آخری مغل شہنشاہ رنگون میں
تاریخ مغلیہ کا یہ باب سادہ پڑا ہوا ہے اور اسے آنسوؤں کی بوندوں کے سوا اور کون لکھ سکتا ہے؟
اختر حسین رائے پوری کے منتخب مضامین میں ایک مضمون کا عنوان ہے '' آخری مغل شہنشاہ رنگون میں۔''
وہ لکھتے ہیں۔ ''1857کا ذکر ہے۔ علی الصبح کچھ پالکیاں اور ڈولیاں آ کر لال قلعہ کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔ اندر سے آہ و زاری کی صدا بلند ہوتی ہے اور باہر اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آج آخری مغل شہنشاہ کے آخری دیدار کے لیے میدان میں لوگوں کا اژدھام لگا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک بوڑھا گورے سنتریوں کے پہرے میں آتا ہے اور پالکی میں سوار ہو جاتا ہے۔ اس کی حسرت بھری نگاہیں قلعہ کی سنگین دیواروں میں گڑ جاتی ہیں۔
آہ ! وہ قلعہ جہاں مغلوں کی شوکتِ پارینہ دفن ہے، جہاں ہندوستان کی عظمت آخری ہچکیاں لے رہی ہے! اب شاہی خاندان کے کچھ لوگ اور چند بیگمیں سر پر خاک اڑاتے ہوئے نکلتی ہیں اور پالکیاں روانہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ مغلوں کا جھلملاتا ہوا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جاتا ہے۔
''کہتے ہیں کہ شکست خوردہ کی کہانی ریت کے ڈھیر پر لکھی ہوتی ہے جسے زمانے کا ایک جھونکا مٹا دیتا ہے۔ یہی حال بہادر شاہ کا ہوا۔ تاریخ کو صرف اتنا یاد ہے کہ مغلوں کا آخری نام لیوا بہادر شاہ رنگون گیا، وہیں مرا اور وہیں دفن ہوا۔ لیکن اس کی زندگی کی آخری گھڑیاں کیسے گزریں، اس کے کنبے کا کیا حال ہوا۔ اس درد ناک کہانی کے کون کون سے داغ اب تک باقی ہیں۔ زمانے کی گردش نے کن کن لوگوں کا نشان مٹا دیا، یہ ہمیں نہیں معلوم۔
تاریخ مغلیہ کا یہ باب سادہ پڑا ہوا ہے اور اسے آنسوؤں کی بوندوں کے سوا اور کون لکھ سکتا ہے؟ میں یہاں صرف یہ لکھوں گا کہ رنگون میں بہادر شاہ کے ہمراہی کون تھے اور ان کی اولاد پر کیا گزری۔ ''جب بہادر شاہ رنگون پہنچے، اس وقت ان کے ساتھ تقریباً تیس آدمی تھے۔ ان میں سے گیارہ نے آخر وقت تک حقِ رفاقت ادا کیا۔ بقیہ میں سے کچھ ہندوستان واپس آگئے اور کچھ برما ہی میں بس گئے۔ بہادر شاہ کے ہمراہیوں میں ان کا چہیتا بیٹا، جواں بخت، ان کی بہو زمانی بیگم، ان کی دکھ سکھ کی شریک ملکہ زینت محل اور ایک دوسرا بیٹا عباس شاہ تھے۔
کہا جاتا ہے کہ تاج محل بیگم اور شہزادی رابعہ بیگم بھی رنگون آئی تھیں اور سرتاج کے اٹھ جانے کے بعد ہندوستان لوٹ گئیں۔ ''ظفرؔ کے جو ہمراہی برما میں رہ گئے تھے، ان میں سے اکثر نے مولمین میں گھر بنایا اور برمی عورتوں سے شادیاں کر لیں۔ شہزادہ عباس شاہ نے بھی ایک برمی عورت سے عقد کیا۔ چنانچہ ان کے فرزند پرنس رحمت سلطان اب تک وہاں موجود ہیں۔
ظفرؔ کے عزیز شہزادہ نظام شاہ نے بھی مولمین میں ڈیرا ڈالا، یہیں ان کے بیٹے انتظام شاہ زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ باقی لوگوں کا کچھ پتا نہ لگنے پایا۔ وہ برمی سوسائٹی میں گھل مل گئے اور زیادہ دنوں تک اپنی پرانی آن بان قائم نہ رکھ سکے۔ اس طرح زمانۂ قید میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے، جواں بخت اور بہو شاہ زمانی بیگم باقی رہ گئیں۔ اندھیرے میں تو سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، پھر دوسروں سے کیا امید۔
''بہادر شاہ ظفرکو جہاز سے اتار کر گوروں کے سخت پہرے میں صدر بازار، ایک دو منزلہ بنگلے میں لایا گیا۔ پرانے گھڑ دوڑ کے میدان کے پاس، موجودہ واہلی روڈ کے کنارے یہ مکان بنا ہوا تھا۔ اب تو اس کا کہیں پتا بھی نہیں۔ اب وہاں گھر، کچہری اور پولیس کی چوکی نظر آتی ہے۔ یہ کل احاطہ ایک انگریز، مسٹر ڈاسن کی ملکیت ہے جس میں آخری مغل شہنشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ آخری نیند سو رہا ہے۔
ظفرؔ کی زندگی میں اس بنگلے کے ارد گرد پہرے دار چیل کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔ ''کسی بادشاہ کی روح کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کی شاہی آن بان کا خاتمہ کر دو پھر دیکھو وہ کس طرح تڑپتا ہے۔ اس کی ہر سانس ایک آہ ہے، اس کی ہر بات ایک کراہ ہے۔ اس کی مسکراہٹ موت کی ہنسی ہے۔
انیسویں صدی کے ہشتاد سالہ مصیبت زدہ مغل شہنشاہ کی تصویر کھینچو جس نے ساڑھے تین سو برس کی عظمت و شوکت کو بادِ فنا کی ایک ٹھوکر سے خاک میں ملتے دیکھا ہے، جس کے کانوں نے اپنی بیٹیوں کی چیخ اور ننھے ننھے بچوں کی پکار سنی ہے اور اب ہمیشہ کے لیے دنیا سے الگ کر دیا گیا ہے۔ بھلا اس کے جذبات کی گہرائیوں تک کون پہنچ سکتا ہے۔''
''ظفرؔ اپنے تنگ و تاریک کمرے سے کبھی باہر نہیں نکلے۔ چارپائی پر پڑے ہوئے پیچوان کے کش کھینچتے، اپنے درد ناک شعروں کو گنگناتے اور نماز پڑھتے ہوئے صبح سے شام اور شام سے صبح کردیتے تھے اور کبھی کبھی اپنے پیارے بیٹے جواں بخت کو اس سنگ دل دنیا کی بے وفائی کی حکایتیں سنانے لگتے۔ پچھلی باتوں کی یاد زخم پر نمک کا کام کرتی۔''کہتے ہیں کہ بد نصیب شہنشاہ نے دلی سے رنگون جاتے ہوئے ایک نظم کہی تھی، وہ نظم یہ ہے:
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
بطور شمع کے روتے اس انجمن سے چلے
نہ باغباں نے اجازت دی سیر کرنے کی
خوشی سے آئے تھے، روتے ہوئے چمن سے چلے
جو پائے بندِ صداقت ہیں قول سے اپنے
کبھی نہ ٹھوکریں کھائے اگر چلن سے چلے
مرے پہ دامنِ صحرا نے پردہ پوشی کی
برہنہ آئے تھے، لپٹے ہوئے کفن سے چلے
''ایک ایک لفظ سے اداسی ٹپکتی ہے اورکیوں نہ ٹپکے کہ یہ ایک دکھے ہوئے دل کی صدا ہے۔ افسوس ہے کہ علم و ادب کے یہ آبدار موتی ہم تک نہ پہنچ سکے۔
زینت محل کے بچے کچھے زیوروں کو بیچ کر روٹیاں چلتی رہیں۔ آخرکار 7 نومبر 1862 کو روح کا قیدی جسم کے محبس کو توڑ کر آزاد ہو گیا اور اس طرح خاندانِ مغلیہ کا یہ آخری جھلملاتا ہوا چراغ خلیج بنگالہ کے تیز و تند جھونکوں کی تاب نہ لا کر ہمیشہ کے لیے رنگون میں بجھ کر رہ گیا۔ بستر مرگ پر زینت محل، جواں بخت، شاہ زمانی بیگم اور دو مہینے کی بچی، رونق زمانی بیگم کے سوا کوئی اور نہ تھا۔
وہ لکھتے ہیں۔ ''1857کا ذکر ہے۔ علی الصبح کچھ پالکیاں اور ڈولیاں آ کر لال قلعہ کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔ اندر سے آہ و زاری کی صدا بلند ہوتی ہے اور باہر اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آج آخری مغل شہنشاہ کے آخری دیدار کے لیے میدان میں لوگوں کا اژدھام لگا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک بوڑھا گورے سنتریوں کے پہرے میں آتا ہے اور پالکی میں سوار ہو جاتا ہے۔ اس کی حسرت بھری نگاہیں قلعہ کی سنگین دیواروں میں گڑ جاتی ہیں۔
آہ ! وہ قلعہ جہاں مغلوں کی شوکتِ پارینہ دفن ہے، جہاں ہندوستان کی عظمت آخری ہچکیاں لے رہی ہے! اب شاہی خاندان کے کچھ لوگ اور چند بیگمیں سر پر خاک اڑاتے ہوئے نکلتی ہیں اور پالکیاں روانہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ مغلوں کا جھلملاتا ہوا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جاتا ہے۔
''کہتے ہیں کہ شکست خوردہ کی کہانی ریت کے ڈھیر پر لکھی ہوتی ہے جسے زمانے کا ایک جھونکا مٹا دیتا ہے۔ یہی حال بہادر شاہ کا ہوا۔ تاریخ کو صرف اتنا یاد ہے کہ مغلوں کا آخری نام لیوا بہادر شاہ رنگون گیا، وہیں مرا اور وہیں دفن ہوا۔ لیکن اس کی زندگی کی آخری گھڑیاں کیسے گزریں، اس کے کنبے کا کیا حال ہوا۔ اس درد ناک کہانی کے کون کون سے داغ اب تک باقی ہیں۔ زمانے کی گردش نے کن کن لوگوں کا نشان مٹا دیا، یہ ہمیں نہیں معلوم۔
تاریخ مغلیہ کا یہ باب سادہ پڑا ہوا ہے اور اسے آنسوؤں کی بوندوں کے سوا اور کون لکھ سکتا ہے؟ میں یہاں صرف یہ لکھوں گا کہ رنگون میں بہادر شاہ کے ہمراہی کون تھے اور ان کی اولاد پر کیا گزری۔ ''جب بہادر شاہ رنگون پہنچے، اس وقت ان کے ساتھ تقریباً تیس آدمی تھے۔ ان میں سے گیارہ نے آخر وقت تک حقِ رفاقت ادا کیا۔ بقیہ میں سے کچھ ہندوستان واپس آگئے اور کچھ برما ہی میں بس گئے۔ بہادر شاہ کے ہمراہیوں میں ان کا چہیتا بیٹا، جواں بخت، ان کی بہو زمانی بیگم، ان کی دکھ سکھ کی شریک ملکہ زینت محل اور ایک دوسرا بیٹا عباس شاہ تھے۔
کہا جاتا ہے کہ تاج محل بیگم اور شہزادی رابعہ بیگم بھی رنگون آئی تھیں اور سرتاج کے اٹھ جانے کے بعد ہندوستان لوٹ گئیں۔ ''ظفرؔ کے جو ہمراہی برما میں رہ گئے تھے، ان میں سے اکثر نے مولمین میں گھر بنایا اور برمی عورتوں سے شادیاں کر لیں۔ شہزادہ عباس شاہ نے بھی ایک برمی عورت سے عقد کیا۔ چنانچہ ان کے فرزند پرنس رحمت سلطان اب تک وہاں موجود ہیں۔
ظفرؔ کے عزیز شہزادہ نظام شاہ نے بھی مولمین میں ڈیرا ڈالا، یہیں ان کے بیٹے انتظام شاہ زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ باقی لوگوں کا کچھ پتا نہ لگنے پایا۔ وہ برمی سوسائٹی میں گھل مل گئے اور زیادہ دنوں تک اپنی پرانی آن بان قائم نہ رکھ سکے۔ اس طرح زمانۂ قید میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے، جواں بخت اور بہو شاہ زمانی بیگم باقی رہ گئیں۔ اندھیرے میں تو سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، پھر دوسروں سے کیا امید۔
''بہادر شاہ ظفرکو جہاز سے اتار کر گوروں کے سخت پہرے میں صدر بازار، ایک دو منزلہ بنگلے میں لایا گیا۔ پرانے گھڑ دوڑ کے میدان کے پاس، موجودہ واہلی روڈ کے کنارے یہ مکان بنا ہوا تھا۔ اب تو اس کا کہیں پتا بھی نہیں۔ اب وہاں گھر، کچہری اور پولیس کی چوکی نظر آتی ہے۔ یہ کل احاطہ ایک انگریز، مسٹر ڈاسن کی ملکیت ہے جس میں آخری مغل شہنشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ آخری نیند سو رہا ہے۔
ظفرؔ کی زندگی میں اس بنگلے کے ارد گرد پہرے دار چیل کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔ ''کسی بادشاہ کی روح کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کی شاہی آن بان کا خاتمہ کر دو پھر دیکھو وہ کس طرح تڑپتا ہے۔ اس کی ہر سانس ایک آہ ہے، اس کی ہر بات ایک کراہ ہے۔ اس کی مسکراہٹ موت کی ہنسی ہے۔
انیسویں صدی کے ہشتاد سالہ مصیبت زدہ مغل شہنشاہ کی تصویر کھینچو جس نے ساڑھے تین سو برس کی عظمت و شوکت کو بادِ فنا کی ایک ٹھوکر سے خاک میں ملتے دیکھا ہے، جس کے کانوں نے اپنی بیٹیوں کی چیخ اور ننھے ننھے بچوں کی پکار سنی ہے اور اب ہمیشہ کے لیے دنیا سے الگ کر دیا گیا ہے۔ بھلا اس کے جذبات کی گہرائیوں تک کون پہنچ سکتا ہے۔''
''ظفرؔ اپنے تنگ و تاریک کمرے سے کبھی باہر نہیں نکلے۔ چارپائی پر پڑے ہوئے پیچوان کے کش کھینچتے، اپنے درد ناک شعروں کو گنگناتے اور نماز پڑھتے ہوئے صبح سے شام اور شام سے صبح کردیتے تھے اور کبھی کبھی اپنے پیارے بیٹے جواں بخت کو اس سنگ دل دنیا کی بے وفائی کی حکایتیں سنانے لگتے۔ پچھلی باتوں کی یاد زخم پر نمک کا کام کرتی۔''کہتے ہیں کہ بد نصیب شہنشاہ نے دلی سے رنگون جاتے ہوئے ایک نظم کہی تھی، وہ نظم یہ ہے:
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
بطور شمع کے روتے اس انجمن سے چلے
نہ باغباں نے اجازت دی سیر کرنے کی
خوشی سے آئے تھے، روتے ہوئے چمن سے چلے
جو پائے بندِ صداقت ہیں قول سے اپنے
کبھی نہ ٹھوکریں کھائے اگر چلن سے چلے
مرے پہ دامنِ صحرا نے پردہ پوشی کی
برہنہ آئے تھے، لپٹے ہوئے کفن سے چلے
''ایک ایک لفظ سے اداسی ٹپکتی ہے اورکیوں نہ ٹپکے کہ یہ ایک دکھے ہوئے دل کی صدا ہے۔ افسوس ہے کہ علم و ادب کے یہ آبدار موتی ہم تک نہ پہنچ سکے۔
زینت محل کے بچے کچھے زیوروں کو بیچ کر روٹیاں چلتی رہیں۔ آخرکار 7 نومبر 1862 کو روح کا قیدی جسم کے محبس کو توڑ کر آزاد ہو گیا اور اس طرح خاندانِ مغلیہ کا یہ آخری جھلملاتا ہوا چراغ خلیج بنگالہ کے تیز و تند جھونکوں کی تاب نہ لا کر ہمیشہ کے لیے رنگون میں بجھ کر رہ گیا۔ بستر مرگ پر زینت محل، جواں بخت، شاہ زمانی بیگم اور دو مہینے کی بچی، رونق زمانی بیگم کے سوا کوئی اور نہ تھا۔