھرا کر دے، پانی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو بنوا دے، ہم نے ایک کالم بھی لکھا تھا کہ ''ضرورت ہے ایک شہباز شریف کی۔'' وزیر اعلیٰ پنجاب نے وہ کالم دیکھا تھا۔
اس لیے جب ہم نے ان سے شکوہ کیا کہ انھوں نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ''سندھ میں ہماری حکومت نہیں ہے، اس لیے وہ کراچی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے، یہ پیپلز پارٹی کا کام ہے۔'' ان کی بات درست تھی، لیکن اب تو حالات دگر ہیں، شہباز شریف پورے ملک کے حکمران ہیں۔
ان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو اتنا بڑا جھٹکا دیں گے۔ امید تو یہ تھی کہ شاید اس بار کچھ اچھا ہو جائے۔ پرائیویٹ اداروں کی تنخواہوں کی بہ نسبت سرکاری اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، لیکن سرکاری ملازمت میں صرف ایک ہی چارم ہے اور وہ ہے '' پنشن'' کا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک خاص رقم ملازمین کو ملتی ہے، اگر بارہ سال تک ملازمین زندہ رہیں تو پنشن میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا ہے اور اگر کوئی ملازم پچاسی سال تک حیات رہے تو پنشن دگنی ہو جاتی ہے۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کے لیے، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھائے گئے اور اب بجلی گری سرکاری ملازمین کی پنشن پر اور تنخواہوں پر۔ کیا خوب فیصلہ کیا گیا ہے! ۔ یہ جو چہیتے وزارتوں سے مستفیض ہوئے ہیں وہ تو بغلیں بجا رہے ہیں کہ '' کچھ تو ملا '' لیکن اب بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ '' خفیہ ہاتھ'' بہت تیزی سے حرکت میں آگئے ہیں، انھی خفیہ ہاتھوں نے کٹھ پتلیوں کو نچانا شروع کر دیا ہے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بڑی مشکل سے یہ فیصلہ کیا ہوگا۔
پنشنرز حضرات کی ایک بڑی تعداد خاصے مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر لوگ ہیں جو کہیں دوسری جاب کر رہے ہیں۔ خواتین پنشنرز تو ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت بھی نہیں کرتیں، بہت سے گھروں کے چولہے بڑی مشکل سے چلتے ہیں، اگر وہ بیٹے بہو کے ساتھ رہتے ہیں تو انھیں گھر کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ کہیں حالات اتنے خراب ہیں کہ ریٹائرڈ ملازمین کو گھر کا کرایہ بھی دینا پڑ رہا ہے اور دیگر اخراجات بھی برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔
پاکستانی قوم پچھتر سال سے الیکشن کا پتلی تماشا دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ الیکشن سے پہلے بڑے بڑے نعرے لگائے جاتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ آج میں آپ کو وہ نعرہ یاد دلاتی ہوں جو انھوں نے اپنی پچھلی حکومت میں لگایا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔
انھوں نے جن کے خلاف بیرونی قوتوں اور حکومت کو خط لکھا تھا کہ لوٹا ہوا پیسہ دراصل حکومت پاکستان کا ہے۔ نیکلس کی کہانی بھی سامنے آئی، سرے محل کا بھی پتا چلا، (ن) لیگ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ لوٹا ہوا پیسہ ہر صورت وہ واپس لائیں گے، ہر دوسری تقریر میں یہ جملہ ہوتا تھا کہ وہ '' لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے'' لیکن ایسا نہ ہوا۔
تنخواہ دار اور پنشنرز خواتین و حضرات پر کٹوتی کی یہ بجلی جو گری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ منتخب حکومت طاقتور حلقوں کے آگے مجبور ہو گی لیکن ایک منتخب حکومت کو اتنا اختیار تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کا خیال کرے جو جیسے تیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ تنخواہ دار ملازمین کی ایک بڑی اکثریت ایسی ہے جو پورے خاندان کی کفالت کرتی ہے۔ ایسے میں بجائے عید پر بونس دینے کے، کٹوتی کی خبر سنا دی۔۔۔! کیا منتخب حکومت کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ اس کٹوتی کو روک سکے؟
ایک وقت وہ بھی تھا جب ایف آئی اے کے پاس ثبوتوں کا پورا صندوق تھا۔ ان دنوں ''رکشے والا'' اور ''فالودے والا'' اکاؤنٹس کا بڑا چرچا تھا۔ بہت سے دوسرے طاقتور لوگ اس اسکینڈل میں سرخیوں میں رہے، لیکن کیا ہوا؟ اربوں، کھربوں ڈالرز کے مالکان سے پیسہ نکلوا کر آئی ایم ایف کا قرضہ چکایا جا سکتا تھا۔
جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو عمران خان چادر منہ پہ ڈال کے سوتے رہتے تھے، کبھی کبھار ان کے ''لارڈ'' جو انھیں لے کر آئے تھے انھیں جھاڑ پونچھ کے ہوا لگاتے اور چند جملے بولنے کو کہتے۔ وہ پبلک کے سامنے آئے بغیر میڈیا کو بیان دیتے۔ ''میں این آر او نہیں دوں گا۔'' بس اسی ایک جملے کی تکرار ان کے بیان میں ہوتی تھی اور انھوں نے بھی ''لوٹی ہوئی دولت'' واپس لانے کا نعرہ لگایا تھا۔ لیکن ہوا کیا؟ یہ تو سبھی جانتے ہیں۔
نیکلس کی کہانی بھی سامنے آئی تھی اور نواز شریف حکومت نے اس پر ایکشن لینے کا فیصلہ بھی کیا تھا، سوئٹزرلینڈ میں رکھی ہوئی دولت بھی پاکستانی عوام کا پیسہ تھا جو مختلف مدوں میں لوٹا گیا، لیکن ہوا کیا؟
بہرحال ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ تنخواہ دار سرکاری ملازمین اور پنشنرز پر کٹوتی کی بجلی نہ گرائی جائے۔