غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پر عملدرآمد ناگریز
سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے سے امید کی کرن پھوٹی ہے
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سات اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ممالک میں سے چودہ نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیاجب کہ امریکا ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضر رہا، سلامتی کونسل نے اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے سے امید کی کرن پھوٹی ہے، اب اس قرارداد پر عملدرآمد عالمی قوتوں سمیت حماس اور اسرائیل کی ذمے داری بنتی ہے،کیونکہ حالات کسی طور پر سدھار میں نہیں آرہے، فریقین اپنے سخت اور اٹل موقف پر ڈٹے کھڑے ہیں اور ایک دوسرے پر شرائط اور مطالبے عائد کر رہے ہیں۔
اس سے خطے میں امن کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں اور تاحال جنگ کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کو علی الاعلان دھمکیاں دیتے ہوئے کارروائی کو مزید توسیع کرنے کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اپنی جارحیت کو درست قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔
کتنی درد انگیز بات ہے کہ ایک آزاد اور محفوظ قومی ریاست کے شہری فلسطینی اپنی دھرتی پر بے گناہ مارے جا رہے ہیں اور انھیں بچانے والا کوئی بھی نہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جو اسلامی ملک میں ہونے والے کسی معمولی سے واقعے پر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں وہ بھی نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیلی فوجوں کی وحشیانہ کارروائیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
اسرائیلی عزائم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی کے لیے تیار نہیں اور اس نے غزہ کے علاقے سے فلسطینیوں کے قتل عام کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اب اس نے زمینی' فضائی اور بحری حملوں کا اعلان کر دیا ہے، جس سے اندیشہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام میں تیزی آ جائے گی، اگر فلسطینیوں کا قتل عام اسی طرح جاری رہتا اور غزہ کے مزید علاقے پر اسرائیل کا قبضہ ہو جاتا ہے تو یہ اسلامی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہو گا۔
دوسری جانب حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن حسام بیدران نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں مسئلہ قیدیوں کا نہیں ہے، اس کے برعکس اسرائیل بنیادی مسائل پر ضمانتیں دینے کو تیار نہیں۔ اپنے تحریری بیان میں بیدران نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر حملے روکنا، ساتھ ہی انسانی امداد کی ترسیل، بے گھر شہریوں کی واپسی اور تعمیر نو کے لیے واضح منصوبہ ان کے لیے ترجیحی مسائل ہیں۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سات اکتوبر سے چھبیس مارک تک جنگ شروع کے مراحل کے مقابلے میں اب ہلاکتوں کی رفتار میں کمی ہوئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت سے ہلاک ہونے والوں کا اصل تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ بہت سے اسپتال اب کام نہیں کر رہے۔ عام طور پر وہاں اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔
یہ اعداد و شمار صرف فوجی کارروائی میں مرنے والے افراد کے ہیں اور ان میں بھوک یا بیماری سے ہونے والی ہلاکتیں شامل نہیں، جن کے بارے میں عالمی امدادی ادارے تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔
حالیہ جنگ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ماضی میں ہونے والی لڑائیوں سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔ ہلاکتوں کے متعلق یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو غزہ یا دیگر علاقوں پر ماضی میں ہونے والی کارروائیوں یا حملوں میں نہیں دیکھے۔ ہلاکتوں کی تعداد جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے بیان کردہ موقف کی روشنی میں دیکھی جا سکتی ہے، اس نے کہا تھا کہ ابھی اسرائیل اس بات پر توجہ مرکوز کر رکھے ہوئے ہے کہ زیادہ سے زیادہ نقصان کس چیز سے ہوگا۔
غزہ کی پٹی میں ادویات، رسد اور سی ٹی اور ایکسرے کے آلات کی شدید قلت ہے ، مریض جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے ،میڈیکل سہولت نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہورہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق غزہ کی صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل اور امریکا دنیا بھر میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ جنگ دراصل اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام سے لڑ رہی ہے۔ فلسطینیوں کی تمام جماعتوں کی جد وجہد کا مقصد ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
سات اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ میں اس نے ظلم و ستم کی سرحدیں پار کردی ہیں اور سرعام تمام عالمی و جنگی قوانین کو بھی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔ جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی فوجی سرزمین فلسطین پر دندنا رہے ہیں، یہ ان ممالک کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی کافی ہے جو مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولا میں تلاش کررہے تھے۔
ابھی تک پاکستان سمیت دنیا کے 28سے زائد ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود اسرائیل نہتے فلسطینی عوام کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آرہا اور جب اس کا ناجائز وجود پوری دنیا میں تسلیم کیا جا چکا ہوگا۔
پھر کیا صورتحال ہوگی سوچنے کی بات ہے کہ پھرکون ہے جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی ضمانت دے گا۔ امریکا موجودہ اسرائیل اور فلسطین جنگ میں یہ ثابت کر چکا ہے کہ اسے اسرائیل کا وجود اپنے وجود کی طرح عزیز ہے۔ اسرائیل اور مغربی میڈیا تصویر کا صرف ایک رخ دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ البتہ امریکا ، یورپ اور ایشیا کے ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔
اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا بھرم ٹوٹ جانا اس کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ اسی فوجی طاقت نے عربوں کی آبادی والے اس خطے میں اسرائیلی ریاست کی دھاک بنا رکھی تھی۔ اسی اسرائیلی دھاک نے بعض ممالک کے لیے خوف کا الاؤ اور کچھ لوگوں کے لیے امید کے دیے جلا دیے تھے۔ نارملائزیشن کے سفر میں بھی اس دھاک کا کردار غیر اہم نہیں تھا، مگر اب ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے میں یہ خبریں آنا شروع ہوجائیں کہ نارملائزیشن کا امکان بھی قدرے کم ہوگیا ہے اور یہ بات امریکا میں بھی اہل حل وعقد نے بھی محسوس کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے یہ اتنا بڑا فیصلہ یا درست الفاظ میں کہیں تو اتنا بڑا رسک کیوں لیا؟ اسرائیل کی جان پر بن آنے والے اس حملے کے اثرات خود فلسطینیوں پر، عالم عرب پر، مشرق وسطی پر، حتی کہ یورپ و امریکا پر کیا ہوں گے اور بدلتی ہوئی دنیا میں تبدیلی کی رفتار پر اس سے کتنا اثر پڑے گا؟
اسرائیل کی کارروائیاں واضح طور پر جنگی جرائم کی ذیل میں آتی ہیں۔ دنیا میں اگر کہیں انصاف نام کی کوئی شے موجود ہے تو اب تک عالمی نظام اس کو بروئے کار نہیں لا سکا۔ فلسطینیوں کا خون اس قدر حقیرکیوں ہے کہ اسرائیل کا ہاتھ روکنے کا بندوبست کیوں نہیں کیا جا سکا۔ فلسطینی عوام کی بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ انھیں اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے جائے پناہ میسر ہے نہ ایندھن و خوراک میسر ہے۔
اس جنگ میں مسلمان ممالک اسرائیل کی سفارتی سطح پر مذمت کرتے رہے جب کہ آگے بڑھ کر اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے ۔ عالمی قوتیں چاہتیں تو اس جنگ کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی تھیں مگر ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں نے اس ایشو کو بھی اپنی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔عالمی قوتوں کی باہمی سرد جنگ کے باعث ہی اسرائیل جب چاہتا ہے فلسطینیوں پر حملہ کرکے ان کا قتل عام شروع کر دیتا ہے۔
عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش نے عالمی اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ویٹو پاور کا استعمال بلا خوف و خطر کیا جارہا ہے ، اسی وجہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانا ممکن ہے ۔ویٹو پاور کے استعمال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، کسی قراداد کو ویٹو کرنے کے لیے بھی کوئی شرائط عائد ہونی چاہیے۔
اب اگرویٹو پاورز میں کوئی ایک پاورکسی قراداد کو ویٹو کردے تو قرارداد ختم ہوجاتی ہے، سلامتی کونسل کے نان ویٹو ارکان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ تنازعہ کشمیر ، تنازعہ فلسطین سمیت کئی عالمی تنازعے اسی وجہ سے حل نہیں ہورہے۔ ویٹو پاورز کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کی قراداد پر عمل درآمد کرائے تاکہ تنازع کے سیاسی حل کی جانب پیش قدمی ہو سکے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ممالک میں سے چودہ نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیاجب کہ امریکا ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضر رہا، سلامتی کونسل نے اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے سے امید کی کرن پھوٹی ہے، اب اس قرارداد پر عملدرآمد عالمی قوتوں سمیت حماس اور اسرائیل کی ذمے داری بنتی ہے،کیونکہ حالات کسی طور پر سدھار میں نہیں آرہے، فریقین اپنے سخت اور اٹل موقف پر ڈٹے کھڑے ہیں اور ایک دوسرے پر شرائط اور مطالبے عائد کر رہے ہیں۔
اس سے خطے میں امن کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں اور تاحال جنگ کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کو علی الاعلان دھمکیاں دیتے ہوئے کارروائی کو مزید توسیع کرنے کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اپنی جارحیت کو درست قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔
کتنی درد انگیز بات ہے کہ ایک آزاد اور محفوظ قومی ریاست کے شہری فلسطینی اپنی دھرتی پر بے گناہ مارے جا رہے ہیں اور انھیں بچانے والا کوئی بھی نہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جو اسلامی ملک میں ہونے والے کسی معمولی سے واقعے پر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں وہ بھی نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیلی فوجوں کی وحشیانہ کارروائیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
اسرائیلی عزائم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی کے لیے تیار نہیں اور اس نے غزہ کے علاقے سے فلسطینیوں کے قتل عام کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اب اس نے زمینی' فضائی اور بحری حملوں کا اعلان کر دیا ہے، جس سے اندیشہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام میں تیزی آ جائے گی، اگر فلسطینیوں کا قتل عام اسی طرح جاری رہتا اور غزہ کے مزید علاقے پر اسرائیل کا قبضہ ہو جاتا ہے تو یہ اسلامی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہو گا۔
دوسری جانب حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن حسام بیدران نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں مسئلہ قیدیوں کا نہیں ہے، اس کے برعکس اسرائیل بنیادی مسائل پر ضمانتیں دینے کو تیار نہیں۔ اپنے تحریری بیان میں بیدران نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر حملے روکنا، ساتھ ہی انسانی امداد کی ترسیل، بے گھر شہریوں کی واپسی اور تعمیر نو کے لیے واضح منصوبہ ان کے لیے ترجیحی مسائل ہیں۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سات اکتوبر سے چھبیس مارک تک جنگ شروع کے مراحل کے مقابلے میں اب ہلاکتوں کی رفتار میں کمی ہوئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت سے ہلاک ہونے والوں کا اصل تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ بہت سے اسپتال اب کام نہیں کر رہے۔ عام طور پر وہاں اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔
یہ اعداد و شمار صرف فوجی کارروائی میں مرنے والے افراد کے ہیں اور ان میں بھوک یا بیماری سے ہونے والی ہلاکتیں شامل نہیں، جن کے بارے میں عالمی امدادی ادارے تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔
حالیہ جنگ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ماضی میں ہونے والی لڑائیوں سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔ ہلاکتوں کے متعلق یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو غزہ یا دیگر علاقوں پر ماضی میں ہونے والی کارروائیوں یا حملوں میں نہیں دیکھے۔ ہلاکتوں کی تعداد جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے بیان کردہ موقف کی روشنی میں دیکھی جا سکتی ہے، اس نے کہا تھا کہ ابھی اسرائیل اس بات پر توجہ مرکوز کر رکھے ہوئے ہے کہ زیادہ سے زیادہ نقصان کس چیز سے ہوگا۔
غزہ کی پٹی میں ادویات، رسد اور سی ٹی اور ایکسرے کے آلات کی شدید قلت ہے ، مریض جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے ،میڈیکل سہولت نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہورہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق غزہ کی صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل اور امریکا دنیا بھر میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ جنگ دراصل اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام سے لڑ رہی ہے۔ فلسطینیوں کی تمام جماعتوں کی جد وجہد کا مقصد ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
سات اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ میں اس نے ظلم و ستم کی سرحدیں پار کردی ہیں اور سرعام تمام عالمی و جنگی قوانین کو بھی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔ جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی فوجی سرزمین فلسطین پر دندنا رہے ہیں، یہ ان ممالک کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی کافی ہے جو مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولا میں تلاش کررہے تھے۔
ابھی تک پاکستان سمیت دنیا کے 28سے زائد ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود اسرائیل نہتے فلسطینی عوام کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آرہا اور جب اس کا ناجائز وجود پوری دنیا میں تسلیم کیا جا چکا ہوگا۔
پھر کیا صورتحال ہوگی سوچنے کی بات ہے کہ پھرکون ہے جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی ضمانت دے گا۔ امریکا موجودہ اسرائیل اور فلسطین جنگ میں یہ ثابت کر چکا ہے کہ اسے اسرائیل کا وجود اپنے وجود کی طرح عزیز ہے۔ اسرائیل اور مغربی میڈیا تصویر کا صرف ایک رخ دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ البتہ امریکا ، یورپ اور ایشیا کے ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔
اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا بھرم ٹوٹ جانا اس کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ اسی فوجی طاقت نے عربوں کی آبادی والے اس خطے میں اسرائیلی ریاست کی دھاک بنا رکھی تھی۔ اسی اسرائیلی دھاک نے بعض ممالک کے لیے خوف کا الاؤ اور کچھ لوگوں کے لیے امید کے دیے جلا دیے تھے۔ نارملائزیشن کے سفر میں بھی اس دھاک کا کردار غیر اہم نہیں تھا، مگر اب ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے میں یہ خبریں آنا شروع ہوجائیں کہ نارملائزیشن کا امکان بھی قدرے کم ہوگیا ہے اور یہ بات امریکا میں بھی اہل حل وعقد نے بھی محسوس کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے یہ اتنا بڑا فیصلہ یا درست الفاظ میں کہیں تو اتنا بڑا رسک کیوں لیا؟ اسرائیل کی جان پر بن آنے والے اس حملے کے اثرات خود فلسطینیوں پر، عالم عرب پر، مشرق وسطی پر، حتی کہ یورپ و امریکا پر کیا ہوں گے اور بدلتی ہوئی دنیا میں تبدیلی کی رفتار پر اس سے کتنا اثر پڑے گا؟
اسرائیل کی کارروائیاں واضح طور پر جنگی جرائم کی ذیل میں آتی ہیں۔ دنیا میں اگر کہیں انصاف نام کی کوئی شے موجود ہے تو اب تک عالمی نظام اس کو بروئے کار نہیں لا سکا۔ فلسطینیوں کا خون اس قدر حقیرکیوں ہے کہ اسرائیل کا ہاتھ روکنے کا بندوبست کیوں نہیں کیا جا سکا۔ فلسطینی عوام کی بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ انھیں اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے جائے پناہ میسر ہے نہ ایندھن و خوراک میسر ہے۔
اس جنگ میں مسلمان ممالک اسرائیل کی سفارتی سطح پر مذمت کرتے رہے جب کہ آگے بڑھ کر اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے ۔ عالمی قوتیں چاہتیں تو اس جنگ کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی تھیں مگر ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں نے اس ایشو کو بھی اپنی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔عالمی قوتوں کی باہمی سرد جنگ کے باعث ہی اسرائیل جب چاہتا ہے فلسطینیوں پر حملہ کرکے ان کا قتل عام شروع کر دیتا ہے۔
عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش نے عالمی اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ویٹو پاور کا استعمال بلا خوف و خطر کیا جارہا ہے ، اسی وجہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانا ممکن ہے ۔ویٹو پاور کے استعمال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، کسی قراداد کو ویٹو کرنے کے لیے بھی کوئی شرائط عائد ہونی چاہیے۔
اب اگرویٹو پاورز میں کوئی ایک پاورکسی قراداد کو ویٹو کردے تو قرارداد ختم ہوجاتی ہے، سلامتی کونسل کے نان ویٹو ارکان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ تنازعہ کشمیر ، تنازعہ فلسطین سمیت کئی عالمی تنازعے اسی وجہ سے حل نہیں ہورہے۔ ویٹو پاورز کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کی قراداد پر عمل درآمد کرائے تاکہ تنازع کے سیاسی حل کی جانب پیش قدمی ہو سکے۔