موسمیاتی تبدیلی اور ہمارا انفرا اسٹرکچر

پاکستان کے تین بڑے شہرکراچی، لاہور اور فیصل آباد موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اِنتہائی خطرناک تصورکیے جاتے ہیں

پاکستان کے تین بڑے شہرکراچی، لاہور اور فیصل آباد موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اِنتہائی خطرناک تصورکیے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

خیبرپختونخوا میں شدید بارشوں و ژالہ باری کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں صوبے کے مختلف اضلاع میں ندی نالوں میں طغیانی آنے سے فصلیں تباہ، جب کہ بجلی کی سپلائی معطل ہوچکی ہے، بارش کے باعث ہونے والے حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد دس بتائی گئی ہے، جو زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ تمام فیڈرز ٹرپ کر جانے سے پشاور شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔ مکانات کی چھتیں اور دیواریں گرنے سے جانی ومالی نقصان ہوا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جہاں ساری دنیا متاثر ہوئی ہے، وہیں ہمارا ملک بھی اِن متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ اربوں،کھربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں، مکانات اور انفرااسٹرکچر سیلاب کی نذر ہوگئے۔ پاکستان کے تین بڑے شہرکراچی، لاہور اور فیصل آباد موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اِنتہائی خطرناک تصورکیے جاتے ہیں۔

موسم ایک دوسرے میں خلط ملط ہو رہے ہیں۔ یقیناً ان موسموں کے انسانی صحت پر انتہائی مضر اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے منصوبہ سازوں اور حکمرانوں کی بھی اس جانب توجہ نہیں جا رہی ہے، اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلسل تیسری بار ایک ہی جماعت کی صوبائی حکومت قائم ہوچکی ہے، لیکن صوبے میں جو تباہی کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ صوبائی حکومت اور بے شمار سرکاری محکموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ سرکاری محکموں میں ہزاروں اہلکاروں کی صرف تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اربوں روپے ماہانہ اخراجات آتے ہیں جب کہ کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔

ایک ایسے ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے، جسے معلوم ہو کہ کبھی بھی کسی بھی وقت اُس پر کوئی بھی قدرتی آفت آسکتی ہے ، اسے سب سے پہلے ان آنے والی مصیبتوں سے بچنے یا پھر ان سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے پر توجہ دینا اور توانائی صرف کرنا چاہیے۔ یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے انفرااسٹرکچر کو اتنا مضبوط کرلیں کہ آنے والے بوجھ کو سہارنے کے قابل ہو سکیں۔

درحقیقت درختوں کو مسلسل کاٹنے اور لکڑی کی اسمگلنگ اور نئے درخت نہ لگانے سے موسمی تغیر و تبدل میں گرمی کا دورانیہ بڑھ رہا ہے جس سے فطری طور پر زمین کی سطح پر موجود پانی خشک ہونا شروع ہو جائے گا اور اس طرح زیر زمین پانی بھی نایاب ہو جائے گا۔

ہمیں اس وقت نئے ڈیمزبنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرکے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں بھی ان تدابیر کو اپنانے اور لاگو کرنے کے لیے حکومت کو مختلف اِقدامات اٹھانے چاہئیں۔پاکستان گلوبل وارمنگ یا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ایک فی صد کا حصے دار ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی و جنوبی ایشیا کے وسط میں واقع ہے۔ پیش گوئیوں کے مطابق اسی خطے میں درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار سب سے زیادہ رہے گی۔ کراچی میں1945 میں آخری مرتبہ سونامی آیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند میں کسی بڑے زلزلے کی صورت میں سونامی کی لہریں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں اور یہ پورے شہر کو لے ڈوبیں گی۔ عالمی ماہرین پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ جانے کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔

درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیر پگھلنے اور سیلاب آنے کے خدشات بھی دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ سیلابوں کے حوالے سے پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔ کلائمیٹ رسک کنٹری پرو فائل کے مطابق پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا ہے اور 191ممالک میں رسک کے حساب سے پاکستان کا نمبر اٹھارہواں ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک نتیجہ قحط اور معاشی تباہی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ گو پاکستان میں ہر تباہی کا حجم اور اثر دنیا بھر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

دریا خشک ہونے، آبادی میں ہوشربا اضافے، دریا کے گرد جنگل کا خاتمہ ہونے اور شہر کی شاہراہوں پر قائم درختوں کی کٹائی کی وجہ سے لاہور، کراچی، فیصل آباد سمیت دیگر تمام شہر بھی شدید لو اور دھوپ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔ہیٹ ویو کو پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھا جا رہاہے۔

ماہرین کے مطابق گلوبل وارمنگ کئی گنا خطرناک ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین مسئلہ ہے۔ ہم اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چر ا سکتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور زمینی حالات کی تبدیلی کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہاں ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمدات کا انحصار زرعی شعبے پر ہی ہے۔


مون سون کی معمول سے زیادہ بارشوں کے ممکنہ تباہ کن اثرات اور موسمی تغیرات سے نمٹنے کے لیے تمام تر پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، کیونکہ خاص طور پر موسم گرما کے مون سون کے اوقات میں سیلاب اور تیز بارشوں سے لوگوں کی زندگیوں اور معاش کے ساتھ ساتھ عوامی انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی جیکب آباد ضلع کے درجہ حرارت نے 52 سینٹی گریڈ کو چھو لیا ہے۔

ماہرین کے مطابق جیکب آباد اب انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہی اور اس کی آبادی کو کہیں اور منتقل کرنا پڑے گا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں سب سے بری طرح پاکستان کو متاثر کر رہی ہیں اور ان کا اثر اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ایک گنجان آباد ملک ہے۔

مون سون کی بارشوں کے بدلتے انداز نے اس کا دائرہ پاکستان میں دو سو کلومیٹر دور تک پھیلا دیا ہے، یعنی پہلے ان بارشوں کی حد دریائے سندھ تک تھی اور اب یہ پاک افغان بارڈر کو کراس کر کے جلال آباد، قندھار اور ایرانی بلوچستان تک بھی پہنچ چکی ہے۔ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ موسم میں صرف کراچی میں معمول سے چار سو گنا زیادہ بارش ہوئیں۔ بلوچستان میں یہ شرح پانچ سو اور سندھ میں آٹھ سو فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ جتنی بارشیں صدیوں میں ہوتی ہیں وہ ایک ڈیڑھ مہینے میں برس چکی ہیں۔ موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا۔ وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔

مثال کے طور پر لاہور کے زیر زمین پانی کی سطح بہت سرعت کے ساتھ نیچے جا رہی ہے اور اس وقت چار سو فٹ کی کھدائی پر بھی پانی نہیں نکلتا اور پانی کی جگہ زہریلی دھاتیں اور گیسز نکل رہی ہیں جن کے جسم میں داخل ہوتے ہی انسانی زندگی کا دورانیہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

اس پر واسا کے حکام نے اپنی سرجوڑ نشستوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زیر زمین پانی کی تلاش میں شاید ہمیں اپنے ٹیوب ویلوں کے لیے ایک ہزار فٹ تک کی کھدائی کرنا پڑے۔ مگر آبی ماہرین کی مرتب کردہ اس رپورٹ کی روشنی میں تو لاہور میں زیر زمین پانی ایک ہزار فٹ کی کھدائی پر بھی شاید دستیاب نہیں ہو پائے گا۔

ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو سن دو ہزار پچیس تک قحط جیسی صورت حال یا پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔اس ادارے کے مطابق یہ بات درست ہے کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر بر وقت اقدام نہ اٹھائے گئے تو دس سال بعد ملک میں پانی کی شدید قلت ہونے کا خطرہ ہے اور بات قحط سالی تک بھی جاسکتی ہے۔

آبی امور کے ماہرین کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی ہماری صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اُس کی تعمیر کے وقت دس ملین ایکڑ فیٹ تھی تو وہ اب چھ ملین فیٹ ہوگئی ہے۔

اس کمی کی ایک وجہ جنگلات کے سکڑنے کا عمل بھی ہے۔ درختوں کے کٹنے سے مٹی کے جمع ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ درخت نہ ہونے کی وجہ سے کیوں کہ پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا لہٰذا مٹی، کنکر، پتھر اور ریت آکر ڈیموں اور بیراجوں کے ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق معمول سے زیادہ بارشوں کا یہ سلسلہ اگلے دس سال تک چلے گا اور پھر یہ سلسلہ نہ صرف رک جائے گا بلکہ خشکی کا دورانیہ شروع ہو گا اور قحط کی صورتحال بن سکتی ہے۔ ابھی اس خطرے کا صحیح ادراک حکومت کو نہیں ہے لیکن جتنا بڑا یہ خطرہ ہے اس کے بعد پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کا پیراڈائم اب تزویراتی خطرات سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات میں شفٹ ہو چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پیشگی اور بروقت اقدامات کو یقینی بنائے۔
Load Next Story