لسانیات کے مضامین میں نتائج کی مایوس کن شرح کراچی میں تعلیمی زوال کا نیا منظرنامہ

رواں سال انٹرسال اول کی تمام فیکلٹیز میں اردو میں 33ہزار سے زائد اور انگریزی میں 36 ہزار سے زائد طلبہ فیل ہوئے

طلبہ کے نتائج سے سرکاری کالجوں کے تعلیمی اور اساتذہ کے معیار پر سوالات اٹھ گئے ہیں—فائل؛ فوٹو

کراچی میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر طلباء وطالبات کی کامیابی کی شرح میں مسلسل کمی شہر میں ایک بڑے تعلیمی زوال کا منظرپیش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں انتہائی پریشان کن اور حیرت انگیز حقائق سامنے آرہے ہیں، جن کے مطابق اب تمام ہی فیکلٹیز کے طلبہ کا لسانیات کے مضامین (اردو اور انگریزی) سے رجحان تقریباً ختم ہو رہا ہے۔

"ایکسپریس"کو اس سلسلے میں اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی سے ملنے والے سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ رواں سال انٹرسال اول کی تمام فیکلٹیز میں اردو میں مجموعی طور پر 33ہزار سے زائد اور انگریزی میں مجموعی طور پر36 ہزار سے زائد طلبہ فیل ہوئے ہیں۔

رواں سال انٹرسال اول کی تمام فیکلٹیز میں اردو میں فیل ہونے والے طلبہ کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 13ہزار کا اضافہ ہوا ہے، انگریزی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ تعداد 7ہزار زیادہ ہے۔

انٹرسال اول میں رواں سال پری انجینیئرنگ، پری میڈیکل، سائنس جنرل، کامرس ریگولر اور کامرس پرائیویٹ کی فیکلٹیز میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 6ہزار39 طلبہ میں سے 31 فیصد طلبہ اردو اور تقریباً 34 فیصد انگریزی میں فیل ہوگئے ہیں جبکہ سال 2022 میں یہ تعداد اس سے کہیں کم تھی۔

انتہائی پیچیدہ اور خطرناک صورت حال انٹرسال اول کامرس ریگولرکے چند روز قبل جاری ہونے والے سال 2023کے نتائج میں سامنے آئی ہے جہاں اردو میں 15 ہزار 257 طلبہ اور انگریزی میں 17 ہزار 397 طلبہ فیل ہوگئے ہیں، جو امتحانات میں شریک طلبہ کی مجموعی تعداد کا بالترتیب 44.6 فیصد اور50.8فیصد ہے، یعنی کامرس ریگولر میں اردو میں 44 فیصد اور انگریزی میں نصف تعداد50فیصد طلبہ فیل ہوئے ہیں۔

مذکورہ امتحانات میں 34 ہزار 198 طلبہ شریک ہوئے تھے جبکہ باقی تمام فیکلٹیز، جن میں کامرس (پرائیویٹ)، سائنس جنرل، پری میڈیکل اور پری انجینیئرنگ شامل ہے، میں بھی ان مضامین کے حوالے سے صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔

انٹربورڈ کے نتائج نے سرکاری کالجوں میں تدریسی معیار پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں، کالجوں میں طلبہ کی حاضری کا نظام، وہاں پڑھانے والے اساتذہ اور خود ان کی تدریس میں دلچسپی اور محکمہ کالج ایجوکیشن کی نگرانی کے نظام سے متعلق صورت حال طلبہ کے نہ صرف نتائج بلکہ ان کی اہلیت پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔

"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں انٹرمیڈیٹ بورڈ میں خراب نتائج کی وجوہات سے پردہ اٹھانے والے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے کنوینر اور این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی سے جب رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا"کہ اکیڈمک معیارات اس لیے خراب ہو رہے ہیں کہ اساتذہ کی اکثریت نہیں پڑھا رہی اور کیونکہ خود اساتذہ کے اپنے معیار پر ہی سوالیہ نشان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کالجوں میں مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہیں ہے اگر مانیٹرنگ ٹھیک انداز سے ہو تو اس کے بہتر اثرات سامنے آئیں گے، اب اثرات یہ سامنے آرہے ہیں کہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی بچے نہ صحیح انگریزی اور اردو بول پا رہے ہیں اور نہ ہی صحیح انگریزی اور اردو لکھ پا رہے ہیں، اب اسکولوں اور کالجوں میں میجر آپریشن کی ضرورت ہے، ہمیں معیشت سے زیادہ تعلیمی بحران کا سامنا ہے"۔

ادھر انٹرسال اول کی دیگر فیکلٹیز کا ذکر کریں تو وہاں بھی صورت حال خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، انٹرسال اول سائنس پری میڈیکل کے امتحانات2023 میں شریک مجموعی 30 ہزار 512 طلبہ میں سے 7 ہزار 509 اردو، 9 ہزار 35 طلبہ انگریزی کے پرچے میں فیل ہوئے ہیں جبکہ 2022 میں اردو میں فیل ہونے والے طلبہ کی تعداد 4002 اور انگریزی میں فیل ہونے والے طلبہ کی تعداد 6439 تھی۔

مزید براں انٹرسال اول پری انجینیئرنگ کے امتحانات 2023 میں مجموعی طور پر23 ہزار 944 طلبہ شریک ہوئے تاہم اس میں بھی اردوکے مضمون میں 6 ہزار 325 اور انگریزی میں 5 ہزار 622 طلبہ فیل ہوگئے جبکہ 2022کے گزشتہ امتحانات میں اردو میں فیل ہونے والوں کی تعداد 4 ہزار 22 اور انگریزی میں فیل ہونے والے طلبہ کی تعداد 5 ہزار 601 تھی۔

اسی طرح سائنس جنرل انٹر سال اول کے امتحانات 2023 میں شریک 15399طلبہ میں سے اردومیں 3164 اور انگریزی میں 2892 طلبہ فیل ہوئے۔

کامرس پرائیویٹ کی فیکلٹی میں انٹرسال اول 2023کے امتحانات میں 1986 شریک طلبہ میں سے اردو میں 953 اور انگریزی میں 1140 طلبہ فیل ہوئے۔


انٹربورد کراچی کے چیئرمین پروفیسر نسیم میمن سے جب اس سلسلے میں "ایکسپریس"نے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے کامرس ریگولر کے نتائج کی دوبارہ جانچ بھی کرائی تھی اگر طالب علم کاپی خالی چھوڑ کر آیا ہے اس کا مطلب کہ طلبہ تیاری ہی صحیح نہیں کر رہے ہیں۔

انہوں نےکہا کہ بچے لسانیات کو آسان سمجھ رہے ہیں، اب اگر والدین یا بچے آئیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے ساتھ زیادہ ہوئی ہے تو ہم ان کے سامنے کاپی رکھ دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ اگربچے دلچسپی نہیں لے رہے ہیں تواس کا ذمہ دار بھی ایک حد تک استاد ہے، طالب علم کی مضمون میں دلچسپی اور استاد کی تدریس دونوں باتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، اگر بچے کی دلچسپی کم ہے تواس کا کریڈٹ بھی پروفیسر کو جاتا ہے"۔

سراج الدولہ گورنمنٹ بوائز کالج کے اردو کے پروفیسر عرفان شاہ نے بتایا کہ "کالج کی سطح پر انٹر سال اول و دوم اور اے لیول کے اردو کے نصاب میں آج بھی بڑا فرق ہے، اے لیول کا نصاب طالب علم میں تخیل کو متحرک کر رہا ہے جبکہ سرکاری نصاب تبدیلی کے باوجود طالب علم کو رٹا لگانے کی جانب مائل کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طلبہ کالج آتے نہیں ہیں اگر آتے بھی ہیں تو لسانیات کے مضمون سے بھاگتے ہیں جبکہ کوچنگ سینٹرز اردو اور انگریزی کے نوٹس کا پیٹرن بنایا ہوا ہے، اسی مخصوص پیٹرن پر طالب علم کی تیاری ہوتی ہے، اگر امتحانی پرچہ اس پیٹرن کے برعکس ہو تو طالب علم کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں، طالبعلم کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انگریزی یا اردو کے شعر یا سبق کا پس منظر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اردو کا تعلق معاش سے کم ہی رہ گیا ہے، لہٰذا ہمارے گھروں میں اردو سے شغف بھی نہیں رہا جبکہ بچوں میں لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رہی۔

انٹر بورڈ کراچی کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے پروفیسر عرفان شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی مضمون میں 40 ہزار طلبہ نے امتحان دیا ہے تو سینٹرلائزڈ اسسمنٹ کے لیے 20 ہزار کاپیاں آئیں گے، باقی 20 ہزار اساتذہ کے گھروں پر چلی جائیں گی، پھر ان کے ساتھ کیا ہوگا یہ سب جانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے بورڈ طے شدہ معیارات کے مطابق اسسمنٹ کے لیے کو ایگزامنر کے خطوط جاری کرتا تھا اب جو چاہے کو ایگزامنر بن جائے، پرائیویٹ سیکٹر سے بھی آنے والے اساتذہ کا معیار چیک نہیں ہوتا، انٹر میڈیٹ کی کاپیاں اے لیول کے اساتذہ کے حوالے کردی جاتی ہیں جو انٹرمیڈیٹ کے طالب علم کی مشکلات ہی نہیں جانتا کہ اسے کتاب کب ملی ہے اور کالج میں کتنے مہینے کلاسز ہوئی ہیں"۔

گورنمنٹ کالج نارتھ ناظم آباد کی ایک طالبہ کی والدہ نزہت فاطمہ کا کہنا تھا کہ" موبائل فون کے میسج میں استعمال ہونے والی رومن تحریر نے ہمارے طالبعلم کو لسانیات سے عاری کر دیا ہے، اب ہمارے بچے نہ اردو لکھ پاتے ہیں نہ ہی انگریزی لکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر گھر میں بات چیت کے دوران کچھ مشکل الفاظ استعمال ہوجائیں تو اس کا مطلب دریافت کرتے ہیں بچوں کا سارا زور سائنس کے اختیاری مضامین پر ہوتا ہے اور اردو یا انگریزی کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ اسے آخر وقت میں دیکھ لیں گے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اب درسی کتابوں کے علاوہ مطالعے کا رجحان موجود ہی نہیں ہے، سارا وقت موبائل فون ہے اور بچے ہیں"۔

علاوہ ازیں اردو اور انگریزی دونوں مضامین میں فیل ہونے والے ایک طالب علم رئیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان دونوں مضامین کی تیاری درسی کتاب کے بجائے کوچنگ سینٹر سے ملنے والے نوٹس سے کی تھی تاہم یہ نوٹس بھی امتحان سے کچھ عرصے پہلے ہی نکالے تھے، جو کچھ ان نوٹس سے یاد کیا تھا پرچے کے بعض حصے اس سے بالکل مختلف تھے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم کالج صرف پریکٹیکل کے لیے جاتے تھے لیکن کالج سے بھی کسی نے ہمیں پابند نہیں کیا کہ کلاسز پابندی سے لی جائیں۔

مذکورہ طالب علم کا کہنا تھا کہ انھیں دیگر مضامین میں گریس مارکس ملنے کا کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اردو اور انگریزی میں گریس مارکس نہ ملنے کے سبب وہ انٹر سال اول کے تمام مضامین پاس نہیں کرسکے ہیں۔
Load Next Story