ہے کوئی کراچی میں تحفظ دینے والا
سندھ میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مزاحمت پر مارے جانے والوں کا سلسلہ تو سالوں سے جاری ہے
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے پندرہویں سال اور چار ماہ نگراں حکومت کے دور میں کراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر تقریباً سوا سو شہری اپنی جان سے گئے تھے مگر سندھ حکومت سوتی رہی تھی۔
نئے سال کے دو ماہ میں بھی اور نگراں حکومت کے 6 ماہ میں بھی کراچی کے شہری غیر محفوظ تھے اور اب مارچ میں پی پی کی سندھ حکومت پھر اقتدار میں آگئی جس کے اقتدار کے پہلے ہفتے میں ہی ڈکیتی مزاحمت اور مزاحمت نہ کرنے پر بھی ڈاکوؤں کے ہاتھوں مرنے والے نوجوانوں کے دل خراش واقعات ہوئے جب کہ سال رواں کے سوا دو ماہ میں کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہونے والوں کی تعداد 38 ہو چکی ہے مگر سندھ حکومت کو فکر ہے نہ پولیس کو کوئی پرواہ ، کراچی میں بے گناہوں کی ہلاکتوں پر ایکشن لیا گیا نہ ہی توجہ دی گئی اور نہ ہی سندھ کے کسی ذمے دار کو طلب کیا گیا کہ بے گناہ کیوں مارے جا رہے ہیں۔
سندھ میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مزاحمت پر مارے جانے والوں کا سلسلہ تو سالوں سے جاری ہے مگر سندھ حکومت کے نزدیک یہ اہم مسئلہ نہیں ہے اگر ہوتا تو ان جرائم میں کچھ کمی آ جاتی مگر کمی کے برعکس مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے اور گزشتہ سوا سال میں بے گناہوں کی ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔
عام انتخابات میں پی پی کے چیئرمین نے کراچی میں ایک طویل انتخابی ریلی نکال کرکہا تھا کہ اب کراچی پیپلز پارٹی کا شہر ہے مگر کراچی کے شہریوں کو لاوارث چھوڑ کر اطمینان سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کو کراچی میں تشویش ناک ہو جانے والے جرائم خصوصاً ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قائم ڈاکو راج اور ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہونے والے افراد خصوصاً نوجوانوں کی جانوں کی فکر ہی نہیں کیونکہ ڈکیتی مزاحمت پر عام شہری ہی مارے جا رہے ہیں۔
کسی سیاستدان، حکمران، وزیر، سرمایہ دار اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسروں کی فیملیز کے ساتھ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ سابق نگراں وزیر داخلہ شہریوں کو مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ ڈاکوؤں کے آگے مزاحمت بالکل نہ کیا کریں اور اپنی گاڑی، موبائل، والٹ اور قیمتی سامان ڈاکوؤں کے فوری حوالے کرکے اپنی جان بچانے کی فکر کیا کریں کیونکہ ان کی جان زیادہ قیمتی ہے۔
اکثر شہری تو ویسے بھی مزاحمت نہیں کرتے اور قیمتی سامان ڈاکوؤں کے حوالے کر کے جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب کراچی میں یہ ہو رہاہے کہ ڈاکو مزاحمت نہ کرنے والوں کو لوٹنے کے بعد ان پر شوقیہ گولیاں چلا کر اپنے فرار ہونے کی راہ ہموار کرتے ہیں جب کہ ڈکیتی یا مسلح ڈاکوؤں کو دیکھ کر شہری پہلے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور ڈاکوؤں کو باآسانی فرار ہونے کا موقعہ دے دیتے ہیں۔ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ہلاک کیے جانے والے نوجوان طالب علم لاریب کے گھر جا کر لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ لاریب کا الم ناک قتل سندھ کے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر کراچی کے قابل نوجوانوں کو غیر مقامی ڈکیتوں اور لٹیروں کے سپرد کرکے حکومت نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کراچی کے محافظ بھی اس شہرکی نمایندگی درست طور پر کرتے نظر نہیں آتے بلکہ وہ پیسہ خرچ کرکے اپنی پوسٹنگ کراچی میں صرف اپنی جیبیں بھرنے کی خاطر کراتے ہیں اور وہ کراچی میں پوسٹنگ کے دوران چوروں، ڈکیتوں، منشیات، فروشوں کی سرپرستی کرکے دگنا وصول کر لیتے ہیں اور اب کراچی شہر میں ڈکیت، پولیس اور بھکاری تک غیر مقامی ہیں جس کا وزیر اعلیٰ اور آئی جی سندھ کو نوٹس لینا اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے خصوصی اہم اقدامات کرنے چاہئیں۔
کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاک کیے جانے والے طالب علم محمد لاریب کے والد کا کہنا ہے کہ لاریب ایک کتاب بھی لکھ رہا تھا اور اس کے موبائل فون میں کتاب کا ڈیٹا تھا جس کی وجہ سے بیٹے نے مزاحمت کی۔ مقتول کے ورثا کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہیں۔ کراچی میں مسلح ڈاکوؤں کی بے حسی اور دلیری کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ بچے اور خواتین بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں۔
شارع فیصل ناتھا خان اور ملیر ہالٹ پر ڈاکوؤں نے اسکول جانے والے نو سالہ بچے سمیت دن دیہاڑے چار افراد کو زخمی کیا اور جب انھوں نے موٹرسائیکل نہیں روکی تو ڈاکوؤں نے پٹرول پمپ پر ان پر دوبارہ فائر کیے اور فرار ہوگئے۔حسب معمول کراچی پولیس چیف نے محمد لاریب کے گھر جا کر ان سے اظہار تعزیت کیا اور انھیں تسلی دی کہ ملزمان جلد گرفتار کر لیے جائیں گے اور جرائم پیشہ افراد کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔
ایسی تسلیاں اہل کراچی سالوں سے سنتے آ رہے ہیں مگر جرائم پیشہ عناصر انجام تک نہیں پہنچ رہے اور مایوس شہریوں نے اپنی جانیں داؤ پر لگا کر ڈاکوؤں کے آگے مزاحمت شروع کردی ہے اور وہ بھی موقعہ ملتے ہی ڈاکوؤں پر تشدد شروع کر دیتے ہیں جس میں بعض ڈاکو ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں تو پولیس موقع پر پہنچ کر ڈاکوؤں کو بچاتی اور گرفتار کر لیتی ہے۔
کبھی حکمرانوں سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ کراچی کے لوگ کیوں غیر محفوظ ہیں اور حکومت انھیں تحفظ دینے میں کیوں مسلسل ناکام ہے۔ کراچی پولیس کو اس سلسلے میں کوئی پوچھنے والا ہے نہ حکمرانوں کو کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مرنے والوں کا کوئی احساس ہے، صرف بیانات جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔
نئے سال کے دو ماہ میں بھی اور نگراں حکومت کے 6 ماہ میں بھی کراچی کے شہری غیر محفوظ تھے اور اب مارچ میں پی پی کی سندھ حکومت پھر اقتدار میں آگئی جس کے اقتدار کے پہلے ہفتے میں ہی ڈکیتی مزاحمت اور مزاحمت نہ کرنے پر بھی ڈاکوؤں کے ہاتھوں مرنے والے نوجوانوں کے دل خراش واقعات ہوئے جب کہ سال رواں کے سوا دو ماہ میں کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہونے والوں کی تعداد 38 ہو چکی ہے مگر سندھ حکومت کو فکر ہے نہ پولیس کو کوئی پرواہ ، کراچی میں بے گناہوں کی ہلاکتوں پر ایکشن لیا گیا نہ ہی توجہ دی گئی اور نہ ہی سندھ کے کسی ذمے دار کو طلب کیا گیا کہ بے گناہ کیوں مارے جا رہے ہیں۔
سندھ میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مزاحمت پر مارے جانے والوں کا سلسلہ تو سالوں سے جاری ہے مگر سندھ حکومت کے نزدیک یہ اہم مسئلہ نہیں ہے اگر ہوتا تو ان جرائم میں کچھ کمی آ جاتی مگر کمی کے برعکس مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے اور گزشتہ سوا سال میں بے گناہوں کی ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔
عام انتخابات میں پی پی کے چیئرمین نے کراچی میں ایک طویل انتخابی ریلی نکال کرکہا تھا کہ اب کراچی پیپلز پارٹی کا شہر ہے مگر کراچی کے شہریوں کو لاوارث چھوڑ کر اطمینان سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کو کراچی میں تشویش ناک ہو جانے والے جرائم خصوصاً ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قائم ڈاکو راج اور ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہونے والے افراد خصوصاً نوجوانوں کی جانوں کی فکر ہی نہیں کیونکہ ڈکیتی مزاحمت پر عام شہری ہی مارے جا رہے ہیں۔
کسی سیاستدان، حکمران، وزیر، سرمایہ دار اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسروں کی فیملیز کے ساتھ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ سابق نگراں وزیر داخلہ شہریوں کو مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ ڈاکوؤں کے آگے مزاحمت بالکل نہ کیا کریں اور اپنی گاڑی، موبائل، والٹ اور قیمتی سامان ڈاکوؤں کے فوری حوالے کرکے اپنی جان بچانے کی فکر کیا کریں کیونکہ ان کی جان زیادہ قیمتی ہے۔
اکثر شہری تو ویسے بھی مزاحمت نہیں کرتے اور قیمتی سامان ڈاکوؤں کے حوالے کر کے جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب کراچی میں یہ ہو رہاہے کہ ڈاکو مزاحمت نہ کرنے والوں کو لوٹنے کے بعد ان پر شوقیہ گولیاں چلا کر اپنے فرار ہونے کی راہ ہموار کرتے ہیں جب کہ ڈکیتی یا مسلح ڈاکوؤں کو دیکھ کر شہری پہلے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور ڈاکوؤں کو باآسانی فرار ہونے کا موقعہ دے دیتے ہیں۔ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ہلاک کیے جانے والے نوجوان طالب علم لاریب کے گھر جا کر لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ لاریب کا الم ناک قتل سندھ کے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر کراچی کے قابل نوجوانوں کو غیر مقامی ڈکیتوں اور لٹیروں کے سپرد کرکے حکومت نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کراچی کے محافظ بھی اس شہرکی نمایندگی درست طور پر کرتے نظر نہیں آتے بلکہ وہ پیسہ خرچ کرکے اپنی پوسٹنگ کراچی میں صرف اپنی جیبیں بھرنے کی خاطر کراتے ہیں اور وہ کراچی میں پوسٹنگ کے دوران چوروں، ڈکیتوں، منشیات، فروشوں کی سرپرستی کرکے دگنا وصول کر لیتے ہیں اور اب کراچی شہر میں ڈکیت، پولیس اور بھکاری تک غیر مقامی ہیں جس کا وزیر اعلیٰ اور آئی جی سندھ کو نوٹس لینا اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے خصوصی اہم اقدامات کرنے چاہئیں۔
کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاک کیے جانے والے طالب علم محمد لاریب کے والد کا کہنا ہے کہ لاریب ایک کتاب بھی لکھ رہا تھا اور اس کے موبائل فون میں کتاب کا ڈیٹا تھا جس کی وجہ سے بیٹے نے مزاحمت کی۔ مقتول کے ورثا کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہیں۔ کراچی میں مسلح ڈاکوؤں کی بے حسی اور دلیری کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ بچے اور خواتین بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں۔
شارع فیصل ناتھا خان اور ملیر ہالٹ پر ڈاکوؤں نے اسکول جانے والے نو سالہ بچے سمیت دن دیہاڑے چار افراد کو زخمی کیا اور جب انھوں نے موٹرسائیکل نہیں روکی تو ڈاکوؤں نے پٹرول پمپ پر ان پر دوبارہ فائر کیے اور فرار ہوگئے۔حسب معمول کراچی پولیس چیف نے محمد لاریب کے گھر جا کر ان سے اظہار تعزیت کیا اور انھیں تسلی دی کہ ملزمان جلد گرفتار کر لیے جائیں گے اور جرائم پیشہ افراد کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔
ایسی تسلیاں اہل کراچی سالوں سے سنتے آ رہے ہیں مگر جرائم پیشہ عناصر انجام تک نہیں پہنچ رہے اور مایوس شہریوں نے اپنی جانیں داؤ پر لگا کر ڈاکوؤں کے آگے مزاحمت شروع کردی ہے اور وہ بھی موقعہ ملتے ہی ڈاکوؤں پر تشدد شروع کر دیتے ہیں جس میں بعض ڈاکو ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں تو پولیس موقع پر پہنچ کر ڈاکوؤں کو بچاتی اور گرفتار کر لیتی ہے۔
کبھی حکمرانوں سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ کراچی کے لوگ کیوں غیر محفوظ ہیں اور حکومت انھیں تحفظ دینے میں کیوں مسلسل ناکام ہے۔ کراچی پولیس کو اس سلسلے میں کوئی پوچھنے والا ہے نہ حکمرانوں کو کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مرنے والوں کا کوئی احساس ہے، صرف بیانات جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔