پانی بقائے زندگی ضیاع روکنے کیلئے رویے بدلنا ہونگے
پاکستان میں پانی کے ذخائرکافی مگر تیزی سے بڑھتی آبادی خطرہ ہے، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
22 مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اسے محفوظ بنانے پر زور دینا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
سید زاہد عزیز
(سی ای او آب پاک اتھارٹی پنجاب ایم ڈی پنجاب میونسپل ڈویلپمنٹ فنڈ کمپنی)
پانی بقائے زندگی ہے۔ اس سے ہمارا ذہنی و جسمانی سکون اور امن جڑا ہے۔ اسی لیے رواں بر س پانی کے عالمی دن کا موضوع ''واٹر فار پیس'' رکھا گیا ہے۔ یہ بارہا کہا جا رہا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی پر ہونے کا خطرہ ہے لہٰذا پانی کی قلت سے بچنے اور اس کا ضیاع روکنے کیلئے ہمیں اپنے طور طریقے اور رویے بدلنا ہوں گے۔ پاکستان ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے۔ دنیا میں صرف 16 ممالک ایسے ہیں جن کے پانی کی مقدار پاکستان سے زیادہ ہے۔
ہمارے ہاں دریائے سندھ، چناب اور جہلم پورا سال بہتے ہیں۔ دریائے راوی اور بیاس معاہدے کے تحت بھارت کے زیر کنٹرول ہیں لیکن ان میں بھی پانی آتا ہے۔ میرے نزدیک ہمارے ہاں مسئلہ پانی کی مقدار کا نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی کا ہے۔ 1960ء میں فی کس پانی 6 ہزار مکعب فٹ سالانہ تھا جو اب ایک ہزار مکعب فٹ سالانہ پر آگیا ہے۔میرے نزدیک پانی اتنا ہی ہے لیکن آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے فی کس مقدار کم ہوگئی ہے۔
دیہی علاقوں کی نسبت شہری آبادی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفراسٹرکچر، سہولیات اور مواقع ہونے کی وجہ سے لوگ شہری علاقوں میں تعلیم، روزگار، کاروبار و دیگر معمولات زندگی کیلئے نقل مکانی کر لیتے ہیں یا عارضی طور پر رہتے ہیں۔ اس سے آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور وسائل کی تقسیم زیادہ لوگوں میں ہوتی ہے۔ میرے نزدیک پانی کے مسئلے کا حل کفایت شعاری اور اعتدال میں ہے۔پاکستان زرعی ملک ہے۔ زراعت کے ساتھ پانی کا گہرا تعلق ہے۔ ہم فلڈ اریگیشن کرتے ہیں جس میں پانی زیادہ لگتا ہے اور ضائع بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں ڈرپ اریگیشن کے جدید طریقے اپنائے جارہے ہیں۔
ہم چاول نہیں پانی برآمد کرتے ہیں کیونکہ اس فصل میں پانی بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے کیلئے چاول اگانا چاہیے اور کسانوں کو ایسی فصلوں کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے جن میں پانی کم خرچ ہو اور منافع زیادہ ہو۔ ہمیں اریگیشن کے جدید طریقے اپنانا ہوں گے۔ خوردنی تیل ہماری درآمدات میں دوسرے نمبر پر ہے۔
اگر ہم یہ اجناس یہاں اگائیں تو اس سے تیل کی ضروریات بھی پوری ہونگی اور امپورٹ کا متبادل بھی مل جائے گا۔ افسوس ہے کہ ہم نے پانی کے گھریلو استعمال کے طریقے بھی نہیں بدلے۔ آج بھی ہم صاف پانی سے گلی دھوتے ہیں، چھت پر پانی چھڑک کر تپش کم کی جاتی ہے، موٹر سائیکل، گاڑی، صحن دھونے کیلئے بھی پانی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ پانی کا ضیاع روکنے کیلئے ہمیں اپنے رویے بدلنا ہوں گے۔
پانی کا ضیاع روکنے کیلئے ٹیوب ویل چلنے کے اوقات میں کمی کی گئی جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ اب پانی کے میٹرز لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، آئندہ دو برسوں میں ہر گھر میں پانی کا میٹر لگا دیا جائے گا۔ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح 160 فٹ کے قریب ہے۔ 1300 فٹ کے بعد پانی آنا بند ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں سالانہ 3 فٹ پانی نیچے جاتا رہا مگر اب چند برسوں سے پانی کی سطح کی گرواٹ میں کمی آئی ہے جس میں واسا لاہور کے مختلف اقدامات شامل ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ 750 فٹ گہرائی پر پانی چلا گیا ہے جو درست نہیں۔ ٹیوب ویل کے بور کی گہرائی 750 فٹ کی جاتی ہے اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔
بور کی مختلف تکنیکی وجوہات ہیں، پانی کا لیول 160 فٹ ہی ہے۔ لاہور میں پانی کی مقدار بھی ٹھیک ہے اور اس کا معیار بھی عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز اور پیرامیٹرز کے مطابق ہے۔ آرسینک کی مقدار 50 مائیکروگرام فی لیٹر سے کم ہے۔ اس کا کوئی ذائقہ، رنگ یا بو نہیں ہے۔ گہرائی سے نکالا جانے والا پانی جراثیم اور کیمیکلز سے پاک ہے۔ ہمارے ہاں فلٹریشن پلانٹس فیشن بن گیا ہے۔ لاہور کا پانی صاف اور پینے کے قابل ہے۔
یہاں فلٹریشن پلانٹ کی ضرورت نہیں۔ جہاں پانی کی پائپ لائن یا ترسیل کا نظام خراب ہے، اسے ٹھیک کرنا ہوگا۔2013ء میں لاہور کے تین مقامات پر آرسینک کی مقدار 50 مائیکرو گرام فی لیٹر سے زیادہ آئی۔ ا سکے بعد فلٹریشن پلانٹ لگایا گیا اور پھر سرکاری و نجی اداروں کی جانب سے 573 فلٹریشن پلانٹس لگا دیے گئے۔ 2016ء میں ان 3 علاقوں میں بھی آرسینک کی مقدار کم ہوگئی اور پانی پینے کے قابل ہوگیا۔ شہری اپنے گھر آنے والا پانی واسا کی لیب سے چیک کروا لیں۔
بسااوقات گھر میں موجود پانی کی ٹینکی صاف نہیں ہوتی، اس کی وجہ سے بھی پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے لاہور میں 3 زیر زمین ٹینکس بنائے گئے ہیں، یہاں کل 11 ٹینک بنائے جائیں گے، یہ پانی پارکس اور گرین بیلٹس کو فراہم کیا جاتا ہے۔ فیصل آباد کا زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ یہاں 50 فیصد پانی چنیوٹ سے پائپ کے ذریعے لایا جاتا ہے، رکھ برانچ و دیگر کینال سے بھی ٹیوب ویل کے ذریعے پانی فرام کیا جاتا ہے، نہری پانی بھی صاف کرکے لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ لاہور میں بھی جلد بی آر بی نہر کا پانی صاف کرنے کا پلانٹ نصب کر دیا جائے گا جو پانی کی 10 فیصد ضرورت پوری کرے گا۔ راولپنڈی میں خانپور ڈیم اور زمین سے نکال کر پانی فراہم کیا جاتا ہے، یہ پانی دن میں ایک سے دو گھنٹے فراہم کیا جاتا ہے۔
ملتان اور گوجرانوالہ میں زیر زمین پانی ٹھیک ہے، یہاں معیار اور مقدار دونوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ کراچی کا زیرزمین پانی پینے کے قابل نہیں، و ہاں صاف پانی کی کمی ہے اور ٹینکر کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ پنجاب آب پاک اتھارٹی، پنجاب صاف پانی کمپنی کا تسلسل ہے۔ 5 شہروں میں واسا کام کر رہا ہے۔ پنجاب رورل واٹر سپلائی کمپنی 16 تحصیلوں میں کام کر رہی ہے۔ پنجاب انٹرمیڈیٹ سٹیز پراجیکٹ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے سیالکوٹ اور ساہیوال میں کام کر رہا ہے،ا ب راولپنڈی میں بھی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔دیہی آبادی میں آب پاک اتھارٹی کام کر رہی ہے۔ اس وقت تک ہم نے دیہات میں ایک ہزار سے زائد پانی کے پوائنٹس فعال بنائے ہیں۔
ہم فوری فلٹریشن پلانٹ یا آر او پلانٹ نہیں لگاتے بلکہ پانی کے معیار، علاقے کی ضرورت و دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں مناسب اقدامات کیے جاتے ہیں۔ چک جھمرہ میں ہم نے ''مرکز آب'' کے نام سے واٹر ٹینک بنایا جہاں سے 15 دیہاتوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے، اس منصوبے کو پنجاب بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ہم نے رینالہ خورد میں نہر کا پانی لے کر اس کی پراسیسنگ کی۔ اس میں پھٹکری ڈالی، پھر اس میں ریت و مٹی کی فلٹریشن، کلورینیشن، اوزنیشن کرکے اسے دو دیہاتوں میں سپلائی کیا۔
اس میں ہم نے ''آر او'' کا طریقہ استعمال نہیں کیا بلکہ ''کوگیولیشن'' کی گئی۔ قصور میں زیر زمین پانی میں آرسینک کی مقدار 2000 مائیکرو گرام تھی۔ وہاں سوئے آصل سے پانی لیکر پراسیس کیا اور اب یہاں سے دو دیہاتوں کو یومیہ10 ہزار لیٹر پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ فورٹ منرو میں ہم نے 31 تالابوں پر ایسے ہینڈ پمپ لگائے ہیں جو خود ہی پانی صاف کر دیتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ 'آر او' پلانٹ نہ لگانا پڑے، پانی کے حوالے سے دیگر آپشنز کو پہلے دیکھا جاتا ہے۔ رفاہی اداروں کا خدمت کا جذبہ اچھا ہے، بعض تنظیموں نے مختلف محکموں کے خراب فلٹریشن پلانٹس ٹھیک کروائے ، ہم این جی اوز کو تکنیکی تعاون اور مشاورت کرتے ہیں۔
مبارک علی سرور
(واٹر ایکسپرٹ)
اس سال پانی کے عالمی دن کا موضوع ''واٹر فار پیس'' ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صاف پانی کی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ پاکستان میں 89فیصد افراد کی پانی تک رسائی ہے۔ اس میں سے 21 ملین افراد ایسے ہیں جنہیں صاف پانی میسر نہیں ہے۔ 58 فیصد افراد کو پانی کے بہتر بنائے گئے ریسورسز تک رسائی حاصل ہے۔ پانی کے معیار کی بات کریں تو دیہی اور شہری علاقوں میں صاف پانی کی دستیابی کا مسئلہ ہے۔ آئندہ برسوں میں پاکستان کا شمار پانی کی قلت والے ممالک میں ہوسکتا ہے جو تشویشناک ہے،اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ پانی کی آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
واٹر فلٹریشن پلانٹس اور سکیموں کی دیکھ بھال اور مرمت موثر میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری و نجی پلانٹس اور سکیمیں مسائل کا شکار ہیں لہٰذا اس حوالے سے موثر حکمت عملی بنانا ہوگی تاکہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو اس سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ ہمیں زیادہ بارشوں، سیلاب اور کبھی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے نقصان ہو رہا ہے۔
لہٰذا ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ صاف پانی کی کمی، سیوریج اور صفائی ستھرائی کے ناقص نظام کی وجہ سے شعبہ صحت اور معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں علاج کے بجائے پریوینشن پر توجہ دینا ہوگی۔ اس کے لیے پانی کے مسائل حل کیے جائیں۔ عام لوگوں کی صاف پانی تک رسائی یقینی بنائی جائے۔ ہمیں پانی، سیوریج، نکاسی آب جیسے معاملات کیلئے پالیسی ریفارمز کی ضرورت ہے۔ تمام متعلقہ محکموں، ڈویلپمنٹ پارٹنرز، این جی اوز اور سٹیک ہولڈر ز کی مشاورت سے پالیسیوں میں موجود نقائص دور کرکے انہیں بہتر بنانااور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کے بہترین طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے ایک ایسا فورم تشکیل دینے ضرورت ہے جس میں سرکاری محکمے، ڈویلپمنٹ پارٹنرز، این جی اوز ، میڈیا، اکیڈیمیا، سول سوسائٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈر ز شامل ہوں،ا س کی باقاعدہ میٹنگز ہوںاور سب مل کر مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کوبھی فروغ دینا ہوگا۔ ضلعی سطح پر ''واش'' ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے، صوبائی سطح پر بھی یہ پلان بنانا ہوگا۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ و متعلقہ اداروں کی مشاورت سے یہ پلان ترتیب دینا ہوگا اور اس کا عملدرآمد کا میکنزم بھی بنانا ہوگا۔
پانی، سیوریج و دیگر مسائل پر خرچ کی جانے والی رقم کافی نہیں ہے، اس کیلئے مزید مالی وسائل کی ضرورت ہے تاکہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکے۔ ان میں ہدف نمبر 6 اس وقت ہی حاصل ہوسکتا ہے جب اس کیلئے پبلک یا پرائیوٹ سیکٹر دونوں آن بورڈ ہوں اور سرمایہ کاری کریں۔
ہمیں مختلف محکموں کے افسران، پالیسی میکرز اور قانون سازوں کی کپیسٹی بلڈنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وسائل کی تفویض ہوسکے اور اس سے بھی ضروری یہ ہے کہ وسائل خرچ کیے جائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے اور اس میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے اکیڈیمیا، ریسرچ کے اداروں کے ساتھ مل کر جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ نیوٹریشن کی بات کریں تو اس میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کے معیار اور صاف پانی کی دستیابی کا ہے۔ اس میں ''ملٹی سیکٹر اپروچ'' اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زراعت، پانی، تعلیم، چائلڈ پروٹیکشن سمیت مختلف جہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سے وسائل میں مزید کمی آرہی ہے۔ ہمیں گروتھ ریٹ کو بہتر اور آبادی کو کنٹرول کرنے پر کام کرنا ہوگا۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
22 مارچ دنیا بھر میں پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی مختلف ادارے یہ دن مناتے ہیں تاکہ پانی کی صورتحال کے بارے میں آگاہی پیدا کی جاسکے۔ پاکستان میں پانی کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی مسائل کا بدترین شکار ہیں۔ پاکستان میں پانی کی صورتحال ان تمام ماحولیاتی مسائل میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے پاس کوئی ماحولیاتی پالیسی نہیں ہے۔
پنجاب ملک کا سب بڑا صوبہ ہے، یہاں گزشتہ کئی برسوں سے ماحولیاتی پالیسی التوا کا شکار ہے، اس پر فوری کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں پانی کے بے دریغ استعمال کو روکنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں ہمیں پانی کے سنگین مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر اسی طرح زیر زمین پانی کو ٹیوب ویل اور موٹر کے ذریعے نکالا جاتا رہا تو آئندہ 25 برسوں میں ہم پانی کے لیے ترس رہے ہونگے۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع کو پانی کے مسائل کا سامنا ہے۔ وہاںا ٓرسینک کی مقدار زیادہ ہے۔ بہاولپور سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اسی طرح ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور جنوبی خانیوال کے پانی میں آرسیکنک کی مقدار خطرناک حد تک موجود ہے، اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں صاف پانی کی فراہمی کے دعووے کیے۔ اس ضمن میں صاف اپنی کمپنی بھی بنائی گئی مگر لوگوں کو پینے کیلئے صاف پانی میسر نہ ہوسکا۔ حکومت کی جانب سے مختلف اضلاع میں فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے، ان میں سے بیشتر پلانٹس بند پڑے ہیں۔ جہاں فلٹریشن پلانٹس کام کر رہے ہیں وہاں بھی بروقت فلٹرز تبدیل کرنے کا کوئی میکنزم نہیں لہٰذا فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بھال کا موثر نظام بنانا ہوگا۔
پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی جانب سے دیہاتوں میں پانی کی جو سکیمیں بنائی گئی تھی ماسوائے چند کے، سب بند پڑی ہیں۔ پنجاب رورل میونسپل سروسز کمپنی کے زیر انتظام حکومت پنجاب کا بڑ ا منصوبہ چل رہا ہے جو صاف پانی کی فراہمی، سیوریج، صفائی اور ہائی جین کے حوالے سے ہے،یہ دو سو دیہاتوں میں چل رہا ہے جس کا دائرہ کار دو ہزار دیہات تک پھیلایا جائے گا۔
یہ پروگرام ورلڈ بینک کے تعاون سے جاری ہے جس سے کافی بہتری کی توقع ہے۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت بن چکی ہے، اسے بھی ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے منشور میں شامل ہے۔ موجودہ حکومت کو پینے کے صاف پانی کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ پنجاب میں واٹر پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لیے بجٹ مختص کرنے اور اس کے خرچ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اسمبلی میں 'واش کو ر گروپ' کو موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بہتر انداز میں پانی اور نکاسی آب کے حوالے سے آواز اٹھائی جاسکے۔
اس دن کی مناسبت سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
سید زاہد عزیز
(سی ای او آب پاک اتھارٹی پنجاب ایم ڈی پنجاب میونسپل ڈویلپمنٹ فنڈ کمپنی)
پانی بقائے زندگی ہے۔ اس سے ہمارا ذہنی و جسمانی سکون اور امن جڑا ہے۔ اسی لیے رواں بر س پانی کے عالمی دن کا موضوع ''واٹر فار پیس'' رکھا گیا ہے۔ یہ بارہا کہا جا رہا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی پر ہونے کا خطرہ ہے لہٰذا پانی کی قلت سے بچنے اور اس کا ضیاع روکنے کیلئے ہمیں اپنے طور طریقے اور رویے بدلنا ہوں گے۔ پاکستان ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے۔ دنیا میں صرف 16 ممالک ایسے ہیں جن کے پانی کی مقدار پاکستان سے زیادہ ہے۔
ہمارے ہاں دریائے سندھ، چناب اور جہلم پورا سال بہتے ہیں۔ دریائے راوی اور بیاس معاہدے کے تحت بھارت کے زیر کنٹرول ہیں لیکن ان میں بھی پانی آتا ہے۔ میرے نزدیک ہمارے ہاں مسئلہ پانی کی مقدار کا نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی کا ہے۔ 1960ء میں فی کس پانی 6 ہزار مکعب فٹ سالانہ تھا جو اب ایک ہزار مکعب فٹ سالانہ پر آگیا ہے۔میرے نزدیک پانی اتنا ہی ہے لیکن آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے فی کس مقدار کم ہوگئی ہے۔
دیہی علاقوں کی نسبت شہری آبادی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفراسٹرکچر، سہولیات اور مواقع ہونے کی وجہ سے لوگ شہری علاقوں میں تعلیم، روزگار، کاروبار و دیگر معمولات زندگی کیلئے نقل مکانی کر لیتے ہیں یا عارضی طور پر رہتے ہیں۔ اس سے آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور وسائل کی تقسیم زیادہ لوگوں میں ہوتی ہے۔ میرے نزدیک پانی کے مسئلے کا حل کفایت شعاری اور اعتدال میں ہے۔پاکستان زرعی ملک ہے۔ زراعت کے ساتھ پانی کا گہرا تعلق ہے۔ ہم فلڈ اریگیشن کرتے ہیں جس میں پانی زیادہ لگتا ہے اور ضائع بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں ڈرپ اریگیشن کے جدید طریقے اپنائے جارہے ہیں۔
ہم چاول نہیں پانی برآمد کرتے ہیں کیونکہ اس فصل میں پانی بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے کیلئے چاول اگانا چاہیے اور کسانوں کو ایسی فصلوں کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے جن میں پانی کم خرچ ہو اور منافع زیادہ ہو۔ ہمیں اریگیشن کے جدید طریقے اپنانا ہوں گے۔ خوردنی تیل ہماری درآمدات میں دوسرے نمبر پر ہے۔
اگر ہم یہ اجناس یہاں اگائیں تو اس سے تیل کی ضروریات بھی پوری ہونگی اور امپورٹ کا متبادل بھی مل جائے گا۔ افسوس ہے کہ ہم نے پانی کے گھریلو استعمال کے طریقے بھی نہیں بدلے۔ آج بھی ہم صاف پانی سے گلی دھوتے ہیں، چھت پر پانی چھڑک کر تپش کم کی جاتی ہے، موٹر سائیکل، گاڑی، صحن دھونے کیلئے بھی پانی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ پانی کا ضیاع روکنے کیلئے ہمیں اپنے رویے بدلنا ہوں گے۔
پانی کا ضیاع روکنے کیلئے ٹیوب ویل چلنے کے اوقات میں کمی کی گئی جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ اب پانی کے میٹرز لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، آئندہ دو برسوں میں ہر گھر میں پانی کا میٹر لگا دیا جائے گا۔ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح 160 فٹ کے قریب ہے۔ 1300 فٹ کے بعد پانی آنا بند ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں سالانہ 3 فٹ پانی نیچے جاتا رہا مگر اب چند برسوں سے پانی کی سطح کی گرواٹ میں کمی آئی ہے جس میں واسا لاہور کے مختلف اقدامات شامل ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ 750 فٹ گہرائی پر پانی چلا گیا ہے جو درست نہیں۔ ٹیوب ویل کے بور کی گہرائی 750 فٹ کی جاتی ہے اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔
بور کی مختلف تکنیکی وجوہات ہیں، پانی کا لیول 160 فٹ ہی ہے۔ لاہور میں پانی کی مقدار بھی ٹھیک ہے اور اس کا معیار بھی عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز اور پیرامیٹرز کے مطابق ہے۔ آرسینک کی مقدار 50 مائیکروگرام فی لیٹر سے کم ہے۔ اس کا کوئی ذائقہ، رنگ یا بو نہیں ہے۔ گہرائی سے نکالا جانے والا پانی جراثیم اور کیمیکلز سے پاک ہے۔ ہمارے ہاں فلٹریشن پلانٹس فیشن بن گیا ہے۔ لاہور کا پانی صاف اور پینے کے قابل ہے۔
یہاں فلٹریشن پلانٹ کی ضرورت نہیں۔ جہاں پانی کی پائپ لائن یا ترسیل کا نظام خراب ہے، اسے ٹھیک کرنا ہوگا۔2013ء میں لاہور کے تین مقامات پر آرسینک کی مقدار 50 مائیکرو گرام فی لیٹر سے زیادہ آئی۔ ا سکے بعد فلٹریشن پلانٹ لگایا گیا اور پھر سرکاری و نجی اداروں کی جانب سے 573 فلٹریشن پلانٹس لگا دیے گئے۔ 2016ء میں ان 3 علاقوں میں بھی آرسینک کی مقدار کم ہوگئی اور پانی پینے کے قابل ہوگیا۔ شہری اپنے گھر آنے والا پانی واسا کی لیب سے چیک کروا لیں۔
بسااوقات گھر میں موجود پانی کی ٹینکی صاف نہیں ہوتی، اس کی وجہ سے بھی پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے لاہور میں 3 زیر زمین ٹینکس بنائے گئے ہیں، یہاں کل 11 ٹینک بنائے جائیں گے، یہ پانی پارکس اور گرین بیلٹس کو فراہم کیا جاتا ہے۔ فیصل آباد کا زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ یہاں 50 فیصد پانی چنیوٹ سے پائپ کے ذریعے لایا جاتا ہے، رکھ برانچ و دیگر کینال سے بھی ٹیوب ویل کے ذریعے پانی فرام کیا جاتا ہے، نہری پانی بھی صاف کرکے لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ لاہور میں بھی جلد بی آر بی نہر کا پانی صاف کرنے کا پلانٹ نصب کر دیا جائے گا جو پانی کی 10 فیصد ضرورت پوری کرے گا۔ راولپنڈی میں خانپور ڈیم اور زمین سے نکال کر پانی فراہم کیا جاتا ہے، یہ پانی دن میں ایک سے دو گھنٹے فراہم کیا جاتا ہے۔
ملتان اور گوجرانوالہ میں زیر زمین پانی ٹھیک ہے، یہاں معیار اور مقدار دونوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ کراچی کا زیرزمین پانی پینے کے قابل نہیں، و ہاں صاف پانی کی کمی ہے اور ٹینکر کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ پنجاب آب پاک اتھارٹی، پنجاب صاف پانی کمپنی کا تسلسل ہے۔ 5 شہروں میں واسا کام کر رہا ہے۔ پنجاب رورل واٹر سپلائی کمپنی 16 تحصیلوں میں کام کر رہی ہے۔ پنجاب انٹرمیڈیٹ سٹیز پراجیکٹ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے سیالکوٹ اور ساہیوال میں کام کر رہا ہے،ا ب راولپنڈی میں بھی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔دیہی آبادی میں آب پاک اتھارٹی کام کر رہی ہے۔ اس وقت تک ہم نے دیہات میں ایک ہزار سے زائد پانی کے پوائنٹس فعال بنائے ہیں۔
ہم فوری فلٹریشن پلانٹ یا آر او پلانٹ نہیں لگاتے بلکہ پانی کے معیار، علاقے کی ضرورت و دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں مناسب اقدامات کیے جاتے ہیں۔ چک جھمرہ میں ہم نے ''مرکز آب'' کے نام سے واٹر ٹینک بنایا جہاں سے 15 دیہاتوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے، اس منصوبے کو پنجاب بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ہم نے رینالہ خورد میں نہر کا پانی لے کر اس کی پراسیسنگ کی۔ اس میں پھٹکری ڈالی، پھر اس میں ریت و مٹی کی فلٹریشن، کلورینیشن، اوزنیشن کرکے اسے دو دیہاتوں میں سپلائی کیا۔
اس میں ہم نے ''آر او'' کا طریقہ استعمال نہیں کیا بلکہ ''کوگیولیشن'' کی گئی۔ قصور میں زیر زمین پانی میں آرسینک کی مقدار 2000 مائیکرو گرام تھی۔ وہاں سوئے آصل سے پانی لیکر پراسیس کیا اور اب یہاں سے دو دیہاتوں کو یومیہ10 ہزار لیٹر پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ فورٹ منرو میں ہم نے 31 تالابوں پر ایسے ہینڈ پمپ لگائے ہیں جو خود ہی پانی صاف کر دیتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ 'آر او' پلانٹ نہ لگانا پڑے، پانی کے حوالے سے دیگر آپشنز کو پہلے دیکھا جاتا ہے۔ رفاہی اداروں کا خدمت کا جذبہ اچھا ہے، بعض تنظیموں نے مختلف محکموں کے خراب فلٹریشن پلانٹس ٹھیک کروائے ، ہم این جی اوز کو تکنیکی تعاون اور مشاورت کرتے ہیں۔
مبارک علی سرور
(واٹر ایکسپرٹ)
اس سال پانی کے عالمی دن کا موضوع ''واٹر فار پیس'' ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صاف پانی کی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ پاکستان میں 89فیصد افراد کی پانی تک رسائی ہے۔ اس میں سے 21 ملین افراد ایسے ہیں جنہیں صاف پانی میسر نہیں ہے۔ 58 فیصد افراد کو پانی کے بہتر بنائے گئے ریسورسز تک رسائی حاصل ہے۔ پانی کے معیار کی بات کریں تو دیہی اور شہری علاقوں میں صاف پانی کی دستیابی کا مسئلہ ہے۔ آئندہ برسوں میں پاکستان کا شمار پانی کی قلت والے ممالک میں ہوسکتا ہے جو تشویشناک ہے،اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ پانی کی آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
واٹر فلٹریشن پلانٹس اور سکیموں کی دیکھ بھال اور مرمت موثر میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری و نجی پلانٹس اور سکیمیں مسائل کا شکار ہیں لہٰذا اس حوالے سے موثر حکمت عملی بنانا ہوگی تاکہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو اس سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ ہمیں زیادہ بارشوں، سیلاب اور کبھی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے نقصان ہو رہا ہے۔
لہٰذا ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ صاف پانی کی کمی، سیوریج اور صفائی ستھرائی کے ناقص نظام کی وجہ سے شعبہ صحت اور معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں علاج کے بجائے پریوینشن پر توجہ دینا ہوگی۔ اس کے لیے پانی کے مسائل حل کیے جائیں۔ عام لوگوں کی صاف پانی تک رسائی یقینی بنائی جائے۔ ہمیں پانی، سیوریج، نکاسی آب جیسے معاملات کیلئے پالیسی ریفارمز کی ضرورت ہے۔ تمام متعلقہ محکموں، ڈویلپمنٹ پارٹنرز، این جی اوز اور سٹیک ہولڈر ز کی مشاورت سے پالیسیوں میں موجود نقائص دور کرکے انہیں بہتر بنانااور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کے بہترین طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے ایک ایسا فورم تشکیل دینے ضرورت ہے جس میں سرکاری محکمے، ڈویلپمنٹ پارٹنرز، این جی اوز ، میڈیا، اکیڈیمیا، سول سوسائٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈر ز شامل ہوں،ا س کی باقاعدہ میٹنگز ہوںاور سب مل کر مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کوبھی فروغ دینا ہوگا۔ ضلعی سطح پر ''واش'' ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے، صوبائی سطح پر بھی یہ پلان بنانا ہوگا۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ و متعلقہ اداروں کی مشاورت سے یہ پلان ترتیب دینا ہوگا اور اس کا عملدرآمد کا میکنزم بھی بنانا ہوگا۔
پانی، سیوریج و دیگر مسائل پر خرچ کی جانے والی رقم کافی نہیں ہے، اس کیلئے مزید مالی وسائل کی ضرورت ہے تاکہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکے۔ ان میں ہدف نمبر 6 اس وقت ہی حاصل ہوسکتا ہے جب اس کیلئے پبلک یا پرائیوٹ سیکٹر دونوں آن بورڈ ہوں اور سرمایہ کاری کریں۔
ہمیں مختلف محکموں کے افسران، پالیسی میکرز اور قانون سازوں کی کپیسٹی بلڈنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وسائل کی تفویض ہوسکے اور اس سے بھی ضروری یہ ہے کہ وسائل خرچ کیے جائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے اور اس میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے اکیڈیمیا، ریسرچ کے اداروں کے ساتھ مل کر جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ نیوٹریشن کی بات کریں تو اس میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کے معیار اور صاف پانی کی دستیابی کا ہے۔ اس میں ''ملٹی سیکٹر اپروچ'' اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زراعت، پانی، تعلیم، چائلڈ پروٹیکشن سمیت مختلف جہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سے وسائل میں مزید کمی آرہی ہے۔ ہمیں گروتھ ریٹ کو بہتر اور آبادی کو کنٹرول کرنے پر کام کرنا ہوگا۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
22 مارچ دنیا بھر میں پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی مختلف ادارے یہ دن مناتے ہیں تاکہ پانی کی صورتحال کے بارے میں آگاہی پیدا کی جاسکے۔ پاکستان میں پانی کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی مسائل کا بدترین شکار ہیں۔ پاکستان میں پانی کی صورتحال ان تمام ماحولیاتی مسائل میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے پاس کوئی ماحولیاتی پالیسی نہیں ہے۔
پنجاب ملک کا سب بڑا صوبہ ہے، یہاں گزشتہ کئی برسوں سے ماحولیاتی پالیسی التوا کا شکار ہے، اس پر فوری کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں پانی کے بے دریغ استعمال کو روکنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں ہمیں پانی کے سنگین مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر اسی طرح زیر زمین پانی کو ٹیوب ویل اور موٹر کے ذریعے نکالا جاتا رہا تو آئندہ 25 برسوں میں ہم پانی کے لیے ترس رہے ہونگے۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع کو پانی کے مسائل کا سامنا ہے۔ وہاںا ٓرسینک کی مقدار زیادہ ہے۔ بہاولپور سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اسی طرح ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور جنوبی خانیوال کے پانی میں آرسیکنک کی مقدار خطرناک حد تک موجود ہے، اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں صاف پانی کی فراہمی کے دعووے کیے۔ اس ضمن میں صاف اپنی کمپنی بھی بنائی گئی مگر لوگوں کو پینے کیلئے صاف پانی میسر نہ ہوسکا۔ حکومت کی جانب سے مختلف اضلاع میں فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے، ان میں سے بیشتر پلانٹس بند پڑے ہیں۔ جہاں فلٹریشن پلانٹس کام کر رہے ہیں وہاں بھی بروقت فلٹرز تبدیل کرنے کا کوئی میکنزم نہیں لہٰذا فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بھال کا موثر نظام بنانا ہوگا۔
پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی جانب سے دیہاتوں میں پانی کی جو سکیمیں بنائی گئی تھی ماسوائے چند کے، سب بند پڑی ہیں۔ پنجاب رورل میونسپل سروسز کمپنی کے زیر انتظام حکومت پنجاب کا بڑ ا منصوبہ چل رہا ہے جو صاف پانی کی فراہمی، سیوریج، صفائی اور ہائی جین کے حوالے سے ہے،یہ دو سو دیہاتوں میں چل رہا ہے جس کا دائرہ کار دو ہزار دیہات تک پھیلایا جائے گا۔
یہ پروگرام ورلڈ بینک کے تعاون سے جاری ہے جس سے کافی بہتری کی توقع ہے۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت بن چکی ہے، اسے بھی ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے منشور میں شامل ہے۔ موجودہ حکومت کو پینے کے صاف پانی کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ پنجاب میں واٹر پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لیے بجٹ مختص کرنے اور اس کے خرچ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اسمبلی میں 'واش کو ر گروپ' کو موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بہتر انداز میں پانی اور نکاسی آب کے حوالے سے آواز اٹھائی جاسکے۔