دہشت گردی کا خاتمہ اہم ترین چیلنج
افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو اسے سفارتی سطح پر اٹھایا جانا چاہیے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چینی دوست پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ان کی سلامتی ہماری سلامتی ہے، انھیں فول پروف سیکیورٹی دیں گے، ہمارے دشمن دونوں ملکوں کے درمیان روز بروز مستحکم اور وسیع ہوتی دوستی کو متاثرکرنے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں سے ملاقات کے موقعے پر کیا۔ دوسری جانب بشام خودکش حملے میں ملوث چار سہولت کاروں سمیت دس دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے، جن کا تعلق کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے ہے جب کہ خودکش حملہ آور افغان بتایا جارہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے اور سی پیک اب دوسرے مرحلے میں داخل ہورہا ہے جس میں خصوصی اقتصادی زونز کا مرحلہ وار افتتاح کیا جا رہا ہے اور معیشت کی بحالی کے لیے مختلف شعبوں میں منصوبہ کاری کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جا رہی ہے، ایسی صورت حال میں اس طرح کے دہشت گردانہ حملے نئی حکومت کی مشکلات کو بڑھا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف جلد چین کا دورہ کرنے والے ہیں اور موجودہ صورت حال میں ان حملوں کے سبب توجہ اقتصادی منصوبوں سے ہٹ کر چینی منصوبوں اور شہریوں کی حفاظت کی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ یہ خبر اچھی ہے کہ پروجیکٹ پر کام معطل کرنے والے چینی ورکرز اور انجینئرز دو دن کے اندر اپنے فرائض دوبارہ سر انجام کرنا شروع کردیں گے۔ اس منصوبے پرکام کرنے والے چینی شہریوں کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
اس حقیقت کو جھٹلانا اب ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کسی ایک صوبے تک محدود نہیں رہے۔ وفاقی دارالحکومت سے صوبائی دارالحکومتوں تک، اہم تنصیبات، غیر ملکیوں اور پولیس سے فوج کے جوانوں تک سب ہی نشانے پر ہیں۔ افغانستان کے موجودہ حکمران ملک میں پناہ لینے والے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دہشت گرد موقع پرستانہ انداز میں خود کو حالات کے مطابق ڈھال رہے ہیں جس کے باعث ان کے خلاف مربوط عالمگیر قدم اٹھانا مشکل ہوگیا ہے۔ نسل پرستی اور مذہب یا عقیدے کے نام پر عدم رواداری کی دیگر اقسام کی بنیاد پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ قیام امن کے لیے کام کرنے والے ہمارے لوگ امن کی خاطر ہر وقت انتہائی خطرناک حالات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
محب وطن حلقوں نے سابقہ دور میں بارہا اس طرف توجہ دلائی کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی فوج نے جو اسلحہ اور جنگی سازوسامان وہاں چھوڑا ہے، وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے پاس پہنچنے کا خطرہ موجود ہ لٰہذا بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے مگر ان باتوں پر توجہ نہ دی گئی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے حملے سیکیورٹی سسٹم کے اندر مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس دہشت گردی نے پالیسی سازوں کے لیے کئی ایسے پہلو آشکار کیے ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئرز اور ورکرز پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردیکا منظر نامہ بہت زیادہ پیچیدہ اور متنوع ضرور ہے۔ افغانستان کا رقبہ ڈھائی لاکھ مربع میل پر محیط ہے۔ایک دو شہروں کے علاوہ سارا خطہ قدیم قبائلی اور جاگیرداری اور خانہ بدوش طرز معاشرت میں زندگی گزار رہا ہے جو جدت پسندی، سائنسی ترقی اورجدیدیت کے اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہے، انفرااسٹرکچر محدود ہے، مڈل کلاس کا وجود نہیں ہے، جدید تعلیم یافتہ شہری ایلیٹ اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسی ہے، ریاست کے پاس کوئی پینل کوڈ ہے نہ کریمنل پروسیجر کوڈ، کریمنل جسٹس سسٹم بھی موجود نہیں ہے۔
لینڈ لا، کمپنی اور بینکنگ قوانین اور ریگولیٹر ادارے بھی غیرفعال ہیں یا سرے سے موجود نہیں ہیں، مرکزی حکومت کا کنٹرول ادارہ جاتی کے بجائے طالبان کے کمانڈرز اور ان کی فورس کے ذریعے ہے، ایسے ملک یا جغرافیہ میں وارلارڈ، دہشت گرد گروپوں، کریمنل مافیاز کے لیے قدم جمانا اور آزانہ نقل و حرکت کرنا انتہائی آسان ہے۔ مقامی لوگ ان گروہوں کے زیر نگیں ہوتے ہیں۔ اس منظر نامے کی وجہ سے افغانستان ارد گرد کے ممالک کے لیے مسلہ بن گیا ہے، پاکستان اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔
گوادر بندرگاہ منصوبے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری کی نئی لہر کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں علیحدگی کی نام نہاد تحریک شروع ہوگئی بلکہ شروع کرا دی گئی،کسی ملک پر الزام لگانے کے بجائے، دہشت گردی کی اس نئی لہرکا تجزیہ کریں اور اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے۔ دہشت گردی میں نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال خاصی تشویش کا باعث ہے۔ درحقیقت دہشت گرد اپنے نیٹ ورکس کی تعمیر اور توسیع، ہتھیاروں کی خریداری اور لاجسٹک اور مالی مدد حاصل کرنے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمزکا استعمال کر رہے ہیں۔
دہشت گرد گروہوں نے خاص طور سے نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کا فائدہ اٹھایا۔ دہشت گردی کے مقاصد کے لیے بھرتی اور فنڈز اکٹھا کرنے کے علاوہ اپنے پروپیگنڈے اور مسخ شدہ بیانیے کو پھیلانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے، لٰہذا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت حاصلکرنا، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ذرایع کو بند کرنا،آن لائن ٹرانزیکشنز ٹیکنالوجیز پر چیک رکھنا اور فنڈ ریزنگ کے طریقوں سے متعلق خطرات اور مواقع کی جانچ پڑتال کرنالازم ہے۔
عالمی سطح پر دہشت گردوں اور دیگرغیر ریاستی عناصر نے اہم فوجی اور سفارتی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال بھی کیا ہے۔ دنیا میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں بھی ہر دور کی یہی پالیسی رہی ہے کہ اگر وہ آئین پاکستان کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں تو ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں اِس کے علاوہ ان سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت کی بھی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی ترجیحات کا تعین کرے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال وضع کیے جائیں۔
افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو اسے سفارتی سطح پر اٹھایا جانا چاہیے۔ افغان حکومت سے اِس ضمن میں بات کرنی چاہیے اور ٹھوس ضمانتیں حاصل کی جانی چاہیئیں۔ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے بھی خراب نہیں کہ ہم اِن واقعات پر ان سے بات نہ کرسکیں۔
افغانستان کی طالبان قیادت کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ دہشت گرد گروپوں کی تہہ در تہہ تقسیم ، ان کے مالی مفادات اور ان کے باہمی روابطے، افغانستان کی عبوری حکومت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اب تدبیر اور حکمت کے ذریعے ہی ہم اس گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ انتہا پسند گروہوں اور افراد اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کے بارے میں منفی تاثر کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال پیچیدہ جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں ایک تشویشناک پیش رفت ہے۔ بہت سے نیٹ ورک اردو، پشتو، عربی اور انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں پاکستان مخالف مواد نشر کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بحیثیت مجموعی یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اپنے ارد گرد کڑی نگاہ رکھیں اور ملک دشمنوں کے قبیح عزائم کی بیخ کنی کے لیے کئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں۔
دہشت گردی کے مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بین الاقوامی انسداد دہشت گردی، سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل گورننس کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ہمیں قانون نافذ کرنے اور عدالتی نظام کو مضبوط اور مستحکم کرنے، خطرے سے متعلق معلومات کے تبادلے کو بہتر بنانے، سرحدی سیکیورٹی کو بڑھانے، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے انسداد اور دہشت گردی کی روک تھام کی کوششوں کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی ارادے اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھنا ہوں گی۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں سے ملاقات کے موقعے پر کیا۔ دوسری جانب بشام خودکش حملے میں ملوث چار سہولت کاروں سمیت دس دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے، جن کا تعلق کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے ہے جب کہ خودکش حملہ آور افغان بتایا جارہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے اور سی پیک اب دوسرے مرحلے میں داخل ہورہا ہے جس میں خصوصی اقتصادی زونز کا مرحلہ وار افتتاح کیا جا رہا ہے اور معیشت کی بحالی کے لیے مختلف شعبوں میں منصوبہ کاری کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جا رہی ہے، ایسی صورت حال میں اس طرح کے دہشت گردانہ حملے نئی حکومت کی مشکلات کو بڑھا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف جلد چین کا دورہ کرنے والے ہیں اور موجودہ صورت حال میں ان حملوں کے سبب توجہ اقتصادی منصوبوں سے ہٹ کر چینی منصوبوں اور شہریوں کی حفاظت کی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ یہ خبر اچھی ہے کہ پروجیکٹ پر کام معطل کرنے والے چینی ورکرز اور انجینئرز دو دن کے اندر اپنے فرائض دوبارہ سر انجام کرنا شروع کردیں گے۔ اس منصوبے پرکام کرنے والے چینی شہریوں کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
اس حقیقت کو جھٹلانا اب ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کسی ایک صوبے تک محدود نہیں رہے۔ وفاقی دارالحکومت سے صوبائی دارالحکومتوں تک، اہم تنصیبات، غیر ملکیوں اور پولیس سے فوج کے جوانوں تک سب ہی نشانے پر ہیں۔ افغانستان کے موجودہ حکمران ملک میں پناہ لینے والے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دہشت گرد موقع پرستانہ انداز میں خود کو حالات کے مطابق ڈھال رہے ہیں جس کے باعث ان کے خلاف مربوط عالمگیر قدم اٹھانا مشکل ہوگیا ہے۔ نسل پرستی اور مذہب یا عقیدے کے نام پر عدم رواداری کی دیگر اقسام کی بنیاد پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ قیام امن کے لیے کام کرنے والے ہمارے لوگ امن کی خاطر ہر وقت انتہائی خطرناک حالات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
محب وطن حلقوں نے سابقہ دور میں بارہا اس طرف توجہ دلائی کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی فوج نے جو اسلحہ اور جنگی سازوسامان وہاں چھوڑا ہے، وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے پاس پہنچنے کا خطرہ موجود ہ لٰہذا بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے مگر ان باتوں پر توجہ نہ دی گئی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے حملے سیکیورٹی سسٹم کے اندر مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس دہشت گردی نے پالیسی سازوں کے لیے کئی ایسے پہلو آشکار کیے ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئرز اور ورکرز پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردیکا منظر نامہ بہت زیادہ پیچیدہ اور متنوع ضرور ہے۔ افغانستان کا رقبہ ڈھائی لاکھ مربع میل پر محیط ہے۔ایک دو شہروں کے علاوہ سارا خطہ قدیم قبائلی اور جاگیرداری اور خانہ بدوش طرز معاشرت میں زندگی گزار رہا ہے جو جدت پسندی، سائنسی ترقی اورجدیدیت کے اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہے، انفرااسٹرکچر محدود ہے، مڈل کلاس کا وجود نہیں ہے، جدید تعلیم یافتہ شہری ایلیٹ اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسی ہے، ریاست کے پاس کوئی پینل کوڈ ہے نہ کریمنل پروسیجر کوڈ، کریمنل جسٹس سسٹم بھی موجود نہیں ہے۔
لینڈ لا، کمپنی اور بینکنگ قوانین اور ریگولیٹر ادارے بھی غیرفعال ہیں یا سرے سے موجود نہیں ہیں، مرکزی حکومت کا کنٹرول ادارہ جاتی کے بجائے طالبان کے کمانڈرز اور ان کی فورس کے ذریعے ہے، ایسے ملک یا جغرافیہ میں وارلارڈ، دہشت گرد گروپوں، کریمنل مافیاز کے لیے قدم جمانا اور آزانہ نقل و حرکت کرنا انتہائی آسان ہے۔ مقامی لوگ ان گروہوں کے زیر نگیں ہوتے ہیں۔ اس منظر نامے کی وجہ سے افغانستان ارد گرد کے ممالک کے لیے مسلہ بن گیا ہے، پاکستان اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔
گوادر بندرگاہ منصوبے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری کی نئی لہر کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں علیحدگی کی نام نہاد تحریک شروع ہوگئی بلکہ شروع کرا دی گئی،کسی ملک پر الزام لگانے کے بجائے، دہشت گردی کی اس نئی لہرکا تجزیہ کریں اور اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے۔ دہشت گردی میں نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال خاصی تشویش کا باعث ہے۔ درحقیقت دہشت گرد اپنے نیٹ ورکس کی تعمیر اور توسیع، ہتھیاروں کی خریداری اور لاجسٹک اور مالی مدد حاصل کرنے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمزکا استعمال کر رہے ہیں۔
دہشت گرد گروہوں نے خاص طور سے نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کا فائدہ اٹھایا۔ دہشت گردی کے مقاصد کے لیے بھرتی اور فنڈز اکٹھا کرنے کے علاوہ اپنے پروپیگنڈے اور مسخ شدہ بیانیے کو پھیلانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے، لٰہذا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت حاصلکرنا، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ذرایع کو بند کرنا،آن لائن ٹرانزیکشنز ٹیکنالوجیز پر چیک رکھنا اور فنڈ ریزنگ کے طریقوں سے متعلق خطرات اور مواقع کی جانچ پڑتال کرنالازم ہے۔
عالمی سطح پر دہشت گردوں اور دیگرغیر ریاستی عناصر نے اہم فوجی اور سفارتی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال بھی کیا ہے۔ دنیا میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں بھی ہر دور کی یہی پالیسی رہی ہے کہ اگر وہ آئین پاکستان کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں تو ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں اِس کے علاوہ ان سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت کی بھی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی ترجیحات کا تعین کرے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال وضع کیے جائیں۔
افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو اسے سفارتی سطح پر اٹھایا جانا چاہیے۔ افغان حکومت سے اِس ضمن میں بات کرنی چاہیے اور ٹھوس ضمانتیں حاصل کی جانی چاہیئیں۔ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے بھی خراب نہیں کہ ہم اِن واقعات پر ان سے بات نہ کرسکیں۔
افغانستان کی طالبان قیادت کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ دہشت گرد گروپوں کی تہہ در تہہ تقسیم ، ان کے مالی مفادات اور ان کے باہمی روابطے، افغانستان کی عبوری حکومت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اب تدبیر اور حکمت کے ذریعے ہی ہم اس گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ انتہا پسند گروہوں اور افراد اپنے نظریات کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کے بارے میں منفی تاثر کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال پیچیدہ جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں ایک تشویشناک پیش رفت ہے۔ بہت سے نیٹ ورک اردو، پشتو، عربی اور انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں پاکستان مخالف مواد نشر کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بحیثیت مجموعی یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اپنے ارد گرد کڑی نگاہ رکھیں اور ملک دشمنوں کے قبیح عزائم کی بیخ کنی کے لیے کئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں۔
دہشت گردی کے مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بین الاقوامی انسداد دہشت گردی، سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل گورننس کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ہمیں قانون نافذ کرنے اور عدالتی نظام کو مضبوط اور مستحکم کرنے، خطرے سے متعلق معلومات کے تبادلے کو بہتر بنانے، سرحدی سیکیورٹی کو بڑھانے، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے انسداد اور دہشت گردی کی روک تھام کی کوششوں کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی ارادے اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھنا ہوں گی۔