مزاحمت میں چھپی دہشت گردی

خطے کی اس گھمبیر صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ’’امریکی ڈالروں‘‘ کی لالچ میں مذہبی دستار نے بھی اپنے دام لگوائے

Warza10@hotmail.com

شنگھائی کو آپریشن آرگنائز یشن کے 19 ویں اجلاس کے سیکیورٹی مشیر نے گزشتہ دنوں افغان حکومت کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی اوماری کی جانب سے اسلام آباد کو تحریک طالبان سے دوبارہ مذاکرات کی پیشکش یا مشورے کو خطے کی سلامتی اور خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خدشات کیساتھ ملکوں کی سلامتی کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

پاکستانی وفد کے سربراہ وقار احمد کی موجودگی میں شنگھائی آرگنائز یشن کے مشیر کا کہنا تھا کہ'' افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کو دہشتگرد طالبان سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دراصل خطے میں دہشتگردی کے واقعات کو ازسر نو منظم کرنے کی کوشش ہے جو کسی صورت خطے کے ممالک کی سلامتی کے خاطربرداشت نہیں کی جانی چاہیے اور نہ افغان حکومت کی اس پیشکش کو قبول کیا جانا چاہیے ''۔

شنگھائی آرگنائز یشن کے اس شدید ردعمل پر پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پاکستانی موقف دیتے ہوئے بہت وضاحت سے کھرے لہجے میں کہا کہ''پاکستان پر امید ہے کہ افغان حکومت کے ذمہ داران افغانستان میں پناہ لینے والے ''تحریک طالبان'' کے ان دہشتگردوں کو پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے سے روکنے میں مسلسل ناکام رہے ہیں ، جبکہ دہشتگرد طالبان افغانستان کی سر زمین کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں دہشتگرد کارروائی کرکے افغانستان میں تحفظ حاصل کیے ہوئے ہیں، جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ان کو افغان حکومت نہ صرف سہولت کاری دے رہی ہے بلکہ ان نازک حالات میں دہشت گرد طالبان کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی منظم سازش ہورہی ہے، انہوں نے سخت لہجے میں کہا کہ جب تک ان ''تحریک طالبان'' کے دہشت گردوں کو افغانستان سے سہولت فراہم کی جاتی رہے گی،اس وقت تک افغان حکومت کی کسی بھی پیشکش یا مشورے کو ماننا پاکستان کیلئے مشکل امر ہو گا ۔''

پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر میں عوام سمیت فوج کے افسران اور سپاہی مسلسل نشانہ بنائے جا رہے،جو ملکی سیاسی اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میں انتہائی تشویشناک عمل ہے،جبکہ شواہد بتاتے ہیں کہ تحریک پاکستان کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں پی ٹی آئی کا بیانیہ دہشتگرد طالبان کی حمایت اور ان کو مکمل سہولت کاری کیلئے استعمال کیا گیا اور دہشتگرد طالبان کے سزائے موت کے قیدیوں کو پی ٹی آئی حکومت کی ایما پر اس وقت انھیں عام معافی دے کر پاکستان میں بسایا گیا جو پانچ ہزار جنگجو سمیت پاکستان میں لائے گئے جبکہ ان دہشت گرد طالبان کو پی ٹی آئی حکومت کی حمایت جاری رہی،حالیہ دہشت گردی کیوں اور کس لیے پاکستان میں سر ابھار رہی ہے۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی جانب سے مسلسل سیاسی انتشار کو ہوا دینا اور ملک کے بگڑتے ہوئی معاشی صورتحال پر قابو پانے کی کوششوں کو دہشتگردی کے ذریعے غیر محفوظ بنانا ،اس خطے اور خصوصا پاکستان کے امن و استحکام کو ''افغان جہاد'' کے نام پر ''پینٹاگون'' کے پرانے منصوبے کی وہ نئی قسط دکھائی دیتا ہے جو عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ ''افغان جہاد'' کی حمایتی جماعتوں کے ممکنہ اتحاد میں نظر آتی ہیں ،جن کا اشارہ اپنی مرضی کے انتخابی نتائج کا بہانہ بنا کر ''مزاحمتی تحریک'' شروع کرنا ہے۔


ایسی ہی ایک کوشش انتخابی نتائج میں دھاندلی کے خلاف نظام مصطفی کی تحریک کی صورت میں مذہبی جماعتیں 1977میں چلا چکی ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف ملک جمہوریت سے آمرانہ نظام کی طرف بڑھا بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت کو ''جہاد فلسفے'' کی حمایت سے جاری رکھا جبکہ اس دہشتگردی اور طالبان بنانے کی مکمل سہولت کاری''پینٹاگون'' سے ڈالروں کی مد میں جاری رکھی گئی اور تنگ نظر جماعتوں کی مدد سے ملک کو ''تھیو کریٹک''بنانے کی کوشش جاری رکھی اور آج بھی ماڈرن طالبان سوچ کی پارٹی تحریک انصاف کے ذریعے نئی نسل میں ''تھیوکرٹک''سوچ پیدا کرکے ملک کی نسل کو جہالت اور تباہی کی جانب لے جایا جا رہا ہے، یہ ایک ایسا سنجیدہ سوال ہے جس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔

ملک کی موجودہ ابتر سیاسی اور معاشی صورتحال میں بانی پی ٹی آئی اور افغان جنگ سے مالی اور سیاسی فوائد حاصل کرنیوالی جماعتوں کا ایک اتحاد بننے کی طرف جارہا ہے،جس کا اشارہ عید بعد ممکنہ ''مزاحمتی تحریک'' چلانے کاانتشار پسند فارمولا ہے، جس میں ممکنہ طور پر ماضی کے قومی اتحاد کی فائدہ مند جماعتیں بشمول جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے علاوہ افغان ٹریڈ سے فائدہ اٹھانے والی پشتون خواہ ملی پارٹی اور دیگر کااس ''مزاحمتی تحریک'' میں شرکت یا اکھنڈ بننے کے اشارے دیئے جارہے ہیں ،ممکنہ طور پر مجھے اس موقعے پر موجودہ 2024 کے انتخابات کے نتیجے کے تناظر میں 1977 کی معصوم عوام کو گمراہ کرنیوالی تحریک شدت سے یاد آ رہی ہے،جس کا اشارہ بطور خاص تحریک انصاف کی جانب سے دیا جا رہا ہے کہ عید بعد ممکنہ مزاحمتی تحریک بھرپور طریقے سے ابھرے گی اور سارے نظام کو بہا کر لے جائے گی۔

پی ٹی آئی کی اس ممکنہ دھمکی کے بعد مجھے ماضی کے قومی اتحادایساسیاسی کھیل دکھائی دے رہا ہے جس کی پشت پر ''پینٹا گون'' کا انتشار پسند گروہ اس خطے کو دوبارہ سے ''افغانستان'' کی سالمیت کے پردے میں تحریک انصاف اور ماضی کے طالبان حمایت کے مذہبی سیاسی گروہ کو یکجا کرکے اس پورے خطے کو سیاسی اور معاشی طور پر کمزور کرکے اپنا عالمی استحصالی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے جس میں ''پینٹا گون'' کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور سہولت کار جماعت تحریک انصاف دکھائی دے رہی ہے جو ''طالبان مائنڈ سیٹ'' بھی رکھتی ہے اور جس کے پاس عسکری تربیت یافتہ جنرل ضیا کی سوچ کے ''دہشتگرد طالبان ''بھی ہیں جو اپنے حمایت یافتہ طالبان سوچ کے حامل افراد کی مدد سے خطے میں اپنا ''انتشار پسند''ہدف حاصل کرکے خطے کی ترقی کا ارادہ رکھنے والے چین،روس،ایران اور سعودی عرب کے اتحاد کا راستہ روکناچاہتی ہے ،جس میں ''پینٹاگون'' کی سب سے پسندیدہ جماعت تحریک انصاف ''دھاندلی'' کے نام پر متحرک دکھائی دیتی ہے ،جس کی کمک کیلئے طالبان حمایت یافتہ مذہبی جماعتوں کی مدد فراہم کرنے کی منصوبہ بندی دکھائی دے رہی ہے،وگرنہ تحریک انصا ف کی ان مذہبی و سیاسی جماعتوں سے سیاسی رسہ کشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

''جمہوریت کی بحالی'' والی دھوکہ دہی کی ممکنہ ''مزاحمت تحریک'' کی آڑ میں ماضی کی قومی اتحاد PNA کی اس خونریز اور مذہبی انتہا پسندی کے وہ خوفناک مناظر کسے یاد نہیں،جب بھٹو حکومت کی بر سر اقتدار پیپلز پارٹی کی جانب سے کرائے گئے انتخابی نتائج کے خلاف اشرافیہ اور امریکی امداد سے قائم ہونیوالے مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش 9 ستارے کے اتحاد نے آمر کو مارشل لا کا جواز فراہم کرنے کیلئے کی تھی اور بادی النظر میں افغانستان میں چلنے والی سیاسی ہلچل کے نتیجے میں نور محمد ترہ گئی کی سربراہی میں برپا ہونے والے ممکنہ ''ثور انقلاب'' کا راستہ روکنے کی حکمت عملی پر امریکی مفادات اور ڈالر کی ریل پیل میں بہت منظم طریقے سے اس خطے کو طالبان کی دہشت گردی کے حوالے کیا تھا،جس کیلئے تمام مذہبی جماعتوں کو آمر جنرل ضیا کی طرف سے دھڑا دھڑ Amenity Plot الاٹ کرکے ان پر مدرسے یا مذہبی ریسرچ کے نام پر بلڈنگوں کی تعمیر کیلئے امریکی امداد ڈالر کی صورت میں دی گئی تھی۔

خطے کی اس گھمبیر صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ''امریکی ڈالروں'' کی لالچ میں مذہبی دستار نے بھی اپنے دام لگوائے اوراس وقت کی اشرافیہ نے بھی تنگ نظر مذہبی دستاروں کی مدد سے افغانستان کے اس عوامی ''ثور انقلاب '' کو ناکام کروانے کیلئے پاکستان کے سماج کو ایک تنگ نظر مذہبی منافرت میں تبدیل کر دیا اور امریکی ڈالروں کی لالچ میں بہہ کر اس پر امن خطے کو دہشت اور وحشت میں دھکیل دیا ،جس میں اس وقت کے آمر جنرل ضیا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ایسی ہی ایک کوشش دوبارہ سے کی جارہی ہے جس کو روکنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔
Load Next Story