دہشت گردی کے خاتمے کا عزم

ملک میں دہشت گردی کی لہر میں تیزی آنے کا ایک سبب غیر قانونی تارکین وطن کا پاکستان سے انخلا کا حتمی اور پختہ فیصلہ ہے

ملک میں دہشت گردی کی لہر میں تیزی آنے کا ایک سبب غیر قانونی تارکین وطن کا پاکستان سے انخلا کا حتمی اور پختہ فیصلہ ہے۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت چینی شہریوں پر دہشت گرد حملے کے بعد سیکیورٹی سے متعلق ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اس وقت تک جنگ لڑیں گے جب تک پاکستان، اس کے عوام اور یہاں کام کرنے والے غیر ملکی مہمانوں پر بری نظر رکھنے والے ہر دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔

اس موقعے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاک چین دوستی کو نشانہ بنانے والوں کے ان اقدامات کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا ہے۔ ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ کچھ بیرونی قوتیں پاکستان کو معاشی و سیاسی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ پاکستان مخالف دہشت گردگروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ بات اب پوری طرح عیاں ہوچکی ہے کہ افغانستان میں القاعدہ ، داعش خراسان اور ٹی ٹی پی سرگرم عمل ہے اور وہاں یہ گروہ آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہیں۔

ادھر بلوچستان میںبی ایل اے اور دیگر مسلح تنظیمیں بھی اپنے مشترکہ اہداف کے لیے افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔کچھ قوتیں سی پیک کی تکمیل کو کسی بھی قیمت پر روکنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیںکہ اگر یہ منصوبہ بن گیا تو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا جمپ ثابت ہو گا جب کہ جنوبی چین کے علاقوں کو مڈل ایسٹ اور دیگر منڈیوں تک آسان رسائی مل جائے گی ۔ ظاہر ہے اس سے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

افغانستان سے امریکا اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان طالبان نے اقتدار حاصل کیا، اس کا سب سے زیادہ فائدہ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کو ہوا، اب طالبان انھیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں۔

حکومت پاکستان کا افغان طالبان سے مطالبہ یہی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں لیکن انھوں نے یقین دہانی کے باوجود اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی ہے۔ ہماری فورسز دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہیں لیکن اس میں عوام کا تعاون بہت اہم ہے۔ جب کسی علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر وہاں فورسز پہنچیں تو عوام کو ان کی مزاحمت کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

عام انتخابات سے قبل نگراں حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم 11 لاکھ غیر ملکیوں کو دہشت گردوں کی سہولت کاری اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہ لوگ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن رہے ہیں۔ انھیں واپس اپنے وطن بھیجنا پاکستان کی سلامتی اور معیشت کی بحالی کے لیے انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں، ان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ ملوث ہیں، اب یہ راز کی بات نہیں ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی اور عملی طور پر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

امریکا افغانستان سے انخلا کے وقت جو اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا تھا، اس کا کنٹرول طالبان عبوری حکومت کے پاس چلا گیا کیونکہ امریکا نے افغانستان کی نیشنل آرمی قائم کی تھی، اس فوج کے پاس امریکی اسلحہ تھا، اس فورس نے شروع میں افغان طالبان کی مزاحمت کی لیکن بعد میں وہ فوج طالبان سے مل گئی، یوں امریکی اسلحہ کی بڑی کھیپ افغان عبوری حکومت کے کنٹرول میں آئی۔

اب ایشو یہ سامنے آیا ہے کہ ٹی ٹی پی، بلوچستان کے مسلح گروپوں اور داعش خراسان کے دہشت گردوں کے پاس امریکی اسلحہ کن ذرائع سے آیا ہے۔ اس وقت پورے ملک کو ایک بار پھر سنگین دہشت گردی کا سامنا ہے جس میں ہمیشہ کی طرح افغانستان سے جڑے ہمارے دو صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان شکار ہو رہے ہیں۔


تواتر اور شدت کے ساتھ ان دہشت گردی کے واقعات کو دیکھ کر ہر پاکستانی کے ذہن میں ایک ہی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا پھر ایک بار ملک میں دہشت گردی کا دور واپس آرہا ہے؟ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ دور واپس نہیں آرہا بلکہ آچکا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہم آپریشن رد الفساد اور ضربِ عضب سے پہلے والے دور میں پھر سے آکھڑے ہیں۔

پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ دو سال سے دہشت گردی کی نئی لہر نے بہت سے مغالطے دور کیے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت اور ٹی ٹی پی کا باہمی تعلق زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور بلوچستان کے مسلح گروپوں کو نئی زندگی ملی ہے ۔ پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کی افغانستان کے حوالے سے حد سے زیادہ نرم پالیسی نے بھی ملک کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے جاتے جاتے خیبر پختونخوا کی جیلوں سے ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کے قیدیوں کو بھی رہا کردیا تھا۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کر کے عام معافی دینے کا فیصلہ وقت نے غلط ثابت کیا ہے بلکہ پاکستان کو مزید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ملک میں دہشت گردی کی لہر میں تیزی آنے کا ایک سبب غیر قانونی تارکین وطن کا پاکستان سے انخلا کا حتمی اور پختہ فیصلہ ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت اس کی مخالف ہے ، پاکستان کے اندر بھی ایک بااثر گروہ اپنی سیاسی اور مالی برتری کے لیے مہاجرین کی واپسی کے حق میں نہیں ہے ، افغانستان نے سرحدی باڑ کی بھی شدید مخالفت جاری رکھی ہوئی ہے، افغانستان کی حکومت اپنے ہی شہریوںکی واپسی بھی روکنا چاہتی ہے۔

پہلے تو کہا جاتا تھا کہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افوا ج کی موجودگی اور بھارتی اڈے پاکستان میں دہشت گردی کا سبب ہیں،لیکن اب یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے ۔ اب افغانستان خود اس کا ذمے دار اور سہولت کار ہے۔ مطلب پاکستان کو افغانستان سے کبھی ٹھنڈی ہوا آنے کوئی امید نہیں۔

پنجاب کا جنوبی حصہ قانون شکنی کا مرکز ہے۔ کوہ سلمان کے ساتھ کا علاقہ ڈاکوؤں کا گڑھ بن چکا ہے ، ان کے پاس بھی امریکا اسلحہ موجود ہیں۔ بلوچستان کے ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے، اندرونِ سندھ کے بعض اضلاع اور خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقہ جات میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے ۔ان علاقوں میں دہشت گرد تنظیموں اور ڈاکو گینگز کے لیے صورتحال سازگار ہے، انھیں یہاں سے افرادی قوت بھی مل جاتی ہے۔

پاکستان میں سرکاری شعبے کے اسکولوں کا نیٹ ورک تباہ ہوچکا ہے۔ حکومت سرکاری اسکولوں کے ذریعے مفت معیاری تعلیم دینے کی اپنی آئینی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب یہ تمام ادارے نجی شعبے کو دے رہی ہے اور مجموعی ناکامی کا اعتراف کررہی ہے۔

ان پسماندہ علاقوں میں تعلیم کا سورس صرف دینی مدارس ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج نہیں لڑسکتی۔ یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے، یہ سرحد پر کسی دشمن ملک سے نہیں بلکہ اندر کے دشمن کے خلاف لڑی جارہی ہے۔ دشمن کو پہچاننا بھی مشکل ہے، اس کی وضع قطع، حلیہ وحال، زبان و بیان ہم سے مختلف نہیں۔ مزید مشکل یہ ہے کہ دشمن کو اندر سے سہولت کار بھی میسر ہیں، یہاں اسے مجاہد سمجھنے والے بھی ہیں۔

جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں، یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا احتساب کرنا بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس مذہبی جوش و خروش سے یہ جنگجو کلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبہ و قوت سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے، علمائے کرام جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کرسکتے ہیں۔

وہی بتا سکتے ہیں کہ جہاد کو فساد بنانے والوں نے کس کو فائدہ پہنچایا، ہزاروں معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں اور امن و امان کو برباد کرنے والوں نے کس کا ایجنڈا آگے بڑھایا۔ علمائے کرام ارشاد فرمائیں کہ جہاد کے نام پر فساد کر نے والوں نے اسلام کی خدمت کی ہے یا اس کے اجلے اور حیات بخش تصور کو آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دنیا کی واحد ریاست جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی، ان جنگجوؤں کے ہاتھوں دنیا میں المناک تماشہ بن گئی ہے۔

افغانستان کے ساتھ متصل پاکستانی علاقوں کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے ۔ جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہوں تو نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے بلکہ ملکی سرمایہ کار بھی اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے یہ دیکھا ہے۔ اس وقت کی معیشت پر دہشت گردوں کی کارروائیوں کا اثر پڑا ہے، اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو معیشت بہر صورت متاثر ہوگی۔
Load Next Story