بلوچستان بدامنی کیس اقوام متحدہ کا وفد بلا کر عدالت کے کام میں مداخلت کی گئی

صدر، وزیراعظم نے کچھ نہ کیا تو آرڈر جاری کرینگے،ہم نے لکھ دیا کہ حکومت ناکام ہوگئی تو نتائج کیا ہوںگے؟ عدالت

صدر، وزیراعظم نے کچھ نہ کیا تو آرڈر جاری کرینگے،ہم نے لکھ دیا کہ حکومت ناکام ہوگئی تو نتائج کیا ہوںگے؟ سیکریٹری دفاع جانتے ہیں، عدالت۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے بلوچستان کی صورتحال اور لاپتہ افراد سے متعلق وزارت داخلہ، دفاع اور حکومت بلوچستان کا مشترکہ بیان مسترد کرتے ہوئے آج معاملے کا دوبارہ جائزہ لے کر رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے دورے کا بھی نوٹس لیا اور آبزرویشن دی کہ سیکریٹری خارجہ کو نوٹس جاری کیا جائیگا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، اٹارنی جنرل کے پیش ہونے پر چیف جسٹس نے اعتراض کیا اور کہا کہ انھیں نہیں بلایا گیا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے سیکریٹری دفاع نے بلایا۔ میرا آنا اچھا نہیں لگتا تو نہ بلایا کریں۔ آپ کے احکام کنفیوزڈ ہیں اور دیر سے ملتے ہیں، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سماعت ختم ہونے کے فوری بعد آرڈر جاری ہوجاتا ہے، کیا وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ کیا وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے انھیں خبردار کیا کہ تہذیب کے دائرے میں رہیں، بلوچستان میں دیکھیں کیا ہور ہا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ حکومت تو نہیں کرارہی ،جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ تو کیا عدالت کرارہی ہے؟عرفان قادر نے کہا کہ سب بلوچستان چلتے ہیں دیکھ لیتے ہیں کون ذمے دار ہے؟ آخر عدالت کو اتنی دلچسپی کیا ہے کہ لمبی لمبی سماعتیں کرے؟چیف جسٹس نے کہا دلچسپی اس لیے ہے کہ وہاں آگ لگی ہے اور شہری مر رہے ہیں۔ بینچ نے اقوام متحدہ کے وفد کے دورے کا بھی نوٹس لیا اور آبزرویشن دی کہ سیکریٹری خارجہ سے وضاحت طلب کی جائے گی کہ جب لاپتہ افراد کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا تووفد کو کیوں بلایا گیا؟


آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ اس معاملے پر سیکریٹری خارجہ کو نوٹس دیا جائے گا۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ وفد کو بلوا کر عدالتی کام میں مداخلت کی گئی۔ ایف سی کے وکیل ایس ایم ظفر نے کہا کہ بلوچستان میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا آپ تو ہمیشہ آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں، جج آپ کی کتابوں سے رہنمائی لیتے ہیں، آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ حکومت اگر اپنے شہری مارنا چاہتی ہے تو ماردے، عدالت اپنے فیصلے میں لکھ دے گی کہ حکومت نا کام ہوگئی۔ نتائج کا سامنا حکومت کو ہی کرنا پڑے گا۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ صدراوروزیراعظم کچھ نہیں کرتے تو پھر عدالت کو آرڈر جاری کرنا پڑیگا ٗ حکم نامے میں لکھ دیا کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے تو اس کے نتائج کیا ہونگے۔ سیکریٹری دفاع جانتے ہیں۔

بلوچستان کو خطرہ ہے تو پاکستان کو خطرہ ہے، ایک ہی آپشن رہ گیا ہے فیصلہ دے دیں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ عدالت کو انتہائی اقدام پر مجبور کیا جارہا ہے، اگر جرگوں سے انصاف کرانا ہے تو پھر عدالتیں بند کردیں، حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں، کیوں اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ کوئی تیسرا آئے ۔ عدالت نے مقدمے میں سلمان اکرم راجہ، رشید اے رضوی، یاسین آزاد، اختر حسین اور منیر ملک کو معاون مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کی عدم موجودگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے فوری طلب کیا اور آبزرویشن دی کہ وہ پیش نہ ہوئے تو معطل کر دیا جائیگا۔ تھوڑی دیر بعد سیکرٹری داخلہ صدیق اکبر پیش ہوئے اور خرابی صحت کا عذر پیش کیا، جسٹس جواد نے کہا کہ یہ عذر کابینہ کے اجلاس کیلیے بھی ہونا چاہیے۔

سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل بلوچستان کی زراعت، معدنیات اور ساحل سے وابستہ ہے۔ جسٹس خلجی عارٖف نے کہا ہم بلوچستان کے عوام اور زمین کی بات کر رہے ہیں، بلوچستان چاہے صحرا ہی کیوں نہ ہو یہاں کے لوگ اور زمین ہمیں عزیز ہیں۔ خارجی ہاتھ کے مفروضے پر بلوچستان سے لاتعلق نہیں ہو سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا بلوچستان میں64وزیر ہیں، ہر وزیر اپنے حلقے کو سنبھال لے تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔ حکومت بے بس ہے تو پھر گورنر کو طلب کیا جائیگا۔ اٹارنی جنرل نے وزارت داخلہ،دفاع اور حکومت بلوچستان کی طرف سے مشترکہ بیان جمع کرایا جس میں لاپتہ افراد کی کسی ایجنسی یا حکومتی ادارے کے پاس موجودگی سے انکار کیا گیا۔ عدالت نے اس بیان کو مسترد کر دیا، ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ ہر لاپتہ فرد کا کیس الگ الگ سنیں گے۔

Recommended Stories

Load Next Story