معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کریں

اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج معاشی استحکام ہی ہے

اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج معاشی استحکام ہی ہے۔ فوٹو:فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام چاہیے، اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں، وفاق اکیلے کچھ نہیں کرسکتا، صوبوں کے ساتھ مل کر معاشی ترقی کے لیے آگے بڑھنا ہوگا، راستے میں دشواریاں اور چیلنجز آئیں گے، مہنگائی کا ایک طوفان ہے، غریب آدمی مہنگائی میں پس گیا ہے، یہ تمام معاملات ہمارے سامنے ہیں، آیندہ ہمیں کڑوے اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی اپیکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں آرمی چیف اور چاروں وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوئے۔

وزیراعظم سے لے کر چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ تک اِس وقت سب ایک ہی مسئلے پر بات کر رہے ہیں اور وہ ہے معیشت کی بہتری، اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج معاشی استحکام ہی ہے۔

چند روز قبل نئی حکومت نے معیشت میں بہتری لانے کے لیے پانچ سال کا معاشی روڈ میپ پیش کردیا ہے جس میں مہنگائی میں کمی، غربت کی تخفیف اور روزگار کی فراہمی پر خاص زور دیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ معاشی روڈ میپ پر معیشت کے مختلف شعبوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے اور وقت ضایع کیے بغیر ملکی معیشت کے استحکام و ترقی کے لیے منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ اپیکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ وفاق صوبوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔

پچھلے کچھ مہینوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک پاکستان نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ لی ہے، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل کے قیام سے بیرونی سرمایہ کاری کے واضح اثرات سامنے آرہے ہیں جس کے معاشی ثمرات براہِ راست عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں، مجموعی طور پر ملک میں معاشی بہتری کے اثرات نظر آرہے ہیں۔

جن میں ترقی کی مجموعی آؤٹ لک بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے جیسا کہ مالی سال 2024(صنعتی سرگرمی اور فصل) کے لیے شرح نمو 3.5 فیصد ہو گئی ہے جو کہ مالی سال 2023 کے لیے صرف 0.3 فیصد تھی، اسی طرح، اگست 2023 تک پاور جنریشن میں 14 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جب کہ ڈیزل سیلز میں 11 فیصد اور پٹرول سیلز میں 8 فیصد اضافہ ہوا۔

اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اپنے مسائل کی گتھی کو ہمیں خود ہی سلجھانا ہے، یہ ساری گفتگو جو وزیر اعظم اور وزراء کر رہے ہیں اِس پر عمل بھی لازم ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں تو خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض لیا جاتا ہے، سالہا سال سے یہی وتیرہ ہے، ملک قرض تلے دب چکا ہے اور اب سود کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے، اگر خرچ آمدن سے زیادہ ہو تو ایک گھر نہیں چل سکتا کجا کہ ملک چلانے کی کوشش کی جائے۔

اہل ارباب و اختیار پر لازم ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں، موثر اقدامات کریں، تحقیق کے کلچر کو فروغ دیں، جس کی بنیاد پر مسائل کے مستقل حل تلاش کیے جا سکیں، پالیسیوں میں تسلسل کے علاوہ خود کو آسائشوں کی گرفت سے آزاد کیا جانا ناگزیر ہے۔ تنخواہیں نہ لینے کا اعلان تو کیا جا رہا ہے لیکن دیگر طرح طرح کی مراعات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، غیر ضروری تام جھام سے پرہیز کریں، اِس معاملے میں زیادہ دور نہ جائیں بلکہ ہمسایہ ملک بھارت کی مثال ہی لے لیں جہاں حکومتی عہدیداروں کا پروٹوکول نہ ہونے کے برابر ہے۔


ٹیکس نظام کو درست کرنا ازحد ضروری ہے، اِس ملک میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے جب کہ کاروباری افراد کسی نہ کسی طریقے سے ٹیکس سے بچ ہی جاتے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 30 فیصد لوگ براہ راست ٹیکس دیتے ہیں۔ حکومت کے لیے عوام کو یہ اعتماد دینے کی ضرورت بھی ہے کہ اُس کے ٹیکس کا پیسہ ترقیاتی کاموں پر ہی خرچ ہو رہا ہے۔

عام طور پر معاشی ترقی کو کسی ملک کے قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس اور کوئلہ کی پیداوار پر منحصر سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدرتی وسائل ترقی کی ایک وجہ تو ضرور ہیں مگر یہ واحد وجہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایسے بہت سے ممالک نے بھی ترقی کی جن کے پاس معدنیات کے ذخائر نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وسائل جو بھی ہوں کسی بھی طریقے سے ملکی پیداوار بڑھانے سے ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ پیداوار بڑھانے سے ہمارے ذہن میں قدرتی وسائل کے بعد سستے مزدوروں کی دستیابی آتی ہے، مگر آج کے دور میں سستے مزدور بھی اس قدر اہم نہیں رہے۔

مثال کے طور پر جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کم آبادی اور مہنگے مزدوروں کے ساتھ بھی اپنی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں پیداوار بڑھانے کے لیے سب سے اہم چیز ٹیکنالوجی یا انڈسٹری ہے۔ چاہے قدرتی وسائل کو استعمال میں لانا ہو یا پھر سستے مزدوروں سے چیزیں بنوانی ہوں اس سب کے لیے ٹیکنالوجی انتہائی اہم ہے۔ ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان میں ہم اپنے کتنے قدرتی وسائل اور بے روزگار سستے مزدوروں سے استفادہ ہی نہیں کر پا رہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی بنانے کی ذمے داری کس کی ہے؟ چونکہ ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ فائدہ سرمایہ دار کو ہوتا ہے اس لیے یہ ذمے داری بھی دراصل سرمایہ دار کی ہے۔ ایک بات کا خیال رہے کہ سرمایہ دار سے مراد صرف کمپنیاں نہیں ہیں جب کہ گورنمنٹ کسی ملک میں سب سے اہم سرمایہ دار ہے اس لیے کمپنیوں کے علاوہ یہ ذمے داروں سرکار اور سرکاری یونیورسٹیز وغیرہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔

صرف نئی ٹیکنالوجی ایجاد کرنے سے بھی ترقی ممکن نہیں، بلکہ اس کا مکمل استعمال بھی لازمی ہے۔ اگر کسی کمپنی کے پاس جدید ٹیکنالوجی تو موجود ہو مگر اس کی انتظامیہ ( منیجمنٹ) اچھی نہ ہو تو وہی مشینیں پیداوار دینے کے بجائے جزوی طور پر بے کار میں پڑی رہیں گی۔ مشینوں سے زیادہ پیداوار لینے کا تعلق صرف مزدوروں کو مینیج کرنے سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کو مینیج کرنے سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر پیداوار میں اگر ایک مرحلے کی مشین بہت تیز ہے جب کہ دوسرے مراحل میں مشینوں کی رفتار کم ہو تو پہلے مرحلے کی مشین اتنی پیداوار نہیں دے سکتی جتنی پیداوار دینے کی صلاحیت اس مشین میں موجود ہے۔

اور پھر ٹیکنالوجی کے استعمال میں کچھ حدود کا بھی خیال رکھنا انتظامیہ کی اہم ذمے داری ہے۔ اس کے بغیر ترقی کی دوڑ میں ملک کو شدید مشکلات، جیسا کہ فضائی آلودگی وغیرہ، کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب گو رواں مالی سال کی ادائیگیاں ہو چکی ہیں، جو رہ گئی ہیں اْن کا بندوبست کیا جا رہا ہے لیکن آیندہ مالی سال میں درجنوں ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے لیے پاکستان کے پاس فی الوقت آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور اِس کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط بھی ماننی پڑ رہی ہیں۔پاکستان میں زراعت سے ترقی نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر سب سے اہم وجہ زراعت پر اثر انداز ہونے والے قدرتی عوامل ہیں۔

مثلاً صرف ایک دن کی کسی قدرتی آفت سے پورے ملک کی چھے ماہ کی زرعی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک فصل حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ اور جہاں تک پیداوار بڑھانے کا تعلق ہے تو ایک ہی زمین سے کھاد وغیرہ کے استعمال سے ایک انتہائی محدود حد تک ہی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔ بہرحال مجموعی معاشی ترقی کے لیے زراعت کی اہمیت نہ سہی مگر ترقی پذیر ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس لیے بے روزگاری کے حل کے لیے پاکستان جیسے ملک میں یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

پیداوار میں ترقی کی شرح بڑھانا کسی ملک کے لیے ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ پاکستان میں بجٹ تقریروں میں بے معنی اصطلاحوں کے ذریعے اس مشکل کو حل کیا جاتا ہے۔ بجٹ میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار جی ڈی پی کی ترقی کے بارے میں ہوتے ہیں، جب کہ حقیقی ترقی کا اندازہ جی ڈی پی پر کیپیٹا (فی کس جی ڈی پی) کے ساتھ آبادی اور مہنگائی کی شرح ملا کر دیکھنے سے کیا جا سکتا ہے۔

عام طور پر ملکوں کی ترقی کی شرح ایک سے تین فی صد کے درمیان رہتی ہے، اگرچہ ترقی کی شرح کو کسی حدود کا پابند نہیں کیا جا سکتا مگر حقیقت میں 6 % سے زیادہ ترقی کی شرح حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے، اس لیے اس سے زیادہ ترقی کی شرح معیشت میں معجزاتی سمجھی جاتی ہے۔ مسلسل معجزاتی ترقی کی شرح سے ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ معجزاتی شرح صرف انڈسٹری لگانے سے ہی ممکن ہے۔ اٹھارویں صدی سے پہلے جب تک انڈسٹریاں نہیں لگی تھی یہ شرح تقریباً ہر ملک میں صفرکے قریب تھی اور پھر انڈسٹریوں کے بعد یہ ایک فی صد تک جانے لگی۔ یہ بات تو طے ہے کہ اگر ملک کو حقیقتاً ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا منظور ہے تو حکومت اور عوام دونوں کو ہی اپنے اپنے فرائض خلوصِ نیت سے نبھانا ہوں گے، خود احتسابی کی روایت اپنانا ہو گی، اپنا حصہ بقدر جْثہ ڈالے بغیر ترقی کے خواب دیکھنا عبث ہے۔
Load Next Story