کراچی سے مسلسل صدر ہی صدر
صدر علوی نے بھی کراچی کے لیے کچھ کیا نہ ان کی حکومت نے کراچی کو کچھ دیا
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے آصف زرداری ملک کا دوسری بار صدر منتخب ہونے کا پہلا اعزاز حاصل کرچکے ہیں جب کہ فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور وہ کراچی ہی میں دفن ہیں۔
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت ممنون حسین کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور وہ بھی کراچی ہی میں دفن ہیں وہ سویلین منتخب صدر تھے جب کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے پہلے خود کو ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب کرایا اور بعد میں انھیں آئین کے مطابق اسمبلیوں نے صدر منتخب کیا تھا جو تقریباً نو سال صدر مملکت رہے اور مستعفیٰ ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے جن کے بعد پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت قائم ہوئی تھی اور آصف زرداری پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے اور 2013 میں صدر کے عہدے کی مدت مکمل ہونے پر وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا تھا اور اس سے قبل کسی وزیر اعظم نے سبکدوش ہونے والے صدر کے اعزاز میں بھی الوداعیہ نہیں دیا تھا۔
پاکستان دولخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلی بار سویلین صدر بنے تھے اور 1973 کے آئین کے تحت بعد میں ملک کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے مگر 1977 میں جنرل ضیا الحق نے انھیں مارشل لا لگا کر برطرف کر دیا تھا اور بعد میں اپریل میں انھیں پھانسی دی گئی جس کے بعد 1988 میں صدر جنرل ضیا الحق فضائی حادثے میں شہید ہوگئے تھے۔
جنرل ضیا کے بعد غلام اسحاق خان اور سردار فاروق لغاری صدر مملکت بنے اور دونوں نے ہی تین منتخب حکومتیں ختم کیں اور دونوں بعد میں مستعفی ہوگئے تھے۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کی اور 2002 میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت قائم کرائی مگر ان کے دور میں تین افراد وزیر اعظم بنے اور ملک میں پہلی بار صدر پرویز مشرف نے منتخب کی گئی اسمبلی کی مدت پوری کرائی تھی۔
دیگر سویلین صدور کے برعکس صدر جنرل پرویز مشرف ایک بااختیار صدر تھے جن کے دور میں پہلے نعمت اللہ خان اور بعد میں مصطفیٰ کمال کراچی کے سٹی ناظم تھے اور جنرل پرویز نے مصطفیٰ کمال کو اپنے شہر کراچی کی ترقی کے لیے بھرپور مالی تعاون فراہم کیا اور کراچی کی ترقی کے ہر منصوبے کی اسلام آباد میں فوری منظوری دی جاتی تھی اور مطلوبہ فنڈز فراہم کیے جاتے تھے اور جنرل پرویز اپنے شہر کی تعمیر و ترقی میں خود خصوصی دلچسپی لیتے تھے اور شہر کے دورے میں جنرل پرویز کو بریفنگ دی جاتی تھی اور وہ خود بھی مشورے اور ہدایات دیتے تھے اور انھوں نے اپنے دور میں کراچی کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونے دی اور سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے خود بھی دن رات کام کیا اور شہر میں بے شمار ترقیاتی منصوبے کم سے کم مدت میں مکمل ہوئے اور کراچی کا شمار ملک سے باہر دنیا میں ترقی کرتے ہوئے شہر کے طور پر ہوا۔ کراچی کو دنیا میں تیرہواں میگا سٹی کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
جنرل پرویز کے دور کے بعد ملک میں پارلیمانی نظام بحال ہوا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی وفاق اور سندھ میں اقتدار میں آئی اور بعد میں آصف زرداری صدر مملکت منتخب ہوئے جو خود تو کراچی میں پیدا نہیں ہوئے تھے مگر ان کی بیگم بے نظیر بھٹو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے صاحبزادے بلاول زرداری اور دونوں بیٹیاں بختاور اور آصفہ بھی کراچی میں پیدا ہوئیں، اس لیے کراچی بے نظیر بھٹو اور ان کے تینوں بچوں کا آبائی شہر ہے۔
آصف زرداری کی سیاست کراچی سے شروع ہوئی، وہ لیاری سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ آصف زرداری کی زندگی کا زیادہ عرصہ کراچی میں گزرا مگر کراچی کو وہ اہمیت نہیں ملی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ صدر زرداری کے دور میں 2008 سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی مسلسل حکومت چلی آ رہی ہے مگر صدر آصف زرداری کے دور میں سندھ حکومت کو وہ اہمیت اور ترقی نہیں دی اور زیادہ تر دعوے ہی ہوئے عملی طور پر پی پی حکومت کی ترجیح کراچی سے زیادہ اندرون سندھ زیادہ رہی۔ کراچی کا کوئی شہری سندھ کا وزیر اعلیٰ نہیں رہا البتہ گورنر بے شمار رہے جو آئینی گورنر ہوتے ہیں اور اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتے ہیں اور تمام کا تعلق اندرون سندھ سے رہا ہے۔
2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے جنھوں نے کراچی کے ممنون حسین کو گورنر کے بعد صدر مملکت بنایا جو آئینی صدر تھے مگر نواز شریف نے کراچی کو اہمیت پی پی حکومت سے زیادہ دی اور ان کے دور ہی میں کراچی میں میٹرو کی طرح اورنج لائن کا کام شروع ہوا تھا جسے ٹاور تک جانا تھا مگر گرو مندر تک ہی اورنج لائن چل رہی ہے اور سالوں سے باقی کام یونیورسٹی روڈ پر ہی چل رہا ہے۔
آصف زرداری کے بعد پی ٹی آئی نے کراچی کے عارف علوی کو صدر بنایا جن کے دور میں عمران خان نے کراچی کے لیے وعدے بہت کیے مگر عمل کچھ نہیں ہوا۔ صدر علوی نے بھی کراچی کے لیے کچھ کیا نہ ان کی حکومت نے کراچی کو کچھ دیا۔
عارف علوی کے بعد آصف زرداری دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں ، وفاق میں (ن) لیگ کی اور سندھ میں پی پی کی حکومت ہے جو وفاق میں (ن) لیگ کی اتحادی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے تمام صدور میں صرف جنرل پرویز مشرف نے کراچی کے لیے بہت زیادہ کام کیا اور انھوں نے کراچی کو وہ کچھ دیا جو پی پی حکومت کے اپنے تین ادوار میں نہ دے سکی اور اب آصف زرداری پھر صدر اور سندھ میں ان کی پارٹی کی چوتھی حکومت ہے اور وہ کراچی کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو اگر چاہیں تو اپنے آبائی شہر کراچی کے لیے بہت کچھ کرکے کراچی میں پی پی کا ووٹ بینک بڑھا سکتے ہیں، انھیں عملی طور پر کراچی کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت ممنون حسین کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور وہ بھی کراچی ہی میں دفن ہیں وہ سویلین منتخب صدر تھے جب کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے پہلے خود کو ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب کرایا اور بعد میں انھیں آئین کے مطابق اسمبلیوں نے صدر منتخب کیا تھا جو تقریباً نو سال صدر مملکت رہے اور مستعفیٰ ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے جن کے بعد پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت قائم ہوئی تھی اور آصف زرداری پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے اور 2013 میں صدر کے عہدے کی مدت مکمل ہونے پر وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا تھا اور اس سے قبل کسی وزیر اعظم نے سبکدوش ہونے والے صدر کے اعزاز میں بھی الوداعیہ نہیں دیا تھا۔
پاکستان دولخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلی بار سویلین صدر بنے تھے اور 1973 کے آئین کے تحت بعد میں ملک کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے مگر 1977 میں جنرل ضیا الحق نے انھیں مارشل لا لگا کر برطرف کر دیا تھا اور بعد میں اپریل میں انھیں پھانسی دی گئی جس کے بعد 1988 میں صدر جنرل ضیا الحق فضائی حادثے میں شہید ہوگئے تھے۔
جنرل ضیا کے بعد غلام اسحاق خان اور سردار فاروق لغاری صدر مملکت بنے اور دونوں نے ہی تین منتخب حکومتیں ختم کیں اور دونوں بعد میں مستعفی ہوگئے تھے۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کی اور 2002 میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت قائم کرائی مگر ان کے دور میں تین افراد وزیر اعظم بنے اور ملک میں پہلی بار صدر پرویز مشرف نے منتخب کی گئی اسمبلی کی مدت پوری کرائی تھی۔
دیگر سویلین صدور کے برعکس صدر جنرل پرویز مشرف ایک بااختیار صدر تھے جن کے دور میں پہلے نعمت اللہ خان اور بعد میں مصطفیٰ کمال کراچی کے سٹی ناظم تھے اور جنرل پرویز نے مصطفیٰ کمال کو اپنے شہر کراچی کی ترقی کے لیے بھرپور مالی تعاون فراہم کیا اور کراچی کی ترقی کے ہر منصوبے کی اسلام آباد میں فوری منظوری دی جاتی تھی اور مطلوبہ فنڈز فراہم کیے جاتے تھے اور جنرل پرویز اپنے شہر کی تعمیر و ترقی میں خود خصوصی دلچسپی لیتے تھے اور شہر کے دورے میں جنرل پرویز کو بریفنگ دی جاتی تھی اور وہ خود بھی مشورے اور ہدایات دیتے تھے اور انھوں نے اپنے دور میں کراچی کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونے دی اور سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے خود بھی دن رات کام کیا اور شہر میں بے شمار ترقیاتی منصوبے کم سے کم مدت میں مکمل ہوئے اور کراچی کا شمار ملک سے باہر دنیا میں ترقی کرتے ہوئے شہر کے طور پر ہوا۔ کراچی کو دنیا میں تیرہواں میگا سٹی کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
جنرل پرویز کے دور کے بعد ملک میں پارلیمانی نظام بحال ہوا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی وفاق اور سندھ میں اقتدار میں آئی اور بعد میں آصف زرداری صدر مملکت منتخب ہوئے جو خود تو کراچی میں پیدا نہیں ہوئے تھے مگر ان کی بیگم بے نظیر بھٹو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے صاحبزادے بلاول زرداری اور دونوں بیٹیاں بختاور اور آصفہ بھی کراچی میں پیدا ہوئیں، اس لیے کراچی بے نظیر بھٹو اور ان کے تینوں بچوں کا آبائی شہر ہے۔
آصف زرداری کی سیاست کراچی سے شروع ہوئی، وہ لیاری سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ آصف زرداری کی زندگی کا زیادہ عرصہ کراچی میں گزرا مگر کراچی کو وہ اہمیت نہیں ملی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ صدر زرداری کے دور میں 2008 سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی مسلسل حکومت چلی آ رہی ہے مگر صدر آصف زرداری کے دور میں سندھ حکومت کو وہ اہمیت اور ترقی نہیں دی اور زیادہ تر دعوے ہی ہوئے عملی طور پر پی پی حکومت کی ترجیح کراچی سے زیادہ اندرون سندھ زیادہ رہی۔ کراچی کا کوئی شہری سندھ کا وزیر اعلیٰ نہیں رہا البتہ گورنر بے شمار رہے جو آئینی گورنر ہوتے ہیں اور اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتے ہیں اور تمام کا تعلق اندرون سندھ سے رہا ہے۔
2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے جنھوں نے کراچی کے ممنون حسین کو گورنر کے بعد صدر مملکت بنایا جو آئینی صدر تھے مگر نواز شریف نے کراچی کو اہمیت پی پی حکومت سے زیادہ دی اور ان کے دور ہی میں کراچی میں میٹرو کی طرح اورنج لائن کا کام شروع ہوا تھا جسے ٹاور تک جانا تھا مگر گرو مندر تک ہی اورنج لائن چل رہی ہے اور سالوں سے باقی کام یونیورسٹی روڈ پر ہی چل رہا ہے۔
آصف زرداری کے بعد پی ٹی آئی نے کراچی کے عارف علوی کو صدر بنایا جن کے دور میں عمران خان نے کراچی کے لیے وعدے بہت کیے مگر عمل کچھ نہیں ہوا۔ صدر علوی نے بھی کراچی کے لیے کچھ کیا نہ ان کی حکومت نے کراچی کو کچھ دیا۔
عارف علوی کے بعد آصف زرداری دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں ، وفاق میں (ن) لیگ کی اور سندھ میں پی پی کی حکومت ہے جو وفاق میں (ن) لیگ کی اتحادی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے تمام صدور میں صرف جنرل پرویز مشرف نے کراچی کے لیے بہت زیادہ کام کیا اور انھوں نے کراچی کو وہ کچھ دیا جو پی پی حکومت کے اپنے تین ادوار میں نہ دے سکی اور اب آصف زرداری پھر صدر اور سندھ میں ان کی پارٹی کی چوتھی حکومت ہے اور وہ کراچی کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو اگر چاہیں تو اپنے آبائی شہر کراچی کے لیے بہت کچھ کرکے کراچی میں پی پی کا ووٹ بینک بڑھا سکتے ہیں، انھیں عملی طور پر کراچی کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔