تھکے عوام کب تک آزمائے جائیں گے
عارضی اقدامات کافی نہیں ہیں، پرائس کنٹرول کے لیے ٹھوس پالیسی لائی جائے
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی و گیس مزید کتنی مہنگی کر کے عوام کے صبر کو کب تک آزمائیں گے۔
عارضی اقدامات کافی نہیں ہیں، پرائس کنٹرول کے لیے ٹھوس پالیسی لائی جائے۔ میاں صاحب موجودہ حکومت میں وزیر اعظم نہیں مگر میاں شہباز شریف کو ایک بار آزمانے کے بعد دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لیے انھوں نے ہی نامزد کیا ہے اور صرف ان کے سمدھی اسحاق ڈار کا محکمہ تبدیل کیا ہے ۔
یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف آئی ایم ایف سے ملک کی جان چھڑانے کے خواہاں تھے مگر ملک کے معاشی حالات پی ٹی آئی حکومت اتنے خراب کر گئی تھی کہ اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو ناکوں چنے چبوا کر مزید قرض دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ اب عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور جو بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں ان کی مراد اشرافیہ سے ہوگی جو ناصرف مراعات یافتہ چلی آ رہی ہے بلکہ صرف مفادات حاصل کرتی آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی اشرافیہ پر بوجھ بڑھانے کی بات نہیں کی اور صرف یہ کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگائی مزید بڑھا کر عوام کے صبر کو کب تک آزمایا جائے گا۔
شریف فیملی بھی زرداری فیملی اور دیگر کی طرح اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے اور اقتدار میں رہنے والوں کی طرح صرف زبانی طور پر عوام کی بات کرتی ہے جس سے اب عوام مطمئن نہیں ہوتے جس کا ثبوت انھوں نے 8 فروری کے انتخابات میں دے دیا ہے اور جس طرح مسلم لیگ (ن) اقتدار میں لائی گئی ہے اس کا خود مسلم لیگ (ن) کو بھی اچھی طرح پتا ہے۔
8 فروری کے انتخابی نتائج مسلم لیگ (ن) کے اتحادی وزیر اعظم کی سولہ ماہ کی حکومت کی کارکردگی کے باعث ہی اس کے خلاف آئے جس سے پنجاب بھی اب مسلم لیگ (ن) کا پہلے جیسا گڑھ نہیں رہا جس کی وجہ اتحادی حکومت کی بڑھائی ہوئی مہنگائی تھی۔
اتحادی حکومت کی ان باتوں کو عوام نے مسترد کر دیا کہ مہنگائی اور آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے ذمے دار ہم نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی جس نے جاتے جاتے آئی ایم ایف کو ناراض کیا اور بجلی و پٹرول کی قیمت کم کردی تھی جس کا عوام نے خیر مقدم کیا تھا کیونکہ انھیں کچھ ریلیف ملا تھا جو عوام کو دیا گیا ۔
پی ٹی آئی حکومت کا واحد ریلیف تھا کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے بھی اپنے دور میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور وہ بھی مہنگائی کا ذمے دار اس وقت کی سابق مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اسی طرح قرار دیتی رہی تھی جس طرح 2022 میں اقتدار میں آنے والی اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیا تھا۔
اتحادی حکومت کی 16 ماہ کی حکومت مزید قرض کے لیے آئی ایم ایف کو منانے میں لگی رہی اور اس نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے میں بہ مشکل کامیاب ہوئی اور اسے آئی ایم ایف سے پہلی قسط بھی مل گئی تھی جس سے وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکتی تھی کیونکہ اسے نئے انتخابات میں جانا تھا مگر اس نے عوام کا خیال نہیں کیا اور اس کے بعد جو نگراں حکومت آئی تھی اس نے 6 ماہ میں عوام کا مزید بیڑا غرق کر دیا۔
نگراں حکومت سیاسی رہنماؤں پر ہی مشتمل تھی اور عوام اسے پی ڈی ایم حکومت کا تسلسل ہی سمجھتے تھے۔ پی ڈی ایم حکومت میں پیپلز پارٹی اہم اتحادی تھی جس نے حکومت ختم ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کو مہنگائی کا ذمے دار قرار دیا اور بلاول بھٹو نے مہنگائی کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ (ن) کے خلاف کامیاب انتخابی مہم چلائی جس کا جواب (ن) لیگ نہ دے سکی اور اسے شکست ہوئی جس کے بعد نئی حکومت بننے کے مرحلے میں بھی پیپلز پارٹی نے ہوشیاری دکھائی۔
مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر اپنا وزیر اعظم لانے کا موقعہ دیا اور اہم آئینی عہدے لے کر (ن) لیگی حکومت پر معاملات چھوڑ دیے جس نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی جدوجہد شروع کی جس پر میاں نواز شریف کو کہنا پڑا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ملک میں مزید مہنگائی بڑھا کر عوام کے صبر کا کب تک امتحان لیا جائے گا۔ موجودہ حکمران اس کو حکومت کی مجبوری قرار دے کر جان نہیں چھڑا سکتے۔
حکومت اپنے امور چلانے اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے مزید قرض لے گی جس کا مزید بوجھ عوام پر ہی پڑنا ہے اور عوام کی مزید چیخیں رمضان ہی میں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ میاں نواز شریف نے پرائس کنٹرول کے لیے ٹھوس پالیسی لانے کی جو بات کی ہے اس کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ پرائس کنٹرول کرنا اب صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے جب کہ مہنگائی پہ مہنگائی بڑھانا اب وفاقی حکومت کا کام ہے جس نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ہے جس سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔
بہتر ہوتا کہ میاں نواز شریف اپنی حکومت پر حکومتی اخراجات کم کرنے، آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرنے کا کہتے۔ عشروں سے حکومتیں جو غیر ملکی قرضے لے رہی ہیں وہ عوام کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنی عیاشیوں اور حکومت چلانے کے لیے لیتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے انھیں قرض دینے والوں کی شرائط پوری کرنا پڑتی ہیں جس سے عوام مزید متاثر ہوتے ہیں۔
ملک پر قرض کا بوجھ بڑھتا ہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی مقروض پیدا ہو رہی ہیں اور اس طرح کبھی مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ اب تو عوام کا صبر بھی جواب دے گیا ہے اور اب عوام مزید آزمائے جانے کے قابل نہیں رہے ہیں کیونکہ عوام نے صبر کا ٹھیکہ نہیں لیا اس لیے بہتر ہوگا کہ عوام کے صبر کو مزید نہ آزمایا جائے۔
عارضی اقدامات کافی نہیں ہیں، پرائس کنٹرول کے لیے ٹھوس پالیسی لائی جائے۔ میاں صاحب موجودہ حکومت میں وزیر اعظم نہیں مگر میاں شہباز شریف کو ایک بار آزمانے کے بعد دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لیے انھوں نے ہی نامزد کیا ہے اور صرف ان کے سمدھی اسحاق ڈار کا محکمہ تبدیل کیا ہے ۔
یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف آئی ایم ایف سے ملک کی جان چھڑانے کے خواہاں تھے مگر ملک کے معاشی حالات پی ٹی آئی حکومت اتنے خراب کر گئی تھی کہ اتحادی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو ناکوں چنے چبوا کر مزید قرض دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ اب عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور جو بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں ان کی مراد اشرافیہ سے ہوگی جو ناصرف مراعات یافتہ چلی آ رہی ہے بلکہ صرف مفادات حاصل کرتی آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی اشرافیہ پر بوجھ بڑھانے کی بات نہیں کی اور صرف یہ کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگائی مزید بڑھا کر عوام کے صبر کو کب تک آزمایا جائے گا۔
شریف فیملی بھی زرداری فیملی اور دیگر کی طرح اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے اور اقتدار میں رہنے والوں کی طرح صرف زبانی طور پر عوام کی بات کرتی ہے جس سے اب عوام مطمئن نہیں ہوتے جس کا ثبوت انھوں نے 8 فروری کے انتخابات میں دے دیا ہے اور جس طرح مسلم لیگ (ن) اقتدار میں لائی گئی ہے اس کا خود مسلم لیگ (ن) کو بھی اچھی طرح پتا ہے۔
8 فروری کے انتخابی نتائج مسلم لیگ (ن) کے اتحادی وزیر اعظم کی سولہ ماہ کی حکومت کی کارکردگی کے باعث ہی اس کے خلاف آئے جس سے پنجاب بھی اب مسلم لیگ (ن) کا پہلے جیسا گڑھ نہیں رہا جس کی وجہ اتحادی حکومت کی بڑھائی ہوئی مہنگائی تھی۔
اتحادی حکومت کی ان باتوں کو عوام نے مسترد کر دیا کہ مہنگائی اور آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے ذمے دار ہم نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی جس نے جاتے جاتے آئی ایم ایف کو ناراض کیا اور بجلی و پٹرول کی قیمت کم کردی تھی جس کا عوام نے خیر مقدم کیا تھا کیونکہ انھیں کچھ ریلیف ملا تھا جو عوام کو دیا گیا ۔
پی ٹی آئی حکومت کا واحد ریلیف تھا کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے بھی اپنے دور میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور وہ بھی مہنگائی کا ذمے دار اس وقت کی سابق مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اسی طرح قرار دیتی رہی تھی جس طرح 2022 میں اقتدار میں آنے والی اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیا تھا۔
اتحادی حکومت کی 16 ماہ کی حکومت مزید قرض کے لیے آئی ایم ایف کو منانے میں لگی رہی اور اس نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے میں بہ مشکل کامیاب ہوئی اور اسے آئی ایم ایف سے پہلی قسط بھی مل گئی تھی جس سے وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکتی تھی کیونکہ اسے نئے انتخابات میں جانا تھا مگر اس نے عوام کا خیال نہیں کیا اور اس کے بعد جو نگراں حکومت آئی تھی اس نے 6 ماہ میں عوام کا مزید بیڑا غرق کر دیا۔
نگراں حکومت سیاسی رہنماؤں پر ہی مشتمل تھی اور عوام اسے پی ڈی ایم حکومت کا تسلسل ہی سمجھتے تھے۔ پی ڈی ایم حکومت میں پیپلز پارٹی اہم اتحادی تھی جس نے حکومت ختم ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کو مہنگائی کا ذمے دار قرار دیا اور بلاول بھٹو نے مہنگائی کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ (ن) کے خلاف کامیاب انتخابی مہم چلائی جس کا جواب (ن) لیگ نہ دے سکی اور اسے شکست ہوئی جس کے بعد نئی حکومت بننے کے مرحلے میں بھی پیپلز پارٹی نے ہوشیاری دکھائی۔
مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر اپنا وزیر اعظم لانے کا موقعہ دیا اور اہم آئینی عہدے لے کر (ن) لیگی حکومت پر معاملات چھوڑ دیے جس نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی جدوجہد شروع کی جس پر میاں نواز شریف کو کہنا پڑا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ملک میں مزید مہنگائی بڑھا کر عوام کے صبر کا کب تک امتحان لیا جائے گا۔ موجودہ حکمران اس کو حکومت کی مجبوری قرار دے کر جان نہیں چھڑا سکتے۔
حکومت اپنے امور چلانے اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے مزید قرض لے گی جس کا مزید بوجھ عوام پر ہی پڑنا ہے اور عوام کی مزید چیخیں رمضان ہی میں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ میاں نواز شریف نے پرائس کنٹرول کے لیے ٹھوس پالیسی لانے کی جو بات کی ہے اس کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ پرائس کنٹرول کرنا اب صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے جب کہ مہنگائی پہ مہنگائی بڑھانا اب وفاقی حکومت کا کام ہے جس نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ہے جس سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔
بہتر ہوتا کہ میاں نواز شریف اپنی حکومت پر حکومتی اخراجات کم کرنے، آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرنے کا کہتے۔ عشروں سے حکومتیں جو غیر ملکی قرضے لے رہی ہیں وہ عوام کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنی عیاشیوں اور حکومت چلانے کے لیے لیتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے انھیں قرض دینے والوں کی شرائط پوری کرنا پڑتی ہیں جس سے عوام مزید متاثر ہوتے ہیں۔
ملک پر قرض کا بوجھ بڑھتا ہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی مقروض پیدا ہو رہی ہیں اور اس طرح کبھی مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ اب تو عوام کا صبر بھی جواب دے گیا ہے اور اب عوام مزید آزمائے جانے کے قابل نہیں رہے ہیں کیونکہ عوام نے صبر کا ٹھیکہ نہیں لیا اس لیے بہتر ہوگا کہ عوام کے صبر کو مزید نہ آزمایا جائے۔