اور شرمندہ مت کرو

یہ ہماری زندگی کو کوڑیوں کے دام اور ہماری موت کو مہنگے داموں فروخت کر کے ہم پر راج کرتے ہیں۔

muhammad.anis@expressnews.tv

جہالت، مفاد پرستی اور بے حسی سے بنے، ان بے ضمیروں کی کھوپڑیوں کو اگر ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو شاید پہاڑ بن سکتا ہے لیکن ایک انسان نہیں بن سکتا۔ پتھر کا دل رکھنے والے یہ، انسانوں کے مرنے پر اپنا ایک بیان جاری کر کے تمام ذمے داریوں سے جان چھڑا لیتے ہیں اور اگر کبھی اردگرد شور بڑھ جائے تو ہماری کھالوں کو ہمارے جسموں سے نکال کر اُس پر ہمارے لہو سے ایک فرمان جاری کر دیتے ہیں کہ کمیٹی بنا دی جائے۔

یہ ہماری زندگی کو کوڑیوں کے دام اور ہماری موت کو مہنگے داموں فروخت کر کے ہم پر راج کرتے ہیں۔ لاشیں گرتی رہتی ہیں اور ان کے راج کو طول دیتی رہتی ہیں۔ کیوں دل کو جلاتے ہو یہ کہہ کر مہران بیس پر حملہ ہوا تھا، اب نہیں ہو گا۔ یہ کوئی امریکا تھوڑی ہے جہاں ایک بار اگر 9/11 ہو گیا تو اگلی بار نہیں ہو گا۔ یہ کوئی برطانیہ تھوڑی ہے جہاں ٹرین میں 7/7 ہو گیا تو اب ٹرین میں سفر کرنیوالے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔ یہ مغرب کے فحش ملک تو بے جان پتھر ہیں جہاں ایک بار دھماکے ہو گئے تو اگلی بار نہیں ہونگے۔ ہم تو زندہ انسان ہے ہر روز یہاں لوگوں کی لاشوں کا تماشہ لگے گا اور دنیا کو معلوم ہو گا کہ دیکھو زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں۔

تم اور میں لاکھ پتھر اٹھا کر امریکا کو گالیاں دیں، ہم اُسے فحش ملک قرار دے کر اپنے چہروں پر نقاب لگا لیں اور ہمارے ہزاروں نوجوان بھلے اُس کے ویزے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے رہیں۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے تو سوچو کہ وہاں 9/11 کے بعد دوسرا حملہ کیوں نہیں ہوا؟ اس لیے نہیں ہوا کہ وہ کافر وں کا ملک ہے یا پھر اس لیے نہیں ہوا کہ وہاں کے حکمران (ہمارے مطابق) فحش تو ہو سکتے ہیں لیکن اپنی زمین میں دو پیروں پر چلنے والی اس مخلوق کو انسان سمجھتے ہیں ۔سنو ۔سنو ۔ ہم لاکھ اعتراض کریں کہ امریکا نے دنیا میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ امریکی حکمرانوں نے اپنے ہم وطنوں کے لیے کیا کیا ؟ کیا انھوں نے ہمارے حکمرانوں اور ہماری طاقتور قوتوں کی طرح اچھے اور برے دہشت گردوں کے درمیان ہمیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

اخبار کی سرخیاں ہوں یا پھر ٹی وی کے چٹخارے، ہماری تاریخ کی کتابوں میں تو یہ لکھ دیا گیا کہ زائرین کو گولیوں سے بھون دیا گیا، سیکیورٹی فورسز پر حملے اور پھر ائیر پورٹ پر قبضہ۔ یہ کیا تماشہ ہے ؟ کبھی کہتے ہو کہ یہ سارے حملہ آور ہمارے ملک کے نہیں بلکہ کہیں اور سے آئے ہیں تو امریکا بھی یہ کہتا تھا کہ باہر سے آئے ہیں۔ مگر اندر والوں کا کیا قصور ہے۔ ریت میں آخر کب تک منہ چھپا کر ہمیں مرنے کے لیے چھوڑتے رہو گے ؟


چلو... کسی کو شوق ہے تو بالکل اُس شوق کو پورا کر لو۔ اور مذاکرات کر کے دیکھ لو مگر کیا ہوا اس مذاکرات میں؟ اگر وہ کسی سازش سے ناکام ہوئے ہیں تو ہمیں بتا دو۔ جن کے لیے فیصلے کرتے ہو۔ انھیں تو باخبر رکھو۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ اس میں باہر اور اندر والی قوتیں ہیں تو خدا کے لیے ہمیں تو بتاؤ ہم آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ ہاں یہ دلیل بھی اچھی ہے کہ جب امریکا مذاکرات کر رہا ہے تو ہم کیوں نہیں کر رہے ؟ جناب بالکل کیجیے مگر ایک نظر ، صر ف ایک نظر جناب۔ ایک نظر کرم تو کیجیے۔ ذرا دیکھیں تو سہی کہ جب امریکا نے جنگ چھیڑی تو بھی اپنے فائدہ کے لیے اور آج اگر وہ مذاکرات کی میز کو سجا کر کچھ لے اور کچھ دے رہا ہے تو فائدہ کس کا ہو رہا ہے ۔؟

یہ ڈھنڈورا پرانا ہو گیا کہ امریکا کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے اور وہ اب افغانستان سے نکل رہا ہے اُس کو بہت زیادہ مالی نقصان ہو رہا ہے۔ تو جناب یہ بتائیے کہ اتنا ہی پیسہ اب امریکا شام اور دیگر جگہوں پر کیوں لگا رہا ہے ؟ اُسے تو ہر جگہ سے اپنا ہاتھ اور پیسہ کھینچ لینا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔چلیں آپ بھی پھر مذاکرات کرلیں ۔لیکن ہمارے لوگوں کو کبھی ائیر پورٹ اور کبھی گھروں میں مقید کرنے سے تو باز آئیں۔ جناب کیا کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے سانحہ کو میں آخری سانحہ سمجھوں۔ یا پھر میں اُن لوگوں کو یقین دلا دوں جو ایک عرصے سے اجتماعی لاشیں اٹھا کر اجتماعی جنازوں کے بعد ایک ہی قبر میں سب کو دفن کر رہے ہیں ؟ میں اُن کو کیسے یقین دلائوں کہ اب آپ کے زائرین پر حملہ نہیں ہو گا۔ آپ بھی برابر کے شہری ہیں اور آپ ہم سے الگ نہیں ہیں ۔

کبھی ایک لمحہ کے لیے سوچا ہے کہ 7/7 کے بعد برطانیہ میں حملہ کیوں نہیں ہوا ۔؟ اُن کی فوج اُن کی قیادت اور اُن کے عوام کسی صورت میں دہشت گردی یا نفرت کی سیاست کی طرف نہیں جانا چاہتے۔ جگہ جگہ ہمارے یہاں نفرت پھیلانے والی فیکٹریاں کھولی ہیں اور ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اور نا جانے کب تک یہ آنکھیں بند کیے ہم خوشحالی، امن اور سکون کے خواب اپنے لوگوں کو دکھاتے رہیں گے۔ اور دنیا ہمیں ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کرتی رہے گی جہاں صرف خون ہی خون ہے۔ جہاں نفرتیں ہی نفرتیں ہیں، ہم لاکھ انکار کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں عقائد اور زبان کی بنیاد پر نفرتوں کی جڑیں بہت مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم پر لوگ اعتبار نہیں کرتے۔ ایک خبر نظر سے گزری اور سوچا کہ جن کو سینے سے لگائے ہم دوستی کے گن گاتے رہتے ہیں وہ بھی اب ہم پر کسی حوالے سے بھروسہ نہیں کرتے ۔

میرے دوستو ۔ ناراض مت ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بہت اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایک چھوٹی سے مثال دوں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کو یقین نہ آئے جیسے مجھے یہ خبر پڑھ کر نہیں آیا تھا کہ یہ جنوری کی 18 تاریخ تھی۔ جب ایران کے شہر تہران میں ایک واقعہ ہوا تھا ،کہتے ہیں کوئی جرمانہ وغیرہ کا معاملہ تھا۔ آپ سمجھ دار ہیں سمجھ گئے ہونگے مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔عالمی سطح پر ہماری عزت میں کمی ہو رہی ہے ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ آج بھی اس الجھن میں ہیں کہ قاتل کون سا اچھا ہوتا ہے اور کون سا برا ۔ جب تک یہ الجھن رہے گی ہم ہر پل شرمندہ ہوتے رہیں گے اور خون، پانی کی طرح بہتا رہے گا ...ایک معمول کی طرح ۔
Load Next Story