دل ناداں…

یہی دل اگر وطن کی محبت میں دھڑکنے لگے تو محبتوں کی نسبتوں کے امین بن جاتے ہیں۔

دل کے اجزائے پریشاں کو حقارت سے نہ دیکھ

کہیں صدیوں میں یہ سرمایہ بہم ہوتا ہے

تمام اردو شاعری بلکہ اردو ادب کے موضوعات ایک طرف اور دل کا موضوع ایک طرف جس قدر ہمہ جہت انداز میں اس موضوع پر لب کشائی کی گئی ہے کسی اور موضوع پر نہیں ملتی۔ یہی خاص بات ہے دل کی۔ اور جو بات دل سے نکلتی ہے دل پہ اثر رکھتی ہے۔ روز ازل سے آج تک دل کی کہانی، دل کے معاملے اور دل کے رمز سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، دل کی بناوٹ بھی ابتدا سے جوں کی توں ہے، دل کے اسرار اور دل کا دھڑکنا بھی قریباً ویسا ہی نظر آتا ہے، زمانہ چاہے جو بھی ہو، دل کی بات دل والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دل کی ساخت تو ہر دور میں یکساں ہی رہی مگر جذبات اور دل فگاریاں جدا جدا ملتی ہیں۔ اب جس کا جتنا ظرف ہے وہ بے چارے دل کو اسی انداز میں برت رہا ہے۔ معرف زمانہ استاد غالب بھی دل کی موشگافیوں کا بیان کرتے ہیں۔

سن اے غارت گر جنس وفا سن

شکست قیمت دل کی صدا کیا

(غالب)

اور صاحب! کسی کو دل داری کا سودا مہنگا پڑا، گھر چھٹا، شہر چھٹا، کوچہ دل دار چھٹا اور انھیں پھر وحشت دل کوہ و صحرا میں لیے پھرتی رہی۔ کچھ لوگ اپنے دل کی حفاظت بھی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں چاہے وسوسوں کا انبار ہو مگر آئینہ دل میلا نہیں ہونے دیتے۔ اب یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے۔ ایسے لوگ فی زمانہ ملنا مشکل، اگر مل جائیں تو ایسے لوگ امر ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ دل زندہ کے زندہ رہنے سے زندگانی عبارت بن جاتی ہے۔ ایسے دل ہر سینے میں نہیں دھڑکتے جو صاحب دل ہوتے ہیں وہ انگلیاں فگار کرتے ہیں بسخن کی آنچ میں دل کو گداز کرتے ہیں یوں حرف تازہ کی نمو ہوتی ہے۔

یہی دل اگر وطن کی محبت میں دھڑکنے لگے تو محبتوں کی نسبتوں کے امین بن جاتے ہیں۔ پھر زمینوں کے گوشوارے کی تلاش میں دیوانہ وار نہیں ہوتے۔ لیکن اب تو ایسا ذرا کم کم ہی نظر آتا ہے۔ جاں فریب دل و دماغ میں مبتلا انسانوں کا جم غفیر ہے۔ جو خود کو اور دوسروں کو فریب دینے میں طاق نظر آتا ہے اور جب دل کے معاملے کھلتے ہیں تو بہت سی بے چینیاں اور بے قراریاں منظر عام پر آجاتی ہیں۔ حزن و ملال کے دورے پر دورے پڑنے لگتے ہیں بالآخر ہر صاحب فہم و فراست پکار اٹھتا ہے۔

آدمی تو ملے زندگی میں بہت


دل تڑپتا رہا آدمی کے لیے

کچھ لوگ دل کے اضطراب کو زندگی کا حاصل جانتے ہیں۔ انھیں دل کی خوشی مصیبت لگتی ہے، اور دل کی تڑپ اور چبھن سے تسکین حاصل ہوتی ہے۔ بعض دل اس سطح پر حساس ہوتے ہیں کہ لمحہ لمحہ زخموں سے چور چور ہوئے جاتے ہیں ایسے دلوں کی رفوگری کا کام مشکل ہوتا ہے۔

آپ نے بہت سے کم زور دل بھی دیکھے ہوں گے جو ساری زندگی، کم ہمتی میں مبتلا رہ کر دنیا سے گزر جاتے ہیں ان کی زندگی میں کوئی نمایاں کامیابی نظر نہیں آتی۔ بے سمت بے جہت کے سفر کرتے ہیں۔ کچھ دل شکستہ ہوتے ہیں۔ جو ذرا ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر جوڑنے کی کوشش کی جائے تو سعی ندارد۔ بات تکلیف دہ ہے مگر ایسے دل اس دور میں کثرت سے ملتے ہیں اور دل شکستگی کا شکار نوجوان نسل زیادہ ہے۔ جو دل کے ہاتھوں فریب محبت میں مبتلا ہے اور فی زمانہ نکما ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

دل آئینہ بھی تو ہوتا ہے۔ جس میں ہم اپنا عکس نہایت خوبی سے ملاحظہ کرسکتے ہیں اگر چاہیں تو۔ اور اگر نہ چاہیں تو ساری زندگی خود کو دھوکا دینے میں گزر جاتی ہے۔

اور یہ بھی ہم ہی ہیں جو اپنی زندگی بے شمار معاملات، اچھائیاں برائیاں سچ، جھوٹ، چاہتے نہ چاہتے دل کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور مزے کرتے ہیں دل کے معاملے بھی کیا عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ تمام مادی و جغرافیائی، لسانی و تعصباتی سرحدوں سے آزاد، وسیع موضوع جو چاند تاروں سے آگے کی سرحدوں کی سیر کرواتا ہے۔

اہل تصوف دل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہوکر حب الٰہی میں گم ہوجاتے ہیں۔ صاحب ایمان دل کو دنیا کے فتور میں مبتلا نہیں کرتے بلکہ مکمل اختیار کے ساتھ عشق الٰہی میں سرمست و بے خود ہوجاتے ہیں۔ یہی زندگی کا حاصل ہوجاتا ہے بقول عظیم شاعر اقبال:

دل بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
Load Next Story