عماد اور عامر کی ریٹائرمنٹ کا فرق
عماد واپس آ گئے، حارث کا کنٹریکٹ بحال ہو گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بورڈ محاذ بند کرتے جا رہا ہے جو کہ اچھی بات ہے
''یار عماد بھائی آپ پاکستان کیلیے دوبارہ کیوں نہیں کھیلتے؟ اتنی زبردست فارم ہے، فٹنس کا بھی کوئی مسئلہ نہیں، پھر ریٹائرمنٹ واپس کیوں نہیں لیتے''
چند ماہ قبل جب شاہین شاہ آفریدی نے عماد وسیم سے یہ جملے کہے تو انھوں نے مسکرا کر بات ٹال دی، مگر شاہین کی عادت ہے کہ جب وہ کسی کام کو مکمل کرنے کا تہیہ کر لیں تو ہمت نہیں ہارتے اور کوشش کرتے رہتے ہیں، یہ بات نہیں ہے کہ وہ اور عماد گہرے دوست ہیں بس شاہین کو بطور کپتان ایسا لگا کہ یہ کرکٹر میری ٹیم کیلیے اہم ثابت ہو سکتا ہے لہذا اسے واپس لانا ہے، دونوں کی بات چیت کے بعد پی ایس ایل آ گئی،عماد میں اس میں عمدہ پرفارم کر کے اپنا کیس مضبوط کر لیا۔
اب شاہین کے ساتھ ان کی واپسی کیلیے اٹھنے والی آوازوں میں بھی اضافہ ہو گیا، پی سی بی ابتدا میں کنفیوژ نظر آیا مگر پھر کسی نے کہہ دیا کہ خدانخواستہ اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ رہی تو سارا ملبہ حکام پر آ جائے گا کہ اتنا اچھا کھلاڑی موجود تھا اسے نہیں بلایا، اس دوران شاہین کی فون پر عماد سے بات چیت ہوتی رہی، آخرکار یہ مرحلہ اس مقام پر پہنچ گیا جب انھیں ملاقات کیلیے لاہور مدعو کر لیا گیا۔
جب عماد سی او او سلمان نصیر اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے سامنے بیٹھے تو یقینا انھیں اطمینان کا احساس ہوا ہو گا کیونکہ ان کے موقف کی جیت ہوئی، وہ اپنی شرائط پر کھیلنا چاہتے تھے اور اب پی سی بی حکام نے انھیں خود بلایا تھا، چونکہ عماد کو ہر حال میں واپس لانا تھا اور وہ خود بھی ایسا چاہتے تھے اس لیے میٹنگ میں کوئی بحث وغیرہ نہیں ہوئی، سنیارٹی کی بنیاد پر عماد کو سینٹرل کنٹریکٹ کی ٹاپ کیٹیگری مل سکتی تھی لیکن انھوں نے اس سے انکار کر دیا۔
ان کی ریٹائرمنٹ کا سبب لیگز کے این او سی ہی تھے، پاکستان کیلیے کھیلنے کے مواقع محدود تھے ، ایسے میں آمدنی کا بڑا ذریعہ لیگز ہی تھیں مگر اجازت نامے کے حوالے سے بورڈ کی پالیسی آڑے آ جاتی، اب وہ کنٹریکٹ سے آزاد ہو کر سال میں دو لیگز کی شرط پر عمل سے بچ جائیں گے، البتہ یہ کوئی اچھی مثال ثابت نہیں ہو گی، کل کو بابر ، رضوان وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کنٹریکٹ نہیں چاہیے، پھر پی سی بی کا صرف بچوں پر ہی زور چلے گا، اس سے اچھا یہ ہے کہ لیگز کے حوالے سے کوئی معیاری پالیسی بنائی جائے جس پر پھر سختی سے عمل بھی ہو، یہ نہیں کہ کسی بڑی شخصیت کا فون آ جائے تو کوئی کرکٹر تیسری، چوتھی لیگ بھی کھیل جائے۔
سفارش سے محروم پلیئر کو آپ واپس بلوا لیں، خیر عماد کی واپسی ٹیم کیلیے کارآمد ثابت ہوگی، ان کی عدم موجودگی میں جتنے آل راؤنڈرز آزمائے سب نام نہاد ثابت ہوئے، یہ ہمارا المیہ ہے کہ کئی شعبوں میں اچھا ٹیلنٹ نہیں مل رہا جس کی وجہ سے پیچھے دیکھنا پڑ رہا ہے، اگر کوئی نیا کھلاڑی اچھا پرفارم کرتا تو کیا عماد کو کوئی یاد کرتا؟
اب ورلڈکپ قریب ہے، ویسٹ انڈین پچز پر ہمیں معیاری اسپنرز کی ضرورت محسوس ہوگی، ایسے میں عماد ٹیم کے کام آ سکتے ہیں، بہت سے لوگ عماد کے معاملے کا عامر سے بھی موازنہ کر رہے ہیں کہ انھیں بھی واپس لانا چاہیے،درحقیقت دونوں کے کیس مختلف ہیں ، عامر نے برطانوی شہریت کے لیے پاکستان کرکٹ کو چھوڑا، وہ خود ساختہ ریٹائرمنٹ سے کافی پہلے ساتھی کھلاڑیوں کو اپنے عزائم سے آگاہ کر چکے تھے۔
ان کا پلان برطانوی کھلاڑی کی حیثیت سے آئی پی ایل میں بھی شرکت کرنا ہے، خوش قسمتی سے عامر کے جانے کا پاکستانی ٹیم پر کوئی فرق نہیں پڑا، فاسٹ بولنگ میں ہمیں اچھا ٹیلنٹ میسر آ گیا، خود عامر کی کارکردگی بھی اتنی خاص نہ رہی کہ منت سماجت کر کے واپس لایا جاتا، میچ فکسنگ کیس میں جیل کی سزا کاٹنے کے باوجود پاکستان نے انھیں عزت دی اور دوبارہ ٹیم کی نمائندگی کا موقع دیا۔
عام شائقین کے دل میں بھی ان کیلیے ہمدردی کا عنصر موجود تھا لیکن عامر نے جیسے سے دوبارہ قدم جمائے انھیں سبز پاسپورٹ برا لگنے لگا اور برطانیہ میں بسنے کا ارادہ کر لیا، ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں جو انھیں ورلڈکپ اسکواڈ میں دیکھنا چاہتے ہیں، خود عامر نے بھی سوشل میڈیا پوسٹ میں اس حوالے سے عندیہ دیا ہے البتہ ان کی واپسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، لائے بھی تو کس کی جگہ کھلائیں گے۔
ہمیں آگے بڑھنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے نیا ٹیلنٹ ماضی کی رفتار سے سامنے نہیں آ رہا، پی ایس ایل سے جیسے شاداب خان ابھرے تھے اب کوئی ویسا پلیئر دکھائی نہیں دیا، حالیہ ایونٹ میں کسی نوجوان نے اچھا پرفارم کیا تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیے گئے اس کے بعد وہ بیچارہ توقعات کے بوجھ تلے دبا رہ گیا، ہمیں نئے ٹیلنٹ کو تسلسل سے پرفارم کرنے کا موقع دینا چاہیے پھر ضرور عظیم کرکٹرز کے ساتھ موازنہ کریں۔ محسن نقوی نے نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان تو کر دیا ہے،دیکھتے ہیں سلیکٹرز ٹیلنٹ تلاش کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
اب بھی نیا تجربہ کیا گیا ہے، 7 ارکان مگر کوئی سربراہ نہیں ہے، ویسے محمد یوسف کے ہوتے ہوئے اگر وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر بنایا جاتا تو باتیں بنتیں، وہاب چونکہ چیف سلیکٹر رہے تھے لہذا یوسف کے انڈر عام سلیکٹر کیسے بنتے، شاید اسی لیے سب کو ہی سلیکٹر کا عہدہ دیا گیا ہے، ویسے وہاب چیئرمین کے جتنے قریب ہیں ان کے نام پر لکھا ہو یا نہیں چیف تو وہی ہوں گے، چیئرمین نے حارث رؤف کا سینٹرل کنٹریکٹ بحال کرنے کا بھی اعلان کیا،اس پابندی کا اصل نقصان لاہور قلندرز کو ہوا، پہلے میچ سے قبل ہی ٹیم کا اعتماد ڈگمگا گیا، بعد میں حارث انجرڈ بھی ہو گئے، ارباب اختیار کو اپنی انا کے چکر میں کسی کھلاڑی کے کیریئر سے نہیں کھیلنا چاہیے۔
عماد واپس آ گئے، حارث کا کنٹریکٹ بحال ہو گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بورڈ محاذ بند کرتے جا رہا ہے جو کہ اچھی بات ہے،اس کا فائدہ ٹیم کو ہونا چاہیے، گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ٹیم فائنل میں پہنچی تھی امید ہے اس بار ٹرافی جیتے گی،محسن اسپیڈ کی میڈیا میں بڑی اسٹوریز آتی رہتی ہیں، دیکھتے ہیں کرکٹ میں بھی وہ کمال دکھا پاتے ہیں یا نہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
چند ماہ قبل جب شاہین شاہ آفریدی نے عماد وسیم سے یہ جملے کہے تو انھوں نے مسکرا کر بات ٹال دی، مگر شاہین کی عادت ہے کہ جب وہ کسی کام کو مکمل کرنے کا تہیہ کر لیں تو ہمت نہیں ہارتے اور کوشش کرتے رہتے ہیں، یہ بات نہیں ہے کہ وہ اور عماد گہرے دوست ہیں بس شاہین کو بطور کپتان ایسا لگا کہ یہ کرکٹر میری ٹیم کیلیے اہم ثابت ہو سکتا ہے لہذا اسے واپس لانا ہے، دونوں کی بات چیت کے بعد پی ایس ایل آ گئی،عماد میں اس میں عمدہ پرفارم کر کے اپنا کیس مضبوط کر لیا۔
اب شاہین کے ساتھ ان کی واپسی کیلیے اٹھنے والی آوازوں میں بھی اضافہ ہو گیا، پی سی بی ابتدا میں کنفیوژ نظر آیا مگر پھر کسی نے کہہ دیا کہ خدانخواستہ اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ رہی تو سارا ملبہ حکام پر آ جائے گا کہ اتنا اچھا کھلاڑی موجود تھا اسے نہیں بلایا، اس دوران شاہین کی فون پر عماد سے بات چیت ہوتی رہی، آخرکار یہ مرحلہ اس مقام پر پہنچ گیا جب انھیں ملاقات کیلیے لاہور مدعو کر لیا گیا۔
جب عماد سی او او سلمان نصیر اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے سامنے بیٹھے تو یقینا انھیں اطمینان کا احساس ہوا ہو گا کیونکہ ان کے موقف کی جیت ہوئی، وہ اپنی شرائط پر کھیلنا چاہتے تھے اور اب پی سی بی حکام نے انھیں خود بلایا تھا، چونکہ عماد کو ہر حال میں واپس لانا تھا اور وہ خود بھی ایسا چاہتے تھے اس لیے میٹنگ میں کوئی بحث وغیرہ نہیں ہوئی، سنیارٹی کی بنیاد پر عماد کو سینٹرل کنٹریکٹ کی ٹاپ کیٹیگری مل سکتی تھی لیکن انھوں نے اس سے انکار کر دیا۔
ان کی ریٹائرمنٹ کا سبب لیگز کے این او سی ہی تھے، پاکستان کیلیے کھیلنے کے مواقع محدود تھے ، ایسے میں آمدنی کا بڑا ذریعہ لیگز ہی تھیں مگر اجازت نامے کے حوالے سے بورڈ کی پالیسی آڑے آ جاتی، اب وہ کنٹریکٹ سے آزاد ہو کر سال میں دو لیگز کی شرط پر عمل سے بچ جائیں گے، البتہ یہ کوئی اچھی مثال ثابت نہیں ہو گی، کل کو بابر ، رضوان وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کنٹریکٹ نہیں چاہیے، پھر پی سی بی کا صرف بچوں پر ہی زور چلے گا، اس سے اچھا یہ ہے کہ لیگز کے حوالے سے کوئی معیاری پالیسی بنائی جائے جس پر پھر سختی سے عمل بھی ہو، یہ نہیں کہ کسی بڑی شخصیت کا فون آ جائے تو کوئی کرکٹر تیسری، چوتھی لیگ بھی کھیل جائے۔
سفارش سے محروم پلیئر کو آپ واپس بلوا لیں، خیر عماد کی واپسی ٹیم کیلیے کارآمد ثابت ہوگی، ان کی عدم موجودگی میں جتنے آل راؤنڈرز آزمائے سب نام نہاد ثابت ہوئے، یہ ہمارا المیہ ہے کہ کئی شعبوں میں اچھا ٹیلنٹ نہیں مل رہا جس کی وجہ سے پیچھے دیکھنا پڑ رہا ہے، اگر کوئی نیا کھلاڑی اچھا پرفارم کرتا تو کیا عماد کو کوئی یاد کرتا؟
اب ورلڈکپ قریب ہے، ویسٹ انڈین پچز پر ہمیں معیاری اسپنرز کی ضرورت محسوس ہوگی، ایسے میں عماد ٹیم کے کام آ سکتے ہیں، بہت سے لوگ عماد کے معاملے کا عامر سے بھی موازنہ کر رہے ہیں کہ انھیں بھی واپس لانا چاہیے،درحقیقت دونوں کے کیس مختلف ہیں ، عامر نے برطانوی شہریت کے لیے پاکستان کرکٹ کو چھوڑا، وہ خود ساختہ ریٹائرمنٹ سے کافی پہلے ساتھی کھلاڑیوں کو اپنے عزائم سے آگاہ کر چکے تھے۔
ان کا پلان برطانوی کھلاڑی کی حیثیت سے آئی پی ایل میں بھی شرکت کرنا ہے، خوش قسمتی سے عامر کے جانے کا پاکستانی ٹیم پر کوئی فرق نہیں پڑا، فاسٹ بولنگ میں ہمیں اچھا ٹیلنٹ میسر آ گیا، خود عامر کی کارکردگی بھی اتنی خاص نہ رہی کہ منت سماجت کر کے واپس لایا جاتا، میچ فکسنگ کیس میں جیل کی سزا کاٹنے کے باوجود پاکستان نے انھیں عزت دی اور دوبارہ ٹیم کی نمائندگی کا موقع دیا۔
عام شائقین کے دل میں بھی ان کیلیے ہمدردی کا عنصر موجود تھا لیکن عامر نے جیسے سے دوبارہ قدم جمائے انھیں سبز پاسپورٹ برا لگنے لگا اور برطانیہ میں بسنے کا ارادہ کر لیا، ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں جو انھیں ورلڈکپ اسکواڈ میں دیکھنا چاہتے ہیں، خود عامر نے بھی سوشل میڈیا پوسٹ میں اس حوالے سے عندیہ دیا ہے البتہ ان کی واپسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، لائے بھی تو کس کی جگہ کھلائیں گے۔
ہمیں آگے بڑھنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے نیا ٹیلنٹ ماضی کی رفتار سے سامنے نہیں آ رہا، پی ایس ایل سے جیسے شاداب خان ابھرے تھے اب کوئی ویسا پلیئر دکھائی نہیں دیا، حالیہ ایونٹ میں کسی نوجوان نے اچھا پرفارم کیا تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیے گئے اس کے بعد وہ بیچارہ توقعات کے بوجھ تلے دبا رہ گیا، ہمیں نئے ٹیلنٹ کو تسلسل سے پرفارم کرنے کا موقع دینا چاہیے پھر ضرور عظیم کرکٹرز کے ساتھ موازنہ کریں۔ محسن نقوی نے نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان تو کر دیا ہے،دیکھتے ہیں سلیکٹرز ٹیلنٹ تلاش کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
اب بھی نیا تجربہ کیا گیا ہے، 7 ارکان مگر کوئی سربراہ نہیں ہے، ویسے محمد یوسف کے ہوتے ہوئے اگر وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر بنایا جاتا تو باتیں بنتیں، وہاب چونکہ چیف سلیکٹر رہے تھے لہذا یوسف کے انڈر عام سلیکٹر کیسے بنتے، شاید اسی لیے سب کو ہی سلیکٹر کا عہدہ دیا گیا ہے، ویسے وہاب چیئرمین کے جتنے قریب ہیں ان کے نام پر لکھا ہو یا نہیں چیف تو وہی ہوں گے، چیئرمین نے حارث رؤف کا سینٹرل کنٹریکٹ بحال کرنے کا بھی اعلان کیا،اس پابندی کا اصل نقصان لاہور قلندرز کو ہوا، پہلے میچ سے قبل ہی ٹیم کا اعتماد ڈگمگا گیا، بعد میں حارث انجرڈ بھی ہو گئے، ارباب اختیار کو اپنی انا کے چکر میں کسی کھلاڑی کے کیریئر سے نہیں کھیلنا چاہیے۔
عماد واپس آ گئے، حارث کا کنٹریکٹ بحال ہو گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بورڈ محاذ بند کرتے جا رہا ہے جو کہ اچھی بات ہے،اس کا فائدہ ٹیم کو ہونا چاہیے، گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ٹیم فائنل میں پہنچی تھی امید ہے اس بار ٹرافی جیتے گی،محسن اسپیڈ کی میڈیا میں بڑی اسٹوریز آتی رہتی ہیں، دیکھتے ہیں کرکٹ میں بھی وہ کمال دکھا پاتے ہیں یا نہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)