اندھیرا اور اندھیروں کا تعلق باہمی
کیا ماضی کی حکومتوں نے جن میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے کوئلے کے ان ذخائر سے استفادہ کرنے کی کوشش کی؟
میاں صاحب نے 1320 میگاواٹ کے جن دو منصوبوں کا افتتاح کیا ہے، یہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے ہیں اور ہماری موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے علم میں یہ بات تھی کہ ہمارے ملک میں کوئلے کے اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ یہ ہماری ضرورتیں آنے والے تین سو سال تک پوری کر سکتے ہیں۔ یہ معلومات نئی نہیں ہیں بلکہ عشروں پرانی ہیں۔
کیا ماضی کی حکومتوں نے جن میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے کوئلے کے ان ذخائر سے استفادہ کرنے کی کوشش کی؟ اگر نہیں کی تو کیا اس جرم نااہلی کی ذمے داری حالیہ اور سابقہ حکومتوں پر عائد نہیں ہوتی؟ بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے ہماری بے شمار صنعتیں متاثر ہو گئی ہیں اور ان کی پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے، بجلی اور گیس کی قلت پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے، کیا اس طویل عرصے تک ہماری صنعتی زندگی کا پہیہ جام نہیں رہے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی سنگینی اور ذمے داری کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی ملک صنعتی ترقی کے بغیر اقتصادی ترقی کے راستے پر پیشرفت نہیں کر سکتا۔
صنعتی ترقی کی راہ میں بلاشبہ توانائی کی قلت بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس حوالے سے صنعتی ترقی کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ ہمارا جاگیردارانہ نظام ہے جس کی بقا کا انحصار صنعتی پسماندگی ہے۔ اور بدقسمتی سے پچھلے 66 سال سے یہی طبقہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے۔ یہ طبقہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ اگر ملک صنعتی ترقی کے راستے پر چل پڑا تو پھر نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جو ہماری صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری اقتدار مافیا بجلی اور گیس کی قلت کے مضمرات سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس قلت کو دور کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہے۔ اور یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک اقتدار اور سیاست پر وڈیرہ شاہی کی گرفت مضبوط رہے گی۔
کیا ہمارے صنعتکار وزیر اعظم اس حقیقت سے واقف نہیں؟ساہیوال میں 1320 میگاواٹ کے دو منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ کوئلے سے چلنے والے ان دو منصوبوں کا آغاز ایک معجزے سے کم نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت پنجاب اور چینی کمپنیاں جس تیزی سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ 660-660 میگاواٹ کے دو منصوبے دو سال میں مکمل ہو جائیں گے۔ ''ہم ملک کو اندھیروں سے ضرور نکالیں گے۔''
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز برادران کی حکومت بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر تیزی سے کام کر رہی ہے لیکن ملک کو بجلی کی جس قلت کا سامنا ہے وہ اس قدر زیادہ ہے کہ 1320 میگاواٹ کے کئی منصوبے بھی اس قلت کو دور نہیں کر سکتے اور اس حوالے سے بنائے جانے والے منصوبوں کا دورانیہ اس قدر طویل ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اقتداری دورانیے میں شاید ملک کو اندھیروں سے نہ نکال سکے کیونکہ بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے عشروں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہماری موجودہ حکومت بجلی کی قلت کی ذمے داری سابق حکومتوں پر ڈالتی ہے۔
بلاشبہ آج ملک کو بجلی کی قلت کا جو سامنا ہے اس کی ذمے داری سابق حکومتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان سابق حکومتوں میں خود مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے کیونکہ ملک کو بجلی کی جس قلت کا سامنا ہے اس سے بچنے کے لیے عشروں پہلے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تھی۔دنیا کی ذمے دار اور عوام کو جوابدہ حکومتیں قومی اہمیت کے حامل مسائل کے حل کے لیے عشروں پہلے ہی سے منصوبہ بندی شروع کرتی ہیں۔ بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے منصوبہ ساز سو سو سال پہلے ہی آنے والی مشکلات سے بچنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس لیے ان ملکوں کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔
بجلی اور گیس، توانائی کے ایسے ذرایع ہیں جن کا تعلق صرف عوام کی گھریلو ضرورت ہی سے نہیں بلکہ ملک کی صنعتی ضرورت سے بھی ہے۔ آج بجلی اور گیس کی قلت سے صرف گھریلو صارفین ہی متاثر نہیں بلکہ ہماری صنعتی زندگی کا پہیہ بھی جام ہوکر رہ گیا ہے۔ سیکڑوں کارخانے گیس اور بجلی کی قلت سے دوچار ہیں اور لاکھوں مزدور بجلی گیس کی قلت کی وجہ سے بے روزگاری سے دوچار ہیں۔ کیا اتنے بڑے قومی جرم کو محض سابقہ حکومتوں کی نااہلی کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے؟ہمارے ملک میں دو طرح کے اندھیرے ہیں، ایک کا تعلق بجلی گیس سے ہے، دوسرے کا تعلق معاشی ناانصافی سے ہے۔ بجلی کی پیداوار میں اگر اضافہ ہو گا تو بجلی کی قلت سے پیدا ہونے والے اندھیرے دور ہو سکتے ہیں لیکن معاشی ناانصافی سے پیدا ہونے والے اندھیروں سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟
یہ سوال بجلی سے پیدا ہونے والے اندھیروں سے زیادہ اہم اس لیے ہے کہ اس کا براہ راست تعلق اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے حال اور مستقبل سے ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور پسماندگی کو عوام کی معاشی زندگی سے ناپا جاتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی معاشی زندگی اس قدر بدتر ہے کہ خود ہمارے وزیر خزانہ کے مطابق ہماری آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ بتایا جاتا تھا کہ پاکستان کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ہمارے وزیر خزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ ہماری 9 کروڑ آبادی کی روزانہ آمدنی صرف دو ڈالر یعنی دو سو روپوں سے کم ہے اور یہ آمدنی دنیا کے پسماندہ ملکوں کی آمدنی سے بھی کم ہے۔
ہماری معاشی زندگی کی گاڑی عوام کے کندھوں سے چلتی ہے یعنی ہماری قومی پیداوار ہماری قومی دولت کے پیدا کرنے میں غریبوں، محنت کشوں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ معمولی عقل رکھنے والے کے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہو گا کہ معاشی زندگی کو سنوارنے والوں کی زندگی اس قدر تاریک کیوں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عوام اپنی محنت سے جو دولت پیدا کرتے ہیں اس پر ایک چھوٹا سا طبقہ بذریعہ کرپشن قبضہ کر لیتا ہے۔ جب ملک کی 80 فیصد دولت دو فیصد سے کم لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جائے تو پھر 98 فیصد یقیناً دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہو جائے گا۔ وہی ہمارے ملک میں ہوتا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس لٹیرے طبقے کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں اور اس سے زیادہ دولت دوسرے ملکوں کے محفوظ اکاؤنٹس میں جمع ہے، کیا یہ ساری دولت غریبوں کی محنت سے پیدا کردہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر یہ دولت جس میں بینک نادہندگان کی دو کھرب روپوں کی دولت بھی شامل ہے عوام کے تصرف میں کیوں نہیں آتی؟ جو غربت کی اصل وجہ ہے۔ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں جب انتخابات لڑتی ہیں تو ان کا سب سے بڑا ہتھیار غربت کم یا ختم کرنے کا نعرہ ہوتا ہے، ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں اگرچہ انتخابات بھی ایک بہت بڑی عیاشی ہے اور اس عیاشی سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کی جیب میں کروڑوں روپے ہوتے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ بھارتی انتخابات میں بی جے پی نے 68 کروڑ ڈالر خرچ کیے، یہ 68 کروڑ ڈالر نریندر مودی کی ملکیت نہیں تھے بلکہ نریندر مودی کو انتخابات جتوانے والوں کی ملکیت ہیں اور یہ سیاسی سرمایہ کار انتخابات پر اتنا بڑا سرمایہ اس لیے لگاتے ہیں کہ یہی ایک ایسا کاروبار ہے جس سے ایک کے سو حاصل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام 1970ء سے اپنی تقدیر بدلنے معاشی ناانصافیوں کے اندھیروں سے باہر آنے کے لیے سیاسی وڈیروں کو برسر اقتدار لا رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب 40 فیصد کے بجائے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ہماری وہ جمہوریت ہے جس کی تعریف میں اہل دانش اہل قلم زمین آسمان ایک کر رہے ہیں۔ کیا 66 سال کے اس ناکام تجربے کے بعد عوام اس کا کوئی ''بہتر اور بامعنی '' حل تلاش کرنے کی سوچتے ہیں تو کیا وہ غلط کرتے ہیں؟
کیا ماضی کی حکومتوں نے جن میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے کوئلے کے ان ذخائر سے استفادہ کرنے کی کوشش کی؟ اگر نہیں کی تو کیا اس جرم نااہلی کی ذمے داری حالیہ اور سابقہ حکومتوں پر عائد نہیں ہوتی؟ بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے ہماری بے شمار صنعتیں متاثر ہو گئی ہیں اور ان کی پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے، بجلی اور گیس کی قلت پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے، کیا اس طویل عرصے تک ہماری صنعتی زندگی کا پہیہ جام نہیں رہے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی سنگینی اور ذمے داری کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی ملک صنعتی ترقی کے بغیر اقتصادی ترقی کے راستے پر پیشرفت نہیں کر سکتا۔
صنعتی ترقی کی راہ میں بلاشبہ توانائی کی قلت بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس حوالے سے صنعتی ترقی کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ ہمارا جاگیردارانہ نظام ہے جس کی بقا کا انحصار صنعتی پسماندگی ہے۔ اور بدقسمتی سے پچھلے 66 سال سے یہی طبقہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے۔ یہ طبقہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ اگر ملک صنعتی ترقی کے راستے پر چل پڑا تو پھر نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جو ہماری صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری اقتدار مافیا بجلی اور گیس کی قلت کے مضمرات سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس قلت کو دور کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہے۔ اور یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک اقتدار اور سیاست پر وڈیرہ شاہی کی گرفت مضبوط رہے گی۔
کیا ہمارے صنعتکار وزیر اعظم اس حقیقت سے واقف نہیں؟ساہیوال میں 1320 میگاواٹ کے دو منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ کوئلے سے چلنے والے ان دو منصوبوں کا آغاز ایک معجزے سے کم نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت پنجاب اور چینی کمپنیاں جس تیزی سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ 660-660 میگاواٹ کے دو منصوبے دو سال میں مکمل ہو جائیں گے۔ ''ہم ملک کو اندھیروں سے ضرور نکالیں گے۔''
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز برادران کی حکومت بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر تیزی سے کام کر رہی ہے لیکن ملک کو بجلی کی جس قلت کا سامنا ہے وہ اس قدر زیادہ ہے کہ 1320 میگاواٹ کے کئی منصوبے بھی اس قلت کو دور نہیں کر سکتے اور اس حوالے سے بنائے جانے والے منصوبوں کا دورانیہ اس قدر طویل ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اقتداری دورانیے میں شاید ملک کو اندھیروں سے نہ نکال سکے کیونکہ بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے عشروں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہماری موجودہ حکومت بجلی کی قلت کی ذمے داری سابق حکومتوں پر ڈالتی ہے۔
بلاشبہ آج ملک کو بجلی کی قلت کا جو سامنا ہے اس کی ذمے داری سابق حکومتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان سابق حکومتوں میں خود مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہے کیونکہ ملک کو بجلی کی جس قلت کا سامنا ہے اس سے بچنے کے لیے عشروں پہلے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تھی۔دنیا کی ذمے دار اور عوام کو جوابدہ حکومتیں قومی اہمیت کے حامل مسائل کے حل کے لیے عشروں پہلے ہی سے منصوبہ بندی شروع کرتی ہیں۔ بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے منصوبہ ساز سو سو سال پہلے ہی آنے والی مشکلات سے بچنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس لیے ان ملکوں کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔
بجلی اور گیس، توانائی کے ایسے ذرایع ہیں جن کا تعلق صرف عوام کی گھریلو ضرورت ہی سے نہیں بلکہ ملک کی صنعتی ضرورت سے بھی ہے۔ آج بجلی اور گیس کی قلت سے صرف گھریلو صارفین ہی متاثر نہیں بلکہ ہماری صنعتی زندگی کا پہیہ بھی جام ہوکر رہ گیا ہے۔ سیکڑوں کارخانے گیس اور بجلی کی قلت سے دوچار ہیں اور لاکھوں مزدور بجلی گیس کی قلت کی وجہ سے بے روزگاری سے دوچار ہیں۔ کیا اتنے بڑے قومی جرم کو محض سابقہ حکومتوں کی نااہلی کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے؟ہمارے ملک میں دو طرح کے اندھیرے ہیں، ایک کا تعلق بجلی گیس سے ہے، دوسرے کا تعلق معاشی ناانصافی سے ہے۔ بجلی کی پیداوار میں اگر اضافہ ہو گا تو بجلی کی قلت سے پیدا ہونے والے اندھیرے دور ہو سکتے ہیں لیکن معاشی ناانصافی سے پیدا ہونے والے اندھیروں سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟
یہ سوال بجلی سے پیدا ہونے والے اندھیروں سے زیادہ اہم اس لیے ہے کہ اس کا براہ راست تعلق اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے حال اور مستقبل سے ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور پسماندگی کو عوام کی معاشی زندگی سے ناپا جاتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی معاشی زندگی اس قدر بدتر ہے کہ خود ہمارے وزیر خزانہ کے مطابق ہماری آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ بتایا جاتا تھا کہ پاکستان کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ہمارے وزیر خزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ ہماری 9 کروڑ آبادی کی روزانہ آمدنی صرف دو ڈالر یعنی دو سو روپوں سے کم ہے اور یہ آمدنی دنیا کے پسماندہ ملکوں کی آمدنی سے بھی کم ہے۔
ہماری معاشی زندگی کی گاڑی عوام کے کندھوں سے چلتی ہے یعنی ہماری قومی پیداوار ہماری قومی دولت کے پیدا کرنے میں غریبوں، محنت کشوں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ معمولی عقل رکھنے والے کے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہو گا کہ معاشی زندگی کو سنوارنے والوں کی زندگی اس قدر تاریک کیوں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عوام اپنی محنت سے جو دولت پیدا کرتے ہیں اس پر ایک چھوٹا سا طبقہ بذریعہ کرپشن قبضہ کر لیتا ہے۔ جب ملک کی 80 فیصد دولت دو فیصد سے کم لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جائے تو پھر 98 فیصد یقیناً دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہو جائے گا۔ وہی ہمارے ملک میں ہوتا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس لٹیرے طبقے کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں اور اس سے زیادہ دولت دوسرے ملکوں کے محفوظ اکاؤنٹس میں جمع ہے، کیا یہ ساری دولت غریبوں کی محنت سے پیدا کردہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر یہ دولت جس میں بینک نادہندگان کی دو کھرب روپوں کی دولت بھی شامل ہے عوام کے تصرف میں کیوں نہیں آتی؟ جو غربت کی اصل وجہ ہے۔ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں جب انتخابات لڑتی ہیں تو ان کا سب سے بڑا ہتھیار غربت کم یا ختم کرنے کا نعرہ ہوتا ہے، ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں اگرچہ انتخابات بھی ایک بہت بڑی عیاشی ہے اور اس عیاشی سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کی جیب میں کروڑوں روپے ہوتے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ بھارتی انتخابات میں بی جے پی نے 68 کروڑ ڈالر خرچ کیے، یہ 68 کروڑ ڈالر نریندر مودی کی ملکیت نہیں تھے بلکہ نریندر مودی کو انتخابات جتوانے والوں کی ملکیت ہیں اور یہ سیاسی سرمایہ کار انتخابات پر اتنا بڑا سرمایہ اس لیے لگاتے ہیں کہ یہی ایک ایسا کاروبار ہے جس سے ایک کے سو حاصل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام 1970ء سے اپنی تقدیر بدلنے معاشی ناانصافیوں کے اندھیروں سے باہر آنے کے لیے سیاسی وڈیروں کو برسر اقتدار لا رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب 40 فیصد کے بجائے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ہماری وہ جمہوریت ہے جس کی تعریف میں اہل دانش اہل قلم زمین آسمان ایک کر رہے ہیں۔ کیا 66 سال کے اس ناکام تجربے کے بعد عوام اس کا کوئی ''بہتر اور بامعنی '' حل تلاش کرنے کی سوچتے ہیں تو کیا وہ غلط کرتے ہیں؟