یوتھ ڈویلمپنٹ خواب سے حقیقت تک
نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے جامع حکمت عملی اپنانی ہوگی
کسی بھی قوم کا مستقبل، حقیقی سرمایہ اور چہرہ اُس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ٹریننگ اور ورکشاپ کے انعقاد کے لیے ملک بھر کے مختلف شہروں، حصوں، علاقوں اور اداروں میں جانے اور کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ جس بات کا مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ نوجوانوں کا اتنی بڑی تعداد میں جدید تعلیم سے آراستہ نہ ہونا، ٹیکنیکل سکلز، انٹر پرسنل سکلز اور مستقبل کی مہارتوں سے نا آشنا ہونا ہے۔
ہمارے ہاں یہ بات اکثر دہرائی جاتی ہے کہ ہمارے نوجوان بہت ٹیلنٹڈ ہیں اور ان میں بے شمار صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہوں اور اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں۔ لیکن اصل مسئلہ با صلاحیت ہونا نہیں بلکہ اپنی ان قدرتی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا اور اسے اپنی ذات اور معاشرے کے لیے کارآمد بنانا ہے۔ اس ضمن میں مختلف ادارے، این جی او اور حکومتی سطح پر نوجوانوں کی ترقی، فلاح و بہبود اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف پروگرام متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے پروگرام مرتب کرنے سے قبل ان پروگراموں میں نوجوانوں کی رائے، اور خیالات کو شامل کرنا چاہے۔
میں نوجوانوں کے ساتھ اپنے تجربے، مشاہدات اور براہ راست زندگی کے تجربات کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی نوجوان صلاحیتوں سے معمور ہے لیکن جدید سہولتوں اور مہارتوں سے ناواقف ہے۔
اس مضمون میں ہم بات کریں گے کہ یوتھ ڈیویلپمنٹ کیوں ضروری ہے اور کیسے ممکن ہے؟ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور دیر پا ترقی کے لیے قابل قدر، ٹھوس اقدامات کرنے کی کیوں ضرورت ہے؟
نوجوانوں کو معاشرے میں کارآمد بنانے اور فعال کردار ادا کرنے کے لیے کن عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے؟
آج کا نوجوان کن نکات پر کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کر سکتا ہے؟
میرا پس منظر
میں اپنے ذاتی پس منظر اور اب تک کی زندگی کے سفر سے عام پاکستانی نوجوانوں کے مسائل سے بہ خوبی واقف ہوں۔ ان مسائل عام نوجوانوں کو تقریباً پورے پاکستان میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے میری نظر میں جب تک ہم ان مسائل کی بھرپور نشاندہی نہیں کرتے ہیں ہم نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے ہمت اور سمت نہیں دے سکتے ہیں۔
میری نظر میں یہ نوجوان اگر ان نکات پر عمل کریں تو وہ کام یابی کے سفر پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں نوجوانوں کی اجتماعی صورت حال تقریبا ایک ہی جیسی ہے۔ ہاں البتہ یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان ایک کثیرالنسل، مختلف ثقافتوں اور قوموں پر مبنی ملک ہے۔ جس میں نوجوانوں کی بھی کئی اقسام ہیں، جن میں ایک قسم کے وہ نوجوان ہیں، جنہیں کسی بھی طرح سے کسی مالی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے، بلکہ وہ زندگی کے دیگر مسائل کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ اکثریت ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جو لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہوئے زیادہ تر معاشی مسائل کی وجہ سے کام یابی سے ہمکنار نہیں ہو پاتے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو زندگی میں کچھ نہ کرنے کا ٹھوس منصوبہ بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے شان دار پروگرام اور سہولتیں بھی کسی طرح کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ میری رائے میں ہمیں پاکستان کے زیادہ تر مڈل کلاس نوجوانوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو اس معاشرے اور ملک کی تبدیلی کے حقیقی علمدار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان نوجوانوں کو یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت، تعلیم و تربیت اور لائحہ عمل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ زندگی میں کام یابی کی شاہراہ پر گام زن ہو سکیں، اور انفرادی اور اجتماعی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔
میری نظر میں نوجوانوں کو ان چار اہم اور بنیادی نکات پر تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ساتھ انہیں وہ مہارتیں اور سہولتیں دینے کی ضرورت ہے جو کام یابی کے سفر میں ان کی معاونت کر سکیں۔ چوںکہ یہ بنیادی کام ریاست کا ہے لیکن پاکستان مختلف مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی اصل طاقت یعنی نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرنیسے کسی حد تک کا قاصر رہا ہے۔ اس لیے میرا ان تمام نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ وہ ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے خود پر ابھی سے کام کرنا شروع کریں تاکہ وہ اپنی کام یابی کی منزل کی بنیاد خود رکھ سکیں۔
پرسنل ڈیویلپمنٹ
پاکستانی معاشرے میں گھروں میں تعلیم و تربیت کا رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بچے گھروں میں تعلیم و تربیت اور بنیادی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں، اور بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس محرومی کو دور کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس کی بدولت یہ بچے با صلاحیت اور محنتی ہونے کے باوجود زندگی میں بہت آگے تک نہیں جا پاتے ہیں۔
اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کو اپنی پرسنل ڈیویلپمنٹ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس میں انہیں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ کون ہیں، ان کے اندر کیا صلاحیتیں اور مہارتیں پائی جاتی ہیں اور انہیں اپنی کن خوبیوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ ایک بہترین انسان بن سکیں۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ میں آپ کا لباس، گفتگو کرنے کا انداز، لوگوں سے تعلقات و روابط، اپنی ذات کا گہرا مطالعہ اور قدرتی صلاحیتوں کے بارے میں جاننے کا عمل شامل ہے۔
پروفیشنل ڈیویلپمنٹ
پرسنل ڈیویلپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے نوجوان جو چھوٹے علاقوں اور شہروں سے آتے ہیں وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت زیادہ ترقی نہیں کر پاتے ہیں۔ حالاںکہ یہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ محنتی، ایمان دار اور باصلاحیت بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارنے، نئی چیزوں کو سیکھنے اور خود کو وقت کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت دوسروں سے کم ہوتی ہے۔ اس لیے یہ اپنی ذات پر ترقی نہ کرنے کی وجہ سے اپنی ہی کام یابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ پیشہ وارانہ ترقی کے لیے انسان کو نئے رویوں، نیٹ ورکنگ اور اپنے شعبے میں نت نئے آنے والے رجحانات سے بہ خوبی واقف رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے لیے جہاں مسلسل تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں سب سے بنیادی خوبی مائنڈ سیٹ ہوتا ہے جومثبت رویوں پر منحصر ہوتا ہے۔ نوجوان شروع شروع میں اپنے پروفیشنل کیریئر کو سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن چند سالوں بعد ان کے کریئر میں ترقی ہونے کی بجائے تنزلی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے لیے لازمی ہے کتابوں کا مطالعہ، اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور ماہر لوگوں سے مشورہ، مسلسل سیکھنے کی لگن اور آگے بڑھنے کی جستجو انتہائی لازمی امر ہے۔
روحانی اور نفسیاتی ڈویلپمنٹ
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مالی ترقی اور بڑے عہدے پر فائض ہونا ہی کام یابی سمجھا جاتا ہے۔ مادی اور اقتصادی دُنیا میں یہ چلن عام ہے، لیکن اس دوران انسان اپنی زندگی کے بنیادی مقصد اور رُوح کی تشنگی کو کہیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ مجھے کبھی کبھی بڑی شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان روحانی اور نفسیاتی طور پر بہت کم زور ہیں۔ ان کا اپنے خالق سے تعلق، روحانیت کا عملی تجربہ، اور ذہنی پختگی کی بہت ضرورت ہے، کیوںکہ ہمارا معاشرہ مختلف مسائل کا شکار ہے۔
اس لیے اگر نوجوان نفسیاتی اور روحانی طور پر مضبوط نہیں ہیں تو وہ بہت جلد حالات سے مایوس ہو کر ہمت ہار جاتے ہیں اور منفی سوچوں اور رویوں کو اپنا کر اپنی زندگی کے اصل مقصد سے کہیں دور چلے جاتے ہیں۔ روحانی اور نفسیاتی و ذہنی طور پر مضبوط نوجوان حالات، مشکلات اور مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ نوجوانوں کو اس لیے مذہبی اور نفسیات کی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ذات اور رُوح کی بہترین حفاظت کر سکیں۔
معاشی ترقی
یاد رکھیں یہ دُنیا ایک حقیقت ہے، اور اس کی سب سے بڑی حقیقت معاشی ترقی ہے۔ ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہمیں شروع سے ہی دولت کے متعلق بہت عجیب و غریب اور غلط قسم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس لیے ہم معاشی ترقی کو کبھی بھی اپنی زندگی میں ترجیح نہیں بناتے ہیں۔ یا تو ہماری زندگی کا مقصد صرف معاشی ترقی ہوتا ہے اور یا پھر سرے سے ہی اسے نظرانداز کرنا ہوتا ہے۔ میں اپنی زندگی کے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معاشی ترقی انسان کی زندگی اور آزادی کا سب سے بڑا عملی ثبوت ہے۔ نوجوانوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے انہیں ابتدا سے ہی تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت ہے اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے، بچت کرنے اور معشیت کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔
آج کے دور میں اگر ہم معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو ہمارے علم کی بھی قدر ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ پاکستانی معاشرے میں علم دولت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو اس ضمن میں آگاہی اور ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔ کہ وہ خود کفیل بنتے ہوئے معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں۔
یہ چار وہ بنیادی اور اہم نکات ہیں جن پر حکومتی اور ملکی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو اس ضمن میں متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ قوم کی ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کر سکے۔
نوجوانوں کو میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنی منزل کی تلاش میں نکلتے ہوئے، اپنے ارادوں کو مضبوط، سوچوں کو بلند اور خوابوں کو بڑا رکھیں۔
اور حالات کا نوحہ رونے کی بجائے اپنی منزل کی جان بڑھتے رہیں۔
بابا نجمی کا یہ معروف شعر ان نوجوانوں کے لیے ہے:
بے ہمتے نے جہڑے بہہ کے شکوہ کرن مقدراں دا
اگن والے اگّ پیندے نے سینہ پاڑ کے پتھراں دا
منزل دے متھے دے اتے تختی لگدی اوہناں دی
جہڑے گھروں بنا کے ٹردے نقشہ اپنے سفراں دا
ہمارے ہاں یہ بات اکثر دہرائی جاتی ہے کہ ہمارے نوجوان بہت ٹیلنٹڈ ہیں اور ان میں بے شمار صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہوں اور اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں۔ لیکن اصل مسئلہ با صلاحیت ہونا نہیں بلکہ اپنی ان قدرتی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا اور اسے اپنی ذات اور معاشرے کے لیے کارآمد بنانا ہے۔ اس ضمن میں مختلف ادارے، این جی او اور حکومتی سطح پر نوجوانوں کی ترقی، فلاح و بہبود اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف پروگرام متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے پروگرام مرتب کرنے سے قبل ان پروگراموں میں نوجوانوں کی رائے، اور خیالات کو شامل کرنا چاہے۔
میں نوجوانوں کے ساتھ اپنے تجربے، مشاہدات اور براہ راست زندگی کے تجربات کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی نوجوان صلاحیتوں سے معمور ہے لیکن جدید سہولتوں اور مہارتوں سے ناواقف ہے۔
اس مضمون میں ہم بات کریں گے کہ یوتھ ڈیویلپمنٹ کیوں ضروری ہے اور کیسے ممکن ہے؟ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور دیر پا ترقی کے لیے قابل قدر، ٹھوس اقدامات کرنے کی کیوں ضرورت ہے؟
نوجوانوں کو معاشرے میں کارآمد بنانے اور فعال کردار ادا کرنے کے لیے کن عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے؟
آج کا نوجوان کن نکات پر کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کر سکتا ہے؟
میرا پس منظر
میں اپنے ذاتی پس منظر اور اب تک کی زندگی کے سفر سے عام پاکستانی نوجوانوں کے مسائل سے بہ خوبی واقف ہوں۔ ان مسائل عام نوجوانوں کو تقریباً پورے پاکستان میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے میری نظر میں جب تک ہم ان مسائل کی بھرپور نشاندہی نہیں کرتے ہیں ہم نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے ہمت اور سمت نہیں دے سکتے ہیں۔
میری نظر میں یہ نوجوان اگر ان نکات پر عمل کریں تو وہ کام یابی کے سفر پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں نوجوانوں کی اجتماعی صورت حال تقریبا ایک ہی جیسی ہے۔ ہاں البتہ یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان ایک کثیرالنسل، مختلف ثقافتوں اور قوموں پر مبنی ملک ہے۔ جس میں نوجوانوں کی بھی کئی اقسام ہیں، جن میں ایک قسم کے وہ نوجوان ہیں، جنہیں کسی بھی طرح سے کسی مالی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے، بلکہ وہ زندگی کے دیگر مسائل کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ اکثریت ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جو لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہوئے زیادہ تر معاشی مسائل کی وجہ سے کام یابی سے ہمکنار نہیں ہو پاتے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو زندگی میں کچھ نہ کرنے کا ٹھوس منصوبہ بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے شان دار پروگرام اور سہولتیں بھی کسی طرح کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ میری رائے میں ہمیں پاکستان کے زیادہ تر مڈل کلاس نوجوانوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو اس معاشرے اور ملک کی تبدیلی کے حقیقی علمدار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان نوجوانوں کو یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت، تعلیم و تربیت اور لائحہ عمل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ زندگی میں کام یابی کی شاہراہ پر گام زن ہو سکیں، اور انفرادی اور اجتماعی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔
میری نظر میں نوجوانوں کو ان چار اہم اور بنیادی نکات پر تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ساتھ انہیں وہ مہارتیں اور سہولتیں دینے کی ضرورت ہے جو کام یابی کے سفر میں ان کی معاونت کر سکیں۔ چوںکہ یہ بنیادی کام ریاست کا ہے لیکن پاکستان مختلف مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی اصل طاقت یعنی نوجوانوں پر سرمایہ کاری کرنیسے کسی حد تک کا قاصر رہا ہے۔ اس لیے میرا ان تمام نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ وہ ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے خود پر ابھی سے کام کرنا شروع کریں تاکہ وہ اپنی کام یابی کی منزل کی بنیاد خود رکھ سکیں۔
پرسنل ڈیویلپمنٹ
پاکستانی معاشرے میں گھروں میں تعلیم و تربیت کا رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بچے گھروں میں تعلیم و تربیت اور بنیادی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں، اور بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس محرومی کو دور کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس کی بدولت یہ بچے با صلاحیت اور محنتی ہونے کے باوجود زندگی میں بہت آگے تک نہیں جا پاتے ہیں۔
اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کو اپنی پرسنل ڈیویلپمنٹ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس میں انہیں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ کون ہیں، ان کے اندر کیا صلاحیتیں اور مہارتیں پائی جاتی ہیں اور انہیں اپنی کن خوبیوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ ایک بہترین انسان بن سکیں۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ میں آپ کا لباس، گفتگو کرنے کا انداز، لوگوں سے تعلقات و روابط، اپنی ذات کا گہرا مطالعہ اور قدرتی صلاحیتوں کے بارے میں جاننے کا عمل شامل ہے۔
پروفیشنل ڈیویلپمنٹ
پرسنل ڈیویلپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے نوجوان جو چھوٹے علاقوں اور شہروں سے آتے ہیں وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت زیادہ ترقی نہیں کر پاتے ہیں۔ حالاںکہ یہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ محنتی، ایمان دار اور باصلاحیت بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارنے، نئی چیزوں کو سیکھنے اور خود کو وقت کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت دوسروں سے کم ہوتی ہے۔ اس لیے یہ اپنی ذات پر ترقی نہ کرنے کی وجہ سے اپنی ہی کام یابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ پیشہ وارانہ ترقی کے لیے انسان کو نئے رویوں، نیٹ ورکنگ اور اپنے شعبے میں نت نئے آنے والے رجحانات سے بہ خوبی واقف رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے لیے جہاں مسلسل تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں سب سے بنیادی خوبی مائنڈ سیٹ ہوتا ہے جومثبت رویوں پر منحصر ہوتا ہے۔ نوجوان شروع شروع میں اپنے پروفیشنل کیریئر کو سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن چند سالوں بعد ان کے کریئر میں ترقی ہونے کی بجائے تنزلی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے لیے لازمی ہے کتابوں کا مطالعہ، اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور ماہر لوگوں سے مشورہ، مسلسل سیکھنے کی لگن اور آگے بڑھنے کی جستجو انتہائی لازمی امر ہے۔
روحانی اور نفسیاتی ڈویلپمنٹ
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مالی ترقی اور بڑے عہدے پر فائض ہونا ہی کام یابی سمجھا جاتا ہے۔ مادی اور اقتصادی دُنیا میں یہ چلن عام ہے، لیکن اس دوران انسان اپنی زندگی کے بنیادی مقصد اور رُوح کی تشنگی کو کہیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ مجھے کبھی کبھی بڑی شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان روحانی اور نفسیاتی طور پر بہت کم زور ہیں۔ ان کا اپنے خالق سے تعلق، روحانیت کا عملی تجربہ، اور ذہنی پختگی کی بہت ضرورت ہے، کیوںکہ ہمارا معاشرہ مختلف مسائل کا شکار ہے۔
اس لیے اگر نوجوان نفسیاتی اور روحانی طور پر مضبوط نہیں ہیں تو وہ بہت جلد حالات سے مایوس ہو کر ہمت ہار جاتے ہیں اور منفی سوچوں اور رویوں کو اپنا کر اپنی زندگی کے اصل مقصد سے کہیں دور چلے جاتے ہیں۔ روحانی اور نفسیاتی و ذہنی طور پر مضبوط نوجوان حالات، مشکلات اور مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ نوجوانوں کو اس لیے مذہبی اور نفسیات کی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ذات اور رُوح کی بہترین حفاظت کر سکیں۔
معاشی ترقی
یاد رکھیں یہ دُنیا ایک حقیقت ہے، اور اس کی سب سے بڑی حقیقت معاشی ترقی ہے۔ ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہمیں شروع سے ہی دولت کے متعلق بہت عجیب و غریب اور غلط قسم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس لیے ہم معاشی ترقی کو کبھی بھی اپنی زندگی میں ترجیح نہیں بناتے ہیں۔ یا تو ہماری زندگی کا مقصد صرف معاشی ترقی ہوتا ہے اور یا پھر سرے سے ہی اسے نظرانداز کرنا ہوتا ہے۔ میں اپنی زندگی کے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معاشی ترقی انسان کی زندگی اور آزادی کا سب سے بڑا عملی ثبوت ہے۔ نوجوانوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے انہیں ابتدا سے ہی تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت ہے اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے، بچت کرنے اور معشیت کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔
آج کے دور میں اگر ہم معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو ہمارے علم کی بھی قدر ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ پاکستانی معاشرے میں علم دولت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو اس ضمن میں آگاہی اور ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔ کہ وہ خود کفیل بنتے ہوئے معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں۔
یہ چار وہ بنیادی اور اہم نکات ہیں جن پر حکومتی اور ملکی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو اس ضمن میں متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ قوم کی ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کر سکے۔
نوجوانوں کو میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنی منزل کی تلاش میں نکلتے ہوئے، اپنے ارادوں کو مضبوط، سوچوں کو بلند اور خوابوں کو بڑا رکھیں۔
اور حالات کا نوحہ رونے کی بجائے اپنی منزل کی جان بڑھتے رہیں۔
بابا نجمی کا یہ معروف شعر ان نوجوانوں کے لیے ہے:
بے ہمتے نے جہڑے بہہ کے شکوہ کرن مقدراں دا
اگن والے اگّ پیندے نے سینہ پاڑ کے پتھراں دا
منزل دے متھے دے اتے تختی لگدی اوہناں دی
جہڑے گھروں بنا کے ٹردے نقشہ اپنے سفراں دا