برطانوی حکومتی رپورٹ میں اسرائیل عالمی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار
برطانوی حکومت نے اسرائیل کیخلاف سرکاری وکلا کی رپورٹ دبادی، ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کے لیے شدید دباؤ
برطانیہ کے سرکاری وکلاء نے اپنی حکومت کو دی گئی خفیہ رپورٹ میں اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے دیا۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کی سربراہ ایلیسیا کیرنز نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری نہیں کر رہا تاہم حکومت اس بات کو چھپا رہی ہے۔
برطانوی و اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایک لیک شدہ ریکارڈنگ سے یہ انکشاف ہوا کہ برطانوی حکومت کو اس کے اپنے وکیلوں کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم برطانوی حکومت نے یہ رپورٹ دبالی ہے اور اس کو مشتہر نہیں کیا گیا۔
ایلیسیا کیرنز نے بتایا کہ "مجھے یقین ہے کہ حکومت نے غزہ جنگ پر اپنا تازہ ترین جائزہ مکمل کرلیا ہے جس میں حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری نہیں کر رہا جو وہ قانونی طور پر کرنے کا پابند ہے۔ اس موقع پر بین الاقوامی قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے برطانوی حکومت کو شفافیت کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ بات ظاہر کرنے سے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور وزیر اعظم رشی سونک شدید دباؤ میں آجائیں گے کیونکہ برطانیہ میں سرکاری وکلا کی جانب سے ایسی کسی بھی قانونی ایڈوائس ملنے کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کو نہ صرف بلاتاخیر اسرائیل کو تمام ہتھیاروں کی فروخت بند کرنی پڑے گی بلکہ اس کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی روکنا ہوگا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے باوجود برطانیہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند نہ کی تو برطانیہ خود بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پائے گا، کیونکہ اس پر اسلحے کی فروخت کے ذریعے جنگی جرائم کی مدد اور حوصلہ افزائی کا الزام آئے گا۔
ایلیسیا کیرنز نے لندن میں ایک تقریب میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا: "دفتر خارجہ کو سرکاری قانونی ایڈوائس ملی ہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قانون کو توڑا ہے لیکن ہماری حکومت نے اس بات کو چھپالیا اور اعلان نہیں کیا، انہوں نے اسلحے کی برآمدات بھی بند نہیں کیں۔
کیرنز نے بتایا کہ وہ بھی اسرائیل کے حق دفاع پر پختہ یقین رکھتی ہیں، لیکن اپنے دفاع کے حق کی بھی ایک حد ہے، یہ لامحدود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات نے نہ صرف اس کی اپنی بلکہ برطانیہ کی طویل مدتی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
واضح رہے کہ 2022 میں برطانیہ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات 42 ملین یورو تھی۔
جنوری میں خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کے ایک اجلاس میں، کیرنز نے وزیر خارجہ کیمرون سے براہ راست سوال کیا کہ کیا "آپ نے کبھی دفتر خارجہ کے وکیل کا قانونی مسودہ نہیں دیکھا جس میں کہا گیا ہو کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اس کے جواب میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ میں اپنے سامنے پیش کیے گئے ہر کاغذ کو یاد نہیں کرسکتا، میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا، تاہم اگر آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا میں فکرمند ہوں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ہاں، یقیناً میں اس کے بارے میں فکر مند ہوں۔ اس لیے میں اسلحے کی برآمدات کے بارے میں مشورہ دیتے وقت دفتر خارجہ کے وکلاء سے مشورہ کرتا ہوں۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کی سربراہ ایلیسیا کیرنز نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری نہیں کر رہا تاہم حکومت اس بات کو چھپا رہی ہے۔
برطانوی و اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایک لیک شدہ ریکارڈنگ سے یہ انکشاف ہوا کہ برطانوی حکومت کو اس کے اپنے وکیلوں کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم برطانوی حکومت نے یہ رپورٹ دبالی ہے اور اس کو مشتہر نہیں کیا گیا۔
ایلیسیا کیرنز نے بتایا کہ "مجھے یقین ہے کہ حکومت نے غزہ جنگ پر اپنا تازہ ترین جائزہ مکمل کرلیا ہے جس میں حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری نہیں کر رہا جو وہ قانونی طور پر کرنے کا پابند ہے۔ اس موقع پر بین الاقوامی قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے برطانوی حکومت کو شفافیت کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ بات ظاہر کرنے سے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور وزیر اعظم رشی سونک شدید دباؤ میں آجائیں گے کیونکہ برطانیہ میں سرکاری وکلا کی جانب سے ایسی کسی بھی قانونی ایڈوائس ملنے کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کو نہ صرف بلاتاخیر اسرائیل کو تمام ہتھیاروں کی فروخت بند کرنی پڑے گی بلکہ اس کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی روکنا ہوگا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے باوجود برطانیہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند نہ کی تو برطانیہ خود بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پائے گا، کیونکہ اس پر اسلحے کی فروخت کے ذریعے جنگی جرائم کی مدد اور حوصلہ افزائی کا الزام آئے گا۔
ایلیسیا کیرنز نے لندن میں ایک تقریب میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا: "دفتر خارجہ کو سرکاری قانونی ایڈوائس ملی ہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قانون کو توڑا ہے لیکن ہماری حکومت نے اس بات کو چھپالیا اور اعلان نہیں کیا، انہوں نے اسلحے کی برآمدات بھی بند نہیں کیں۔
کیرنز نے بتایا کہ وہ بھی اسرائیل کے حق دفاع پر پختہ یقین رکھتی ہیں، لیکن اپنے دفاع کے حق کی بھی ایک حد ہے، یہ لامحدود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات نے نہ صرف اس کی اپنی بلکہ برطانیہ کی طویل مدتی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
واضح رہے کہ 2022 میں برطانیہ کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات 42 ملین یورو تھی۔
جنوری میں خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کے ایک اجلاس میں، کیرنز نے وزیر خارجہ کیمرون سے براہ راست سوال کیا کہ کیا "آپ نے کبھی دفتر خارجہ کے وکیل کا قانونی مسودہ نہیں دیکھا جس میں کہا گیا ہو کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اس کے جواب میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ میں اپنے سامنے پیش کیے گئے ہر کاغذ کو یاد نہیں کرسکتا، میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا، تاہم اگر آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا میں فکرمند ہوں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ہاں، یقیناً میں اس کے بارے میں فکر مند ہوں۔ اس لیے میں اسلحے کی برآمدات کے بارے میں مشورہ دیتے وقت دفتر خارجہ کے وکلاء سے مشورہ کرتا ہوں۔