آبی ذخائر اور ترقی کا عمل

ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم سستی بجلی بنا سکتے ہیں لیکن بنا نہیں پا رہے ہیں

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ سستی بجلی کے لیے پاور پلانٹس مکمل پیداواری صلاحیت کے ساتھ چلائیں۔ اس کے علاوہ مقامی گیس سے سرکاری شعبے کے 5 ہزار میگاواٹ والے پاور پلانٹس کو چلایا جائے۔ اسی کے قریب یہ خبر انتہائی تشویش ناک اور قابل افسوس رہی کہ شانگلہ خودکش حملے میں 5 چینی انجینئرز سمیت 6 افراد ہلاک ہو گئے۔

دوسری طرف چینی کمپنی نے تربیلا ڈیم توسیعی منصوبہ وقتی طور پر روک دیا ہے، ادھر چیئرمین واپڈا کا چینی سفیر کے ہمراہ داسو پروجیکٹ کا دورہ۔ پاکستان کو توانائی کی کس قدر کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے پاور پلانٹس لگائے جا رہے ہیں اور لگائے گئے تھے؟ جہاں سے بجلی مہنگی ہی حاصل ہو رہی ہے۔

آئی ایم ایف کی تجاویز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھی پیداواری پلانٹس سے بجلی حاصل کی جائے اور بھرپور پیداوار کے حصول سے لاگت میں کچھ کمی ہو جائے گی۔ ہم بھی جن سے مشورہ لے رہے ہیں ان کو باور نہیں کرا سکتے کہ ہمارے پاس پانی کے بڑے دریا موجود ہیں۔ کئی دریاؤں کا آغاز جہاں سے دریا گزرتے ہیں وہ بھارت کے قبضے میں ہیں اور بھارت نے کئی پاکستانی دریاؤں پر سیکڑوں ڈیم تعمیر کر لیے ہیں۔ 50 برس گزر گئے عالمی بینک نے ڈیموں کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم سستی بجلی بنا سکتے ہیں لیکن بنا نہیں پا رہے ہیں۔

نئے ڈیم میں سے داسو کا ذکر آتا ہے جس پر دشمن کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔ اس پروجیکٹ پر چینی کمپنی کام کر رہی تھی۔ بھلا ہو چیئرمین واپڈا کا کہ چینی سفیر کے ہمراہ داسو پروجیکٹ کا دورہ کر لیا۔ پروجیکٹ سائٹ پر چینی ورکرز کے ہمراہ وقت گزارا۔ اس موقعے پر چیئرمین واپڈا نے پاکستان کی ترقی کے لیے ناگزیر پانی اور پن بجلی کے منصوبوں سمیت پاکستان کے دیگر تمام منصوبوں کی تعمیر میں چین کی تعمیراتی کمپنیوں کے کردار کی تعریف کی۔

پاکستان کا معاشی مسئلہ ملک میں معاشی استحکام اور مہنگائی کا مسئلہ، پیداواری لاگت میں اضافے کا معاملہ، برآمدات میں کمی کی بات اور بہت سے معاشی مسئلے مسائل بجلی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جب تک بجلی سستی تھی، پاکستان کا تجارتی خسارہ کنٹرول میں تھا۔ ایک ارب ڈالر دو ارب 4 ارب 5ارب ڈالر تک تجارتی خسارہ ہو جاتا تھا، لیکن اب ملک میں بدستور 30 ، کبھی چالیس ارب ڈالرز۔ بجلی کی پیداوار اس لیے مہنگی ہونے لگی کہ ڈیموں کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی ملکی ضرورت کو انتہائی ناکافی ہونے لگی جوکہ بتدریج مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کہتا ہے کہ گیس کے استعمال سے پاور پلانٹس چلائیں۔ وہ یہ تجویز کیوں نہیں دیتا کہ ایران سے گیس کے حصول میں اتنی زیادہ تاخیر کردی اسے فوری طور پر مکمل کریں تاکہ توانائی کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے اور ملک میں پن بجلی کے منصوبے بنائے جائیں۔ جو ڈیم زیر تعمیر ہیں ان کو فوری مکمل کیا جائے کسی زمانے میں عالمی بینک ڈیموں کی تعمیر میں پاکستان کی مدد کر رہا تھا اب چین کی مدد سے چند منصوبے زیر تکمیل ہیں تو چینی انجینئرز پر بھی پاکستان دشمن قوتوں نے حملہ کر دیا ہے۔


پاکستان تمام چینی ورکرز اور افسران کی حفاظت کو مزید یقینی بنا رہا ہے اور اس سلسلے میں چین کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے لیکن اب بھی پاکستان کے پاس ذرایع موجود ہیں کئی مقامات کی نشان دہی کی جا چکی ہے کہ یہاں پر ڈیمز کی تعمیر کی جا سکتی ہے، اگر پاکستان اپنے آبی ذخائر سے بھرپور استفادہ کر لیتا تو آج ملک بھر میں بجلی سستی ہوتی۔

پیداواری لاگت کم ہوتی، بین الاقوامی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی طلب بڑھ کر دگنی سے کہیں زیادہ ہو جاتی پاکستانی کارخانے دن رات رواں دواں رہتے جس سے ملک میں بے روزگاروں کو روزگار ملنے کا سلسلہ وسیع ہو جاتا اور لامحالہ صنعتی پیداوار کی لاگت میں کمی سے ملک میں مہنگائی میں کمی واقع ہوتی۔ 1979 سے ہم افغان وار میں پھنس گئے۔

ہمارے ملک میں 50 سے 60 لاکھ افغانی آگئے۔ ان کے ساتھ بتدریج طرح طرح نشے والی چیزیں ملک میں آگئیں اور بہت سے نوجوان نشے کے عادی ہونے لگے۔ ملک میں کلاشنکوف کلچر نے جگہ لے لی۔ پھر ایک کے بعد دوسری سیاسی حکومت کوئی ایک بھی حکومت پوری نوے کی دہائی میں ٹک کر کام نہ کرسکی۔ نگراں حکومت قائم ہوئی تو ملک میں کوئی نہ ملا تو امریکا سے کسی پاکستانی کو بلا کرکام چلایا۔

1994 تک ملک کو بجلی کی کمی کے حل کے لیے یہ سبق پکا کرا دیا کہ پاور پلانٹس لگاؤ اور بجلی بناؤ۔ بعد میں جب پتا چلا کہ فرنس آئل سے بجلی مہنگی پیدا ہو رہی ہے تو کہا گیا کہ گیس سے پلانٹ چلا کر بجلی پیدا کریں۔ ملک میں بجلی کی قلت پیدا ہونے لگی اس کے ساتھ ہم نے نئی صدی کا آغاز کیا۔ دنیا میں کئی ملکوں نے اس دوران غربت میں کمی کی۔ اپنی برآمدات میں زبردست اضافہ کیا۔ کارخانوں کو توانائی بخشی اور وہ تیز رفتاری سے چلنے لگے۔

ہمارے ہاں کارخانے دار کارخانوں کی مشینریوں سمیت دوسرے ممالک کو پروازکر گئے۔ کیونکہ بجلی مہنگی، گیس مہنگی ہونے لگی۔ ذرا اوراق پلٹ کر دیکھیں ہمارے مہربان جب بھی آتے یہی کہتے بجلی گیس پانی ڈالر سب مہنگا کر دو۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔

آئی ایم ایف نہ جانے کیسے مشورے دیتا ہے اور ہمارے سابقہ حکمران اس پر پوری تندہی سے عمل کرتے چلے گئے۔ ہم نے ایران اور تاپی منصوبے سے گیس کے حصول کی کوشش ترک کردی۔ بڑے بڑے ڈیمز کی تعمیر سے منہ موڑ لیا۔ پھر نائن الیون کے بعد ہماری معاشی اور سیاحتی تاریخ کا خطرناک موڑ آتا ہے۔ جگہ جگہ بم دھماکے ہونے لگے۔ ملک بھر سے سیاحت کا بالکل خاتمہ ہونے لگا۔ غیر ملکی سیاحوں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔
Load Next Story