اسرائیل کی ہٹ دھرمی

بلاشبہ فلسطین مشرق وسطیٰ کا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی اہمیت کا مسئلہ ہے

بلاشبہ فلسطین مشرق وسطیٰ کا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ فوٹو:فائل

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کر رکھی ہے، یو این سیکیورٹی کونسل ملکوں اور قوموں کے درمیان تنازعات نمٹانے کے حوالے سے سب سے اہم اور بااثر فورم ہے کیونکہ اس کونسل میں جو قرارداد منظور ہوتی ہے، اسے دنیا کی پانچ سب سے بڑی طاقتوں کی حمایت ہوتی ہے۔

اس کونسل میں امریکا، روس، برطانیہ، چین اور فرانس ایسی طاقتیں ہیں جنھیں ویٹو کا حق حاصل ہے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک ملک کسی قرارداد پر ویٹو کر دے تو وہ قرارداد مسترد سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اگر کسی قرارداد کو منظور لیتی ہے تو اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت نے اس قرارداد کا کوئی اثر یا دباؤ قبول نہیں کیا کیونکہ وہ غزہ میں مسلسل جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ روز کے میڈیا کی اطلاعات کے مطابق غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے 5 بڑی غارت گریاں کرکے 54 فلسطینیوں کو شہید اور 82کو زخمی کردیا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ جنگ پچھلے برس 7 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی جو مسلسل جاری ہے، اب تک اس جنگ کو شروع ہوئے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے،اسرائیلی فوج اب یکطرفہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ ویسے بھی غزہ کے پاس نہ فوج ہے اور نہ فضائیہ، بحریہ بھی موجود نہیں ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ کے لوگ اسرائیلی فوج کے ساتھ کیسے جنگ لڑ سکتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں ہے بلکہ اسرائیل نامی بڑی طاقت کی ایک بے دست وپا پرامن قوم کے خلاف جارحیت ہے۔

ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی سے تشبیہ دی چکی ہے اور اسرائیل کو جارحیت بند کرنے کا کہہ چکی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اسرائیل کی حکومت نے عالمی عدالت انصاف کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد کو اہمیت دی ہے۔ گزشتہ برسسات اکتوبر سے شروع اسرائیلی جارحیت کے 182دنوں میں فلسطینی شہدا کی تعداد 33091 ہوچکی ہے اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں ختم ہیں۔ شہر کے جو دو تین اسپتال ہیں، ان پر بھی گولہ باری کی گئی ہے جس کی وجہ سے ان عمارتوں اور وہاں طبی سہولیات کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ اسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت ہے۔ شہر کے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ ہزاروں فلسطینی بے گھر ہیں جب کہ ہزاروں غزہ سے نکل کر دوسرے مقامات کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔ غزہ کی اس صورت حال کی ساری ذمے داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اسرائیل کی قیادت کسی عالمی طاقت یا ادارے کو اہمیت نہیں دے رہی۔

ادھر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے جنگی جرائم کے ارتکاب پر اسرائیل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ یو این ہیومن کونسل میں جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے اسرائیل کی جوابدہی کی قرار داد منظور کی گئی ہے۔ 47 میں سے 28ملکوں نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔13ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیاجب کہ 6ملکوں نے قرار داد کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی منظور کردہ قرارداد میں اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

یو این ہیومن رائٹس کونسل کی قرارداد کی مخالفت کرنے والے ملکوں میں امریکا، جرمنی، ارجنٹائن، بلغاریہ، پیراگوئے اور افریقی ملک ملاوی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی )کے ایک کے سوا تمام رکن ممالک کی طرف سے پاکستان نے جمعے کو پیش کی تھی۔ یورپ کا واحد مسلمان ملک البانیہ اس قرارداد سے الگ رہا ہے۔ اسرائیل نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اس قرارداد کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل نے اس قرار داد کو '' تحریف شدہ متن'' قرار دے کر مسترد کیا ہے۔


اسرائیل کے اس جارحانہ رویے کی بنیادی وجہ امریکا اور مغربی ممالک کی حمایت ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھی امریکا نے قرارداد کی مخالفت کی حالانکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا نے جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تھا۔ اس دوہری پالیسی کی وجہ سے اسرائیل کی حکومت کو حوصلہ ملتا ہے۔ بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلے کرتی ہیں۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکا کا ایک طرح سے بیس کیمپ ہے بلکہ اسے نیٹو کا بیس کیمپ کہنا زیادہ مناسب ہے۔

سیدھی سی بات ہے کہ نیٹو میں شامل تمام ممالک اسرائیل کا تحفظ کریں گے کیونکہ اس اڈے کی وجہ سے وہ پورے بحیرہ روم کی تجارت پر قابض ہیں۔ اسرائیل کی قیادت کو بھی امریکا اور مغربی یورپ کی اقوام کے اس مفاد یا کمزوری کا پورا دراک ہے۔ اس لیے وہ اپنی اس حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر فلسطین کے پورے علاقے پر قابض ہے، وہ پوری دنیا سے یہودیوں کی اسرائیل میں بسنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ انھیں ہر قسم کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے مسلسل بے دخل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں اور اس سے ملحقہ وادی پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

یوں اسرائیل اپنے رقبے میں بھی مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کے تمام تر ہتھکنڈوں، توسیع پسندانہ اقدامات اور مظالم کے باوجود فلسطین میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ میں ایک لاکھ 20ہزار فلسطینیوں نے نماز جمعہ ادا کی حالانکہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں اور لوگوں کو القدس جانے سے روکا جارہا تھا لیکن فلسطینی مسلمان ان رکاوٹوں کی پرواہ کیے بغیر مسجد اقصیٰ پہنچے اور وہاں نماز جمعہ ادا کی۔

امریکا کے صدر جوبائیڈن بھی اسرائیل کی جارحیت کی مسلسل حمایت کرنے کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو ٹیلی فون کیا اور خبردار کیا کہ اسرائیل غزہ میں شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے ورنہ اس کی حمایت ترک کر دیں گے۔ امریکی صدر بائیڈن کی یہ دھمکی کام کرگئی جس کے نتیجے میں اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت نے قحط کے خطرے سے دوچار غزہ میں امداد کی فراہمی کے لیے عارضی راستے کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔

ادھر مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ نے غزہ میں اسرائیلی کارروائی میں پولش امدادی کارکن کی ہلاکت کے بعد وارسا میں تعینات اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا ہے۔ امریکی عہدیدار جان کربی نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اشارہ دیا ہے کہ امریکا دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کا امکان دیکھ رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کے بعد خطے میں کشیدگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ آسٹریلوی سینیٹر لیڈیا تھارپ نے اپنی حکومت سے ڈرون تیار کرنے والی اسرائیلی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن شاہ حسین سے ٹیلی فونگ گفتگو میں غزہ میں ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

پرنس محمد بن سلمان نے کہا سعودی عرب ان حالات میں اردن کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس قسم کی پیش رفت کے باعث اسرائیلی حکومت پر عالمی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسپین کی ایک این جی او نے اسرائیلی حملوں کے باعث فلسطینیوں کے لیے امدادی آپریشن معطل کردیا جب کہ جو بائیڈن کی اہلیہ جل بائیڈن نے اسرائیل کی حمایت میں ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا۔ یوں دیکھا جائے تو اسرائیل کی حکومت خاصی مشکل میں گرفتار ہے۔

بلاشبہ فلسطین مشرق وسطیٰ کا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی اہمیت کا مسئلہ ہے، اب ضرورت یہ ہے کہ امریکا، مغربی یورپی ممالک اور اقوام متحدہ غزہ کی ناکہ بندی مستقل بنیادوں پر کھلوائے تاکہ غزہ کے شہریوں کو خوراک اور ادویات پہنچ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو جنگی کارروائیوں سے بھی مستقل طور پر روکا جانا چاہیے تاکہ غزہ میں امن قائم ہو، غزہ کے شہری اپنے گھروں میں واپس آئیں اور غزہ میں کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو جائیں۔

غزہ میں لڑائی کا سب سے زیادہ نقصان اس شہر کے عام باشندوں کو ہوا ہے۔ اسرائیل کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے اور فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے۔
Load Next Story