ہدایت اللہ لوہار کی ٹارگٹ کلنگ کی شفاف تحقیقات کی جائے ایچ آر سی پی
یہ قتل ہدایت اللہ کی قوم پرست سرگرمیوں سے منسلک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا، چیئرمین اسد اقبال بٹ
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی کارکن ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی شفاف اور کسی بیرونی دباؤ کے بغیر آزادانہ طور پر تفتیش یقینی بنائی جائے۔
خیال رہے کہ 16 فروری 2024 کو نصیر آباد کے پرائمری اسکول کے استاد 56 سالہ ہدایت اللہ لوہار کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا ۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں سسی لوہار اور سورتھ لوہارکو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تھا
کراچی پریس کلب میں ایچ آر سی پی کی جانب سے پیش کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یہ قتل غالباً ہدایت اللہ کی قوم پرست سرگرمیوں سے منسلک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا۔
اس موقع پر چیئرمین اسد اقبال بٹ نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ قتل کے خلاف دھرنا دینے پر حراست میں لیے گئے مظاہرین، جن میں ہدایت اللہ کے دو بیٹے بھی شامل ہیں، کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور انہیں پرامن اجتماع کی آزادی کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائےجس کی وجہ سے انہیں دو بار جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
مزیدپڑھیں: استاد کا قتل
ایچ آر سی پی کمیشن کا ماننا ہے کہ ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی بظاہر کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی،۔ علاوہ ازیں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ہدایت اللہ لوہار کے اہل خانہ کی گواہیوں اور واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس کی ابتدائی ہچکچاہٹ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، عدالت نے قتل کے تقریباً دو ہفتے بعد واقعے کی ایف آر درج کرنے کی ہدایت کی۔
اسد اقبال بٹ نے کہا کہ اس بات کے پیش نظر کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کارکنوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، حکومت سندھ کو ہدایت اللہ لوہار کے خاندان کو معاوضہ اور تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قتل کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد نے اپنے کالم میں ہدایت اللہ لوہار پر حملے کے حوالے سے تفصیل سے لکھا کہ ''دو افراد جو 125 سی سی موٹر سائیکل پر سوار تھے کہیں سے اچانک نمودار ہوئے اور ہدایت لوہارکو راستے میں روکا ۔ پھر ان میں سے ایک فرد نے اپنے اسمارٹ فون سے کہیں وڈیوکال کی اور ہدایت لوہارکا چہرہ موبائل پر کسی فرد کو دکھایا۔ شاید اس شخص نے ہدایت کی تصدیق کر دی۔ ان میں سے ایک شخص نے ہدایت کے چہرے پرگولیاں چلائیں ۔ ہدایت کے چہرے پر تین گولیاں ماری گئیں اور ایک گولی اس کی گردن پر لگی''۔
دوسری جانب ہدایت لوہار کے لواحقین کا کہنا ہے کہ قتل کی ویڈیو فوٹیج بھی مل گئی تھی، اس وڈیو میں موٹر سائیکل نمبر پلیٹ اور ہدایت پر فائرنگ کرنے والے شخص کا چہرہ نظر آرہا ہے مگر پولیس نے اس فوٹیج پر توجہ نہیں دی۔ لوہار کی بیٹیوں کا کہنا تھا کہ ان کے والد تعلیم عام کرنے اور سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان کی کسی بھی فرد یا گروہ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔
خیال رہے کہ 16 فروری 2024 کو نصیر آباد کے پرائمری اسکول کے استاد 56 سالہ ہدایت اللہ لوہار کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا ۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں سسی لوہار اور سورتھ لوہارکو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تھا
کراچی پریس کلب میں ایچ آر سی پی کی جانب سے پیش کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یہ قتل غالباً ہدایت اللہ کی قوم پرست سرگرمیوں سے منسلک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا۔
اس موقع پر چیئرمین اسد اقبال بٹ نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ قتل کے خلاف دھرنا دینے پر حراست میں لیے گئے مظاہرین، جن میں ہدایت اللہ کے دو بیٹے بھی شامل ہیں، کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور انہیں پرامن اجتماع کی آزادی کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائےجس کی وجہ سے انہیں دو بار جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
مزیدپڑھیں: استاد کا قتل
ایچ آر سی پی کمیشن کا ماننا ہے کہ ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی بظاہر کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی،۔ علاوہ ازیں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ہدایت اللہ لوہار کے اہل خانہ کی گواہیوں اور واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس کی ابتدائی ہچکچاہٹ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، عدالت نے قتل کے تقریباً دو ہفتے بعد واقعے کی ایف آر درج کرنے کی ہدایت کی۔
اسد اقبال بٹ نے کہا کہ اس بات کے پیش نظر کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کارکنوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، حکومت سندھ کو ہدایت اللہ لوہار کے خاندان کو معاوضہ اور تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قتل کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد نے اپنے کالم میں ہدایت اللہ لوہار پر حملے کے حوالے سے تفصیل سے لکھا کہ ''دو افراد جو 125 سی سی موٹر سائیکل پر سوار تھے کہیں سے اچانک نمودار ہوئے اور ہدایت لوہارکو راستے میں روکا ۔ پھر ان میں سے ایک فرد نے اپنے اسمارٹ فون سے کہیں وڈیوکال کی اور ہدایت لوہارکا چہرہ موبائل پر کسی فرد کو دکھایا۔ شاید اس شخص نے ہدایت کی تصدیق کر دی۔ ان میں سے ایک شخص نے ہدایت کے چہرے پرگولیاں چلائیں ۔ ہدایت کے چہرے پر تین گولیاں ماری گئیں اور ایک گولی اس کی گردن پر لگی''۔
دوسری جانب ہدایت لوہار کے لواحقین کا کہنا ہے کہ قتل کی ویڈیو فوٹیج بھی مل گئی تھی، اس وڈیو میں موٹر سائیکل نمبر پلیٹ اور ہدایت پر فائرنگ کرنے والے شخص کا چہرہ نظر آرہا ہے مگر پولیس نے اس فوٹیج پر توجہ نہیں دی۔ لوہار کی بیٹیوں کا کہنا تھا کہ ان کے والد تعلیم عام کرنے اور سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان کی کسی بھی فرد یا گروہ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔