غزہ میں جنگ بندی اولین ترجیح ہونی چاہیے

مستقل اور طویل المدت امن معاہدہ ہی اسرائیل کے لیے اس تنازعہ سے نکلنے کا شاید واحد اور باعزت راستہ ہو گا

مستقل اور طویل المدت امن معاہدہ ہی اسرائیل کے لیے اس تنازعہ سے نکلنے کا شاید واحد اور باعزت راستہ ہو گا۔ فوٹو:فائل

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اب یکطرفہ لڑائی بن چکی ہے۔ اسرائیل کی فوج بغیر کسی بڑی مزاحمت کے عزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

ادھر اقوام متحدہ اور طاقتور اقوام اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی اختیارکررہے ہیں ، اس وجہ سے غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوپا رہی ہے، عالمی طاقتوں کے درمیان جاری مفادات کی جنگ لڑائی میں فلسطینوں کا بھاری نقصان ہورہاہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ پر جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق جمعے کو بھی متعددفلسطینی شہری شہید ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ عالمی طاقتوں کی باہمی لڑائی، مسلم ممالک کی قیادت کی مصلحت اندیشی، عرب لیگ اور او آئی سی کی خاموشی نے فلسطینیوں میں خاصی مایوسی پیدا کر دی ہے۔

فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور ان کی حکومت بھی کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آ رہی ہے جب کہ حماس کی عالمی حمایت میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔

ایران، حوثی انتظامیہ کے زیرکنٹرول یمن اور حزب اللہ حماس کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ بھی عملاً کوئی بڑا بریک تھرو کرنے کی قوت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔ یوں غزہ میں فلسطینی مسلسل جارحیت کا شکار چلے آ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک قرارداد پیش کی تھی۔ گزشتہ روز روس اور چین نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ شمالی افریقہ کے مسلمان ملک الجزائر نے بھی اس قرارداد کی مخالفت کی ہے جب کہ گیانا نے اپنا ووٹ نہیں دیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکا کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں 11ووٹ آئے۔

اطلاعات کے مطابق قرارداد میں حماس کی مذمت بھی کی گئی تھی۔ روسی سفیر نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکا اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لیے کچھ نہیں کر رہا، ہم نے ایک منافقانہ تماشا دیکھا ہے، روسی سفیر نے وضاحت کی کہ امریکی قرارداد حد سے زیادہ سیاسی ہے، جس کا واحد مقصد ووٹرز کے ساتھ کھیلنا اور غزہ میں جنگ بندی کے ذکرکی شکل میں انھیں ہڈی ڈالنا ہے۔

قرارداد اسرائیل کے استثنیٰ کو یقینی بنائے گی اور یہ اسے سزا سے بچانے کے لیے ہے۔ قرارداد کے مسودے میں اسرائیل کے جرائم کا ذکر بھی نہیں کیا گیا۔

روس کا مؤقف اور ردعمل بے شک درست ہے، روسی سفیر نے جن نکات کو اٹھایا ہے وہ خاصے اہمیت کے حامل ہیں، غزہ میں جو تباہی ہوئی ہے، اس پر اسرائیل کا احتساب ضرور ہونا چاہیے تاہم اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے تھا کہ فلسطینیوں کے لیے اس وقت سب سے بڑا ریلیف جنگ کو رکوانا ہے کیونکہ اس جنگ یا لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان غزہ میں مقیم شہریوں کو ہو رہا ہے بلکہ غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائی کو جنگ کہا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ اسرائیلی فوج کے مدمقابل کوئی فوج ہے ہی نہیں۔ اسرائیل کی یہ کھلی نسل کشی کی مہم ہے۔

عالمی عدالت انصاف بھی ایسا ہی قرار دے چکی ہے۔ بہرحال عالمی طاقتوں کا پہلا فرض یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو مستقل بنیادوں پر بند کرائیں تاکہ فلسطینیوں کی جان ومال، عزت وآبرو کا تحفظ ہو سکے اور وہ واپس اپنے گھروں میں آ سکیں۔ امریکا کی قرارداد پر روس اور چین کے ویٹو کے بعد فرانسیسی صدر کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے نئی قرارداد پر کام کریں گے۔


ادھر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن جو ان دنوں مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، وہ سعودی عرب، مصر کے دورے کے بعد اسرائیل پہنچ گئے ہیں اور انھوں جنگی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی۔ بلنکن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی خطرے میں ہے، اسرائیل کو تنہائی کا خطرہ ہے، اسرائیل نے بغیر پلاننگ جنگ جاری رکھی تو اسے ایک بڑی شورش کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسرائیل غزہ میں پھنسا رہے گا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے انتھونی بلنکن کے خدشات وانتباہ کی پرواہ کیے بغیر ان پر واضح کیا ہے کہ فلسطینی علاقے رفح پر حملہ ناگزیر ہے۔ حماس کے بچے کچھے اہلکاروں کو ختم کرنے کے لیے رفح پر حملے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اسرائیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے غزہ میں شفا اسپتال سے حماس کے رہنما رائد سعد اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے تاہم حماس نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا ہے، بعد میں اسرائیلی فوج نے اعتراف کرلیا کہ حماس رہنماؤں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

اسرائیل کے اسٹرٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر نے کہا ہے کہ حماس کے 25 فیصد اصل جنگجو رفح میں ہیں۔ امریکا سمیت ساری دنیا ہمارے خلاف ہوجائے پھر بھی رفح پر کنٹرول حاصل کریں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک اور بڑے قتل عام کی تیاری کر رہا ہے۔

عالمی میڈیا میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حماس نے اسرائیلی جارحیت کے جواب میں جوابی حملوں کی ایک وڈیو جاری کردی اور تین اسرائیلی ٹینکوں کو تباہ کرنے کا بتایا۔

اسرائیل نے مغربی کنارے میں وادی اردن میں تقریبا دو ہزار ایکڑ رقبہ پر یہودی آباد کاری کے منصوبوں کا اعلان کردیا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ 24لاکھ آبادی کو قحط سے بچانے کے لیے زمینی راستے کھولنا ہی واحد حل ہے ۔ بھوک اور پیاس سے 27فلسطینی جاں بحق ہوچکے۔ لندن میں برطانیہ کی پارلیمنٹ کے باہرخواتین نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف سر منڈوا کر احتجاج کیا۔ سنگاپور نے غزہ میں پہلی مرتبہ فضا سے امدادی سامان گرادیا۔

اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر نے کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت سے غزہ میں 88 ہزار 868 عمارتوں کو نقصان پہنچا، 35فیصد عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو دنیا بھر کے دباؤ کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہے، وہ پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ حماس کے مکمل خاتمے تک مستقل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے لہٰذا فلسطینیوں کے مصائب ختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ غزہ کی صورتحال ناقابل بیان ہے اور یہ عالمی برادری کی ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

غزہ میں لوگوں کو بار بار اپنا ٹھکانہ بدلنا پڑتا ہے مگر عالمی ضمیر سمیت دنیا خاموش ہے جب کہ طاقتور اقوام اپنی اپنی پراکسی جنگ میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کی شدید بمباری کے باعث غزہ شہر کھنڈر بن چکا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کی حامل پانچ عالمی طاقتیں اسرائیل کو روکنے اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے عملی فیصلے نہیں کر پا رہیں۔

غزہ میں رہائشی عمارتیں تباہ ہیں۔ شہری انفرااسٹرکچر ختم ہو چکا ہے حتیٰ کہ اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ کے شہریوں کی دو تہائی اکثریت بے گھر ہے۔ اب ان لوگوں کی آباد کاری اور بحالی کے کام میں برسوں کی مدت اور اربوں ڈالرکا سرمایہ درکار ہوگا۔

اس قدر تباہی کے باوجود اسرائیل اپنی مستقل سیکیورٹی کا مقصد تاحال حاصل نہیں کر سکا، اسرائیل کی انتہاپسند قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ یہ طے ہے کہ اسرائیل کی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ جب تک معاملات طے نہیں کرتی، اسرائیل کی سیکیورٹی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے سو فیصد نکال سکتا ہے۔

مستقل اور طویل المدت امن معاہدہ ہی اسرائیل کے لیے اس تنازعہ سے نکلنے کا شاید واحد اور باعزت راستہ ہو گا، البتہ اگر اس نے بمباری جاری رکھنے اور غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو یہ جنگ مزید پیچیدہ اور ہلاکت خیز ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کو جنگ کی دھمکیاں دینے کے بجائے امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ یہ راستہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے انخلا کا راستہ ہے۔ یہی اسرائیلی لیڈروں کی بصیرت اور امریکی صدر کی سفارت کاری کا امتحان ہو گا۔ فلسطینیوں کو انصاف فراہم کر کے ہی اس سر زمین پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

اقوام متحدہ، امریکا، اسپین، فرانس، یورپی یونین، روس، چین، ایران، سعودی عرب، یو اے ای، او آئی سی، عرب لیگ سمیت دیگر ممالک کی حکومتیں فلسطینیوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں اور اسرائیل کی جارحیت کی شدید مذمت بھی کی جا رہی ہے لیکن اصل مسئلہ غزہ میں جنگ بندی کرانا ہے، باقی معاملات بعد میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتوں کی اولین ترجیح غزہ میں جنگ بندی کرانا ہونی چاہیے تاکہ فلسطینیوں کی جانیں محفوظ ہو سکیں۔
Load Next Story