معاشی بہتری کے اثرات عام آدمی تک پہنچائیں
آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ پروگرام سے معاشی شرح نمو میں مزید تیزی اور استحکام آئے گا
پاکستان کی شرح نمو میں اضافے اور معیشت نے ترقی دکھانا شروع کر دی ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ پر بلوم برگ نے تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے جس میں اگلے مالی سال میں مہنگائی کی شرح میں 11 فیصدکمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ پروگرام سے معاشی شرح نمو میں مزید تیزی اور استحکام آئے گا۔
بلوم برگ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 22 ماہ میں مہنگائی کی شرح پہلی بار سب سے کم 20.7 فیصد کی شرح پر آگئی ہے۔ ماضی قریب میں پی ڈی ایم کی اتحادی اور نگران حکومتوں کے سخت اور غیر مقبول فیصلوں کے بعد اب معیشت بحالی کی راہ پرگامزن ہے اور مارکیٹ کا اعتماد بحال ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
معیشت اور شرح مبادلہ کے استحکام کے ساتھ کاروباری اعتماد کی حوصلہ افزائی نے جاری چیلنجوں کے درمیان پاکستان کے لیے مثبت اقتصادی نقطہ نظر میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان، ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز اور دوست ملکوں پر انحصار کرتا ہے۔ جن میں خصوصی طور پر چین اور سعودی عرب شامل ہیں جو تجارتی اور مالیاتی حوالے سے پاکستان کے مستقل شراکت دار ہیں۔ بہت سے جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز ہیں جو اب پاکستان کے لیے بڑھ گئے ہیں۔
امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا، یوکرین پر روسی حملہ، اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ نے عالمی سطح پر پولیٹیکل صورت حال کو بدلا ہے، جس سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ یورپین اور دیگر امیر ممالک بھی مہنگائی کے اس طوفان سے نہیں بچ سکے۔ غریب ممالک کا تو بُرا ہی حال ہے۔ موجودہ عالمی صورت حال سے معیشت پر اس کے بُرے اثرات پڑے ہیں۔
ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے جو چیزیں منگوانی پڑتی ہیں اُن کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ تمام اشیاء ہم امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں جس سے مہنگائی آتی ہے اور بڑھتی ہے۔
ہماری معیشت اس مہنگائی کے نیچے دبی ہوئی ہے، تو افراط زر مسلسل بلند ہے لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے اقتصادی اقدامات کی وجہ سے رواں سال مہنگائی میں نمایاں کمی کی توقع کی جا رہی ہے، جس میں خام مال کی درآمدات کی فراہمی میں بہتری، خوراک کی زیادہ پیداوار اور شرح تبادلہ مارکیٹ میں استحکام شامل ہے۔
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2025ء تک افراط زر کی شرح 5 فیصد سے 7 فیصد کی حد تک گرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ معاشی حالات میں بہتری کی وجہ سے مارکیٹوں میں تیزی آئی ہے۔ اس مدت کے دوران روپیہ 8 فیصد مضبوط ہوکر 280 کی سطح پر آگیا ہے۔ ان فوائد کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ نئی حکومت آئی ایم ایف ایس بی اے کا آخری جائزہ مکمل کرے۔
نئی حکومت کو ایف بی آر کی تنظیم نو، پی آئی اے سمیت خسارے میں چلنے والے ایس او ایز کی نجکاری اور گورننس اور مالیاتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایس او ای کی پالیسی کے نفاذ کے لیے اہم اصلاحات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ دوسری بدترین معاشی صورت حال سے نکلنے کے لیے نچلی سطح تک اختیارات اور طاقت کی منتقلی بھی بے حد ضروری ہے، جس کے ذریعے شہریوں کے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے اور روزمرہ کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
مزید برآں اختیارات کی یہ منتقلی مقامی وسائل کی نقل وحرکت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ پاکستانی خواتین کو درپیش معاشی عدم استحکام کا بڑا محرک کم علمی،کم تعلیم یافتہ ہونا اور سرمایے کی عدم دستیابی ہے۔ ماحولیاتی انحطاط سے بھی معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس سے صحت عامہ اور پیداواری صلاحیت کے مسائل بڑھتے ہیں، جو بتدریج معاشی عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمسایہ ممالک میں ہو یا دنیا بھر میں کہیں بھی، اُس کے اثرات لازماً ہمارے ملک پر بھی پڑتے ہیں۔
یوکرین اور غزہ کے معاملات اور جنگ نے بہت سی اجناس اور اشیاء پر اثر ڈالا ہے۔ ان واقعات کے اثرات اور مضمرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ہم چونکہ ایک غریب اور پسماندہ ملک ہیں اس لیے ان مضمرات نے ہمیں بھی متاثرکیا ہے، لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اقتصادی جھٹکوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس سے افراط زرکی نئی لہر شروع ہو سکتی ہے۔
پالیسی سازوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن اس کی سرمایہ کاری کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کی جانب سے ایسے مذاکرات کاروں کی ضرورت ہے جو بنیادی مالیاتی لین دین کو سمجھتے ہوں اور اس کا مکمل ادراک رکھتے ہوں۔ پبلک سیکٹر میں اس موقع کو حاصل کرنے کا شدید فقدان ہے۔ ریاست کے وسائل کو جمع کرنے اور خرچ کرنے کے طریقے میں پالیسی کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ روزگارکے مواقع پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے قابل عمل منصوبے درکار ہیں۔
ایسی منصوبہ بندی حکومت میں بیٹھے ہمارے پالیسی ساز ہی کر سکتے ہیں۔ غیر مستحکم معاشی حالات میں جو سرکاری افسران یا حکومتی عہدیداران سبسڈی یا مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اُن کا خاتمہ اب وقت کی ضرورت ہے۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول کا بہتر، خوشگوار اور پُرامن ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔
سرمایہ کاری وہیں ہوتی ہے جہاں سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے اچھا ماحول ملے اور آئینی تحفظ حاصل ہو۔ ضروری ہے کہ حکومت وقت اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھائے۔سہ ماہی ٹیرف کے بروقت نفاذ کے ذریعے بجلی اور گیس پر سبسڈی بل میں کمی سمیت مشکل اور غیر مقبول اقدامات نے بنیادی اکاؤنٹ کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔
اس مدت کے دوران کوئی سپلیمنٹری گرانٹ جاری نہیں کی گئی اور پی ایس ڈی پی کے منصوبے جو صوبائی ڈومین کے تحت آتے ہیں صوبائی اے ڈی پیز کو منتقل کردیے گئے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں میں بحالی اور بینکوں، تیل اور گیس اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری سمیت کمپنیوں کے منافع میں اضافے کے ساتھ ملکی ٹیکسوں میں مجموعی طور پر 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
درآمدات کی قدر میں بہتری کی وجہ سے درآمدی ٹیکسوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا جس سے 151 بلین روپے کی وصولی ہوئی اور ساتھ ہی انسداد اسمگلنگ مہم جس میں مالی سال 2024 میں تقریباً 69 فیصد اضافہ ہوا۔ مالیاتی پوزیشن میں بہتری سے حکومت کو عوامی قرضوں کے جمع ہونے کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ گھریلو قرضہ 67 فیصد کم ہو کر 1.9 ٹریلین روپے ہوگیا ہے جو گزشتہ مدت میں 5.8 ٹریلین روپے تھا۔
حکومت نے پی ایس ایکس پر 1 سالہ سکوک کا بھی کامیابی سے آغازکیا، پہلی نیلامی نومبر 2023 میں ہوئی تھی جس سے کم لاگت والے قرض میں اضافہ ہوا تھا۔
اسی طرح اس دوران بیرونی خالص قرضہ جات کم ہو کر 0.3 بلین ڈالر رہ گیا جو کہ گزشتہ مدت میں 3 بلین ڈالر تھا۔افراط زر مسلسل بلند ہے لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے اقتصادی اقدامات کی وجہ سے 2024 میں مہنگائی میں نمایاں کمی کی توقع کرتے ہیں۔ جس میں خام مال کی درآمدات کی فراہمی میں بہتری، خوراک کی زیادہ پیداوار اور شرح تبادلہ مارکیٹ میں استحکام شامل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈالر کی قیمت کچھ عرصے سے قابو میں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت میں بہتری آ رہی ہے، معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ معیشت مکمل طور پر تندرست و توانا ہو چکی ہے۔
ہدف سے زیادہ ٹیکس وصولی، جاری کھاتے کے خسارے میں کمی، برآمدات اور سرمایہ کاری میں بہتری سمیت دیگر کئی معاشی اشاریے مثبت ہیں لیکن اِس کے اثرات تاحال عام آدمی تک نہیں پہنچ پا رہے، اسے تو آج بھی گیس اور بجلی کے بھرنا پڑ رہے ہیں جو اُس کی استطاعت سے کہیں باہر ہیں، بجلی کے بلوں نے تو ہر حد ہی پار کر لی ہے، کم یونٹ استعمال کر کے بجلی بچانے کی کوشش کرنے والی مڈل کلاس بھی مشکل میں ہے، بجلی کی قیمت تو بڑھی سو بڑھی اُس پر ٹیکس کی بھرمار ہے۔
متعلقہ ادارے کچھ بھی کہیں،کوئی بھی تاویل پیش کریں جتنے بھی دعوے کریں کہ گھریلو صارف کے لیے بجلی کے ایک یونٹ کی انتہائی قیمت لگ بھگ 57 روپے ہے لیکن مجموعی بِل کو کل استعمال شدہ یونٹوں پر تقسیم کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بعض افراد کو بجلی کی فی یونٹ قیمت اِس سے دگنا بلکہ شاید اِس سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
ورلڈ بینک نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت بھی کی۔ بینک کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے لائن لاسز کو کم کیا جائے، مقامی قرض موخر کرنے سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح دو سے تین فیصد بڑھانا ہو گی۔
اخراجات اور ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو معاشی اصلاحات کو اس طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے کہ جس سے لاکھوں گھرانوں میں معاشی استحکام آئے۔ اس کے لیے پالیسی سازو ں کو اپنی توجہ اقتصادی ترقی کے سادہ تصورات سے ہٹا کر ملک میں مجموعی انسانی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سخت پالیسیوں کی طرف موڑنا چاہیے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ پر بلوم برگ نے تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے جس میں اگلے مالی سال میں مہنگائی کی شرح میں 11 فیصدکمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ پروگرام سے معاشی شرح نمو میں مزید تیزی اور استحکام آئے گا۔
بلوم برگ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 22 ماہ میں مہنگائی کی شرح پہلی بار سب سے کم 20.7 فیصد کی شرح پر آگئی ہے۔ ماضی قریب میں پی ڈی ایم کی اتحادی اور نگران حکومتوں کے سخت اور غیر مقبول فیصلوں کے بعد اب معیشت بحالی کی راہ پرگامزن ہے اور مارکیٹ کا اعتماد بحال ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
معیشت اور شرح مبادلہ کے استحکام کے ساتھ کاروباری اعتماد کی حوصلہ افزائی نے جاری چیلنجوں کے درمیان پاکستان کے لیے مثبت اقتصادی نقطہ نظر میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان، ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز اور دوست ملکوں پر انحصار کرتا ہے۔ جن میں خصوصی طور پر چین اور سعودی عرب شامل ہیں جو تجارتی اور مالیاتی حوالے سے پاکستان کے مستقل شراکت دار ہیں۔ بہت سے جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز ہیں جو اب پاکستان کے لیے بڑھ گئے ہیں۔
امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا، یوکرین پر روسی حملہ، اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ نے عالمی سطح پر پولیٹیکل صورت حال کو بدلا ہے، جس سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ یورپین اور دیگر امیر ممالک بھی مہنگائی کے اس طوفان سے نہیں بچ سکے۔ غریب ممالک کا تو بُرا ہی حال ہے۔ موجودہ عالمی صورت حال سے معیشت پر اس کے بُرے اثرات پڑے ہیں۔
ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے جو چیزیں منگوانی پڑتی ہیں اُن کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ تمام اشیاء ہم امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں جس سے مہنگائی آتی ہے اور بڑھتی ہے۔
ہماری معیشت اس مہنگائی کے نیچے دبی ہوئی ہے، تو افراط زر مسلسل بلند ہے لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے اقتصادی اقدامات کی وجہ سے رواں سال مہنگائی میں نمایاں کمی کی توقع کی جا رہی ہے، جس میں خام مال کی درآمدات کی فراہمی میں بہتری، خوراک کی زیادہ پیداوار اور شرح تبادلہ مارکیٹ میں استحکام شامل ہے۔
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2025ء تک افراط زر کی شرح 5 فیصد سے 7 فیصد کی حد تک گرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ معاشی حالات میں بہتری کی وجہ سے مارکیٹوں میں تیزی آئی ہے۔ اس مدت کے دوران روپیہ 8 فیصد مضبوط ہوکر 280 کی سطح پر آگیا ہے۔ ان فوائد کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ نئی حکومت آئی ایم ایف ایس بی اے کا آخری جائزہ مکمل کرے۔
نئی حکومت کو ایف بی آر کی تنظیم نو، پی آئی اے سمیت خسارے میں چلنے والے ایس او ایز کی نجکاری اور گورننس اور مالیاتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایس او ای کی پالیسی کے نفاذ کے لیے اہم اصلاحات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ دوسری بدترین معاشی صورت حال سے نکلنے کے لیے نچلی سطح تک اختیارات اور طاقت کی منتقلی بھی بے حد ضروری ہے، جس کے ذریعے شہریوں کے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے اور روزمرہ کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
مزید برآں اختیارات کی یہ منتقلی مقامی وسائل کی نقل وحرکت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ پاکستانی خواتین کو درپیش معاشی عدم استحکام کا بڑا محرک کم علمی،کم تعلیم یافتہ ہونا اور سرمایے کی عدم دستیابی ہے۔ ماحولیاتی انحطاط سے بھی معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس سے صحت عامہ اور پیداواری صلاحیت کے مسائل بڑھتے ہیں، جو بتدریج معاشی عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمسایہ ممالک میں ہو یا دنیا بھر میں کہیں بھی، اُس کے اثرات لازماً ہمارے ملک پر بھی پڑتے ہیں۔
یوکرین اور غزہ کے معاملات اور جنگ نے بہت سی اجناس اور اشیاء پر اثر ڈالا ہے۔ ان واقعات کے اثرات اور مضمرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ہم چونکہ ایک غریب اور پسماندہ ملک ہیں اس لیے ان مضمرات نے ہمیں بھی متاثرکیا ہے، لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اقتصادی جھٹکوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس سے افراط زرکی نئی لہر شروع ہو سکتی ہے۔
پالیسی سازوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن اس کی سرمایہ کاری کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کی جانب سے ایسے مذاکرات کاروں کی ضرورت ہے جو بنیادی مالیاتی لین دین کو سمجھتے ہوں اور اس کا مکمل ادراک رکھتے ہوں۔ پبلک سیکٹر میں اس موقع کو حاصل کرنے کا شدید فقدان ہے۔ ریاست کے وسائل کو جمع کرنے اور خرچ کرنے کے طریقے میں پالیسی کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ روزگارکے مواقع پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے قابل عمل منصوبے درکار ہیں۔
ایسی منصوبہ بندی حکومت میں بیٹھے ہمارے پالیسی ساز ہی کر سکتے ہیں۔ غیر مستحکم معاشی حالات میں جو سرکاری افسران یا حکومتی عہدیداران سبسڈی یا مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اُن کا خاتمہ اب وقت کی ضرورت ہے۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول کا بہتر، خوشگوار اور پُرامن ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔
سرمایہ کاری وہیں ہوتی ہے جہاں سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے اچھا ماحول ملے اور آئینی تحفظ حاصل ہو۔ ضروری ہے کہ حکومت وقت اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھائے۔سہ ماہی ٹیرف کے بروقت نفاذ کے ذریعے بجلی اور گیس پر سبسڈی بل میں کمی سمیت مشکل اور غیر مقبول اقدامات نے بنیادی اکاؤنٹ کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔
اس مدت کے دوران کوئی سپلیمنٹری گرانٹ جاری نہیں کی گئی اور پی ایس ڈی پی کے منصوبے جو صوبائی ڈومین کے تحت آتے ہیں صوبائی اے ڈی پیز کو منتقل کردیے گئے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں میں بحالی اور بینکوں، تیل اور گیس اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری سمیت کمپنیوں کے منافع میں اضافے کے ساتھ ملکی ٹیکسوں میں مجموعی طور پر 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
درآمدات کی قدر میں بہتری کی وجہ سے درآمدی ٹیکسوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا جس سے 151 بلین روپے کی وصولی ہوئی اور ساتھ ہی انسداد اسمگلنگ مہم جس میں مالی سال 2024 میں تقریباً 69 فیصد اضافہ ہوا۔ مالیاتی پوزیشن میں بہتری سے حکومت کو عوامی قرضوں کے جمع ہونے کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ گھریلو قرضہ 67 فیصد کم ہو کر 1.9 ٹریلین روپے ہوگیا ہے جو گزشتہ مدت میں 5.8 ٹریلین روپے تھا۔
حکومت نے پی ایس ایکس پر 1 سالہ سکوک کا بھی کامیابی سے آغازکیا، پہلی نیلامی نومبر 2023 میں ہوئی تھی جس سے کم لاگت والے قرض میں اضافہ ہوا تھا۔
اسی طرح اس دوران بیرونی خالص قرضہ جات کم ہو کر 0.3 بلین ڈالر رہ گیا جو کہ گزشتہ مدت میں 3 بلین ڈالر تھا۔افراط زر مسلسل بلند ہے لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے اقتصادی اقدامات کی وجہ سے 2024 میں مہنگائی میں نمایاں کمی کی توقع کرتے ہیں۔ جس میں خام مال کی درآمدات کی فراہمی میں بہتری، خوراک کی زیادہ پیداوار اور شرح تبادلہ مارکیٹ میں استحکام شامل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈالر کی قیمت کچھ عرصے سے قابو میں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت میں بہتری آ رہی ہے، معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ معیشت مکمل طور پر تندرست و توانا ہو چکی ہے۔
ہدف سے زیادہ ٹیکس وصولی، جاری کھاتے کے خسارے میں کمی، برآمدات اور سرمایہ کاری میں بہتری سمیت دیگر کئی معاشی اشاریے مثبت ہیں لیکن اِس کے اثرات تاحال عام آدمی تک نہیں پہنچ پا رہے، اسے تو آج بھی گیس اور بجلی کے بھرنا پڑ رہے ہیں جو اُس کی استطاعت سے کہیں باہر ہیں، بجلی کے بلوں نے تو ہر حد ہی پار کر لی ہے، کم یونٹ استعمال کر کے بجلی بچانے کی کوشش کرنے والی مڈل کلاس بھی مشکل میں ہے، بجلی کی قیمت تو بڑھی سو بڑھی اُس پر ٹیکس کی بھرمار ہے۔
متعلقہ ادارے کچھ بھی کہیں،کوئی بھی تاویل پیش کریں جتنے بھی دعوے کریں کہ گھریلو صارف کے لیے بجلی کے ایک یونٹ کی انتہائی قیمت لگ بھگ 57 روپے ہے لیکن مجموعی بِل کو کل استعمال شدہ یونٹوں پر تقسیم کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بعض افراد کو بجلی کی فی یونٹ قیمت اِس سے دگنا بلکہ شاید اِس سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
ورلڈ بینک نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت بھی کی۔ بینک کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے لائن لاسز کو کم کیا جائے، مقامی قرض موخر کرنے سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح دو سے تین فیصد بڑھانا ہو گی۔
اخراجات اور ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو معاشی اصلاحات کو اس طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے کہ جس سے لاکھوں گھرانوں میں معاشی استحکام آئے۔ اس کے لیے پالیسی سازو ں کو اپنی توجہ اقتصادی ترقی کے سادہ تصورات سے ہٹا کر ملک میں مجموعی انسانی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سخت پالیسیوں کی طرف موڑنا چاہیے۔